(8) عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(پہلی قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-06-19

(8) عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(پہلی قسط)

(8) عہد رسالت میں ایک صاع غلہ اور اس کے متبادل نقدی ، کچھ نئے شبہات کے جوابات(پہلی قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
پوسٹ نمبر {1} (عہد رسالت میں نقد ورقم سے فطرہ کیوں نہیں ادا کیا گیا ؟) میں وضاحت ہوچکی ہے کہ اگر عہد رسالت میں ایک صاع کے متبادل کرنسی آپ دکھابھی دیں تو بھی ہمارے مرکزی استدلال پر فرق نہیں پڑتا ، چنانچہ اس ضمنی اورجزئی بات کو کہے بغیر بھی اہل علم نے نقدی کے جواز کو ثابت کیا ہے کما لا یخفی، بدقسمتی سے بعض حضرات اسے ٹھیک طرح سمجھ ہیں نہیں سکے اور کہیں کی بات کہیں پر فٹ کر کے بات کو خلط ملط کردیا ہے ، قارئین ہماری اس پوسٹ کو ذہن میں رکھیں ، اس کے بعد آئیے بعض حضرات کے نئے شبہات پرنگاہ ڈال لیتے ہیں ۔
✿ ✿ (الف)
کہتے ہیں عہد رسالت میں بھی گیہوں نصف صاع دیا جاتا تھا اورامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی نصف صاع دیا جاتا تھا اس کا مطلب یہ ہوا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک گیہوں کی قیمت مساوی تھی اس لئے سو سال تک بھی مساوی ہی ہوگی ۔
عرض ہے کہ:
عہد رسالت میں ایک صاع کھجور کے مقابلے میں نصف صاع گیہوں کی قیمت تھی ، اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی ایک صاع کھجور کے مقابلے میں نصف صاع گیہوں کی قیمت تھی ، یہاں تقابل گیہوں کا کھجور سے تو اگر گیہوں کی قیمت بعد میں بڑھی ہو تو کھجور کی قیمت بھی تو بڑھ سکتی ہے ۔ پھر یہ تقابل قیمت کی یکسانیت کی دلیل کیونکر ہوسکتا ہے۔

