{33} امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ قول سے متعلق باقی شبہات کا ازالہ
✿ ✿ ✿ ✿
گذشتہ پوسٹس میں ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ قول پر مکمل بحث کرکے قارئین کو پوری تسلی کرادی گئی ہے کہ اس کی کیا حقیقت ہے اس ضمن میں فریق مخالف کے متعدد شبہات کے جوابات بھی آچکے ہیں ، کچھ باقی اور ذیلی شبہات کے جوابات بھی ملاحظہ فرمالیں۔
.
✿ موصوف فرماتےہیں:
(( اپنے فہم کو حاکم بناکر ابن عبد البر کے کلام کا معارض بنائیں یہ اہل علم قبول نہیں کر سکتے ))
عرض ہے کہ:
ہم بھی یہی بات کہہ سکتے ہیں کہ اپنے فہم کو حاکم نہ بنائیں ، نہ قدمائے اہل مدینہ کی روایات سے متعلق نہ خود ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ اس قول سے متعلق ۔
معارضہ کی بات تبھی آتی جب آپ کے فہم کو پیش نظر رکھا جائے ، ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ قول سے متعلق آپ اپنے غلط فہم سے دست بردار ہوجائیں سارا قصہ ہی ختم !
.
✿ موصوف فرماتے ہیں:
(( کوئی واضح دلیل لائیں جس سے ابن عبد البر جیسے محدث کے کلام کی تغلیط ثابت ہوتی ہو))
تغلیط کی بات بعد میں ہوگی پہلے آپ اس قول کو ثابت تو کریں !
یہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا کوئی فتوی واجتہاد نہیں ہے کہ ہم نے ان کے فتوی واجتہاد کی تغلیط کردی ہے بلکہ یہ ان کی طرف سے ایک بے سند نقل ہے ۔آپ اس کی کوئی صحیح سند پیش کردیں بات ختم!
خود مذہبی برادری کا حال یہ ہے کہ صحیح بخاری جیسی کتاب میں امام بخاری رحمہ اللہ جیسے سلطان المحدثین سے تعلیقا نقل کردہ قول پر سند صحیح کا سوال اٹھاتی ہے ۔
بلکہ زکاۃ میں قیمت ہی سے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ نے معاذ رضی اللہ عنہ کا ایک عمل نقل کیا ہے ، چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
” وقال طاوس: قال معاذ رضي الله عنه لأهل اليمن: «ائتوني بعرض ثياب خميص - أو لبيس - في الصدقة مكان الشعير والذرة أهون عليكم وخير لأصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة»“[صحيح البخاري: 2/ 116]
اس روایت سے اہل علم بالخصوص فقہائے احناف نے جابجا استدلال کیا ہے کہ زکاۃ میں قیمت دینا جائزہے ۔بلکہ فطرہ میں نقد دینے پر بھی اس اثر سے استدلال کیا گیا ہے۔
حتی کہ ماضی قریب کے بعض احناف نے یہاں تک کہا ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل صدقہ الفطر ہی سے متعلق تھا چنانچہ:
علامہ أنور شاه كشميري رحمه الله (المتوفى1353) نے کہا:
”والظاهر أنها كانت صدقة الفطر، ولا بأس بها عند المصنف رحمه الله على ما علمت من توسعه في الاستدلال، فساغ له أن يتمسك من الاستبدال في صدقة الفطر على جواز الاستبدال في الزكاة أيضا “[فيض الباري على صحيح البخاري 3/ 116]
.
لیکن مذہبی برادری کی مخالف پارٹی کتنی ڈھٹائی سے اسے رد کردیتی ہے ۔
حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل بسند صحیح طاووس رحمہ اللہ کے واسطہ سے نقل کیا ہے جو معاذ رضی اللہ عنہ ہی کے علاقہ کے رہنے والے تھے۔اور انہوں نے معاذ رضی اللہ عنہ کے کثیر تلامذہ کی صحبت پائی ہے اور ان کے ذریعہ معاذ رضی اللہ عنہ کے اقوال اور ان کے حالات پر خصوصی واقفیت حاصل کی ہے ۔
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” وطاوس عالم بأمر معاذ، وإن كان لم يلقه على كثرة من لقي ممن أدرك معاذا من أهل اليمن فيما علمت“[الأم للشافعي 2/ 9]
یعنی امام شافعی کے بقول طاووس رحمہ اللہ کا ماخذ معاذ رضی اللہ عنہ کے کثیر تلامذہ ہیں۔ اور معاذ رضی اللہ عنہ ، اور ان کے یہ کثیر تلامذہ ، اور طاووس رحمہ اللہ ، یہ سب ایک ہی علاقہ کے ہیں۔
لیکن ان سب کے باوجود بھی طاووس رحمہ اللہ کے نقل پر سند صحیح کا مطالبہ کرنے والے کس منہ سے کہتے ہیں کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی نقل پر سند صحیح کا مطالبہ نہ کیا جائے؟؟؟
کیا خیال ہے اگر ہم یہاں کہیں کہ :
(( کوئی واضح دلیل لائیں جس سے طاووس رحمہ اللہ جیسے تابعی کے کلام کی تغلیط ثابت ہوتی ہو)) ؟؟؟
یادرہے کہ یہ معاذ رضی اللہ عنہ کا کوئی انفرادی معاملہ بھی نہیں ہے بلکہ ایسا عمل ہے جس کا تعلق پورے اہل یمن سے ہے۔
.
