{34} ”الأموال لابن زنجويه“ میں موجود حدیث غلمان کی تحسین کا جائزہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-15

{34} ”الأموال لابن زنجويه“ میں موجود حدیث غلمان کی تحسین کا جائزہ



{34}  ”الأموال لابن زنجويه“ میں موجود حدیث غلمان کی تحسین کا جائزہ 
✿ ✿ ✿ ✿
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے قول سے متعلق کافی تفصیل ہم پیش کرچکے ہیں ، اور قارئین گذشتہ حصوں میں دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے ہر حصہ میں فریق مخالف کی تسلی کے لئے ہندوستان نہیں بلکہ عرب باحثین اور متخصصین کے حوالے جابجا پیش کئے ہیں، یہ وہ باحثین اور متخصصین ہیں جنہوں نے مالکی مذہب پر اپنی بحوث کو پیش کیا ہے بلکہ بعض نے تو خاص  عمل اہل مدینہ پر اپنی بحثیں لکھی ہیں ۔
لیکن فریق مخالف کا کمال دیکھئے کہ  وہ بغیر عرب باحثين کی عبارتیں پیش کئے ہوئے محض ان کے ناموں کا وظیفہ پڑھ کر قارئین کو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ خود جوکچھ ارشاد فرمارہے ہیں وہ عرب باحثین اور متخصصین کے موافق ہے ،اور ناچیز جو کچھ کہہ رہاہے وہ ہندوستان میں بیٹھ کر محض اپنی عقل کے سہارے جھک مار رہا ہے ،سبحان اللہ ۔
محترم یہ دور ایسا ہے کہ عرب محققین  کی بحوث اور ان کی آراء  پوری دنیا میں نشر ہورہی ہے وہاں کے باحثین جن موضوعات پر بحثیں اور کتابیں لکھ رہے ہیں وہ ہرجگہ دستیاب ہورہی ہے اس لئے کم از کم آج کے دور میں وہاں سے لکھی جانی والی بحوث سے استفادہ کے حقوق بلکہ جملہ حقوق محض اپنے نام کرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
 . 
 ✿ لطیفہ :
آج ہم بڑے عجیب دور میں جی رہے ہیں ایک طرف یہ کہاجاتا ہے کہ ہندوستانی باحثین ،اردو میں عرب باحثین سے کاپی پیسٹ کرتے ہیں ۔اور دوسری طرف ہندوسانی باحثین پر اس وجہ سے لعن طعن کیا جارہا ہے کہ ان کی باتیں عرب باحثین کے خلاف ہیں ، سبحان اللہ !
 . 
حال ہی میں موصوف اس بات پر اترا رہے ہیں کہ انہوں نے الکافی کے محقق سے بات چیت کرلی ہے !! ماشاء اللہ
اور تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جس روایت کی سند پر ہم بات کرنے جارہے ہیں ، یہ روایت جس کتاب میں ہے اس کتاب کے محقق ، جو کہ عرب محقق اور متخصص  ہیں نیز سعودی عرب کے  جامعہ کے استاذ ہیں ،  انہوں نے اس کتاب کی تحقیق میں اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے ، لیکن ہمارے محترم نے کتاب کے اس عربی محقق اور متخصص کی اس تضعیف کو بڑے زور وشور سے  رد کردیا ہے !! 
