{45} حدیث غلمان ، ”کتابی نسخہ کی روایت“ اور ”احادیث کی روایت“ میں فرق - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-26

{45} حدیث غلمان ، ”کتابی نسخہ کی روایت“ اور ”احادیث کی روایت“ میں فرق

{45} حدیث غلمان ،  ”کتابی نسخہ کی روایت“ اور  ”احادیث کی روایت“ میں فرق
✿ ✿ ✿ ✿
اصول حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک جو سلسلہ سند ہوتا ہے اس پر بحث ہوتی ہے ، اور جب سند صحابی تک پہنچ جائے تو تفتیش کا مرحلہ ختم ہوجاتا ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صداقت وامانت ، حفظ وضبط سب کچھ مسلم ہے ۔
ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ ہماری بحث محدثین کے اصول متابعت سے تعلق رکھتی ہیں ، جو محدثین کے یہاں بالکل مسلم بات ہے ، اور مستشرقین کے یہاں اس اصول کو لے کر کوئی بحث ہے ہی نہیں ۔بلکہ یہ خالص محدثین کا ایک فنی اصول ہے ۔
منکرین حدیث یا مستشرقین ، حدیث یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ پر جو اعتراضات کرتے ہیں ، اس کے لئے وہ دوسری  چیزوں کو بنیاد بناتے ہیں جن کا محدثین کے اصول متابعت سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔
اب موصوف کے باقی اعتراضات کو دیکھتے ہیں۔
.
✿ اگلے اعتراضات کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ موصوف نے ”کتاب کی روایت“ اور محدث سے اس کی”احادیث کی روایت“ کو خلط ملط کردیا ہے ۔جب کہ دونوں میں بنیادی فرق ہے ۔
● مثلا کوئی راوی کسی محدث سے حدیث روایت کرے گا تو یہ ضروری ہے کہ وہ ثقہ ہو اور اس کے اوپر کی سند صحیح ہو ، اس طرح کی سند اور اس کے رواۃ پر وہ تمام اصول اپلائی ہوتے ہیں جو فن حدیث میں معروف ہیں۔
● لیکن کتاب کا یہ معاملہ بالکل نہیں ہے ،  یعنی اگر کوئی محدث اپنی مرویات کو  کتابی شکل دے کر اسے عام کردے ، اور یہ کتاب معروف ومشہور ہوجائے تو پھر اس کے نسخہ کی سند ضعیف ہی کیوں نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
لأن الكتاب لمشهور الغني بشهرته عن اعتبار الإسناد منا إلى مصنفه ،كسنن النسائي مثلا لا يحتاج في صحة نسبته إلى النسائي إلى اعتبار حال رجال الإسناد منا إلى مصنفه [النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 1/ 271]
اورچونکہ کتاب عام ہوجانے کے بعد کتاب ہی اصل مرجع بن جاتی ہے ، اس لئے کتابی نسخہ کی سند کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہ جاتی ، اور نہ ہی اس کی طرف محدثین کی وہ توجہ ہوتی ہے جو احادیث کی روایت میں ہوتی ، اور نہ حدیث کی تصحیح و تضعیف کے لئے اس سند کو بنیاد بنایا جاتا ہے بلکہ صاحب کتاب اور اس سے اوپر کی سند ہی پر بحث وتحقیق ہوتی ہے۔
چنانچہ آج کتنی ہی کتابیں ہیں جن کی نسخہ والی سند ضعیف ہے ، لیکن اہل علم کے یہاں وہ کتب بالاتفاق حجت ہیں ۔مثلا: السنة لعبد الله ابن أحمد بن حنبل، اس کتاب کی سند میں غیرمعروف راوی ہے۔
اور کتابی نسخہ کی  روایت کا جو فرق ہے اس پر خود فریق مخالف کا یہ بیان بھی شاہد ہے فرماتے ہیں:
((امام بخاری رحمہ اللہ سے ان کے نوے ہزار شاگردوں نے صحیح بخاری کو سنا ہے جیسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے ذکر کیا ہے، لیکن ان میں سے کتنے شاگردوں کی روایتوں کا ذکر اب کتابوں میں موجود ہے؟ اب کوئی مشکل سے نو شاگردوں کو بھی نہیں گنا پائےگا جنہیں امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری سنائی تھی۔ بلکہ جن کا ذکر ملتا ہے وہ مشہور صاحب کتاب بھی نہیں ہیں۔ بلکہ امام بخاری کے جو اجلائے تلامذہ ہیں جنہوں نے امام بخاری سے سب سے زیادہ استفادہ کیا ہے ان کا ذکر نہیں ملتا))
محترم اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کتابی نسخہ کی روایت کا معاملہ ہے ، اور کتابی نسخہ کی روایت اور احادیث کی روایت میں فرق ہے جیساکہ ماقبل میں واضح کردیا گیا ہے ۔
.
