{21} غلاموں کی زکاۃ ، مکرر اعتراضات پر مزید توضیحات
✿ ✿ ✿ ✿
بعض نے غلاموں کی زکاۃ سے متعلق انہیں اعتراضات کو دوسرے اسلوب میں دہرا دیا ہے ، جن کے جوابات دئے جاچکے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ آپ اعتراضات کا تکرارہی کریں گے تو ہمارے لئے جوابات کی تکرار کوئی مشکل بات نہ ہوگی ۔
خیرذیل میں مزید وضاحتوں کے ساتھ پھر جواب ملاحظہ فرمالیں:
.
✿ ہم نے دس پہلوؤں سے ثابت کیا تھا کہ مہاجر صحابہ نے فطرہ کی شکل میں غلاموں کی زکاۃ دی ہے ، موصوف نے نتیجہ کو نقل کیا ہے لیکن جن پہلوں سے یہ نتیجہ ثابت کیا گیا ہے ان کا کوئی جواب حاضر نہیں کیا ، اور ہم نے ان کی طرف عدم فہم کی بات منسوب کی تو محض اتنی سی بات میں موصوف کو ”تذلیل و تحقیر“ نظر آگئی ، حالانکہ خود اپنی سابقہ پوسٹس میں کتنی تذیل وتحقیر کرچکے ہیں یہ قارئین کو بخوبی معلوم ہے۔ کہتے ہیں کی ان کی ”عزت وذلت“ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، تو حضرت کیا میری ”عزت وذلت“ آپ کے ہاتھ میں ہے ؟
یہ تقوی اور طہارت کی باتیں صرف اپنے اور اللہ کے بیچ رہنے دیں ، علمی بحث میں اس کا پرچار نہ کریں ، اورصرف دلائل کے دائرہ میں رہ کر بات کریں ۔
● فرماتے ہیں :
((انہوں نے (امام ابوعبید) زکاۃ کے باب میں اسے ذکر کیا ہے، یہ میری پہلی دلیل تھی ہی نہیں ، جیسے کہ قائلین نقد نے سمجھا ہے، بلکہ انہوں نے "اس کی خود ہی توضیح اور تفسیر کی ہے کہ یہاں پر زکاۃ ہی مقصود ہے" یہ میری پہلی دلیل تھی))
عرض ہے کہ ان دونوں باتوں میں کوئی جوہری فرق ہے ؟ آپ فرماتے ہیں کہ امام ابوعبید نے زکاۃ کے باب میں ذکر نہیں کیا ، لیکن تشریح یہی کررکھی ہے کہ یہ یہاں زکاہ مقصود ہے ۔
بھائی ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟
چلیں آپ کو میرے جملے میں لفظ ”باب“ پر اشکال ہے تو اس کو لفظ ”بحث“ سے بدل دیتے ہیں، اور یوں کہتے ہیں کہ امام ابوعبید نے زکاۃ کی ”بحث“ یا زکاۃ کی تشریح وغیرہ میں اسے ذکر کیاہے اوراس سے زکاۃ مراد لیا ہے ۔
لیکن تعبیر کی اس تبدیلی سے بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے، اور سب کا حاصل یہی ہوتا ہے کہ امام ابوعبید نے اس سے زکاۃ مراد لیا ہے ، اور اس سے کس کو انکار ہے؟ اس میں زکاۃ کا بھی پہلو ہے اس لئے زکاۃ کے باب یا زکاۃ کی بحث میں بھی اس کا تذکرہ ہوگا ، اور اس میں فطرہ کا پہلو ہے اس لئے فطرہ کے تعلق سے بھی اس کا تذکرہ ہوگا ،یہ بات کتنی بار آپ کے سامنے واضح کی جائے ۔
مثال بھی دی جاچکی ہے کہ قیام رمضان کی رکعات والی حدیث کا ذکر تہجد کے بیان میں بھی ہوتا ہے ۔کیونکہ رکعات کی بات قیام رمضان اور تہجد دونوں میں ہے ۔بس کچھ پہلؤں سے فرق ہے جیسے جماعت کا اہتمام وغیرہ ۔
اسی طرح پیش کردہ روایت میں فطرہ کی بات اور غلاموں کی زکاۃ کی بات دونوں ہے ۔اس لئے اس میں زکاۃ کے ساتھ زکاۃ الفطر کا پہلو بھی شامل ہے ۔
اس پہلو کو نہ آپ خارج کرسکتے ہیں اورنہ ہی اس کے خارج کرنے کی کوئی دلیل آپ کے پاس ہے مزید وضاحت کے لئے نویں اور دسویں قسط کا مراجعہ کیں۔
الغرض یہ کہ امام ابوعبید نے زکاۃ کی بحث میں غلاموں کی زکاۃ کا پہلو دیکھ کر اسے ذکر کیا ہے ، پھر یہ بھی صراحت کردی ہے کہ غلاموں کی یہ زکاہ فطرہ کی شکل میں تھی ۔کمامضی وسیاتی ایضا۔
.
