{47} حدیث غلمان ، عبارت کا مفہوم بدلنے والا کون؟ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-28

{47} حدیث غلمان ، عبارت کا مفہوم بدلنے والا کون؟

{47} حدیث غلمان ، عبارت کا مفہوم بدلنے والا کون؟
✿ ✿ ✿ ✿
قارئین کرام !
آپ بخوبی واقف ہیں کہ حدیث غلمان کی سند پر بحث کرتے ہوئے پوسٹ نمبر (35) سے ہی میرا یہ سوال شروع ہوگیا ہے ، کہ ابن زنجویہ نے  جس ”علی بن الحسن“ سے ”ایک سو پنچانوے(195) روایات“ نقل کی ہے، اگر یہ ابن زنجویہ کے علاقہ کا”علی بن الحسن النسائی“ نہیں ہے ،بلکہ دوسرے علاقہ کے ”علی بن الحسن بن شقیق“ ہیں ۔
تو سوال یہ کہ ”علی بن الحسن بن شقیق“ تو بہت ہی مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی ہیں ، ان کے سیکڑوں شاگردوں نے ان کی روایات کو دنیا بھر میں پھیلا دیاہے ۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ان سے ابن زنجویہ نے جن ”ایک سو پنچانوے(195) روایات“ کو نقل کیا ہے ، ان میں سے ایک روایت بھی ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے سیکڑوں شاگردوں میں سے کوئی نقل نہیں کرتا ؟ حتی کہ ان کے علاقہ کا بھی کوئی شاگرد نقل نہیں کرتا ؟ بلکہ خود ان کے بیٹے جو ان کی سیکڑوں روایات کے راوی ہیں ، انہوں نے بھی ان سے مذکورہ روایات میں سے کوئی روایت  نقل نہیں کی؟
پھر میں نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ یہاں ابن زنجویہ کا استاذ ”علی بن الحسن“  یہ مشہور راوی ”علی بن الحسن بن شقیق“ نہیں ہیں بلکہ ”علی بن الحسن النسائی“ ہی ہے جو کہ ابن زنجویہ کے علاقہ ہی کا اور ان کےدور ہی کا ہے ، اور اس کے نہ تو بہت زیادہ تلامذہ ہیں اور نہ ہی یہ خود مشہور ہے بلکہ اس کی ثقاہت بھی ثابت نہیں ۔
 . 
 ✿ یعنی ہم نے متعلقہ سند میں ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے وجود کا جن دلائل کی بناپر انکار کیا تھا ان دلائل میں سے ایک دلیل یہ تھی کہ :
ابن زنجویہ نے ان سے دوسو کے قریب روایات نقل کی ہیں ،اور ان میں کوئی ایک روایت بھی ابن زنجویہ کے علاوہ  ”علی بن الحسن بن شقیق“ سے ان کے کسی دوسرے شاگرد نے نقل نہیں کیا ہے ۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہہ لیں کہ یہاں سند میں ”علی بن الحسن بن شقیق“ کو ماننے کی صورت میں ،  ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے سیکڑوں شاگردوں میں سے کوئی بھی شاگرد مذکورہ روایات میں سے ایک روایت کے نقل میں بھی ابن زنجویہ کی متابعت نہیں کرتا ۔
 . 
 ✿  اس کے بعد میں ہم نے ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے شاگردوں کی روایات پائی جانے والی جگہوں کے بارے میں بتایا ہے۔اور اس سلسلے میں :
 ● پہلی بات یہ کہی کہ : ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے کئی شاگردوں نے حدیث و آثار پر کتابیں لکھیں ہیں مثلا امام بخاری ، امام احمد ،اور امام ابن ابی شیبہ رحمہم اللہ۔لیکن ان میں سے کسی نے بھی ابن زنجویہ والی کوئی روایت نقل نہ کی ہے۔
●دوسری بات یہ کہی کہ : بعض کتب کے مصنفین ایک یا دو واسطے سے ”علی بن الحسن بن شقیق“ کی روایات نقل کرتے ہیں ، لیکن ان کتب میں بھی ابن زنجویہ والی کوئی روایت ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے کسی شاگر د کے ذریعہ منقول نہیں ۔
اس دوسری بات میں بھی ہمارا مقصود یہی ہے جیساکہ سیاق وسباق سے بالکل ظاہر ہے کہ ایک واسطے یا دو واسطے والی سند میں بھی ”علی بن الحسن بن شقیق“ سے روایت کرنے والا ابن زنجویہ کے علاوہ  کوئی دوسرا راوی ہونا چاہئے جو ”علی بن الحسن بن شقیق“ کا شاگرد ہو۔
کیونکہ دوسرا ہوگا تبھی تو ابن زنجویہ کی متابعت ثابت ہوگی ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہرجگہ علی بن الحسن بن شقیق کے ”دوسرے شاگرد“کے بیان پر زور دیا ہے اور علی بن الحسن بن شقیق کے ”سیکڑوں شاگردوں“ کی تعبیرات نہ جانے کتنی جگہ استعمال کی ہے ۔
 . 
 ✿ لیکن فریق مخالف  ہماری اس دوسری بات سے متعلق بعض الفاظ کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کررہے ہیں ،مثلا انہوں نے یہ دو اقتباس پیش کیا ہے:
 ◈ «جن محدثین نے ایک یا دو واسطے سے علی بن الحسن بن شقیق کی حدیثیں روایت کی ہیں انہوں نے ان (195) حدیثوں میں سے ایک بھی حدیث روایت کیوں نہ کی» 
◈ «جو ائمہ ایک یا دو واسطے سے علی بن الحسن بن شقیق سے روایت کرتے ہیں ان لوگوں نے ان ایک سو پنچانوے (195) روایات میں سے کسی ایک بھی روایت کو نقل نہ کیا جنہیں ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے نقل کیا»
 . 
میرے یہ الفاظ پیش کرکے موصوف قارئین کو یہ پٹی پڑھا رہے کہ میں نے ان الفاظ میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ ایک یا دو واسطے سے ابن زنجویہ والی روایات کو خود ابن زنجویہ سے بھی کسی نے روایت نہیں کیا ہے ۔ سبحان اللہ !
جبکہ ہماری پوری بحث ابن زنجویہ کی متابعت سے ہے ،  نہ کہ خود ابن زنجویہ سے نقل کرنے پر ۔
محترم !
میں نے ایک یا دو واسطے والی جو بات کہی ہے، اس واسطہ میں”علی بن الحسن بن شقیق“ کا شاگرد ابن زنجویہ کے علاوہ کوئی دوسرا ہونا چاہئے، تبھی متابعت ثابت ہوگی ۔
 ⋆  مثلا جب ہم نے یہ کہا کہ بعض مصنفین نے ایک واسطے سے ”علی بن الحسن بن شقیق“ کی روایت نقل کی ہے، تو مقصود یہ ہے کہ، یہ واسطہ ابن زنجویہ کے علاوہ ”علی بن الحسن بن شقیق“کے کسی دوسرے شاگرد کا ہے ۔یعنی اس نوع کی کتب میں بھی ان زنجویہ کہ متابعت نہیں ملتی ۔
 ⋆  اسی طرح جب ہم نے یہ کہا کہ بعض مصنفین نے دو واسطے سے ”علی بن الحسن بن شقیق“ کی روایت نقل کی ہے تو مقصود یہ ہے کہ یہاں دوسرا واسطہ ابن زنجویہ کے علاوہ ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے کسی دوسرے شاگرد کا ہے۔یعنی اس نوع کی کتب میں بھی ابن زنجویہ کی متابعت نہیں ملتی۔
بہرحال غور کریں تو ہماری پوری بات ابن زنجویہ کی متابعت ہی سے متعلق ہے ۔اور اسی سلسلے میں ساری باتیں کہی گئی ہیں ۔
لیکن موصوف سیاق و سباق سے ہماری بات کاٹ کر اب قارئین کو یہ بتارہے ہیں کہ ہم نے ان سے کہیں پر یہ مطالبہ بھی کردیا ہے یا اس بات کا انکار کیا ہے کہ ابن زنجویہ کی روایت کو خود ابن زنجویہ سے بھی کسی نے نقل نہیں کیا ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون !
 . 
 ✿ قارئین کرام !