✿ یہ فرق اچھی طرح ذہن میں رکھنے کے بعد اب موصوف کے اعتراضات پر بات کرتے ہیں ۔
امام ابوعبید رحمہ اللہ نے اموال پر ایک کتاب لکھی ہے ، اس کتاب سے ابن زنجویہ رحمہ اللہ نے بہت ساری روایات اور بہت سارے اقتباسات نقل کئے ہیں ،ان سے متعلق فریق مخالف کو مغالطہ یہ ہوا کہ انہوں نے یہاں یہ سمجھ لیا کہ ابن زنجویہ نے ان باتوں کو امام ابو عبید سے تحدیثا روایت کیا ہے نہ کہ ان کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔
پھر اسی غلط فہمی کی بناپر یہ عجیب وغریب دعوی بھی کربیٹھے کہ ابن زنجویہ نے جن باتوں کو نقل کیا ہے ان باتوں کو امام ابوعبید سے کسی اور نے نقل ہی نہیں کیاہے ۔
ظاہر ہے کہ یہ دعوی بڑا ہی عجیب غریب تھا ، کیوں کہ امام ابو عبید کی مطبوعہ کتاب کا پورا نسخہ ان کے دوسرے شاگرد بغوی نے نقل کیا ہے ۔
یعنی ابن زنجویہ نے امام ابوعبید سے جو باتیں نقل کی ہیں ان میں وہ منفرد نہیں ہیں بلکہ ان تمام باتوں کو بلکہ پوری کتاب کو امام ابوعبید کے دوسرے شاگرد بغوی نے بھی نقل کررکھا ہے ۔
.
ہمارے اس جواب پر موصوف فرماتے ہیں:
((چلئے ایک منٹ کے لئے مان لیتے ہیں کہ جن سینکڑوں روایات کے بارے میں ابو عبید سے روایت کرنے میں ابن زنجویہ کو میں نے متفرد کہا تھا امام بغوی نے ان کی متابعت کی ہے))
.
عرض ہے کہ:
ایک منٹ کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے آپ کو یہ تسلیم کئے بغیر چارہ کار نہیں ہے ۔
قارئین انصاف کریں کہ آفتاب نیم روز کی طرح یہ حقیقت موصوف کے سامنے  عياں ہے کہ ابن زنجویہ کی نقل کردہ باتوں کو ابو عبید کے دوسرے شاگرد بغوی نے بھی نقل کررکھا ہے ، اس حقیقت سے انکار کی جرأت نہ موصوف کو ہے ، نہ دنیا کا کوئی شخص اس حقیقت سے نظریں چراسکتا ہے ۔
لیکن ضد اور غلطی پر اصرار دیکھیں ، فرمایا: ((چلئے ایک منٹ کے لئے مان لیتے )) سبحان اللہ !
.