✿ فرماتے ہیں:
((قول جدید میں یہ کہہ رہے ہیں کہ اس دس درہم میں صرف معمولی حصہ صدقہ فطر کا تھا اور اصل زکاۃ ہی تھی ، اس کی کیا دلیل ہے؟))
یہ قول جدید نہیں بلکہ شروع ہی سے ہمارا مقصود یہی ہے ، بس دوسری بار مزید وضاحت کی گئی ہے ، اور دلیل اس کی کیا ؟ دس دلیلیں دی جاچکی ہے پوسٹ نمبر 21 اور 22 دوبارہ پڑھیں اور ان دلائل کا جواب لائیں۔اور امام ابوعبید نے جس طرح اس میں غلاموں کی زکاۃ کو سمجھا ہے اسی طرح اس میں صدقۃ الفطر کا مفہوم بھی سمجھا ہے یہ ساری باتیں بھی ان قسطوں میں واضح کی جاچکی ہیں۔
● آپ فرماتے ہیں:
(( کیا ابو عبید ہی اس معنی کو نہیں سمجھ سکے جس کا ہمارے مخلص اخوان دعوی کر رہے ہیں؟ ))
اس جملے کو میری طرف سے یوں سن لیجئے :
(( کیا ابو عبید ہی اس معنی کو نہیں سمجھ سکے جس کا آپ دعوی کر رہے ہیں؟ ))
پچھلوں قسطوں میں واضح کیا جاچکا ہے کہ امام ابو عبید نے پوری صراحت کی ساتھ کہا:
”يعني صدقة الفطر عن الرقيق“ ، ”یعنی غلام کی طرف سے بطور صدقہ الفطر“ [الأموال لأبي عبيد القاسم بن سلام، ت: محمدعمارۃ ص 565 رقم 1368 ]
اس صراحت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس روایت میں غلاموں کی طرف سے جس صدقہ کی بات ہے وہ صدقہ الفطر ہے ۔
اور آپ ان کی اس واضح صراحت کے بعد بھی اپنے گھر کی بات ان کی طرف سے منسوب کرکے یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا امام ابوعبید فلاں بات نہیں سمجھ سکے واہ !
.
✿ فرماتے ہیں:
((اگر آپ اس حدیث سے یہ استدلال کر رہے ہیں کہ اس دس درہم میں معمولی حصہ صدقہ فطر کا اور بیشتر حصہ زکاۃ کا تھا تو آپ کو یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ دونوں زکاتوں کو ضم کرکے دس درہم دینے کا سلسلہ کم از کم سعید کے زمانے تک چلتا رہا، اور ابو اسحاق کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حجاج بن یوسف کا زمانہ تھا، یعنی عثمان غنی، علی ، حسن ومعاویہ وغیرہم کے دور میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔آپ کے یہ کہنے سے کہ "واللہ اعلم کب تک یہ سلسلہ چلا "قارئین اسےقبول نہیں کر سکتے۔ اس غیر منطقی عذر سے مطمئن نہیں ہو سکتے))
عرض ہے کہ :
غلاموں کی زکاۃ کے طریقہ ادائیگی کے پہلو سے سعید بن المسیب والی روایت الگ ہے اور ابواسحاق والی روایت الگ ہے۔
سعید بن المسیب والی روایت میں غلاموں کی زکاۃ فطرہ کی شکل میں دینے کا ذکرہے ، جبکہ ابو اسحاق کی روایت میں غلاموں کی زکاۃ عام شکل میں دینے کا ذکر ہے۔
بلکہ خود سعید بن المسیب نے بھی یہ دونوں شکلیں الگ الگ بیان کررکھی ہیں ، جیساکہ ہم نقل کرچکے ہیں ۔
البتہ دونوں روایات میں اصلا غلاموں کی زکاۃ کا ذکر ہے ، یہ بات اچھی طرح پہلے سمجھائی جاچکی ہے ۔
اورچونکہ بعد کے حکام نے عام شکل میں غلاموں کی زکاۃ کا معاوضہ دینا بند کردیا ، اس لئے فطرہ کی شکل میں جب غلاموں کی زکاۃ کا ذکر ہوا تو یہاں بھی اس کا تذکرہ کردیا گیا کیونکہ گرچہ یہ زکاۃ فطرہ کے شکل میں تھی لیکن اپنی اصل کے اعتبار غلاموں ہی کی زکاۃ تھی ۔
دراصل فطرہ والی روایت میں بھی معاوضہ دینے کی بات مذکور ہے ، جس طرح عام شکل میں غلاموں کی زکاۃ پر معاوضہ دینے کی بات ہے ۔
اور فطرہ کے شکل میں بھی غلاموں کی زکاۃ، اپنے اصل کے اعتبار سے غلاموں کی وہی زکاۃ تھی جس کا معاوضہ بعد کے حکام نے بند کردیا تھا ، لہٰذا اس موقع سے بھی حکام کے اس رویہ کا تذکرہ مناسبت رکھتا ہے ۔
