{35} حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر مزید دلائل - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-16

{35} حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر مزید دلائل



{35}   حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر مزید دلائل
✿ ✿ ✿ ✿
سب سے  پہلے حدیث غلمان مع سند ومتن پھر ملاحظہ فرمالیں:
امام ابن زنجويه (المتوفى251) نے کہا:
”ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن ابن أبي ذئب، عن الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب قال: سألت سعيد بن المسيب فقلت: إن لنا كرما فيه غلمان وماشية، وإنا نؤدي زكاتها أفيجزئ ذلك عن صدقة الفطر عنهم؟ قال: لا يا ابن أخي، إنما هي زكاة أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن تزكوا بها فطركم، فقلت: فعلى من هي؟ قال: " على الصغير والكبير، والحر والعبد، والشاهد والغائب، قلت: فإني أخشى أن لا يخرجوا، قال: فأخرجها عنهم“ [الأموال لابن زنجويه 3/ 1258وإسناده ضعيف علي بن الحسن لايعرف]
 . 
❀ اس حدیث کو”الأموال لابن زنجويه“ کے محقق نے ضعیف قراردیا ہے ۔
لیکن فریق مخالف نے محقق کی تحقیق کو ذرا بھی خاطر میں نہیں لایا ہے ، حالانکہ یہ محقق عرب کے ہیں اور فن حدیث میں متخصص ہیں ۔اورہمارے محترم عرب متخصصین کا ڈھڈورا بہت پیٹتے ہیں ۔لیکن ہم پہلے بھی قارئین کو بتلا چکے ہیں اور آگے بھی جابجا دکھلا ئیں گے کہ آں جناب محض سادح لوح قارئین پر رعب ڈالنے کے لئے ، اور  اپنے  دلائل کی کمزوری چھپانے کے لئے ہی عربوں اور متخصصین کا نعرہ لگاتے ہیں ۔
لیکن خود عرب اور متخصصین کی تحقیقات کا کیا حشر کرتے ہیں ، اس کی ایک مثال خود یہ روایت ہے ، اور باقی مثالیں موقع بموقع ہم پیش کرتے رہیں گے ۔
بہرحال آتے ہیں اس روایت کی سند کی طرف ، ہم نے اس کی سند میں موجود  ”علي بن الحسن“ کے بارے میں کہا تھا  کہ یہ غیر معروف ہے اس کی توثیق نہیں ملتی لہٰذا یہ سند ضعیف ہے ۔
 . 
ہم نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ ”علي بن الحسن“ نام کے  ابن المبارک کے دو شاگرد ہیں :
● ایک ”على بن الحسن بن شقیق “ ہیں ، دیکھئے : [تهذيب الكمال للمزي: 16/ 12]
● دوسرا ”على بن الحسن النسائى“ ہے ، دیکھئے : [تهذيب الكمال للمزي: 16/ 12]
ان دونوں میں سے اول الذکر ثقہ ہے جبکہ ثانی الذکر غیر معروف اور نا معلوم التوثیق ہے اور اس سند میں یہی راوی موجود ہے۔لہذا یہ سند ضعیف ہے ۔
ہم نے پہلے تعین کے لئے ایک ہی دلیل دی تھی اس راوی کے تعین پر مزید دلائل ملاحظہ فرامائیں:
 . 
 ✿ اولا:
پہلی دلیل گذشتہ پوسٹ میں گذرچکی ہے وہ یہ کہ اس سند میں ”علي بن الحسن“ سے  ”على بن الحسن النسائى“ کو مراد لیں تو زیر بحث سند میں دونوں طرف کے رواۃ  (استاذ وشاگرد) سے ان کا رشتہ ثابت ہوتا ہے جبکہ یہاں اگر ”على بن الحسن بن شقیق“  مراد لیں تو ان کا رشتہ صرف ایک طرف کے راوی یعنی ان کے استاذ ابن المبارک سے ثابت ہوتا ہے لیکن دوسرے طرف کے راوی یعنی ان کے شاگرد ابن زنجویہ سے ان کا کوئی رشتہ ثابت نہیں ہوتا ۔اس کی مکمل تفصیل مع اشکالات کا ازالہ گذشتہ پوسٹ میں عرض کی جاچکی ہے۔
 . 
 ✿ ثانیا:
اس سند میں ”علي بن الحسن“ سے  ”على بن الحسن النسائى“ ہی ہے نہ کہ ”على بن الحسن بن شقیق “ ۔
اس کی ایک زبردست دلیل یہ ہے کہ اس کتاب ”الأموال لابن زنجويه“ میں  ”علي بن الحسن“  راوی  کی ایک سو پنچانوے (195) روایات  ہیں ، یعنی پانچ(5) کم دو سو روایات ہیں۔
.