✿ ✿ (ب)
کہتے ہیں کہ فرض زکاۃ میں جو نصاب رکھاگیا ہے سب کی مالیت یکساں ہیں ۔پھر یہ لسٹ دی گئی ہے ۔
① سونے میں: بیس دینار
② چاندی میں: دو سو درہم
③ بکریوں میں: چالیس بکری
④ اونٹوں میں: پانچ اونٹ
⑤ اور غلوں میں: پانچ وسق یعنی تین سو صاع۔
اس سے قطع نظر کہ کچھ اور چیزوں پر بھی فرض زکاۃ ہے اور اس کا یہاں ذکر نہیں ہے ، ہم صرف انہیں چیزوں پر بات کرتے ہیں، ان پانچ چیزوں کا حوالہ دے کر محض عقلی گھوڑے دوڑا کر یہ باور کرایا گیا ہے کہ ان سب کی مالیت یکساں تھیں ۔یہی پوری بحث کا مقدمہ ہے ۔
آئے سب سے پہلے نقدی یعنی شروع کی دو چیزیں (دینار اوردرہم) دیکھتے ہیں :
- - - - -
سونے کا نصاب بیس دینار ہےاور چاندی دوسو رہم ہے ۔ دعوی یہ ہے کہ دونوں کی مالیت یکساں ہے ، فرماتے ہیں”بیس دینار کی جو مالیت ہے وہی دو سو درہم کی مالیت ہے“ ، اسی طرح بات پہلے صراحت کے ساتھ یہ بول بھی چکے ہیں کہ ایک دینار بیس درہم کے برابر ہے ، یہ ہے آں جناب کا حساب ۔
- - - - -
دینار ودرہم سے متعلق موصوف کے اس حساب پر کسی وقت ہم نے بھی بھروسہ کرلیا تھا لیکن بعد میں دلیل اس کے خلاف پائی اسی لئے اس سال میں ہم نے اپنا جو رسالہ اپلوڈ کیا ہے اس میں دینار ودرہم سے متعلق یہ حساب نہیں ہے۔
❀ بہرحال ان کا کہنا یہ ہے کہ ایک دینار بیس درہم کے برابر ہے ۔اور دلیل محض ہوائی اور قیاسی ہے ، اس قیاسی دلیل پر بات کرنے سے پہلے آئے صحیح اورصریح دلیل سے یہ ثابت کردیں کہ زکاۃ میں سونے اور چاندی کے نصاب کی مالیت میں فرق ہے ۔
سچائی یہ ہے کہ ایک دیندار بیس درہم کے نہیں بلکہ بارہ درہم کے برابر ہوتا ہے ۔ملاحظہ ہواس کی دلیل :
●اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«تقطع اليد في ربع دينار» (چور) کا ہاتھ ربع دینار کا مال چرانے پرکاٹاجائے گا[صحيح البخاري 8/ 161، رقم 6791]
●اب ایک دوسری حدیث دیکھیں ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
«قطع النبي صلى الله عليه وسلم يد سارق في مجن ثمنه ثلاثة دراهم»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا ہاتھ ایک ڈھال پر کاٹا تھا جس کی قیمت تین درہم تھی[صحيح البخاري 8/ 161 رقم 6798]
پہلے حدیث میں قطع ید کا اقل نصاب ربع دینار بتایا گیا ہے اور اس حدیث میں تین درہم پر ہاتھ کاٹنے کی بات ہے جو اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ تین درہم ربع دینار کے برابرہے بلکہ
⟐نسائی وغیرہ کی ایک روایت میں اس ڈھال یعنی مسروقہ مال کی قیمت سونے میں بتائی گئی تو صراحتا ربع دینار بتلائی گئی ہے [سنن النسائي 8/ 80 رقم4935 والحدیث صحیح وصححہ الالبانی ]
اورحدیث کی کوئی بھی مشہور شرح اٹھا کردیکھ کرلیں قطع ید کے اقل نصاب میں شارحین ربع دینار کے برابر تین درہم ہی بتلاتے ہیں ۔
صحیحین کی متفق علیہ روایات سے قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ ربع دینار تین درہم کے برابر ہوتا ہے ، یعنی ایک دینار بارہ درہم کے برابر ہوگا۔
● بلکہ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے:
”وكان ربع الدينار يومئذ ثلاثة دراهم ، والدينار اثنا عشر درهما“
”ان دنوں (عہدرسالت میں) ربع دینار تین درہم کے برابرہوتا تھا اور ایک دینار بارہ درہم کے برابرہوتا تھا“[مسند أحمد ط الميمنية: 6/ 80 واسنادہ صحیح]
● موطا کی ایک روایت کے مطابق ایک اور چور نے چوری کی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ :
أن تقوم. فقومت بثلاثة دراهم. من صرف اثني عشر درهما بدينارفقطع عثمان يده
ایک دینار برابر بارہ درہم کے اعتبار مال مسروقہ کا حساب لگاؤ، چنانچہ حساب لگایاگیا تو درہم تین درہم کا مال نکلا ،اس لئے عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا [موطأ مالك ت الأعظمي 5/ 1216 واسنادہ صحیح]
اس طرح کی اور بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن میں پوری صراحت کے ساتھ ایک دینار کو بارہ درہم کے برابر قرار دیا گیا ہے ، اس لئے ان صریح روایات کے ہوتے ہوئے کسی کے ذہنی اپج اورعقلی موشگافیوں کی بطلان میں ذرا بھی شک باقی نہیں بچتا ۔لہٰذا یہ کہنا کہ ایک دینار بیس درہم کے برابر ہوتا ہے نہ صرف یہ کہ ہوائی قلابازی ہے بلکہ صحیح اور صریح روایات کے بھی خلاف ہے ۔
اب جب یہ قطعی دلیل سے ثابت ہوگیا کہ ایک دینار بارہ درہم کا ہوتا ہے تو یہیں سے یہ حقیقت بھی طشت از بام ہوگئی کہ سونے کے نصاب اور چاندی کے نصاب کی مالیت یکساں بلکل بھی نہیں چنانچہ :
◈ سونے کا نصاب بیس دینار ہے ۔
◈ اورچاندی کا نصاب دو سودرہم ہے ۔
اوردونوں رقم مالیت میں یکساں ہرگز نہیں ہے، بلکہ اوپر صریح روایات کی روشنی میں ثابت ہوا کہ ایک دینار بارہ درہم کے برابر ہے، لہٰذا اس اعتبار سے بیس دینار دو سو چالیس درہم کے برابر ہوں گے، جبکہ درہم (چاندی) کا نصاب صرف دو سو درہم ہی ہے ۔
ثابت ہوا کہ دینار اور درہم کے لئے نصاب زکاۃ کی مالیت یکساں قطعا نہیں رکھی گئی ہے ۔

❀ مزید اس بات پر غور کریں کہ دینار بھی نقدی ہے اور درہم بھی نقدی ہے یعنی نقدی ہونے میں دونوں برابر ہے اس کے باجود بھی جب ان دو نقدیوں میں نصاب زکاۃ کی مالیت یکساں نہیں ہے تو بھلا دیگر چیزوں کا نصاب زکاۃ یکساں مالیت کا کیسے ہوسکتا ہے ؟؟؟
محض یہ حقیقت ہی اس ضمن میں موصوف کی بنائی ہوئی ساری حویلی خاکستر کردیتی ہے کیونکہ ان دونوں کے نصاب زکاۃ کی یکساں مالیت کے مفروضے ہی کو بنیاد بناکر موصوف نے اس پر اپنے قیاس و رائے کی عمارت کھڑی کی تھی ، لیکن ہم آگے اطمینان کے ساتھ ایک ایک شبہ کو تار تار کرتے جائیں گے
(جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
✿ ✿ ✿ ✿

No comments:

Post a Comment