✿ بہرحال ہمارے اس جواب پر موصوف نے بات کو ابو عبید کے شاگرد ابن  زنجویہ سے ہٹا کر ابو عبید کے دوسرے شاگرد بغوی سے جوڑ دیا ، حالانکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ، موصوف فرماتے ہیں:
((لیکن جن سینکڑوں روایات کی ابن زنجویہ نے روایت نہیں کی ہیں ان میں امام بغوی کا متابع کون ہے؟؟؟ان کی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہے جنہیں ابن زنجویہ نے ابو عبید سے روایت نہیں کی ہے ۔ اور امام ابو عبید سے انہیں بغوی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ہے۔۔۔الخ))
.
عرض ہے کہ :
● اولا:
موصوف نے ابوعبید کے شاگرد ابن زنجویہ سے متعلق جو غلطی کی تھی ، وہی غلطی ابوعبید کے دوسرے شاگرد بغوی سے متعلق کررہے ہیں۔
دراصل یہ دونوں رواۃ امام ابوعبید کی کتاب نقل کررہے ہیں ، بلکہ ابن زنجویہ تو کتاب سے اقتباسات ہی نقل کررہے ہیں ، مستقل کتاب کے بھی راوی نہیں ہیں ، (البتہ یہ ان کے شاگرد بھی ہیں اس لئے بعض مقامات پر تحدیث بھی کرسکتے ہیں)  بہر حال یہ معاملہ کتاب کے نقل کا ہے اور اوپر ہم واضح کرچکے ہیں کہ کتاب کے نقل کا معاملہ الگ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس ہم نے جو سوال اٹھا ہے وہ علی بن الحسن سے ابن زنجویہ کی روایت پر سوال اٹھایا ہے اور یہاں ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے ان کی کوئی کتاب روایت نہیں کی ہے ۔اور دونوں کا فرق ہم پہلے واضح کرچکے ہیں ۔
لہٰذا عام روایات کے نقل کی بحث کو ، کتاب کے نقل پر چسپاں کرنا قیاس مع الفارق ہے ۔
یہ ایسے ہی ہے کہ اگر کسی ضعیف الاسناد حدیث کی سند پر کلام کیا جائے ، تو کوئی شخص اس کے معارضہ میں کسی کتابی نسخہ کی سند پر، مثلا السنہ لعبدللہ کے نسخہ کی سند پر کلام کرنا شروع کردے ۔ظاہر ہے کہ دونوں کا معاملہ الگ الگ ہے ۔
● ثانیا:
کتابی نسخہ کے اس راوی یعنی بغوی پر وہ سوال اٹھا نے کی گنجائش بھی نہیں ہے جو سوال ہم علی بن الحسن سے ابن زنجویہ کی نقل کردہ ایک سو پنچانوے( 195 )روایات پر اٹھا رہے رہیں ۔کیونکہ ہمارا سوال یہ ہے کہ روایات کے اس مجموعہ میں سے ایک روایت کو بھی ابن زنجویہ کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے علی بن الحسن بن شقیق سے روایت نہیں کیا ہے جبکہ علی بن الحسن بن شقیق کے سیکڑوں شاگرد ہیں جنہوں نے ان کی روایات کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے ۔ آخر ایسا کیوں؟
ظاہر ہے کہ یہ  اس بات کی دلیل ہے کہ یہ راوی ”علی بن الحسن بن شقیق“ نہیں بلکہ ”علی بن الحسن النسائی“ ہے ۔
اس کے برعکس بغوی نے ابوعبید سے روایات کا جو مجموعہ نقل کیا ہے اس کا کئی حصہ امام ابوعبید ہی سے ان کے دوسرے شاگردوں نے بھی نقل کررکھا ہے ۔بغوی کے علاوہ دو شاگرد یعنی ابن زنجویہ اور بلاذری کا اعتراف تو خود موصوف نے بھی کیا ہے۔اس کے علاوہ دیگر کتب میں ابو عبید کے اور بھی کئی تلامذہ نے ان کی کتاب والی روایات بیان کی ہیں۔
بالفاظ دیگر ابن زنجویہ کی روایات میں اگر ان کے شیخ علی بن الحسن کو ابن شقیق مان لیں تو ابن زنجویہ کی متابعت ثابت ہی نہیں ہوتی ، جبکہ بغوی کی ابوعبید سے نقل کردہ روایات میں ان کی متابعت ثابت ہے ۔ جیساکہ خود فریق مخالف کو اعتراف ہے ۔
.