اسی طرح ہم نے اس ضمن میں ایک دوسری روایت پیش کی تھی جس کے ایک راوی کو موصوف نے ضعیف ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے حالانکہ عرب متخصصین نے اس راوی کو حسن الحدیث قراردیا ہے ، اور موصوف نے خود ایک دوسرے راوی کو ثقہ بتاتے ہوئے انہیں متخصصین کی دہائی دی ہے !! (کماسیاتی)
ہماری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آپ عرب محققین اور متخصصین کے جو فضائل بیان فرمارہے ہیں یہ صرف ناچیز کے لئے ہیں یا آپ کو بھی ان کا کچھ پاس ولحاظ کرنا چاہے ۔
دراصل موصوف نے ایک نیا طریقہ شروع کیا ہے وہ یہ کہ جا بجا متخصص متخصص کی رٹ لگا کر اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں ،لیکن ایک طرف یہ خود ان متخصصین کی تحقیقات کو اپنے پیروں تلے روندتے ہیں ، اور دوسری طرف یہ بھول رہے ہیں کہ یہ تحقیق کا دور ہے،  یہاں دلائل موجود ہیں تو ایک طالب علم کی بات بھی قبول ہے ، اور دلائل نہیں ہیں تو متخصص تو درکنار امام وقت کی بات بھی مردود ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ محض معمولی طلباء کے تعاقب پر رجوع کرلیا کرتے تھے سلسلتین وغیرہ میں اس کی مثالیں موجود ہیں ، لیکن دلیل نہیں ہوتی تھی تو متخصص متخصص کی رٹ لگانے والوں کو بھی ذرا بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
اور تخصص کا حربہ کوئی نیا نہیں ہے،  مذہبی غلاظت نے ہی اسے بھی جنم دیا ہے ،  اور  ”نحن الاطباء وانتم الصيادلة“ کی من گھڑت کہانی اسی منحوس کارخانے سے گھڑی گئی ہے۔
ہماری کیا حیثیت ہے مذہبی نمونوں نے تو علامہ البانی رحمہ اللہ تک کے بارے میں کہہ ڈالا کہ :
”إمام في الحديث لكنه في الفقه ليس بذلك“ 
بلکہ خود مذہبیوں نے اپنی برادری کے ائمہ کو بھی نہیں بخشا اور حنابلہ کے  امام ، امام احمد رحمہ اللہ کی بارے میں بھی اسی طرح کی بکواس کردی ، جس پر امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
”الجاهل لا يعلم رتبة نفسه، فكيف يعرف رتبة غيره“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 11/ 321]
بہرحال متخصصين کے ناموں پر صرف اتنا عرض ہے کہ آپ مفت میں ان کی ناموں دہائی دینے کے بجائے ان کی طرف سے آپ کو کوئی دلیل ملی ہو تو اسے پیش کریں تاکہ متخصصين کی پیش کردہ دلیل سے استفادہ کیا جائے ورنہ محض ان کے ناموں کی دہائی دینے سے بات نہیں بننے والی.
 . 
 ✿ 
بہرحال ہم اصل روایت کی سند پر آتے ہیں ۔ہم نے  موصوف کی پیش کردہ حدیث غلمان کو ضعیف قراردیا تھا جس کا موصوف نے جواب دیا ہے اب اس کا جواب الجواب ہماری طرف ملاحظہ ہو:
سب سے پہلے یہ روایت مع سند و متن  دیکھ لیں۔
امام ابن زنجويه (المتوفى251) نے کہا:
”ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن ابن أبي ذئب، عن الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب قال: سألت سعيد بن المسيب فقلت: إن لنا كرما فيه غلمان وماشية، وإنا نؤدي زكاتها أفيجزئ ذلك عن صدقة الفطر عنهم؟ قال: لا يا ابن أخي، إنما هي زكاة أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن تزكوا بها فطركم، فقلت: فعلى من هي؟ قال: " على الصغير والكبير، والحر والعبد، والشاهد والغائب، قلت: فإني أخشى أن لا يخرجوا، قال: فأخرجها عنهم“ [الأموال لابن زنجويه 3/ 1258وإسناده ضعيف علي بن الحسن لايعرف]