ایک پل کے لئے غور کریں کہ ہم یہ انکار کیوں کرنے لگے کہ ابن زنجویہ سے بھی ان روایات کو کسی نے روایت نہ کیا ؟؟
آخر ہماری متابعت والی پوری بحث سے اس بات کا کیا تعلق ؟؟
اگر مان لیں کہ ایک نہیں دسیوں جگہ خود ”ابن زنجویہ عن علی بن الحسن“ کی سند سے ابن زنجویہ کی  روایات کو نقل کرنے والے، ابن زنجویہ کے دیگر کئی شاگرد مل بھی گئے ،تو کیا یہ بات ہمارے اس دعوی کے خلاف ہوجائے گی کہ:
 ابن زنجویہ کے علاوہ ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے کسی بھی دوسرے شاگرد نے  ابن زنجویہ کی نقل کردہ روایات میں سے ایک روایت بھی ”علی بن الحسن بن شقیق“ سے بیان نہیں کیا ہے ۔
 . 
بہرحال ہماری پوری بحث میں ابن زنجویہ کی متابعت کا انکار ہے ، اور فریق مخالف سے اسی متابعت کو پیش کرنے کا مطالبہ ہے ۔
فریق مخالف یہ سمجھ رہے تھے کہ کتابی نسخہ کی سند سے متابعت نہیں پیش کی جاسکتی ، پھر اچانک میرے ایک جواب پر ان کو لگا کہ ہمارے سامنے تو الزاما وہ کتابی نسخہ کی سند کو بھی  متابعت میں پیش کرسکتے ہیں ، سو انہوں نے جھٹ سے ابن زنجویہ کی کتاب کے نسخہ والی سند ہی کو ہماری طرف سے طلب متابعت کے جواب میں پیش کرڈالا ۔
 . 
 ✿ اور جب ہم نے گرفت کی کہ اس نسخہ والی سند میں بھی متابعت موجود نہیں ہے  تو لوگوں کے سامنے ہمارے مطالبہ متابعت  کا مفہوم ہی بدل ڈالا ۔ 
ع -  جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے !
قارئین کرام !
پوسٹ نمبر (35) سے لیکر اب تک کی میری ساری بحث پڑھ لیں اور انصاف سے فیصلہ کریں کہ کیا اس پوری بحث میں ابن زنجویہ کی متابعت کے علاوہ کوئی اور بات بھی ہم نے کہی ہے ؟؟
اگر واقعی ہماری طرف سے  واسطے والی بات  کا مفہوم وہی ہے جو آج موصوف پیش کررہے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ موصوف نے شروع ہی میں اس لایعنی مطالبہ پر یہ گرفت کیوں نہ کی، کہ متابعت کی بحث میں ایسا مطالبہ کیوں کیا جارہاہے ؟
موصوف عالی اور نازل سند سکھانے بیٹھ جاتے ہیں ، مجہول اور ضعیف کا فرق بتانے لگتے ہیں ، لیکن متابعت کی بحث میں اتنی لا یعنی بات ان کے سامنے تھی ، اس پر آں جناب نے کوئی گرفت نہ کی  ،کہ اس طرح کے مطالبہ سے متابعت کا کیا تعلق ہے ؟؟
بلکہ گرفت کرنا تو دور کی بات موصوف بڑے شوق سے یہ مطالبہ پورا کرنے بھی بیٹھ گئے اور جب ہم نے یہ واضح کیا کہ جناب آپ نے جو کچھ پیش کیا ہے اس کا ہمارے مطالبہ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس میں متابعت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ، تو آپ نے ہمارے مطالبہ ہی کو الگ مفہوم پہنا ڈالا۔سبحان اللہ ۔
اور قارئین کے سامنے اس بات پر ماتم کیا کہ میں نے آپ کی بات مکمل نقل نہ کی !
محترم جس بات کو میں نے نقل نہیں کیا وہ میری اپنی وہی بات تھی جس کی وضاحت اوپرہوچکی ہے ، اس کے مذکورہ مفہوم کی روشنی میں اس کے بغیر آپ کی بات نقل کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
بلکہ آپ جو الزام مجھے دے رہے ہیں خود ہی اس کے مرتکب ہیں ۔
کیونکہ آپ نے میری دوسطری بات کو سیاق کے بغیر نقل کیا ہے، اوراب اس کا غلط مفہوم عام کررہے ہیں ۔
میری ان دو سطروں کو کوئی بھی انصاف پسند شخص میری تحریر کے مکمل سیاق سے جوڑ کر دیکھےگا تو یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا ، کہ ان سطور میں بھی ابن زنجویہ کی متابعت ہی کا مطالبہ ہے۔
 . 