 ● تنبیہ بلیغ:
فریق مخالف نے لکھا ہے کہ :
(( الاموال کے اندر انہوں نے ان سے ایک سو تیس کے قریب احادیث روایت کی ہیں))
عرض ہے کہ ایک سو تیس (130) نہیں بلکہ اس کتاب میں اس کی پوری ایک سو پنچانوے (195) روایات موجود ہیں۔
جیساکہ ہم نے مطبوعہ نسخہ کی ساری روایات کو ایک ایک کرکے دیکھا ہے اور اس راوی کی جملہ روایات کو شمار کیا ہے ۔
فریق مخالف نے لگتا ہے مکتبہ شاملہ میں سرچ کرکے نتائج دیکھ کر یہ تعداد بتلائی ہے ، کیونکہ مکتبہ شاملہ والے نسخہ میں یہ نام بہت سے مقامات پر غلط لکھا ہوا ہے جس کے سبب شاملہ صحیح نتائج نہیں دکھاتا ۔
تحقیقی بحوث میں صرف مکتبہ شاملہ پر اعتماد کرکے کوئی بات کہنا قطعا مناسب نہیں ہے اگر موصوف مطبوعہ نسخہ دیکھ لیں تو یقینا انہیں اپنی ذکرہ کردہ تعداد کو خود ہی غلط کہے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوگا ۔
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی کتاب الکافی سے متعلق بھی لگتا ہے موصوف کو مکتبہ شاملہ سے دھوکہ ہوا ہے چونکہ مکتبہ شاملہ میں اس کتاب کا نام ”الكافي في فقه أهل المدينة“  درج تھا ، غالبا اسی لئے موصوف نے یہ سمجھ لیا کہ یہ کتاب اہل مدینہ کی فقہ پر لکھی گئی ہے ، حالانکہ مطبوعہ نسخہ میں کتاب کا پورا نام ”الكافي في فقه أهل المدينة المالكي“ ہے جو صاف دلیل ہے کہ یہ خاص مذہب مالکی پر لکھی گئی کتاب ہے ۔جیساکہ ہم نے پوسٹ نمبر (30) میں مزید تفصیل سے واضح کیا ہے ۔
.
❀  بہر حال ابن زنجویہ کی کتاب ”الأموال “  میں ان کے استاذ  ”علي بن الحسن“  کی ایک سو پنچانوے (195) روایات  ہیں ، یعنی پانچ(5) کم دو سو روایات ہیں۔
اب اگر یہ فرض کرلیں کہ یہاں ابن زنجویہ کے استاذ   ”على بن الحسن بن شقیق “ ہی ہیں ، اور انہوں نے ہی ابن زنجویہ کو ایک سو پنچانوے (195) روایات بیان کی ہیں ۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”على بن الحسن بن شقیق “  کی یہ ساری روایات صرف اور صرف ابن زنجویہ ہی کو کہاں سے مل گئیں؟ جبکہ ”على بن الحسن بن شقیق “ ایک مشہور ثقہ راوی ہیں ، ان کے سیکڑوں شاگرد ہیں اور ان کے کسی بھی دوسرے شاگرد کو ان روایات میں سے کسی ایک روایت کی بھی بھنک نہیں پڑی ؟؟؟
واضح رہے کہ ان تمام کی تمام روایات میں سے ،  یعنی کل ایک سو پنچانوے (195) روایات میں سے ،   ایک روایت بھی اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں ”على بن الحسن بن شقیق “ سے ان کے کسی دوسرے شاگرد نے روایت نہیں کیا ہے۔
حالانکہ ”على بن الحسن بن شقیق “ ایسے راوی ہیں جو مشہور ثقہ راوی اور کثیر التلامذہ ہیں ، بلکہ کم وبیش ان کے سو (100) شاگرد ہیں جیساکہ مختلف کتب احادیث میں ان کی روایات کا استقراء کرکے معلوم ہوتا ہے ۔اورتہذیب میں ان کے تلامذہ کی فہرست دیکھیں نیز بعض رواۃ کے اساتذہ کی فہرست دیکھیں تو صرف تہذیب میں ہی ان کے پچاس (50) سے زائد شاگردوں کا تذکرہ ملے گا ۔
ایک طرف ”على بن الحسن بن شقیق “ کے سیکڑوں شاگرد ہیں اور دوسری طرف  ان شاگردوں کے ذریعہ ان کی ساری روایات  مشہور دواوین سنت اور دیگر کتب احادیث  میں بکھری پڑی ہیں۔
 بلکہ ان کے تلامذہ  میں بڑے بڑے اساطین حدیث شامل ہیں، جن میں امام بخاری رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ۔نیز کتب ستہ کی کوئی ایک کتاب نہیں ہے جس میں ”على بن الحسن بن شقیق “ کی روایات موجود نہ ہوں ۔ بلکہ مشہور دواوین سنت میں شاید ہی کوئی کتاب ہو جس میں ”على بن الحسن بن شقیق “ کی روایات موجود نہ ہوں۔
.