 موصوف فرماتے ہیں:
  ⟐ ((بعض حضرات نے پہلے اس اثر کو یہ کہہ کر رد کیا تھا کہ الاموال لابن زنجویہ کے محقق نے اسے ضعیف کہا ہے))
یہ صریح غلط بیانی ہے کیونکہ ہم نے اس روایت پر پہلی بار بات کی ہے اور اس سے قبل کبھی بھی اس روایت پر بات ہی نہیں کی ہے ۔
ہاں ایک شخص نے کمنٹ میں یہ روایت پیش کرکے سوال کیا تھا   تو ہم نے صرف اس پر محقق کا فیصلہ دیکھا اور  اتنا کہا تھا کہ اس روایت کو چونکہ محقق نے ضعیف کہا ہے اس لئے جب تک کوئی اس سے استدلال نہیں کرلیتا میں اس پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا ، ہماری اس بات کا یہ بھی مقصد نہیں تھا کہ ہم اس روایت کی تضعیف سے متفق ہیں چہ جائے کہ وجہ ضعف سے اتفاق ہوتا ۔
ہمارا مقصود صرف یہ تھا کہ کتاب کے محقق نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے اور یہ کوئی ہندوستائی محقق بھی نہیں بلکہ عرب کے محقق اور متخصص ہیں اس لئے کیا معلوم کہ خود فریق مخالف اس روایت کو صحیح مانتے ہیں یا نہیں، اور اگر فریق مخالف ہی اس روایت کو صحیح نہیں مانتے ہیں تو اس پر بحث کرکے کیا فائدہ ؟  
⟐ اس لئے یہ کہنا کہ :
 ((بعض حضرات نے پہلے اس اثر کو یہ کہہ کر رد کیا تھا کہ الاموال لابن زنجویہ کے محقق نے اسے ضعیف کہا ہے))
⟐ اور پھر یہ خوش فہمی پالنا کہ:
(( جب اس کے بعد دوسرے پوسٹ میں میں نے محقق کے سبب ضعف کی تحقیق پیش کی کہ ان کا اس وجہ سے اسے ضعیف کہنا درست نہیں تو ابھی حال ہی میں انہوں نے ایک دوسری علت علیلہ تلاش کی ہے))
بلا وجہ ہے کیونکہ اس محقق نے ”الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب“  کے سبب اس روایت کو ضعیف کہا ہے جیساکہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے ،  ”الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب“ کو میں تقریبا دس سالوں سے صدوق وحسن الحدیث  مانتے آرہا ہوں ۔ کیونکہ تراویح سے متعلق ایک روایت کی سند میں یہ راوی آتا ہے اور اس روایت پر دس سالوں سے میری نظر ہے ، بلکہ 2014 میں  تراویح کے موضوع پر میں نے ایک مختصر کتاب ”مسنون رکعات تراویح دلائل کی روشنی میں“ جو مطبوع بھی ہے اور نیٹ پر اپلوڈ بھی ہے اس کتاب کے صفحہ 65 پر ہم نے اس راوی کو صدوق لکھا ہے ۔ اسی طرح اسی رمضان سے قبل ہم نے دوبارہ یہ کتاب ”انوار التوضیح لرکعات التراویح “ کے نام سے شائع کی اور اس کتاب کے صفحہ 176 پر بھی اس راوی کو صدوق ہی لکھا ہے ۔
اس لئے موصوف کا یہ سمجھنا کہ میں اموال کے محقق کی طرح اس راوی کے سبب اس روایت کو ضعیف مان رہا تھا اور اس راوی پر آں جناب کی تحقیق دیکھ کر دوسری علت تلاش کرنے بیٹھ گیا سراسر دھاندھلی بازی اور بلاوجہ کی خوش فہمی ہے اور سچائی تو یہ ہے کہ میں نے ابھی تک اس راوی پر آں جناب کی تحقیق کو حرفا حرفا پڑھا تک نہیں کیونکہ مجھے اس کی ضرورت ہی نہ تھی ۔
امید ہے کہ اس وضاحت سے قارئین پر آں جناب کی خوش فہمی نمایاں ہوجائے گی ۔
 . 
 ✿ 
آں جناب فرماتے ہیں:
((صرف استاذ وشاگرد کا علاقہ ایک ہونے کی وجہ سے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ "بدقسمتی سے یہی راوی یہاں اس سند میں موجود ہے"))
عرض ہے کہ :
علاقہ کی اس یکسانیت کے علاوہ کوئی اور قرینہ ہے ہی نہیں یہاں کون ہے اس لئے ظاہر ہے علاقہ کی یکسانیت کی بنیاد پر ہم علاقہ راوی ہی کا تعین ہوگا۔
 . 
