{22} صحابہ سے فطرہ میں قیمت دینے پر دوسری صحیح روایت (گیارہویں قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-03

{22} صحابہ سے فطرہ میں قیمت دینے پر دوسری صحیح روایت (گیارہویں قسط)

{22} صحابہ سے فطرہ میں قیمت دینے  پر دوسری صحیح روایت  (گیارہویں قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا أبو أسامة ، عن زهير ، قال : سمعت أبا إسحاق يقول : أدركتهم وهم يعطون في صدقة رمضان ، الدراهم بقيمة الطعام“
”امام ابواسحاق السبیعی کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو پایا وہ صدقۃ الفطر میں کھانے کی قیمت کے مساوی درہم دیتے تھے“[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 3/ 174وإسناده متصل صحيح علي شرط الشيخين ، و أبوإسحاق روي أمرا شاهده فلا عبرة بتدليسه واختلاطه و حديثه من طريق زهير أخرجه البخاري ومسلم]
٭ تنبیہ : ٭
یہ روایت مع ترجمہ ہم نے اپنے کئی مضامین میں نقل کیا ہے، جسے بہت سارے لوگوں نے پڑھا ہے ، اور آج بھی شوشل میڈیا پر مختلف مقامات پر موجود ہے ، نیز فیس بک پر حالیہ بحث شروع ہونے سے قبل رسالہ اہل السنہ (شمارہ77۔78)  میں بھی میرا ایک مفصل مضمون شائع ہوا ہے اس میں(ص103) پر بھی یہ روایت مع ترجمہ موجود ہے ، اور  بعد میں اسی مضمون کو مزید حذف اضافہ کے ساتھ نیٹ پر اپلوڈ بھی کردیا گیا ہے ، جسے تقریبا دو ہزار لوگ صرف ایک مقام سے ڈاؤنلوڈ کرچکے ہیں ، تمام حضرات میرا مضمون دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے ” أدركتهم“ کا ترجمہ ”ان لوگوں کو پایا“ سے کیا ہے اور تشریح کرتے ہوئے اس عموم میں صحابہ اور تابعین سب کو شامل مانا ہے ۔
لیکن ہمارے مہربان نے اپنی طرف سے باقاعدہ واوین میں   ”میں نے صحابہ کو پایا“  کوٹ کیا ، اور پھر بلاجھجک اسے اس غریب کی طرف منسوب کردیا اور پھر تحریف معنوی کا اتہام جڑدیا۔
.
واضح رہے کہ گرچہ بعض اہل علم نے تابعین کی طرف سے  ”أدركتهم“  یا ”أدركت الناس“  کہنے پر اس سے صحابہ کرام کو مراد لیا ہے مثلا:
أبو الوليد سليمان بن خلف  الباجي الأندلسي (المتوفى 474) ایک تابعی کے قول ”ما أدركت الناس“  کی تشریح میں فرماتے ہیں:
قوله ما أدركت الناس إلا وهم يلعنون الكفرة في رمضان يريد بالناس الصحابة ،[المنتقى شرح الموطإ 1/ 210]
اس بناپر اگر کوئی مذکورہ ترجمہ کربھی دے تو اسے مفہومی ترجمہ کہا جائے گا تاہم اس کے باوجود بھی میں نے ایسا کوئی ترجمہ کیا ہی نہیں ہے ۔
میں صاف اعلان کرتا ہوں  کہ آں جناب کا یہ مجھ پر محض اتہام اور الزام ہے ۔ میرے قدیم وجدید مضامین سب کے سامنے ہیں ، رسالہ اہل السنہ بھی ایک ہزار کی تعداد میں چھپ کر ملک کے مختلف حصوں تک پہنچ چکا ہے اور پی ڈی ایف بھی لوگوں کے پاس محفوظ ہے۔ کوئی بھی مراجعہ کرکے دیکھ سکتا ہے کہ میرے مضمون میں یہ ترجمہ ہے ہی نہیں ۔
البتہ میں نے اس کی تشریح میں یہ ضرور کہا ہے کہ اس عموم میں صحابہ اور تابعین سب شامل ہیں اور اب بھی میں اس پر قائم ہوں تفصیل ملاحظہ ہو:
● اس روایت میں ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ نے ان لوگوں کا تعامل نقل کیا ہے جنہیں انہوں نے پایا ہے ۔
اور یہ بات متفق علیہ ہے کہ انہوں نے صحابہ اور تابعین دونوں کا زمانہ پایا ہے ، بلکہ امام عجلى رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