❀ اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ”الأموال لابن زنجويه“  میں موجود  ایک سو پنچانوے (195) روایات مشہور ثقہ راوی ”على بن الحسن بن شقیق “ ہی کی روایات ہیں ۔
تو ان کی مرویات کی اتنی بڑی تعداد صرف اور صرف ایک ہی شاگرد ابن زنجویہ ہی کو کیونکر ملیں؟ اور ان میں سے ایک بھی روایت ان کے کسی دوسرے شاگرد کو نہیں مل سکی ؟؟
ایسا کیوں ؟؟؟؟؟
حتی کی ”على بن الحسن بن شقیق “ کے کبار شاگردوں میں بھی کسی کو  ان روایات میں سے ایک بھی روایت نہیں مل سکی ۔
بالخصوص ان کے شاگرد امام احمد رحمہ اللہ نے بھی ان سے مذکورہ روایات میں سے ایک بھی روایت نقل نہیں کی !!
امام بخاری رحمہ اللہ کی متعدد کتب ہیں لیکن کسی بھی کتاب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے مذکورہ روایات میں سے ایک روایت بھی نقل نہیں کیا !!
اسی طرح امام ابن شبیبہ رحمہ اللہ بھی ان کے شاگرد ہیں اور آثار وروایات پر ان کی کتاب مصنف بڑی مشہور اور جامع ہے ، اس کتاب میں امام ابن ابی شیبہ نے اپنے استاذ  ”علي بن الحسن بن شقيق“ سے کئی روایات لائے ہیں لیکن مذکورہ  ایک سو پنچانوے (195) روایات میں سے ایک روایت بھی امام ابن شیبہ نے”علي بن الحسن بن شقيق“ سے بیان نہیں کیا !!
 . 
یہ تو ان کتب حدیث کے مصنفین کی بات ہوئی جو براہ راست ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے شاگردہیں  ، لیکن کتب احادیث و آثار کے بہت سے مصنفین نے ایک یا دو واسطے سے ”علي بن الحسن بن شقيق“ کی کئی روایات اپنی کتابوں میں درج کی ہیں ، لیکن  مذکورہ ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“  میں ایک روایت کا بھی ذکر ان کے یہاں نہیں ملتا !!
.
❀ بلکہ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے دنیا بھر کے سیکڑوں شاگردوں نے مل کر بھی اتنی تعداد میں ان سے روایات نقل نہیں کیا ، جتنی تعداد میں ابن زنجویہ نے تنہا ان سے روایات نقل کی ہیں ۔
سوال یہ کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“  کے دیگرسینکڑوں شاگردوں کا کیا قصور تھا ؟ ان میں کیا کمی تھی ؟ کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ نے  ایک سو پنچانوے (195) روایات میں سے کوئی ایک روایت بھی ان میں سے کسی کو نہ سنائی ؟؟؟
اور ابن زنجویہ میں کون سا کمال تھا ؟ اورابن زنجویہ سے ”علي بن الحسن بن شقيق“ کا کون سا رشتہ تھا؟ کہ ان کو اور صرف ان کو ایک سو پنچانوے (195) روایات سناڈالی ؟؟
کوئی رشتہ تو دور کی بات ، کتب رجال دیکھیں تو ابن زنجویہ کے اساتذہ میں ”علي بن الحسن بن شقيق“ کا ذکر تک نہیں ملتا ہے ۔
اور نہ ہی  ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے شاگردوں میں ابن زنجویہ کا ذکر ملتا ہے ۔
نہ ہی یہ دونوں ایک علاقہ کے ہیں ۔
بھلا بتلائے کہ جن دو ثقہ اور مشہور رواۃ  کے بیچ  ایک سو پنچانوے (195) روایات کا تبادلہ ہوا ہو کیا ان دونوں کا رشتہ ائمہ حدیث سے اوجھل ہوسکتا ہے ؟؟
کیا کتب رجال ایسے دو ثقہ اور مشہور رواۃ کی ایسی خصوصیت کے ذکر سے خالی ہوسکتی ہیں؟؟
یقینا ائمہ حدیث اس صورت حال کو اسی وقت نظر انداز کرسکتے ہیں جب دو میں سے کوئی ایک غیر معروف ہو اور ناقابل التفات ہو ، ورنہ دو مشہور وہ بھی ثقہ رواۃ کی ایسی صورت حال پر تبصرہ کئے بغیر ائمہ حدیث نہیں رہ سکتے ۔
”ایک سو پنچانوے (195) روایات“  تو جانے دیں کوئی ثقہ راوی اس کا نصف حصہ بھی کسی ایک ہی ثقہ راوی سے بیان کردے اوردونوں  مشہوراور ثقہ بھی ہوں تو ائمہ حدیث اس خصوصیت کا تذکرہ  کرتے ہیں ، لیکن یہاں ایک راوی ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ ایک ہی راوی سے روایت کررہا ہے اور ائمہ حدیث ان دونوں کی خصوصیت کا ذکر کرنا تو دور کی بات ان دونوں میں استاذ اورشاگردی کا رشتہ تک نہیں بتاتے ۔
کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان دو میں سے ایک غیرمعروف ہے۔
.