 ✿ 
آگے مدخلی مقلدین کی طرح  پُرتکبر انداز میں فرماتے ہیں:
((چونکہ علوم حدیث کے تعلق سے اپنا ملک قحط الرجال کا شکار ہے اس لئے کمزور سے کمزور تحقیق پر بھی داد تحسین دینے والوں کی کمی نہیں ہوتی، ایک ڈھونڈھو تو ہزار ملتے ہیں))
دیکھا آپ نے علوم حدیث سے متعلق ہندوستان قحط الرجال کا شکار ہے ۔
آپ اگر ناچیز کے بارے میں تبصرہ کرتے تھے کہ ناچیز علوم حدیث سے نابلد ہے، تو مجھے کوئی ملال نہ ہوتا، کیونکہ مجھے الحمدللہ خود اعتراف ہے کہ علم حدیث ایک سمندر ہے اور اس سمندر کاایک قطرہ بھی حاصل کرنا دور کی بات ابھی اس کا دیدار تک نصیب نہیں ہوا ہے۔
لیکن آپ نے پورے ملک کے علماء کے بارے میں یہ تبصرہ فرمادیا سبحان اللہ !
کیا ہندوستان کے جامعات میں جو اساتذہ حدیث اور علوم حدیث پڑھاتے ہیں وہ سب کے سب جاہل ہیں ؟
 ہندوستان میں جامعات کی تعداد کتنی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے !
اچھا اگر علوم حدیث سے واقفیت کا مطلب یہی  ہے کہ ہندوستانی طلبہ حنبلی درسگاہوں میں جا کر حنبلی محققین سے علم حدیث حاصل کریں گے تبھی ان کو علم حدیث آئے گا تو یہ بتلائے کہ یہاں کے جو اساتذہ وہاں کے حنبلی درسگاہوں سے فیض یافتہ ہیں کیا وہ بھی علوم حدیث سے بالکل نابلد ہیں ۔
نیز ہماری معلومات کی حد تک تخریج احادیث میں اس صدی کے سب سے بڑے عالم علامہ البانی رحمہ اللہ تھے اور اسماء الرجال میں اس صدی کے سب سے بڑے عالم علامہ معلمی رحمہ اللہ تھے ، اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ علامہ معلمی رحمہ اللہ نے سرزمین ہند میں کم وبیش تیس سال گذارے ہیں ۔ یہ بتائیں کہ یہ علامہ معلمی رحمہ اللہ تیس سال ہندوستان میں کیا کررہے تھے ؟
محترم علم دین ، بالخصوص علم حدیث کسی سرزمین کی جاگیر نہیں ہے ، اس صدی میں اسماء الرجال کے سب سے بڑے علام علامہ معلمی رحمہ اللہ کی زندگی کا بیشتر حصہ ہندوستان میں علوم حدیث پر کام کرتے ہوئے گذرا ہے ، اس صدی کے سب سے بڑے محدث علامہ البانی رحمہ اللہ شام سے تعلق رکھتے تھے ، اسی دور میں حدیث کے ایک اور ماہر علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ مصر سے تعلق رکھتے ہیں ،  علامہ مقبل رحمہ اللہ یمن سے تعلق رکھتے تھے ۔
اور ماضی بعید کی بات کریں تو تفصیل بہت لمبی ہوجائے گی ۔
واضح رہے کہ جس سرزمین کو آپ علم الحدیث کی سرزمین بتلارہے ہیں ،وہاں بھی بعض  کی طرف سے کتنی ہوشیاری سے اپنے مذہب کے خلاف احادیث کو یا تو زبردستی ضعیف قرار دیا جاتا ہے، یا مشرف بہ تقلیدی مذہب بنایاجاتا ہے ، یہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے ایک مقام پر  علامہ معلمی رحمہ اللہ نے بھی اس طرح کا شکوہ کیا ہے ۔
 . 