 ✿ رہی  بات یہ کہ جب موصوف نے امام ابوعبید سے ابن زنجویہ کی طرف سے نقل کردہ سیکڑوں روایات میں تفرد کا دعوی کیا ، تو ہم نے ابن زنجویہ کی متابعت میں بغوی کا نام کیوں پیش کیا جو کہ ابو عبید سے ان کی احادیث کے شفوی راوی نہیں بلکہ ان کی کتاب کے نسخہ کے راوی ہیں ۔
تو عرض ہے کہ :
اس پر ایک دوسرے پہلو سے تفصیل پیش کی جاسکتی ہے لیکن ہم فی الحال اس سے صرف نظر کرتے ہوئے اتنا عرض کریں گے کہ :
موصوف نے بھی ابن زنجویہ کی جن روایات کا حوالہ دیا ہے وہ ایسی روایات نہیں ہیں جن کو ابن زنجویہ نے امام ابوعبید سے تحدیثا نقل کیا ہو ۔ بلکہ یہ ابو عبید کی کتاب سے نقل کردہ اقتباسات ہیں ، جیساکہ  ابن زنجویہ کے صیغہ نقل سے ظاہر ہے ۔ چنانچہ ابن زنجویہ نے یہ روایات”حدثنا ابو عبید“ کہہ کر نہیں بلکہ ”قال ابوعبید“ کہہ کر نقل کی ہیں ۔
بعض مقامات پر صیغہ تحدیث بھی ہے لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے ، اور موصوف نے معارضہ میں ان چند روایات کو نہیں بلکہ ان سیکڑوں روایات کا حوالہ دیا ہے جو ابن زنجویہ کی کتاب میں ”قال ابوعبید“ کے صیغے سے ہیں ۔
یعنی ان کی محولہ روایات کتاب سے نقل کرکے درج کی گئی ہیں ، نہ کہ تحدیثا روایت کرکے ۔
لہٰذا جب یہ کتاب سے نقل کا معاملہ ہے ، تو اس طرح کی روایات میں تفرد کے دعوی پر کتاب کے راوی کو بدرجہ اولی پیش کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اس پر ایک اور لحاظ سے بھی بحث ہوسکتی ہے اور ممکن ہے آگے ہم یہ بحث بھی پیش کریں ۔
لیکن بہرحال یہ الگ مسئلہ ہے کہ کتابی نسخہ کی سند سے متابعت پیش کی جاسکتی ہے یا نہیں۔
یہاں مسئلہ نفس متابعت کا ہے ، موصوف نے گرچہ ہمارے مطالبہ پر کتابی نسخہ کی سند ہی پیش کی ہے، لیکن یہ سند بھی اپنے آپ میں  وہ متابعت نہیں رکھتی جس کامطالبہ ہم کرتے کرتے تھک چکے ہیں ۔
لہٰذا ہماری طرف سے طلب متابعت پر ایسی سند  پیش کرنا جس میں متابعت کا دور دور تک نام ونشان نہ ہو ۔
اور گرفت کرنے پر ہمارے مطالبہ کا مفہوم ہی کر بدل ڈالنا انتہائی شرمناک جسارت ہے ۔
اس تفصیل سے قارئین بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ دوسرے کی عبارت کا مفہوم بدلنے کا مرتکب کون ہواہے ؟؟
●  ●  ●  ● 
اور رہی بات گالی دینے کی تو  خوبصورت اور مہذب گالیاں آں جناب نے ہی دی ہیں ۔
مشرکین سے تشبیہ ، تحریف کا الزام ، اوراپنے فہم کو متخصصین کا فہم اورمخالف کے فہم کو مشرکین بلکہ مستشرقین کا فہم کا بتلانا !
یہ سب کیا ہے ؟؟
ظاہر ہے کہ جب آپ دوسروں کے فہم پر اس قدر نکتہ چینی کریں گے کہ اسے مشرکین اور مستشرقین سے لے جا کر ملادیں گے تو آپ کے فہم کا حدود اربعہ تو ہم بتائیں گے ہی ۔
اگر اس برداشت کی طاقت نہیں ہے تو پہلے اپنی زبان پر قابو رکھنا ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔)

No comments:

Post a Comment