✿ موصوف فرماتے ہیں:
((یہاں پر خلل ان کے منہج میں نہیں بلکہ ان کے منہج کو سمجھنے اور جاننے کے باوجود ان پر اعتراض کرنے والوں میں ہے۔ پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کسی مسئلہ میں اجماع نقل کرنے کا ان کا منہج کیا ہے ؟ اسےدیکھیں پھر فیصلہ ہوگا کہ وہ اپنے منہج میں سقیم ہیں یا قوی۔ ان کے منہج سے چشم پوشی کرتے ہوئے یہ کہنا کہ "غیر ثابت اجماع اور نام نہاد اتفاق نقل کرنے میں سب زیادہ شہرت امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے حاصل کی ہے " ان کے ساتھ انصاف نہیں ہے))
عرض ہے کہ :
پھر اس منطق سے امام ابن حبان رحمہ اللہ پر مجاہل کی توثیق میں تساہل کا الزام نہیں لگانا چاہئے ۔
کیونکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب الثقات میں اپنا یہ منہج بتلایا ہے کہ :
” لأن العدل من لم يعرف منه الجرح ضد التعديل، فمن لم يعلم بجرح فهو عدل إذا لم يبين ضده، إذ لم يكلف الناس من الناس معرفة ما غاب عنهم، وإنما كلفوا الحكم بالظاهر من الأشياء غير المغيب عنهم “ [الثقات لابن حبان ط العلمية: ص: 2]
اب جب ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنا منہج ہی یہ بتلادیا ہے کہ وہ جرح سے خالی رواۃ کو ثقہ مانتے ہیں، تو کیا اس منہجی وضاحت کے بعد ان پر تساہل کا الزام لگانا غلط ہے ؟؟
اور اگر آپ ہی کے اسلوب میں ہم یہ کہیں کہ :
«یہاں پر خلل ابن حبان کے منہج میں نہیں بلکہ ان کے منہج کو سمجھنے اور جاننے کے باوجود ان پر اعتراض کرنے والوں میں ہے۔ پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کسی راوی کو ثقہ کہنے میں
ابن حبان کا منہج کیا ہے ؟ اسےدیکھیں پھر فیصلہ ہوگا کہ وہ اپنے منہج میں سقیم ہیں یا قوی۔ ان کے منہج سے چشم پوشی کرتے ہوئے یہ کہنا کہ " ابن حبان توثیق میں متساہل ہیں " ان کے ساتھ انصاف نہیں ہے »
تو کیا خیال ہے؟؟ ضرور آگاہ فرمائیں !
.
✿ واضح رہے کہ امام ابن عبدالبر کے اہل مدینہ والے حوالے پر ہم نے ان کی طرف سے نقل اجماع میں پائے جانے والے سقم کی طرف اس لئے اشارہ کیا ہے کیونکہ آپ نے اسے ایک اتفاقی عمل باور کرایا ہے گرچہ اہل مدینہ ہی کی حدتک ۔اور اہل مدینہ سے متعلق اس طرح کے دعوے کو اجماع کی بحث میں پیش کیا جاتاہے جیساکہ اہل علم نے صراحت کی ہے ۔
اس لئے ہم نے واضح کیا ہے کہ اجماع و اتفاق کے نقل میں ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے یہاں سقم پایا جاتا ہے اور اس بات کی صراحت ہم سے پہلے بھی اہل علم کرچکے ہیں چنانچہ:
● امام ابن القطان الفاسي رحمه الله (المتوفى628)نے کہا:
”ومعلوم أنَّ أبا عبد البر إذا حكى الإِجماع، فما يحكيه بنقل متصل إلى المتعين به وإنما هو بتصفحه، والتصفح أكثر ما يحصل عنه فى هذا الباب عدم العلم بالخلاف فيه “[إحكام النظر في أحكام النظر ص: 226]
● أبو عبد الله المقری المالکی رحمہ اللہ(المتوفی759) نے کہا:
”حذر الناصحون من أحاديث الفقهاء ، وتحميلات الشيوخ ، وتخريجات المتفقهين ، وإجماعات المحدِّثين . وقال بعضهم : احذر أحاديث عبد الوهاب ، والغزالي ، وإجماعات ابن عبد البر“[قواعد أبي عبدالله المقري: ص137]
ان دو اہل علم کے علاوہ بھی اہل علم کی اچھی خاصی تعداد ہے جنہوں نے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی دعائے اجماع سے تحذیرکی ہے اور ان میں اکثریت خود مالکیوں ہی کی ہے ۔
اور اہل علم کی تصریحات کے مطابق ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے دعوائے اجماع میں کئی طرح کا سقم ہے ۔
بالخصوص ابن القطان رحمہ اللہ کا کلام دیکھیں وہ تو یہ بتلارہے ہیں کہ ابن عبدالبررحمہ اللہ محض تصفح کی بنیاد پر ہی اجماع کا دعوی کربیٹھتے ہیں یعنی کسی مسئلہ میں کسی ایک یا دو کا قول ابن عبدالبر رحمہ اللہ کو نظر آجائے اور اس کے خلاف کوئی قول نہ ملے تو یہاں پر بھی وہ اجماع کا دعو ی کرجاتے ہیں ۔
بالفاظ دیگر ابن عبدالبر رحمہ اللہ نہ صرف یہ کہ جمہور کے قول پر اجماع کا دعوی کربیٹھے ہیں بلکہ محض ایک یا دو قول پر بھی اجماع کا دعوی اس لئے کرجاتے ہیں ان کے خلاف انہیں دوسرا قول نہیں ملتا ۔
اور یہ بات اس صورت میں ہے جب یہ فرض کرلیا جائے کہ موصوف نے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ قول کا جو مطلب بتایا ہے وہ صحیح ہے جیسے کہ موصوف نے کہا:
(( یہاں پر اس دور کے علماء ِمدینہ کی پوری جماعت مخالف نظر آرہی ہے))
اور ہم گذشتہ پوسٹس میں واضح کرچکے ہیں کہ اس معنی میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کوئی دعوی کیا ہی نہیں ہے ، بلکہ انہوں نے متاخرین اہل مدینہ کی بات نقل کی ہے اور اس میں بھی اختلاف کو ذکر کیاہے جیساکہ گذشتہ پوسٹ میں وضاحت کی جاچکی ہے۔
.
✿ موصوف فرماتے ہیں:
((اگر مان بھی لیں کہ انہوں نے بعض اختلافات کو نظر انداز کر دیا ہے پھر بھی اکثریت کا فتوی کس چیز پر ہوا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جوازِ نقد پر یا عدمِ جواز ِنقد پر؟؟؟؟؟؟))
عرض ہے کہ:
آپ نے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے دعوائے اجماع میں صرف یہی سقم سمجھا ہے کہ وہ اکثر کے قول کو بھی اجماع بتا دیتے ہیں یعنی اگر آپ کے بقول ان کا دعوائے اجماع پورے طور سے صحیح نہ بھی ہو تو کم از کم جمہور کا قول تو ثابت ہوتا ہی ہے ۔
حالانکہ اوپر ہم ابن القطان رحمہ اللہ کا نقد پیش کرچکے ہیں جس وہ ابن عبدالبر کے دعوائے اجماع کو تصفح اور عدم خلاف کے علم کا نتیجہ بھی بتلاتے ہیں ، یعنی محض عدم خلاف کے سبب وہ اجماع کا دعوی کرجاتے ہیں اوراس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صرف کسی ایک کا کوئی قول مل جائے اور اس کے مخالف کوئی قول نہ ملے تو ایسی صورت میں بھی ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے یہاں دعوائے اجماع ہوتا ہے ۔
امام ابن القطان رحمہ اللہ کے کلام کی ساتھ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی کتاب سے اس کی ایک مثال بھی ملاحظہ فرمائیں جس سے ان کا یہ منہج پتہ چلتا ہے ۔
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
”وأن أصل مذهبه في هذه المسألة فعل عمر رضى الله عنه في جماعة الصحابة لم ينكره عليه ولا خالفه فيه واحد منهم وقد كانوا يخالفونه في أقل من هذا مما يحتمل التأويل فكيف بمثل هذا الأصل الجسيم والحكم العظيم وفي تسليمهم ذلك لعمر واجماعهم عليه“[التمهيد لابن عبد البر: 1/ 184]
اور یہ صرف ابن عبدالبر رحمہ اللہ ہی کا معاملہ نہیں ہے ، مذہبی حلقوں میں اس طرح کے دعوائے اجماع کی کمی نہیں ہے ۔
اس لئے ابن عبدالبررحمہ اللہ کے دعوائے اجماع سے جمہور کا موقف بھی کشید کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔
.
✿ موصوف فرماتے ہیں:
(( ایک طرف تو شیخ محترم کو ابن عبد البر کے اجماع میں "سقم" نظر آتا ہے اور ان کے لئے "نام نہاد" کا لفظ تک استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں اور دوسری طرف اسی مسئلہ میں اس کے برخلاف اسی دور کے علماء کا وہ اجماع نقل کرتے ہیں، جس دعوی میں ان کا کوئی سلف نہیں ۔ لہذا فیصلہ آپ قارئین کے ہاتھوں میں ہے کہ آپ کن پر اعتماد کرتے ہیں ابن عبد البر رحمہ اللہ پر یا شیخ محترم پر))
عرض ہے کہ آپ یہاں اجماع قطعی اور اجماع ظنی کو خلط ملط کررہے ہیں ۔
ہم پوسٹ نمبر (25) میں واضح کرچکے ہیں کہ امام مالک سے قبل نقد کے جواز پر ہم جس اجماع کا دعوی کررہے ہیں وہ اجماع قطعی نہیں بلکہ اجماع ظنی ہے ۔
اوراس طرح کا اجماع جن بنیادوں پر اورجن اصولوں پر کیا جاتا ہے ہم نے انہیں بنیادوں اوراصولوں پر یہ دعوی کیا ہے ۔
اوراس اجماع کے ناقل کون ہیں ہم اس کی بھی وضاحت کرچکے ہیں ، نیز ہم مثال بھی پیش کرچکے ہیں کہ کس طرح اہل علم اس طرح کا دعوی کرتے آئے ہیں حتی کہ چودہویں صدی میں علامہ البانی رحمہ اللہ کی طرف سے بھی اس دعوی کی مثال ہم پیش کرچکے ہیں ۔
قارئیں تفصیل کے لئے پوسٹ نمبر (25) پڑھ لیں ساری حقیقت عیاں ہوجائے گی ۔
.
✿ ہم نے الزاما یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ الکافی میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی نقل کردہ ہربات کوثابت مانتے ہیں تو امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں امام مالک سے دوسرا قول فطر ہ میں نقد کے جواز کا بھی نقل کیا ہے ، اسے بھی تسلیم کریں ! ۔اس پر موصوف فرماتے ہیں:
((فقہی کتابوں میں علماء سے جو متعدد اقوال مروی ہوتے ہیں ان میں تمییز کرنے اور جانچنے پرکھنے کے ان کے پاس اصول وضابطے ہیں۔ جنہیں بالتفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے))
عرض ہے کہ یہ حوالہ ہم نے دیگر فقہی کتب سے نہیں بلکہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی اسی کتاب الکافی سے پیش کیا ہے جس کے بارے میں آپ نے یہ فیصلہ صادر فرمادیا ہے کہ اس میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جو کچھ بھی نقل کیا ہے وہ سب ثابت شدہ ہے ۔
لہٰذا دیگر کتب کی بات بعد میں کریں پہلے اس کتاب میں منقول اس قول پر ایمان لانے کا اعلان فرمائیں ۔
.
✿ اس کے بعد آں جناب نے عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ کے اثر سے متعلق یہ دعوی کیا ہے کہ فطرہ میں نقد دینے سے متعلق ان کا فرمان اہل مدینہ کے لئے نہ تھا بلکہ دوسروں کے لئے تھے ، یہ بالکل نیا اورنرالا دعوی ہے ۔اور اس دعوی کو درست مان لینے پر بھی بات بننے والی نہیں ہے جیساکہ گذشتہ پوسٹس میں ہم واضح کرچکے ہیں ۔ اس شبہہ کا مختصرا جائزہ پہلے متعدد مقامات پرہم پیش کرچکے ہیں ، اس کے ساتھ ہم اس شبہہ کی تردید میں ایک مستقل تحریر بھی پیش کریں گے ان شاء اللہ ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)
No comments:
Post a Comment