✿ غالبا موصوف کو بھی اندازہ تھا کہ بغوی کی متابعت موجود ہے اس لئے آں جناب نے اگلے سوال کو اس سے بھی بڑا بتلا ہے ، فرماتے ہیں:
((لیکن ابھی اس سے بھی بڑا سوال باقی ہے اور امید ہے کہ آپ عاجز نہ ہوں گے اور ضرور جواب دیں گے۔ وہ یہ کہ امام بغوی سے پوری کتاب کو صرف اور صرف ابو علی حامد بن محمد الہروی نے روایت کی ہے ۔۔۔الخ))
.
عرض ہے کہ :
● اولا:
پہلی بات تو یہ کہ ابو علی الھروی یہاں کتاب کا نسخہ روایت کررہے ہیں اور پہلے واضح کیا جاچکا ہے کہ کتاب کے نسخہ کی روایت کا معاملہ الگ ہے ۔جب ایک کتاب لکھ دی جاتی ہے تو وہی اصل مرجع ہوتی ہے ، پھر اس کے بعد اس  کتابی نسخہ کی روایت کا وہ اہمتام نہیں رہتا ہے جو احادیث کی روایت میں رہتا ہے ۔لہذا خلط ملط نہ کریں ۔
● ثانیا:
ابو علی الھروی بھی پوری کتاب کی روایات بیان کرنے میں منفرد ہیں نہیں بلکہ اسی طریق سے اور رواۃ نے بھی ان کی متابعت کی ہے مثلا:
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
وقد كتب إلي علي بن عبد العزيز يحدثني , عن أبي عبيد , عن سعيد بن عفير , عن عبد الله بن لهيعة , عن عبيد الله بن أبي جعفر , عن نافع , عن ابن عمر رضي الله عنهما , قال: رأيت الغنائم تجزأ خمسة أجزاء , ثم تسهم عليهم , فما أصاب لرسول الله صلى الله عليه وسلم فهو له , لا تحتاز[شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 281]
ملاحظہ فرمائیں کہ ابوعلی الھروی نے جو مجموعہ روایات امام بغوی سے نقل کیا ہے ، اسی مجموعہ روایات میں سے یہ روایت امام طحاوی بھی بغوی سے نقل کرکے ان کی متابعت کررہے ہیں۔
اب فریق مخالف سے مطالبہ ہے کہ ابن زنجویہ نے جو مجموعہ روایات  ”علی بن الحسن“ سے روایت کیا ہے ، ان میں سے کوئی ایک روایت بھی کسی اور راوی کے ذریعہ ”علی بن الحسن بن شقیق“سے روایت کرتے ہوئے دکھلائیں ؟ دیدہ باید ۔
.