⟐ رہی بات یہ کہ یہ سلسلہ کب تک چلا تو یہاں پر دو باتیں ہیں ایک فطرہ کی شکل میں غلاموں کی زکاۃ دینے کا عمل جو مہاجر صحابہ کا تھا، اور ایک عام شکل میں غلاموں کی زکاۃ دینے کا عمل جو دیگر اکثر لوگوں کا تھا ۔
⋆جہاں تک فطرہ کی شکل میں غلاموں کی زکاۃ دینے کی بات ہے تو سعید ابن المسیب نے مہاجر صحابہ کا یہ عمل نقل کیا ہے ، خاص اس شکل کے تسلسل کے بارے میں روایت کے اندر کوئی صراحت نہیں ہے ۔روایت کے آخر میں انہوں نے جو معاوضہ کے بند ہونے کی بات کی ہے تو اس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے ۔
⋆رہی یہ بات کہ عام شکل میں غلاموں کی زکاۃ کا سلسلہ کب تک چلتا رہا تو ابو اسحاق کی روایت سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ حجاج بن یوسف کے دورتک بھی یہ عمل رہا لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا رہا یہ اس روایت سے بھی نہیں معلوم ہوتا اسی لئے ہم نے اللہ اعلم کہا تھا ۔
دراصل بعض روایات میں عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور تک بھی اس سلسلہ کا جاری رہنا ملتا ہے اور بھی کئی طرح کی روایات ہیں ، لیکن ابھی ایسی روایات کی سندوں کا دراسہ ہم نہیں کرسکے ہیں، اسی لئے ہم نے کہا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہا اللہ ہی کو معلوم ہے۔
.
✿ آگے آپ نے عجیب استدلال پیش کیاہے ۔
سعید بن المسیب کا یہ بیان نقل کیا کہ عہد رسالت میں نصف صاع گیہوں دیا جاتا تھا اس کے بعد فرماتے ہیں:
((اس اثر سے ہمیں یہ فائدہ ملتا ہے کہ عہد رسالت، عہد صدیقی اور عہد فاروقی ہر ایک عہد میں صدقہ فطر میں آدھا صاع گینہوں دیا جاتا تھا (نقدی نہیں)، ))
سبحان اللہ !
اس بیان سے نقدی کی نفی آپ نے کہاں سے کشید کرلی ؟ اور باقاعدہ نص روایت کا ترجمہ کرتے ہوئے اسے بریکٹ میں لکھ بھی دیا ، سبحان اللہ !
یہ تو ایسے ہی ہوا کہ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں کوئی فطرہ طعام دینے کی روایت نقل کی جائے تو اس سے کوئی استدلال کرلے کہ اس دور میں طعام دیا ہی نہیں جاتا تھا ۔
اس شبہ کی مزید وضاحت اگلی قسط میں آرہی ہے ۔
⟐ اسی سے عطف کا فلسفہ بھی رائیگاں ہوجاتا ہے کیونکہ اس روایت میں جب حصر مقصود ہی نہیں ہے ۔تو بلاحصر عطف سے معطوف اور معطوف علیہ کسی میں بھی حصر کا دعوی نہیں کیا جاسکتا۔
● واضح رہے کہ عہد رسالت اور عہد صدیقی سے متعلق سعید ابن المسیب کا بیان مرسل ہے ، کیونکہ یہ تابعی ہیں ، اور عہد فاروقی میں ان کی ولادت ہوئی ہے ، جیساکہ گذشتہ قسطوں بیان کیا جاچکا ہے ۔عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت ہے لہذا عہد فاروقی سے متعلق ان کی روایات متصل اور صحیح ہوں گی ۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے غلاموں کی زکاۃ والی ان کی روایت کو موقوفا صحیح کہا ہے۔
● اس کے بعد موصوف نے عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک اثر پیش کا ہے جس میں عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک صاع کھجور اور ایک صاع جو دینے کی تعلیم دی ہے ۔
اب یہاں بھی وہی بات ہے کہ اس سے غیر مذکورہ اشیاء کا عدم جواز کہاں سے کشید لیا گیا ؟
اس میں کشمش اور پنیز کا بھی ذکر نہیں ہے کیا یہ بھی عثمان رضی اللہ عنہ کی نظر میں فطرہ میں دینا جائز نہیں ؟؟
.