 ✿ لطیفہ :
جس طرح ہندوستان میں بیٹھ کر ناچیز نے اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے ، اسی  طرح سعودی عرب میں بیٹھ کر اموال لابن زنجویہ کے محقق دکتور شاکر ذیب نے بھی اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ ناچیز نے وجہ ضعف کچھ اور ذکر کیا ہے جبکہ دکتور شاکر ذیب نے وجہ ضعف کچھ اور ذکر کیا ہے ۔
اور آپ نے جس طرح میری تضعیف کو رد کیا ہے ، اسی طرح  دکتور شاکر ذیب کی بھی تحقیق کو رد کردیا ہے ۔
اب سوال یہ ہے اس روایت کی تضعیف پر آپ کو ہندوستان میں علوم حدیث کا قحط نظر آتا ہے لیکن اسی روایت کی تضعیف سعودی عرب سے بھی ہوری ہے اور وہ بھی ایک مختصص بلکہ دکتور سے تو کیا سعودی عرب بھی علوم الحدیث میں قحط کا شکار ہے؟؟؟   اس بیجا تکبر سے پہلے آگے پیچھے بھی کچھ دیکھ لیا ہوتا !
محترم نسبت اور درسگاہ پر لا یعنی فخر سے باز آجائیں اور صرف دلائل پر بات کریں ، علم کے بغیر محض نسبتوں کی قدر و قیمت جاہلوں کی ٹولی اور احمقوں کے حلقوں میں ہوتی ہے ۔باذوق اور سنجیدہ لوگ صرف دلائل کی بنا پر فیصلہ کرتے ہے۔
 . 
 ✿ موصوف فرماتے ہیں :
((مذکورہ دلیل کے جواب میں تو صرف یہی کہنا کافی ہوگا کہ اگر استاذ وشاگرد کا ایک علاقہ ایک ہونا ان کے " علی بن الحسن النسائی" ہونے کی دلیل ہو گئی تو " علی بن الحسن بن شقیق المروزی" اور "عبد اللہ بن مبارک المروزی" کا علاقہ بھی ایک ہی ہے))
عرض ہے کہ اگر آپ نے میرے درج ذیل الفاظ پر غور کیا ہوتا تو اس بے تکی دلیل کو پیش نہ کرتے ، ملاحظہ کریں میں نے لکھا تھا :
”ابن المبارک رحمہ اللہ کے تلامذہ میں چونکہ ان دونوں کا نام مل رہا ہے لہٰذا ابن المبارک کے تلامذہ کی فہرست سے کوئی تعین نہیں ہوسکتا“
یعنی اس بات سے انکار ہی نہیں ہے کہ ابن مبارک کے شاگرد علی بن الحسن بن شقیق بھی ہیں ۔اور ان کے اور ابن المبارک کے  بیچ استاد اور شاگرد کے رشتہ پر علاقہ سے بڑھ کردلائل موجود ہیں ، اس لئے ان دونوں کے بیچ علاقہ کی بات کرنا ہی لغو ہے۔
لیکن علی بن الحسن بن شقیق کے ابن المبارک کے شاگرد ہونے سے اس بات کی نفی قطعا نہیں ہوسکتی کہ علی ابن الحسن النسائی ، ابن المبارک کے شاگرد نہیں ہیں، کیونکہ کتب رجال میں اس کی صراحت موجود ہے ۔
اب بتلائے کہ جب دونوں علی بن الحسن کا  ابن المبارک کا شاگردہونا ثابت ہے تو کسی سند میں محض اس جانب سے استاذ اور شاگرد کے علاقہ کی بنیاد پر کسی ایک شاگرد کا تعین کون سا اصول تحقیق ہے ؟؟
یعنی ابن المبارک کے شاگرد ہونے کی حیثیت سے دونوں علی ابن الحسن کے بارے میں مسلم ہے کہ یہ دونوں علی ابن الحسن کے شاگردہیں ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے امام ابن زنجویہ کا استاذ کون ہے ؟
تو امام ابن زنجویہ کے استاذ کی حیثیت سے ان دونوں میں سے کسی کا بھی تعین کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی رشتہ درکار ہے ۔