✿ موصوف ایک مقام پر فرماتے ہیں :
((محترم اس طرح کی سطحی باتوں پر تعاقب کرنے کی مجھ سے امید نہ پالیں))
دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
((میں صرف علمی حدود میں ہی اپنی باتوں کو رکھنا چاہتا ہوں، اس سے نکلنا نہیں چاہتا))
یعنی موصوف یہ تاثر دے رہے ہیں ، جس بات کا جواب ان کی طرف سے نہ آئے ، قارئین یہ  نہ سوچیں کہ ان کے پاس اس کا جواب نہیں ہے ، بلکہ یہ سمجھ لیں کہ یہ غیر علمی اور سطحی بات ہے  ، اور آں جناب اس طرح کی باتوں پر گرفت کرکے اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کریں گے ، لیکن اس پارسائی  میں کتنی سچائی ہے ، یہ جاننے کے لئے موصوف کی یہ حرف پرستی ملاحظہ فرمائیے ، لکھتے ہیں:
((اور آپ نے جو یہ کہا ہے کہ : «حقیقت یہ ہے کہ امام ابو عبید نے اپنی اس کتاب کی ایک روایت نہیں ، بلکہ پوری کی پوری کتاب ہی اپنے شاگردوں کو سنادی ہے»
ذرا قارئین کو ان "شاگردوں" کی لسٹ سے رو برو کروائیں گے۔ یا آپ کی اردو دانی نے آپ کو یہ جملہ حقوق فراہم کر دیا ہے کہ "بغوی" پر" شاگردوں" کا اطلا ق کیا جا سکتا ہے))
.
عرض ہے کہ :
آپ ”شاگردوں“ کا لفظ کاٹ کر اس جگہ ”شاگرد“ لکھ دیجئے ۔
پھر بتائیں کہ اس تبدیلی سے کیا ہمارے جواب یا استدلال پر کوئی فرق پڑتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ بالکل نہیں ہے ۔
پھر یہ حرف پرستی اور اس جیسی بات پر گرفت سخت تعجب انگیز ہے ۔
اور لطف تو یہ ہے کہ یہ مطالبہ خود موصوف کے اصول فہم کے بھی خلاف ہے ، چنانچہ ایک دوسرے مقام پر  موصوف نے یہ لکھ رکھا ہے کہ ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کسی استاذ نے اپنی روایات کو اپنے کسی ایک ہی شاگرد کو سنایا ہو، جیساکہ اگلے اقتباس میں ان کے الفاظ آرہے ہیں۔
.
✿ فرماتے ہیں:
((اگر کتب حدیث میں کسی محدث سے ان کے شاگردوں کی روایات نہ ملیں، صرف ایک شاگرد ہی سے بہت ساری روایات موجود ہوں تو موصوف نے یہ سمجھ لیا ہے کہ انہوں نے اپنے اسی شاگرد کو یہ تمام روایتیں سنا ڈالی ہیں ، بلکہ ان کے مطابق "دوسروں کو اس سے محروم کر دیا ہے"، جیسے کہ اسے منظم پلان کے تحت انجام دیا گیا ہو۔حالانکہ یہ بات اتنی واضح ہے کہ ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔شاگردوں کا اپنے استاد سے روایات کو سننے کے بعد لازم نہیں آتا کہ وہ اسے روایت بھی کریں۔۔۔إلي آخر ماقال وفي نهايتها اتهام فاحش بذكر المستشرقين))
.
عرض ہے کہ :
آپ نے ہماری بات سمجھی ہی نہیں !
اگر بات ویسی ہوتی جیسی آپ نے سمجھی ہے تو ابن زنجویہ کے استاذ ”علی بن الحسن“ سے کوئی بھی مراد لیا جاتا ہم ہر صورت میں اس طریق سے آنی والی  ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ پر سوال اٹھا تے !!  لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ۔
اگر اس سند میں  ”علی بن الحسن“ سے  ”علی بن الحسن النسائی“ کو مراد لیا جائے، تو اس صورت میں بھی ایک استاذ اپنے شاگرد کو ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ سنا رہا ہے ۔ لیکن ہم اس صورت میں کوئی سوال ہرگز نہیں اٹھا تے ، کیونکہ”علی بن الحسن النسائی“ نہ تو مشہور اور ثقہ راوی ہے اور نہ ہی اس کی روایات نقل کرنے والے اس کے سیکڑوں شاگرد ہیں ۔اس لئے اس کی ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“ کوئی ایک ہی راوی نقل کریں ، اور ان میں سے ایک روایت بھی ابن زنجویہ کے علاوہ کوئی دوسرا راوی علی النسائی سے روایت نہ کرے  تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
لیکن جب اس سند میں  ”علی بن الحسن“ سے  ”علی بن الحسن بن شقیق“ کو مراد لیا جائے ، تو چونکہ   ”علی بن الحسن بن شقیق“  کا معاملہ الگ ہے ، یہ نہ صرف ایک مشہور  اور بہت بڑے ثقہ راوی ہیں ، بلکہ ان کے سیکڑوں شاگرد بھی ہیں ، اور یہ سیکڑوں شاگرد ان سے روایات بھی نقل کرتے ہیں ،  ان کے علاقہ کے بہت سارے لوگوں نے ان سے ڈھیر ساری روایات نقل کی ہے ، خود ان کے اپنے بیٹے نے ان سے سیکڑوں روایات نقل کی ہیں ۔
اب غور کریں کہ ایسا مشہور اور ثقہ راوی جس کے نہ صرف سیکڑوں شاگرد ہیں ، بلکہ ان سیکڑوں شاگردوں کی زبان پران کی ڈھیر ساری  روایات گردش بھی کررہی ہیں ۔
ایسے مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی کے بارے میں، جب آپ یہ دعوی کریں گے کہ  ان  سے ہی ”ایک سو پنچانوے (195) روایات“  کو ابن زنجویہ نے نقل کردیا ہے ۔
جو نہ ان کے رشتہ دار ہیں ، نہ ان کے علاقہ کے ہیں ، بلکہ کتب رجال میں یہ بھی نہیں ملتا کہ یہ ان کے شاگر بھی رہے ہوں ۔
ایسی صورت میں یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوگا کہ ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے دیگر سیکڑوں شاگرد ، بلکہ ان کے اپنے علاقہ والے، حتی کہ ان کے بیٹے بھی ان سے مذکورہ روایات میں سے ایک بھی روایت کیوں بیان نہیں کرتے ؟؟؟؟
اور اس کا جواب یہی ہوگا کہ سند میں ”علی بن الحسن بن شقیق“  ہیں ہی نہیں ۔پھر اس جواب پر مذکورہ سوال ختم ہوجائے گا جیساکہ واضح کیا گیا ۔
اس لئے خوب سمجھ لیں کہ یہ سوال فی نفسہ  ایک سو پنچانوے (195) روایات کے انفرادی نقل پر نہیں ،  بلکہ خاص کیفیت والی سند سے اس کے نقل پر اٹھا یا جارہا ہے، اور اس کا معقول جواب بھی دیا جارہا ہے ۔
.
مذکورہ سوال کی تائید میں  ہم نے امام ابوحاتم رحمہ اللہ کا ایک قول پیش کیا تھا ، لیکن موصوف کی فہم وبصیرت اس کی متحمل نہیں ہوسکی ، جس کے آثار موصوف کے ان الفاظ میں رونما ہوئے، فرمایا :
((قطعا ایسے موقع پر یہ سوال ابو حاتم الرازی کی طرف سے نہیں ہوا ہے۔ اور نہ محدثین کی طرف سے ہوتا ہے، ابو حاتم الرازی کا کلام کسی دوسرے موقع کے پس منظر میں ہے اور یہ موقع بالکل اس سے الگ ہے ۔۔۔الخ))
اس کے بعد موصوف نے جو مفصل تقریر کی اس کا ماحصل یہ ہے کہ ”أيمن بن نابل“ کی ایک حدیث تھی جسے  ”أيمن بن نابل“ کےکئی شاگردوں نے بیان کررکھا ہے ، لیکن اسی حدیث کو ”أيمن بن نابل“ کے شاگرد ”قران بن تمام“ نے بیان کیا تو اس حدیث میں تبدیلی کردی ، اسی وجہ سے امام ابوحاتم نے سوال کی کہ :
أين كان أصحاب أيمن بن نابل عن هذا الحديث؟ [علل الحديث لابن أبي حاتم 3/ 303]
.
 ❀ عرض ہے کہ:
●   اولا:
موصوف نے   ”أيمن بن نابل“ کے دیگر شاگردوں کی جس روایت کو پیش کرکے اسے ”قران بن تمام“  کی روایت بھی بتلادیا ہے یہ بالکل غلط بات ہے ، کیونکہ دونوں روایت مستقلا الگ الگ ہے ۔
اگرمعاملہ ایسا ہوتا جیساکہ موصوف نے سمجھ لیا ہے تو امام ابوحاتم رحمہ اللہ ”قران بن تمام“  پر تفرد کا الزام نہیں لگاتے ، بلکہ مخالفت کا الزام لگاتے ۔جیساکہ ان کی پوری کتاب علل اس سے بھری پڑی ہے ۔لیکن امام ابوحاتم رحمہ اللہ کے الفاظ کیا ہیں، انہیں غور سے پڑھیں ، امام ابوحاتم فرماتے ہیں:
”لم يرو هذا الحديث عن أيمن إلا قران، ولا أراه محفوظا، أين كان أصحاب أيمن بن نابل عن هذا الحديث؟! “[علل الحديث لابن أبي حاتم 3/ 303]
یہ امام ابوحاتم کے جواب کے مکمل الفاظ ہیں آگے پیچھے امام ابوحاتم کے جواب کا کوئی اور لفظ نہیں ہے۔
جواب پرمشتمل ان الفاظ پر غور کریں تو اس میں صرف تفرد کا الزام ہے مخالفت کا الزام دور دور تک نہیں ہے۔
اب آئے ہم موصوف کی پیش کردہ دوسری روایت کے متن اور  ”قران بن تمام“ کے متن کا موازنہ کرتے اور دیکھتے ہیں کہ دونوں متن ایک ہی ہے الگ الگ ہے ۔
 . 
”أيمن بن نابل“  کے دیگرشاگردوں کی روایت کا متن یہ ہے:
 ⟐ ” رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم رمى الجمرة يوم النحر، على ناقة له صهباء، لا ضرب ولا طرد، ولا إليك إليك“ [سنن ابن ماجه رقم3035 وغیرہ]
اور ”أيمن بن نابل“ کے شاگرد ”قران بن تمام“  کی روایت کا متن یہ ہے :
 ⟐ ”رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يطوف بالبيت يستلم الحجر بمحجنه“ [علل الحديث لابن أبي حاتم 3/ 302، المعجم الأوسط 8/ 81 وغیرہ]
 . 
ملاحظہ فرمائیں:
پہلی رویت یوم النحر کے دن رمی جمار سے متعلق ہے ۔جبکہ دوسری روایت  طواف سے متعلق ہے ۔اور ان دونوں میں بعد المشرقین ہے۔
لیکن ہمارے مہربان نہ جانے کس فہم و تدبر سے ان دونوں کو ایک ہی روایت باور کراکر ، یہ فرمارہے ہیں کہ ”قران بن تمام“ نے اسی حدیث کو بدل دیاہے ۔
حالانکہ یہ فہم امام ابوحاتم کی اسی کتاب کے ایک حصہ کے محقق اور متخصص بلکہ دکتور کی تشریح کے بھی خلاف ہے تفصیل آگے دیکھیں۔
 . 