”روى أبو إسحاق السبيعي عن ثمانية وثلاثين من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم“
”ابواسحاق السبیعی نے اڑتیس (38) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے“ [معرفة الثقات للعجلي: 2/ 179]
● یہ تعداد صرف ان صحابہ کی ہے جن سے انہوں نے حدیث روایت کی ہے باقی اور کتنے صحابہ کو انہوں دیکھا ہے اور ان کا زمانہ پایا ہے یہ الگ چیز ہے۔
  (33) ہجری میں ان کی ولادت ہوئی ہے دیکھیں :[أبوإسحاق السبيعي في الكتب الستة والمسند: ص9]
اور (127) ہجری میں ان کی وفات ہوئی ہے ، دیکھیں :[أبوإسحاق السبيعي في الكتب الستة والمسند: ص86]
● اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ نہ صرف ایک جلیل القدر تابعی ہیں بلکہ تابعین میں بھی ائمہ عظام میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔
اب آئے دیکھتے ہیں کہ اس طرح کا تابعی جب بغیر نام لئے ان لوگوں کا قول  یا عمل نقل کرے جن کو اس نے پایا ہے تو اس تعلق سے اہل علم کیا مراد لیتے ہیں ، اس سلسلے میں تین حوالے ملاحظہ ہوں:
.
❀ صحیح بخاری کی ایک معلق روایت میں ہے کے حسن بصری  نے ”أدركت الناس“ کے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا:
”أدركت الناس وأحقهم بالصلاة على جنائزهم من رضوهم لفرائضهم۔۔۔۔الخ “[صحيح البخاري 2/ 87]
اس روایت سے متعلق صحیح بخاری کے متعدد شارحین نے صراحت کی ہے کہ حسن بصری رحمہ اللہ نے صحابہ اور تابعین کو مراد لیا ہے چنانچہ:
⟐ علامه عينى رحمه الله (المتوفى855) فرماتے ہیں:
”هذا أيضا من جملة ما يستدل به البخاري على جواز إطلاق الصلاة على صلاة الجنازة، فإن الذين أدركهم من الصحابة والتابعين الكبار كانوا يلحقون صلاة الجنازة بالصلوات“
”یہ (حسن بصری کا قول) ان دلائل میں سے ہے جن سے امام بخاری رحمہ اللہ اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ صلاۃجنازہ پر بھی صلاۃ کا اطلاق ہوگا ، کیونکہ حسن بصری رحمہ اللہ نے جن صحابہ اور کبار تابعین کو پایا ہے وہ صلاۃ جنازہ کو عام صلوات کے ساتھ ملحق کرتے تھے“[عمدة القاري شرح صحيح البخاري 8/ 124]
⟐ امام قسطلانی رحمہ اللہ (المتوفى: 923 ) فرماتے ہیں:
”(أدركت الناس) من الصحابة والتابعين“ ، یعنی ”حسن بصری کے قول لوگوں کو پایا سے مراد یہ ہے کہ صحابہ اورتابعین میں سے لوگوں کو پایا ہے“[ إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري 2/ 424]
.
❀ مؤطا امام مالک کی ایک روایت میں ہے کہ عبد الرحمن بن هرمزالأعرج(المتوفی117) نے ”أدركت الناس“ کے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہا:
”ما أدركت الناس إلا وهم يلعنون الكفرة في رمضان“[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 115]
⟐ امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463) نے امام اعرج تابعی کے اس بیان کے سبب ، اس عمل کو صحابہ اور تابعین کا عمل شمار کیا اس کے بعد کہا:
”والأعرج أدرك جماعة من الصحابة وكبار التابعين“
”امام اعرج نے صحابہ کی ایک جماعت اور کبارتابعین کو پایا ہے“ [الاستذكار لابن عبدالبر 2/ 75]
⟐ صاحب مرعاۃ علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ بھی امام اعرج کے اس اثرمیں ان کی مراد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”أي الصحابة والتابعين“ ، ”یعنی ان کی مراد صحابہ وتابعین ہیں“ [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 4/ 335]
.
❀ القاضي أبو يعلى محمد بن الحسين الحنبلي (المتوفى 458 ) نے نافع نے ایک روایت ”أدركت الناس والبقر تُشعَر في أسنمتها“ کے الفاظ میں ذکر کی اس کے بعد فرمایا:
”وهذا إشارة إلى الصحابة وغيرهم“
”یہ صحابہ وغیرہ کی طرف اشارہ ہے“ [التعليقة الكبيرة 2/ 527]
یعنی انہوں نے بھی اس طرح کے الفاظ سے صحابہ وتابعین کو مراد لیا ہے۔
یہ صرف تین حوالے مستند اہل علم کے پیش کئے گئے ورنہ اس طرح کے حوالے بہت کثرت سے موجود ہیں ۔
.
✿ موصوف نے یہاں صحابہ کی شمولیت کو احتمالی قراردیا ہے ۔
عرض ہے کہ یہاں بات احتمال کی نہیں بلکہ عموم کی ہے ، ان کاقول عام ہے اور صحابہ اور تابعین دونوں گروہ کو شامل ہے ، اس لئے عموم کے تحت دونوں گروہ ہی مراد ہوں گے الا یہ کہ صرف تابعین کی تخصیص کے لئے صحیح اور ٹھوس دلیل مل جائے ۔اس شبہہ کی  تردید میں مزید تفصیل کے لئے فطرہ پر ہمارا رسالہ دیکھیں۔
✿ موصوف نے چار صحابہ (ابوسعید الخدری المتوفی ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہم) سے فطرہ میں طعام دینے کی بات نقل کی اور ساتھ میں ان کی تاریخ وفات بالترتیب 70 ، 70 ، 60 اور 73 ہجری ذکرکی ، اس کے بعد  فرمایا کہ (( ان کے دور تک غلوں میں صدقہ فطر ادا کرنا مشہور ومعروف تھا)) ۔
عرض ہے کہ اس بات سے کس کو انکار ہے ؟
لیکن کیا اس بات سے یہ لازم آتا ہے کہ دوسرے صحابہ فطرۃ میں نقد نہیں دیتے تھے ؟
محترم آج اگر سعودی عرب سے متعلق  زید یہ بیان نقل کرے کہ اس نے وہاں کے لوگوں کو فطرہ میں نقد دیتے ہوئے پایا ہے ۔
اور عمر وہاں کے چار پانچ لوگوں کے بارے میں یہ بیان نقل کرے کہ  وہ فطرہ میں طعام دیتے ہیں ، تو کیا بکر کے بیان کو زید کے بیان کے معارض کہا جائے گا؟؟
محترم ان چار صحابہ سے متعلق طعام والی روایات ابو اسحاق السبیعی کے بیان کے معارض ہیں ہی نہیں ۔
معارضہ تب ثابت ہوگا جبکہ ابو اسحاق السبیعی کے بیان کے مقابلہ میں کوئی ایسا بیان لائیں جس میں صحابہ کی طرف سے نقد سے فطرہ دینے کی نفی ہو یعنی عدم جواز کا فتوی ہو۔
.
علاوہ بریں ماقبل کی قسطوں میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ نقد سے فطرہ کے جواز کے قائل عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور مہاجر صحابہ کی ایک جماعت تھی بلکہ اس پر کسی کا کوئی اعتراض بھی نہیں ملتا ۔
الغرض یہ کہ ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ کی یہ روایت اپنے عموم کے لحاظ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی شامل ہے ۔
اس عموم سے صحابہ کو خارج کرنے کے لئے کوئی ٹھوس دلیل ، یا قرینہ یا کوئی مانع پیش کریں تو آپ کی بات قبول ہے ، بصورت دیگر اس روایت کے عموم سے صحابہ کو خارج نہیں کیا جاسکتا ۔بالخصوص جبکہ دوسری الگ روایت سے بھی صحابہ کی طرف سے فطرہ میں نقد کا جواز وعمل ثابت ہے ۔والحمدللہ۔
(جاری ہے ۔۔۔)

No comments:

Post a Comment