علی بن الحسن بن شقیق کا کوئی بھی رشتہ امام بن زنجویہ سے ثابت نہیں ہوتا ہے جبکہ علی بن الحسن النسائی سے علاقہ کا رشتہ ثابت ہے لہٰذا علاقہ کی اس یکسانیت کی بناپر انہیں کا تعین کیا جائے گا ۔
بالفاظ دیگر اس بات کو یوں سمجھیں کہ اس سند میں علی ابن الحسن النسائی کے تعین سے ان کا رشتہ دونوں طرف کے رواۃ سے میل کھاتا ہے یعنی ان کے استاذ ابن المبارک سے تو ان کا رشتہ کتب رجال سے ہی ثابت ہے  اور شاگرد ابن زنجویہ سے بھی ان کا علاقہ کا رشتہ ثابت ہوتا ہے۔
جبکہ علی بن الحسن بن شقیق کا تعین کریں تو ان کا رشتہ صرف ابن المبارک سے ثابت ہوتا ہے اور ان کے شاگرد ابن زنجویہ سے ان کا کوئی رشتہ ثابت نہیں ہوتا ۔
یہی وہ نکتہ ہے جسے ہم نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ :
”ابن المبارک رحمہ اللہ کے تلامذہ میں چونکہ ان دونوں کا نام مل رہا ہے لہٰذا ابن المبارک کے تلامذہ کی فہرست سے کوئی تعین نہیں ہوسکتا“
یعنی ہمارا مقصود یہ تھا کہ جب دونوں علی بن الحسن ، ابن المبارک کے شاگرد ہیں ۔ تو پھر ان میں سے اس کا تعین کرنا ہوگا جس کا اپنے استاذ  ابن المبارک سے رشتہ ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے شاگرد  ابن زنجویہ سے بھی رشتہ ثابت ہورہا ہو۔
اور یہ خصوصیت صرف علی بن الحسن النسائی ہی کے اندر ہے کہ ان کا رشتہ ان کے استاذ ، ابن المبارک سے ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے شاگرد ابن زنجویہ سے بھی علاقہ کا رشتہ ثابت ہوتا ہے جبکہ علی ابن الحسن بن شقیق کا یہ معاملہ ہرگز نہیں ہے اس لئے کہ ان کا رشتہ ابن المبارک سے تو ثابت ہوتا ہے لیکن ابن زنجویہ سے ان کا کوئی رشتہ ثابت نہیں ہوتا اور اس سند میں ان کے شاگرابن زنجویہ ہی ہے ۔
لہٰذا اس سند میں اسی راوی کا تعین کیا جائے گا جس کا رشتہ دونوں طرف کے رواۃ سے یعنی استاذ اور شاگرد دونوں سے ثابت ہورہا ہو۔
 . 
اب قارئین ملاحظہ کریں کہ ہم نے علی ابن الحسن النسائی کا رشتہ دونوں جانب کے رواۃ سے ثابت کیا ہے اور ہمارے مہربان اس نکتہ کو سمجھ ہی نہیں سکے  اور بڑے طنطنے کے ساتھ فرمایا:
((اگر استاد وشاگرد کے ایک علاقے کے ہونے کی وجہ سے وہ "نسائی" ہو سکتے ہیں تو اسی سبب سے وہ "مروزی" کیوں نہیں ہو سکتے؟؟؟؟؟انہوں نے جتنی دلیل دی تھی یہی دلیل ان کے برابر کی ہوگئی))
مروزی  اس لئے نہیں ہوسکتے کہ کیونکہ مروزی ہونے کی صورت میں ابن زنجویہ سے ان کا رشتہ کٹ جاتا ہے ۔
آئی سمجھ میں بات ؟؟؟؟؟
محترم ذرا یہاں ٹہر کر میری دلیل کو اچھی طرح سمجھ لیں اس کے بعد اپنی بے تکی بات نگاہ ڈالیں تو دونوں میں آسمان کا فرق دکھائی دے گا ۔
میں نے اس راوی کے تعین پر صرف ایک ہی دلیل دی تھی ، جو کافی تھی ، لیکن موصوف نے اسے اکلوتی دلیل سمجھ لیا ہے ۔
ہم آگے ہم اس راوی کے تعین پر درجنوں دلائل پیش کرتے ہیں نیز موصوف کے پیش کردہ دلائل کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ ان شاء اللہ
(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment