{46} حدیث غلمان ، ایک ہی سند کے نچلے طبقہ کا راوی اسی سند کے اوپر والے راوی کا متابع نہیں ہوتا - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-27

{46} حدیث غلمان ، ایک ہی سند کے نچلے طبقہ کا راوی اسی سند کے اوپر والے راوی کا متابع نہیں ہوتا



{46} حدیث غلمان ، ایک ہی سند کے نچلے طبقہ کا راوی اسی سند کے اوپر والے راوی کا متابع نہیں ہوتا 
✿ ✿ ✿ ✿
قارئین کرام !
میں نے پوسٹ نمبر (44) میں وعدہ کیا تھا کہ ہم دکھلائیں گے کہ موصوف نے آگے بہت بھدی اور لایعنی بات کہہ رکھی ہے ، اب وقت آگیا ہے کہ ہم آں جناب کی اس بات سے آپ کو متعارف کروائیں۔
قارئین کرام !
اگر کوئی حدیث ایک ہی سند سے مروی ہو ، اس سند میں پانچ راوی ہوں ۔ان پانچ میں سے کوئی ایک ضعیف ہو، باقی سب  ثقہ ہوں ۔
اب اس ضعیف راوی کی وجہ سے اس حدیث کی تضعیف کی جائے، اور اس پر کوئی آکر یہ کہنے لگ جائے کہ : میاں ایک راوی ضعیف ہے تو کیا ہوا ؟ سند میں کل پانچ راوی تھے ، باقی چار تو ثقہ ہیں ؟ اس لئے ان چاروں نے اس کی متابعت کردی ہے ، لہٰذا آپ اس سند کو صحیح قرار دیں !!
تو قارئین بتلائیں کہ اس سے بڑی نادانی اور لایعنی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟؟
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہی بات ہمارے مخالف نے کہہ رکھی ہے۔
 . 
دراصل امام ابوعبید کی کتاب اموال سے ان کے شاگرد ابن زنجویہ نے بہت سی روایات کو نقل کیا ، تو فریق مخالف نے یہ دعوی کردیا کہ ابو عبید سے ان روایات کو نقل کرنے میں ابوعبید کے شاگرد ابن زنجویہ منفرد ہیں ۔
اس پر ہم نے یہ کہا کہ آپ صرف ان روایات کی بات کرتے ہیں ، ابو عبید کے دوسرے شاگرد بغوی نے اموال نامی یہ پوری کتاب ہی اپنے استاذ ابوعبید سے نقل کررکھی ہے ۔
یعنی ہم نے ”امام ابن زنجویہ“کی متابعت ”امام بغوی“سے ثابت کردی ۔اوریہ دونوں امام ابوعبید کے شاگرد ہیں ۔
 . 
جب ہم نے یہ متابعت ثابت کردی تو موصوف جوش میں آگئے اور ہم نے موصوف سے جس متابعت کا مطالبہ کیا تھا اسے بھی پورا کرنے بیٹھ گئے، اور وہ گل کھلایا کہ عالم یا طالب علم تو دور ایک عام آدمی بھی سر پیٹتے رہ جائے۔
اول تو موصوف ہمارے مطالبہ پر ”احادیث کی روایت“ کی دنیا سے نکل کر ”کتابی نسخہ کی روایت“ کی دنیا میں قدم رکھ دیا، اور اوپر سے کیا گل کھلا وہ دیکھنے کے قابل ہے ۔
دراصل ابن زنجویہ نے ”علی بن الحسن“ نامی راوی سے ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ نقل کی ہیں ، اور ہم نے یہ کہا کہ  ”علی بن الحسن“ نام کا یہ راوی  ”علی بن الحسن النسائی“ ہے جو ابن زنجویہ کے علاقہ کا ہے ، نہ کہ ”علی بن الحسن بن شقیق“ ، کیونکہ ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے سیکڑوں شاگرد ہیں اور ان کے کسی بھی شاگرد نے ان  ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ میں سے کوئی ایک روایت بھی نقل نہیں کی ہے ۔
ان کے بعض شاگرد کتب حدیث کے مصنف ہیں جیسے امام ابن ابی شیبہ وغیرہ، اور بعض مصنفین ایک یا دو واسطے سے ان کی روایت نقل کرتے ہیں ، یعنی یہ مصنفین ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ، یا پھر شاگردوں کے شاگرد کے شاگرد ہیں ۔لیکن کسی بھی کتاب میں ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے کسی بھی شاگرد سے مذکورہ مجموعہ روایات میں سے ایک روایت بھی  منقول نہیں ہے ، اس لئے ہم نے سوال اٹھایا کہ:
«سوال یہ کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ کے دیگرسینکڑوں شاگردوں کا کیا قصور تھا ؟ ان میں کیا کمی تھی ؟ کہ ”علي بن الحسن بن شقيق“ نے ایک سو پنچانوے (195) روایات میں سے کوئی ایک روایت بھی ان میں سے کسی کو نہ سنائی ؟؟؟اور ابن زنجویہ میں کون سا کمال تھا ؟ اورابن زنجویہ سے ”علي بن الحسن بن شقيق“ کا کون سا رشتہ تھا؟ کہ ان کو اور صرف ان کو ایک سو پنچانوے (195) روایات سناڈالی ؟؟کوئی رشتہ تو دور کی بات ، کتب رجال دیکھیں تو ابن زنجویہ کے اساتذہ میں ”علي بن الحسن بن شقيق“ کا ذکر تک نہیں ملتا ہے » 
 . 
یعنی دنیا بھر کی کتب احادیث میں ایک روایت بھی ایسی نہیں ملتی ،جس میں ابن زنجویہ کی نقل کردہ روایات میں سے کسی ایک میں بھی ”علی بن الحسن بن شقیق“  کے کسی دوسرے شاگرد نے ابن زنجویہ کی متابعت کی ہو۔
لیکن قارئین یہ جان کر حیران ہوں گے کہ موصوف نے بہت جوشیلے انداز میں نہ صرف متابعت پیش کی ، بلکہ متابعات کی بارش کردی ۔سبحان اللہ 
 . 
 ✿ اب جگر تھام کر موصوف کے الفاظ پڑھیں اور سر دھنیں ، فرماتے ہیں:
((آپ اتنا بھی نہ سوچ سکے کہ ابن زنجویہ سے جنہوں نے (ان کا نام ہے ابو بکر محمد بن خریم العقیلی) پوری کتاب روایت کی ہوئی ہے، انہوں نے ایک یا دو حدیث تو کیا، بلکہ صرف علی بن الحسن کی حدیثیں ہی کیا، پوری کی پوری کتاب ہی ایک واسطے سے علی بن الحسن بن شقیق سے روایت کی ہوئی ہے۔
 اور ابو بکر محمد بن خریم العقیلی کے شاگرد ابو العباس محمد بن موسی السمسار نے دو واسطوں سے علی بن الحسن بن شقیق کی ان تمام حدیثوں کی روایت کی ہوئی ہے۔
اور ابو العباس محمد بن موسی السمسار کے شاگرد ابو الحسن محمد بن عوف بن احمد المزنی نے تین واسطوں سے علی بن الحسن بن شقیق کی ان تمام حدیثوں کی روایت کی ہوئی ہے۔
 اور ابو الحسن محمد بن عوف بن احمد المزنی کے ایک دو شاگردوں نے نہیں بلکہ پانچ پانچ شاگردوں نے چار واسطوں سے علی بن الحسن بن شقیق کی ان تمام حدیثوں کی روایت کی ہوئی ہے۔
(تسلی کے لئے دیکھیں : الاموال لابن زنجویہ 1/34)۔
امید کہ دوسروں کو " نامعقولیت کی بھی کوئی حدہوتی ہے" کا طعنہ دینے سے پہلے اب ضرور سوچیں گے))
 . 
 ❀ قارئین صدق دل سے بتلائیں کہ یہ جواب کس سطح کا ہے ۔
ہم نے کہا تھا کہ ابن زنجویہ نے اپنی کتاب اموال میں ”علی بن الحسن“سے جو ایک سو پنچانوے( 195) روایات نقل کی ہے ، ان میں سے کسی ایک روایت کو بھی ابن زنجویہ کے علاوہ ”علی بن الحسن بن شقیق“  کے کسی بھی دوسرے شاگرد نے روایت نہیں کیا ۔
یعنی ابن زنجویہ کے استاد اگر ”علی بن الحسن بن شقیق“ ہیں ، تو پھر  ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے کسی بھی دوسرے شاگرد نے ابن زنجویہ کی متابعت ایک روایت میں بھی نہیں کی ہے ۔
 . 
اب ہمارے مہربان نے متابعات کی قطار تو لگادی ، لیکن اتنی موٹی بات نہیں سمجھ سکے کہ ان سب میں سند ابن زنجویہ سے گذر کر ہی ”علی بن الحسن“ تک پہنچتی ہے ، لہٰذا یہاں کہیں پر بھی ابن زنجویہ کی متابعت دور دور  تک موجود نہیں ہے۔
اب آئیے ایک ایک حوالے کو کھول کھول کر حقیقت کو مزید نمایاں کرتے ہیں :
 . 
✿ موصوف نے کہا:
① ((  آپ اتنا بھی نہ سوچ سکے کہ ابن زنجویہ سے جنہوں نے (ان کا نام ہے ابو بکر محمد بن خریم العقیلی) پوری کتاب روایت کی ہوئی ہے، انہوں نے ایک یا دو حدیث تو کیا، بلکہ صرف علی بن الحسن کی حدیثیں ہی کیا، پوری کی پوری کتاب ہی ایک واسطے سے علی بن الحسن بن شقیق سے روایت کی ہوئی ہے))
 . 