✿ آگے موصوف نے ایک ایسا اعتراض اٹھا ہے جس کا جواب ہم نے ان کے اعتراض سے پہلے ہی دے دیا تھا ، کہ غلاموں کی زکاۃ نفل زکاۃ تھی اس لئے اس میں تھوڑی بہت کمی بیشی کوئی مسئلہ نہیں تھا ، اسی لئے بعض روایات میں اس کا نصاب دس درہم ہے اور بعض میں ایک دینار اور ایک دینار دس درہم سے زائد مالیت کا ہے جیساکہ پہلے ثابت کیا جاچکاہے۔
یعنی تھوڑا بہت فرق مسلم ہے ۔ لیکن موصوف فرماتے ہیں:
((دونوں فی نفسہ متعینہ نصاب ہے، دینار میں ایک، اور درہم میں دس، دینار کی قیمت درہم سے صَرف کرکے نہیں لی جائے گی کیونکہ دینار فی نفسہ ایک سکہ ہے۔ عہد فاروقی میں غلاموں کے زکاۃ کی مقدار متعین کی جا چکی تھی، دینار میں کوئی دینا چاہے تو ایک دینار دے، اور درہم میں دینا چاہے تو دس درہم ۔ جب یہ مقدار متعین ہو چکی تھی تو سعید بن المسیب کی روایت میں (دونوں زکاتوں کو ضم ماننے کی صورت میں) آخر یہ نصاب کیوں نہیں ہے؟ ))
عرض ہے کہ:
((دونوں فی نفسہ متعینہ نصاب ہے)) لیکن دونوں برابر تو نہیں ہے ، جب دینار میں دس درہم سے کچھ بڑھ گیا تو غلاموں کی زکاۃ میں دس درہم سے کچھ کم ہوگیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ؟ جبکہ یہ واجبی زکاۃ تھی بھی نہیں ۔حتی کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ کچھ بھی مت دو تو بھی میں مجبور نہیں کروں گا ۔
غور کریں جو زکاۃ کلیۃ معاف تھی اس میں بعض نے ایک درہم سے بھی قلیل حصہ کم کردیا تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑا ۔
● اچھا آپ نے کیا خوب فرمایا:
(( دینار میں کوئی دینا چاہے تو ایک دینار دے، اور درہم میں دینا چاہے تو دس درہم ۔ جب یہ مقدار متعین ہو چکی))
عرض ہے کہ اس میں ایک اور بات بڑھا لیں کہ کوئی غلاموں کی زکاۃ فطرہ کی شکل میں دینا چاہے تو مع فطرہ دس درہم ، قصہ ختم !
بھائی دینار میں ایک دینار ،اور درہم میں دس درہم کو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے طے کیا تھا ، اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ ہی نے فطرہ کی شکل میں غلاموں کی زکاۃ کا بھی یہ نصاب طے کیا ، اب تینوں نصاب خلیفہ ہی کی طرف سے طے ہوا ، اس لئے سارا اشکال ختم !
اور فطرہ کا مسئلہ ہی تو وہ سبب تھا جس کی بناپر مہاجر صحابہ نے اس کی الگ سے اجازت طلب کی ، اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اس کی اجازت دی بلکہ ان کے اس اقدام کو خوب سراہا ۔ غرض یہ کہ یہ تمام شکلیں عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ہی طے کردی ہیں ۔
● اس جواب سے آپ کا یہ قیاسی اعتراض بھی ختم ہوا :
((دوسری بات یہ کہ ایک دینار کے مقابلے میں بارہ درہم کیا یہ ہمیشہ ہمیش کے لئے متعین ریٹ تھا یا اس میں بھی کمی وبیشی ہوتی تھی؟ ظاہر سی بات ہے اس میں بھی کمی وبیشی ہوتی تھی))
ویسے تعجب ہے کہ نقود کی قیمت گھٹتی بڑھتی ہے لیکن مطعومات کی قیمت موصوف کی نظرمیں سو سال تک ایک ہی رہتی ہے ۔
● آگے فرمایا:
((نیز جو بذات خود اس بات کے خواہش مند تھے کہ غلاموں میں دس درہم نفلی صدقہ دیں وہ اصل فرض صدقہ (بقول ان کے درہم میں) ربع درہم یا نصف درہم نہیں بڑھا سکتے تھے؟))
بڑھا سکتے ہیں ، لیکن نہیں بھی تو بڑھا سکتے تھے !
نہ بڑھانے پر آپ کو اعتراض کیوں ہے ؟ یہ کوئی فرض زکاۃ تھی ، یا آسمانی نصاب متعین تھا ، کہ کچھ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔
مزید یہ کہ ایک دینار کے مقابلے میں جن صحابہ نے دس درہم دیا وہ بھی بڑھا کر ایک دینار کے مساوی یعنی بارہ دہم کرسکتے تھے ؟ اس پر آپ کو اعتراض کیوں نہیں ؟
اگر آپ کی نظر میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دونوں میں ایسا ہی نصاف طے کیا تھا ، تو ہم عرض کرتے ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے غلاموں کی زکاۃ میں بھی ایسا ہی نصاب طے کیا تھا ۔
.
✿ آگے موصوف نے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے حوالے سے بے سر پیر کی بات نقل کی ہے جس کی وضاحت اگلی قسط میں آرہی ہے ۔
.
✿ آگے آپ نے موانع پربات کی ہے اور آپ کی پرانی پوسٹ جس کے جائزہ کا ابھی نمبر ہی نہیں آیا اس کا حوالہ دے کر خوش فہمی کا اظہار کیا ہے کہ عہد رسالت میں بھی دولت کی فراوانی ہوگئی تھی ۔ محترم ابھی آگے احادیث اور علتوں پربات ہوگی پھر موانع پر پوری تفصیل سے بات ہوگی اور آپ کے سارے اشکالات کے جوابات دئے جائیں گے اس لئے قبل از وقت خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔آپ اعتراضات کرتے جائیں اور جوابات وصول کرتے جائیں ۔
ویسے تعجب ہے کہ جب ہم عہد رسالت ہی میں موجود دیگر طعا م کی بابت سوال اٹھا تے ہیں کہ ان کا فطرہ اس وقت کیوں نہیں دیا گیا توفریق مخالف موانع کی قطار لگا دیتے ہیں کہ فلاں وجہ تھی ، فلاں وجہ تھی ، سبحان اللہ ۔ اور ہم نقد سے متعلق ایک دو مانع کی تو ضیح کریں تو دنیا بھر کی نکتہ سنجیاں !!
●بہرحال یہاں پر سردست اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ اگر بقول آپ کے عہد رسالت میں بھی دولت کی فراوانی ہوگئی تھی تو پھر عہد رسالت میں ہی صحابہ نے غلاموں کی زکاۃ کیوں نہیں نکالی ؟؟؟
کیا عہد رسالت میں صحابہ کا تقوی کم تھا اور بہت میں بعد زیادہ ہوگیا تھا ؟ یا بعد میں زیادہ ہونے والی چیز مال ودولت ہی تھی ؟
● موصوف کا یہ جملہ بھی کمال کا ہے:
((اگر دور فاروقی کے دس سالوں میں تبدیلی آ سکتی ہو تو دور نبوی کے دس سالوں میں یہ تبدیلی کیوں نہیں آسکتی؟ ))
سبحان اللہ !
کیا اقتصادی حالت کی تبدیلی کا دار ومدار سالوں کی تعداد پر ہے ،یا وسائل وذرائع آمدنی پر ہے ؟؟
⟐محترم عہدفاروقی میں جو فتوحات ہوئی ہیں ، اور روئے زمین کے بیش بہا خزانوں نے اسلامی بیت المال میں جگہ بنائی ہے ، کیا یہ صورت حال عہد رسالت کے آخری دس سالہ دور میں تھی ؟؟
⟐صرف اسی بات پر غور کرلیں کہ عہد فاروقی میں جس طرح صحابہ ، امہات المؤمنین اور دیگر مسلمانوں کے لئے وظائف جاری کئے گئے ؟ کیا عہد رسالت میں اس فراوانی کی نظیر ملتی ہے؟
میرے خیال سے سردست اتنی باتیں اہل نظر کے لئے کافی ہیں ۔
.
