{23} فطرہ میں قیمت ونقد دینے کاثبوت تابعین کرام رحمہم اللہ سے (بارہویں قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-04

{23} فطرہ میں قیمت ونقد دینے کاثبوت تابعین کرام رحمہم اللہ سے (بارہویں قسط)

{23} فطرہ میں قیمت ونقد دینے کاثبوت تابعین کرام رحمہم اللہ سے   (بارہویں قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
قارئین کرام !
آپ نے گذشتہ ساتویں قسط سے لیکر گیارہویں قسط پڑھ لی ہے ، ان میں ٹھوس دلائل سے یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فطرہ میں نقد دینا ثابت ہے ، یادرہے کہ صحابہ کے اس موقف وعمل کا معارضہ کسی بھی دوسرے صحابی سے ثابت نہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ عہد صحابہ میں اس کے جواز میں کوئی دو رائے نہیں تھی ، ان شاء اللہ تابعین کے آثار پیش کرنے کے بعد ہم عہد صحابہ وتابعین میں اس مسئلہ کے اس اتفاقی پہلو پر تفصیل سے بات کریں گے ، لیکن اس سے پہلے ہم تابعین عظام سے فطرہ میں نقد کے جواز کا ثبوت پیش کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں:
تابعین سے  فطرہ میں نقد کے جواز پر درج ذیل  روایات صحیح سند سے ملتی ہیں :
.
✿  (الف) : ایک روایت تو عظیم تابعی ابو اسحاق السبعی رحمہ اللہ والی ہے جس میں صحابہ کے ساتھ تابعین بھی شامل ہیں، یہ روایت پوسٹ نمبر  (21) یعنی گیارہویں قسط  میں تفصیل سے پیش کی جاچکی ہے ، نئے قارین مراجعہ فرمالیں۔
.
✿ (ب) دوسری روایت بھی عظیم تابعی حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں:
”لا بأس أن تعطى الدراهم في صدقة الفطر“
”صدقہ الفطر میں درہم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 293 وإسناده صحيح]
.
✿ (ج) تیسری روایت نہ صرف ایک عظیم المرتبت تابعی بلکہ امیر المؤمنین عمربن العزیز رحمہ اللہ کی ہے کہ انہوں نے  فطرہ میں نقد کے جواز کا فتوی دیا اور باقاعدہ سرکاری طور پر فرمان جاری کردیا کہ فطرہ میں طعام وصول كيا جائے یا اس کی جگہ اس کے مساوی نقد (درہم) وصول کیا جائے ۔[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 293 ، وإسناده صحيح]
.
یہ آخری  روایت بہت زبردست ہے اور تابعین کے اتفاقی موقف کی نمائندگی کرتی ہے اسی لئے بعض اس روایت کو لیکر کافی پریشان ہیں ، اور باجود اس کے کہ اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کی کوئی دلیل نہ پاسکے اور نہ ہی اس کی جرأت کرسکے، پھر بھی محض اپنے اوہام اور ظن وتخمین کے سہارے اس کی استنادی حالت پر گرد ڈالنے کے نا کام کوشش کی ہے ، اس لئے ہم یہ گرد اچھی طرح صاف کرکے آگے بڑھیں گے ۔
.
✿ موصوف نے سب سے پہلے نقد دینے والی روایت مع سند اس طرح  پیش کی ہے:
((حدثنا أبو أسامة، عن ابن عون، قال: سمعت كتاب عمر بن عبد العزيز يقرأ إلى عدي بالبصرة «يؤخذ من أهل الديوان من أعطياتهم، عن كل إنسان نصف درهم))
اس کے بعد اسی سند سے عمر بن عبد العزيز ہی کے حوالے سے طعام دینے والی روایت مع سند اس طرح پیش کی ہے:
((حدثنا أبو أسامة، عن ابن عون، قال: سمعت كتاب عمر بن عبد العزيز إلى عدي يقرأ بالبصرة «في صدقة رمضان على كل صغير وكبير، حر أو عبد، ذكر أو أنثى نصف صاع من بر، أو صاع من تمر))
اس کے بعد کیا فرماتے ہیں قارئین خود پڑھیں اور سر دھنیں ، موصوف لکھتے ہیں:
((دونوں جگہوں پر سند ایک ہی ہے لیکن پہلے اثر میں جہاں بطور درہم اہل بصرہ سے فطرانہ وصولنے کا فرمان ہے وہیں دوسر ے اثر میں بطور غلہ ان سے فطرانہ وصولنے کا فرمان ہے۔ 
اب یہ کس وجہ سے ہے اس کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ کیا انہوں نے اپنے دور خلافت کے دو الگ الگ سالوں میں الگ الگ فرمان جاری کیا تھا یا راوی حدیث سے اسے بیان کرنے میں کہیں چوک ہوئی ہےاسے دقت کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے لئے وقت درکار ہے۔۔۔ بہر حال اس کی حقیقت ان شاء اللہ بعد میں پتہ چل جائے گی))
قارئین دیکھا آپ نے ! یہ ہے جناب کا اصول تحقیق سبحان اللہ !