 ● عرض ہے کہ:
سند اس طرح ہوئی : 
  ◄  ابو بکر محمد بن خریم العقیلی -  عن  ابن زنجویہ  -  عن الحسن بن علی ۔۔۔۔
ملاحظہ کریں کہ”ابو بکر محمد بن خریم العقیلی“نے پوری کتاب ”ابن زنجویہ“ ہی سے روایت کی ، اور پھر ابن زنجویہ نے ”علی بن الحسن“ سے ۔
یعنی ان کی سند بھی ”ابن زنجویہ“  سے گذر کر ہی ”علی بن الحسن“  تک پہنچتی ہے ۔
 . 
 ✿ موصوف نے کہا:
②  ((  اور ابو بکر محمد بن خریم العقیلی کے شاگرد ابو العباس محمد بن موسی السمسار نے دو واسطوں سے علی بن الحسن بن شقیق کی ان تمام حدیثوں کی روایت کی ہوئی ہے))
 . 
 ● عرض ہے کہ:
سند اس طرح ہوئی : 
  ◄  ابو العباس محمد بن موسی السمسار -  عن ابی بکر محمد بن خریم العقیلی  - عن ابن زنجویہ -  عن الحسن بن علی ۔۔۔۔
ملاحظہ کریں  یہ سند بھی آگے چل”ابن زنجویہ“  سے گذر کر ہی ”علی بن الحسن“ تک پہنچتی ہے ۔
 ✿ موصوف نے کہا:
 ③ (( اور ابو العباس محمد بن موسی السمسار کے شاگرد ابو الحسن محمد بن عوف بن احمد المزنی نے تین واسطوں سے علی بن الحسن بن شقیق کی ان تمام حدیثوں کی روایت کی ہوئی ہے))
 . 
 ● عرض ہے کہ:
سند اس طرح ہوئی : 
  ◄ ابو الحسن محمد بن عوف بن احمد المزنی -  عن ابی العباس محمد بن موسی السمسار -  عن ابی بکر محمد بن خریم العقیلی -  عن ابن زنجویہ -  عن الحسن بن علی ۔۔۔۔
ملاحظہ کریں  یہ سند بھی آگے چل ”ابن زنجویہ“  سے گذر کر ہی ”علی بن الحسن“ تک پہنچتی ہے ۔
 . 
 ✿ موصوف نے کہا:
④  (( اور ابو الحسن محمد بن عوف بن احمد المزنی کے ایک دو شاگردوں نے نہیں بلکہ پانچ پانچ شاگردوں نے چار واسطوں سے علی بن الحسن بن شقیق کی ان تمام حدیثوں کی روایت کی ہوئی ہے))
 . 
 ● عرض ہے کہ:
سند اس طرح ہوئی : 
  ◄ (➊ ابو اسحاق و   ➋ ابو الفتح و  ➌ علی و  ➍ عبدالرزاق و  ➎ عبیداللہ) کلھم - عن ابی الحسن محمد بن عوف بن احمد المزنی -  عن ابی العباس محمد بن موسی السمسار -  عن ابی بکر محمد بن خریم العقیلی -  عن ابن زنجویہ -  عن الحسن بن علی ۔۔۔۔
ملاحظہ کریں  یہ سند بھی آگے چل”ابن زنجویہ“  سے گذر کر ہی ”علی بن الحسن“ تک پہنچتی ہے ۔
 . 
 ✿  قارئین کرام ! ملاحظہ کیا آپ نے ؟
دوسروں کے لئے ”سمجھ نہیں سکے“ ، ”غلط فہمی“ ، ”خلط مبحث“ کی گردان کرنے والوں کے اپنے فہم و تدبر کا حدود اربعہ کیا ہے ؟
محترم ایک طرف فہم وبصیرت کی یہ خستہ حالی اور دوسری طرف مختصصین اور کبار اہل علم کی دہائی کوئی دانائی کا کام نہیں ہے ۔
آپ کی اس بھیانک غلطی نے نہ صرف آپ کو رسوا کیا ہے ،  بلکہ آپ کے جملہ اعوان و انصار کو بھی سخت آزمائش میں ڈال دیاہے، بلکہ ان متخصصين کے تخصص پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے جو آپ کو کمک پہنچا رہے ہیں، ایسے ہی موقع پر کہاجاتاہے: 
ع
 خود تو ڈوبے ہیں صنم !
تم کو بھی لے ڈوبیں گے
 . 
آج سے چھ (6) سال قبل ایک غیر عالم اور عام شخص کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا ہوئی تھی جس کا جواب میں نے چھ سال قبل ہی درج ذیل لنک پر دیا تھا :
لیکن زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ یہی غلط فہمی نہ صرف ایک عالم بلکہ مرحلہ دکتورہ کے باحث کے یہاں دیکھنے کو مل رہی ہے ۔اور باحث بھی ایسے جو ہمہ وقت بحر تخصص میں غوط زن رہتے ہیں ، واللہ المستعان !
(جاری ہے ۔۔)

No comments:

Post a Comment