✿
فرماتے ہیں:
((چلیں آپ کی بات ہی صحیح ہے((متعینہ نصاب سے زیادہ دینا جائز ہے کوئی حرج نہیں ہے)) تو اسی جائز راستے سے آخر عہد نبوی میں ایک درہم کیوں نہ دیا گیا؟ ))
پہلی بات تو یہ کہ یہاں آپ میری بات (متعینہ نصاب سے زیادہ دینا جائز ہے کوئی حرج نہیں ہے)کو صحیح فرض کررہے ہیں یا صحیح مان بھی رہے ہیں؟؟
سابقہ پوسٹ میں آپ نے بڑے زوردار انداز میں اس کے جواز کا انکار کیا تھا ، جس پر میں نے نظر ثانی کا مشورہ دیا تھا ،لیکن دیکھ رہا ہوں کہ ابھی بھی آپ کھل کر اعتراف خطاء نہیں کررہے ہیں ، آپ نعرہ لگاتے ہیں کہ رجوع کرنے کے لئے آپ تیار ہیں اس مسئلہ میں رجوع کا اعلان فرمائیں یا واضح موقف بتلائیں ۔
امید ہے کہ آئندہ وضاحت فرمادیں گے ۔ورنہ آپ کے مفروضہ کو ہمیں دلائل سے رد کرنا پڑے گا تاکہ قارئین کے لئے تشویش کا موقع باقی نہ رہے ۔
بہرحال آپ کا اشکال یہ ہے کہ جب زائد از نصاب جائز ہے تو عہد رسالت میں اس زائد پر عمل کیوں نہ ہوا۔
عرض ہے کہ اس کا جواب بھی سعید ابن المسیب کی روایت نےہی دے دیا کہ عہد رسالت میں صحابہ نے غلاموں کی زکاۃ نکالی ہی نہیں ، لہٰذا ایسی صورت حال ان کے سامنے پیش ہی نہ آئی ۔
⟐ رہی فطرہ کی بات تو عہدرسالت میں فطرہ میں طعام دینے سے کسی بھی طرح کی کوئی کوتاہی یا کمی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا ، کیونکہ اس دور میں طعام نقد کی جگہ مستعمل تھا ۔ اوراس طرح کی مالیت میں بالعموم طعام ہی رائج تھا ۔ لیکن غلاموں کی زکاۃ بڑی مالیت کی چیز تھی جہاں درہم کا عمل جاری تھا ۔
اگر میرا یہ جواب آپ کو پسند نہ آئے تو ہم آپ ہی سے آپ کے اعتراض کا جواب دلوا کر رہیں گے ۔
⟐محترم یہ بتائیں کہ مقدار بڑھانے ہی کی بات ہے ، تو یہ اعتراض طعام سے متعلق بھی تو وارد ہوتا ہے، کہ صحابہ نے ایک صاع کے بجائے دو دو صاع کیوں نہیں دیا ؟
آپ کا بنیادی اعتراض عہد فاروقی میں صحابہ کی فیاضی کو لیکر ہے ،تو محترم کیا عہد رسالت میں اس فیاضی کے مظاہرہ کی بس یہی ایک صورت تھی کہ فطرہ میں نقود دئے جاتے ؟
آخر طعام کی مقدار بڑھا کر بھی تو وہ فیاضی دکھا سکتے تھے ؟ تو اس طرح یہ اعتراض خود آپ پر بھی وارد ہوتا ہے ۔
لہٰذا خود ہی اس کا کوئی مناسب اور معقول جواب سوچ کر ہمیں آگاہ کریں تاکہ ہم بھی وہی جواب آپ کو عنایت کرسکیں ۔
قارئین کرام!
آپ غور کریں گے تو غلاموں کی زکاۃ سے متعلق اب ان کے پاس کوئی اور اعتراض بچا ہی نہیں ہے ، اس لیے موصوف بس پرانی باتوں کا نئے اسلوب میں اعادہ ہی فرمارہے ہیں ۔
اس لئے ہم نے اس پوسٹ کو قسط وار بحث میں شامل نہیں کیا ہے تاکہ حالیہ قسطوں کا تسلسل باقی رہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔)
✿ ✿ ✿ ✿
No comments:
Post a Comment