سب سے پہلے تو عرض کردوں کہ آپ نے دونوں روایت کی سند بھی غلط سلط نقل کردی ہے ۔محترم سند میں ”ابن عون“ نہیں بلکہ اس کی جگہ ”عوف“  کا نام ہے ، یہ کتب ستہ کے راوی عوف بن أبى جميلة البصری ہیں ۔ مصنف ابن ابی شیبہ کے بعض مطبوعہ نسخوں میں بے شک اس مقام پر  ”ابن عون“ درج ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ مصنف ابن ابی شبیہ کے دیگر محققین نے یہاں عوف کا نام ہی رکھاہے ، مثلا دیکھے:
 ● مصنف ابن أبي شيبة 4/ 257  تحقیق : أسامة إبراهيم ، مطبوعیہ دار الفاروق۔
 ● مصنف بن أبي شيبة  6/ 507 ، تحقیق محمد عوامہ ، مطبوعہ دار القبلة۔
اورانہیں محققین کی تحقیق صحیح ہے ۔اس کے بہت سارے دلائل اور قرائن ہیں لیکن سب سے زبردست دلیل یہ ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کے علاوہ یہی روایت امام ابن زنجویہ نے بھی روایت کی ہے اور ان کی سند میں ”عوف“ ہی ہے ۔ دیکھئے :[الأموال لابن زنجويه 3/ 1268 وھو حسن با المتابعات والشواھد]
.
✿ اس وضاحت کے بعد آپ کے اشکال کی طرف آتے ہیں۔
آپ کا فرمانا ہے کہ ایک ہی سند سے یہ روایت دو جگہ پر ہے، ایک جگہ طعام کا ذکر ہے اور دوسری جگہ نقد کا ۔
عرض ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی چیز دوسرے کے منافی ہے ہی نہیں ۔پھر بلاوجہ ایک کو دوسرے سے ٹکرا دینا  چہ معنی دارد؟؟؟
محترم بات سمجھنے کی کوشش کریں  عمربن عبدالعزیر رحمہ اللہ کے فرمان میں دونوں چیزیں موجود تھی، عوف البصری  نے کبھی ایک چیز کو بیان کیا اور کبھی دوسری چیز کو.
یہ بات ایک عام طالب علم کے لئے بھی بہت واضح ہے لیکن چونکہ آپ کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے ، اس لئے آئیے ہم آپ کی خاطر ایک ایسی روایت پیش کرتے ہیں جس میں ایک ہی ساتھ مذکورہ دونوں چیزوں کا ذکر ہے امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا وكيع، عن قرة، قال: جاءنا كتاب عمر بن عبد العزيز في صدقة الفطر: نصف صاع عن كل إنسان، أو قيمته نصف درهم“
”قرۃ بن خالد البصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا پیغام صدقہ الفطر کے سلسلے میں یہ آیا کہ نصف صاع (گیہوں) ہر انسان کی طرف سے یا اس کی قیمت نصف درہم وصول کی جائے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 293 واسنادہ صحیح]
ملاحظہ فرمایا آپ نے !
عوف البصری نے طعام اور نقد کو الگ الگ بیان کیا ہے ، لیکن قرۃ بن خالد کی روایت دیکھئے یہ بھی بصری ہیں اور یہ طعام اور نقد دونوں کا ایک ساتھ تذکرہ کررہے ہیں ۔
✿ جواب شکوہ :
آپ  نے عوف البصری کی دو الگ الگ روایات پیش کرنے کے بعد یہ بھی شکوہ کیا ہے کہ :
((جنہوں نے اس سے استدلال کیا ہوا ہے ان کی ذمہ داری تھی کہ اس دوسرے فرمان کی تحقیق کے ساتھ اس اثر کو پیش کرتے))
محترم آپنے ہمارے رسالہ میں نقل کردہ روایت پر غور نہیں کیا ، اگر غور کرلیتے تو اس شکوہ کی بھی گنجائش نہیں تھی کیونکہ ہم نے مصنف ابن ابی شیبہ سے وہی روایت مفہومی ترجمہ کے ساتھ درج کیا ہے جس میں ایک ساتھ طعام اور نقد دونوں کا ذکر ہے ۔دیکھئے ہمارا رسالہ [صدقہ الفطر میں نقد ورقم دینے کا حکم :ص 49] 
حالانکہ اگریہ جامع روایت درج کرنے کے بجائے صرف نقد والی روایت ہی درج کی گئی ہوتی تو بھی اس پر کسی اشکال کی گنجائش نہ تھی ، جیسا کہ بالا تفصیل سے واضح ہے۔
.