 ◈ متخصص کاحوالہ
موصوف اپنامذکورہ فہم پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
((یہ اور اس طرح کی واضح چیزوں پر رد کرنے سے میں پرہیز کر رہا ہوں ۔۔۔ موصوف اسی ایک چیز کو بار بار اپنی ہر تحریر میں دہراتے چلے جاتے ہیں اور ہماری خاموشی کو موقع غنیمت سمجھنے لگتے ہیں۔مثلا عرب محققین اور ان کی تحقیقات سے استفادے کا مسئلہ ۔۔۔))
عرض ہے کہ:
محترم آپ اپنی ہر بات پر وہ بھی بلا حوالہ  متخصصین متخصصین کی رٹ لگائیں گے، تو ہم کو اتنا بھی حق نہیں کہ ہم باقاعدہ حوالوں سے ثابت کردیں کہ آپ خود اسی بحث میں قدم قدم پر متخصصین کی  تحقیقات کو  دیوار پر مارتے جارہے ہیں؟؟؟
 اب جب آپ نے یہاں بھی متخصصین کی راگ چھیڑ دی ہے تو لگے ہاتھوں ابوحاتم کے مذکورہ قول کی تشریح میں بھی ایک متخصص اور دکتور کا حوالہ سنتے چلیں:
بلکہ ہم ایسے متخصص اور دکتور کا حوالہ دیتے ہیں جنہوں نے  امام ابوحاتم کی اس کتاب ہی کے ایک حصہ پر دکتورہ کیا ہے اور اس میں ابوحاتم کا مذکورہ قول بھی شامل ہے ۔
دکتور  تركي بن فهد بن عبد الله الغميز ، امام ابوحاتم کے مذکورہ قول پر فرماتے ہیں:
”ذكر أبو حاتم أن هذا الحديث لم يروه عن أيمن إلا قران ، قال أبو حاتم : ولا أراه محفوظا ، أين كان أصحاب أيمن بن نابل عن هذا الحديث ؟
وهذا الذي ذكره أبو حاتم أمر صحيح ، فقد تفرد قران بن تمام بهذا الحديث ، وليس هو بالمتقن ، بل من الأئمة من يضعفه - كما سبق في ترجمته - فمثله لا يحتمل تفرده . وأيمن بن نابل له أصحاب أثبت من قران بن تمام ، فقد روى عنه : الثوري ، وابن عيينة، وأبو خالد الأحمر ، وأبو عاصم النبيل ، ومعتمر بن سليمان ، وأبو نعيم ، ووكيع وغيرهم كثير .
فلما تفرد عنه قران وحده بهذا الحديث علم أنه غير محفوظ وأنه منكر ، وهذا معنى قول أبي حاتم السابق ، وقد أشار إلى هذا التفرد الطبراني في الأوسط“ [تحقيق جزء من علل أبي حاتم ،تحقیق تركي بن فهد بن عبد الله الغميز  ص: 3]
ملاحظہ فرمائیں :
دکتور موصوف کتنی صراحت اوروضاحت کے ساتھ تشریح کررہے ہیں کہ یہاں معاملہ ”قران بن تمام“ کے تفرد کا ہے ، اور یہی امام ابوحاتم کی مراد ہے ، اور ایسی ہی بات امام طبرانی نے بھی کہی ہے ۔
یہ تحقیق کسی ہندوستانی  کی نہیں، بلکہ ایک عربی متخصص کی ہے، اوروہ بھی دکتور کی، اور وہ بھی ایسے دکتور کی جنہوں نے امام ابوحاتم کے اس طرح کے جوابات پر ہی دکتورہ کیا ہے اور زیربحث جواب پر اپنی تحقیق پیش کی ہے ۔امید ہے کہ عرب متخصص اور دکتور کی یہ تحقیق انیق موصوف کے لئے ضرور قابل اطمینان ہوگی ۔
 . 
●   ثانیا:
اگر اب بھی موصوف اپنے فہم پر اصرار کریں تو عرض ہے کہ گذشتہ پوسٹ نمبر (44) میں ہم  امام  ابوحاتم رحمہ اللہ کا ایک اور قول بھی اسی ضمن میں پیش کرچکے ہیں بلکہ اور بھی کئے محدثین کے اقوال پیش کرچکے ہیں ، مراجعہ فرمالیں۔
✿ ✿ ✿ ✿

No comments:

Post a Comment