پھر یہ بھی بتلائیے کہ کیا دنیا بھر کی کتب احادیث میں کوئی اور بھی ایسی مثال ملتی ہے کہ ایک مشہور اور سیکڑوں شاگرد والے راوی کی  ایک سو پنچانوے (195) روایات صرف اور صرف ایک ہی راوی کو سننے کو ملی ہو  اور اس کے دیگر تمام سیکڑوں شاگرد بلکہ کبار اور مشہور شاگرد ان ساری روایات سے محروم رہے ہوں ؟؟
ہمیں دنیائے حدیث سے اس کی کوئی مثال دکھائی جائے !
.
❀  یادرہے کہ اگر کسی مشہور ثقہ  اور کثیر التلامذہ سے کوئی راوی ایسی روایات بیان کرے کہ اس کے دیگر شاگرد اسی راوی سے وہ روایات بیان نہ کریں تو ائمہ علل اس کا سخت نوٹس لیتے ہیں  اور برملا سوال کرتے ہیں کہ میاں تم تنہا ہی اس کے شاگرد رہے ہو جو یہ روایت بیان کررہے ہو؟  دیگر شاگرد کیا سورہے تھے؟؟
چنانچہ:
”أيمن بن نابل“   سے ان کے ایک شاگرد ”قران بن تمام“   نے ایسی روایت بیان کی جسے قران کے دوسرے شاگردوں میں کسی نے بیان نہیں کیا تو امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
لم يروِ هذا الحدِيث عن أيمن إِلاَّ قِرانٌ، ولا أراهُ محفُوظًا، أين كان أصحابُ أيمن بنِ نابِلٍ، عن هذا الحدِيثِ؟.
اس حدیث کو”أيمن بن نابل“ سے ”قران بن تمام“  کے علاوہ کسی نے بھی روایت نہیں کیا ! اور میں اسے محفوظ نہیں سمجھتا ، ”أيمن بن نابل“کے دیگر شاگرد اس حدیث کی روایت میں  کہاں تھے ؟؟؟ [علل الحديث 1/ 296]
.
ہم بھی سوال کرتے ہیں کہ اگر ابن زنجویہ نے  ایک سو پنچانوے (195) روایات کو ”علي بن الحسن بن شقيق“ سے ہی بیان کیا ہے تو ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے سیکڑوں شاگرد کہاں تھے ؟؟؟؟؟
.
❀  صاف صاف بات   یہ ہے کہ ان روایات کو ”علي بن الحسن بن شقيق“ نے بیان ہی نہیں کیا ہے بلکہ ”على بن الحسن النسائى“ نے بیان کیا ہے جو ابن زنجویہ کے علاقہ کا ایک غیر معروف راوی ہے ۔
اورچونکہ یہ غیر معروف راوی ہے ۔ اس کے بارے میں یہ بھی نہیں ملتا کہ اس کے بہت سارے شاگرد رہے ہوں ،  اس لئے اس کی یہ روایات صرف اس کے علاقہ کے راوی ابن زنجویہ ہی کو نصیب ہوئیں ۔
.
❀  علاوہ بریں چونکہ یہ غیر معروف ہے اس لئے اپنے استاذ ابن المبارک سے بیان کرنے میں بھی اس نے ٹھیک ٹھیک بیان کیا ہے اس کی بھی گیارنٹی نہیں ہے ۔
ممکن ہے یہ غیرمعتبر ہو اور بہت ساری روایات پر ابن المبارک کی سند فٹ کردی ہو ، جیساکہ بہت سارے غیر معتبر رواۃ کا یہ معاملہ رہا ہے ۔ کتب رجال میں ایسے نمونے بہت ہیں ۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ  یہ مدلس ہو اور اپنے استاذ ابن المبارک سے ڈائریکٹ بہت ساری روایات بیان کردی ہو ، اور اپنے اصل واسطے کو حذف کردیا ہو۔
بہر حال جو بھی صورت ہو یہ راوی ”علي بن الحسن بن شقيق“ نام کا ثقہ راوی ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ورنہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے دیگرسینکڑوں شاگردوں سے یہ  ایک سو پنچانوے (195) روایات اوجھل نہ رہتیں ۔
(جاری ہے ۔۔۔)

No comments:

Post a Comment