 ✿ استنادی حالت پر اشکال کا جواب:
گذشتہ سطور  میں ہم نے متن کے اعتبار سے واضح کردیا کہ عوف البصری کی دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔یہ محض آں جناب کا وہم ہے ۔
 اب موصوف نے اس موہوم تضاد کو بنیاد بناکر  نقد والی روایت کی استنادی حالت پر جو شک ظاہر کیا ہے آئیے اس کے تعلق بھی ہم پوری تسلی کرادیتے ہیں ۔
موصوف نے یہ مقدمہ قائم کیا کہ طعام اور نقد دونوں روایات ایک ہی سند سے ہیں۔
پھر اس مقدمہ کو بنیاد بنا کر یہ امید لگا بیٹھے کہ شاید اس سند سے طعام والا متن ہی منقول ہے اور نقد والا متن بعد کے کسی راوی کی غلطی ہے۔
محترم اچھی طرح سے نوٹ کرلیں کہ ، آپ کے اس مقدمہ کو اصل بناکر اس روایت کے جملہ طرق واسانید کو جمع کیا جائے ، تو نقد والے متن نہیں بلکہ خود طعام والے متن ہی سے ہاتھ دھونا پڑے گا !!
کیونکہ نقد  والی روایت کو عوف البصری سے مصنف ابن ابی شیبہ کے مطابق صرف ”أبو أسامہ“ نے ہی روایت نہیں کیا ہے ، بلکہ ایک اور زبردست ثقہ امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے بھی ”أبو أسامہ“ کی متابعت کرتے ہوئے عوف البصری سے یہی نقد والی روایت بیان کررکھی ہے ، ملاحظہ ہو:
● امام ابن زنجویہ المتوفی (251) نے کہا:
” ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن عوف قال: قرئ علينا كتاب عمر بن عبد العزيز في صدقة رمضان: «واجعل على أهل الديوان نصف درهم من كل إنسان، يؤخذ من أعطياتهم“ [الأموال لابن زنجويه 3/ 1268وھو حسن بالمتابعات والشواھد]
صرف اسی ایک دلیل سے آپ کا مذکورہ مقدمہ بالکل بے معنی ہوکررہ جاتا ہے۔
لیکن بات یہی ختم نہیں ہو جاتی ہے ، بلکہ عوف البصری کے شاگرد کی متابعت کے ساتھ خود عوف البصری کی بھی چار متابعات موجود ہیں۔ 
چنانچہ نقد والی روایت کو  عوف البصری سمیت کل پانچ رواۃ نے متفقہ طور پر عمربن عبدالعزیز کے حوالے بیان کیا ہے ، ذیل میں ان سب کی مرویات مع سند ومتن ملاحظ فرمائیں:
❀ پہلے راوی :عوف البصری کی روایت:
”حدثنا أبو أسامة، عن عوف، قال: سمعت كتاب عمر بن عبد العزيز يقرأ إلى عدي بالبصرة: يؤخذ من أهل الديوان من أعطياتهم، عن كل إنسان نصف درهم“ [مصنف ابن أبي شيبة/الفاروق 4/ 257 وإسناده صحيح ]
❀ دوسرے روای : معمر بن راشد نزیل یمن کی روایت :
”عبد الرزاق، عن معمر، قال: كتب عمر بن عبد العزيز على كل اثنين درهم، يعني زكاة الفطر“ [المصنف لعبد الرزاق الصنعاني، دار التأصيل: 3/ 235 ،  وإسناده صحيح ]
❀ تیسرے راوی : قرۃ بن خالد البصری کی روایت:
”حدثنا وكيع، عن قرة، قال: جاءنا كتاب عمر بن عبد العزيز في صدقة الفطر: نصف صاع عن كل إنسان، أو قيمته نصف درهم“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 293 ،وإسناده صحيح ]
❀ چوتھے راوی قتادہ البصری کی روایت :
”أخبرنا أحمد بن عبد الله بن يونس قال: حدثنا أبو عوانة , عن قتادة قال: كان عمر بن عبد العزيز يأخذ من أهل الديوان صدقة الفطر نصف درهم“[الطبقات الكبرى ط دار صادر 5/ 382،وإسناده صحيح ]
❀ پانچویں راوی: يزيد بن أبي حبيب المصری کی روایت:
 ثنا أبو الأسود، ثنا ابن لهيعة، عن يزيد بن أبي حبيب، أن عمر بن عبد العزيز كتب: يؤخذ من عطاء كل رجل نصف درهم زكاة الفطر " قال يزيد: فهم حتى الآن يأخذونهم به [الأموال لابن زنجويه 3/ 1267، وإسناده صحيح رواية أبي الإسود عن ابن لهيعه صحيح انظر: المعرفة للفسوي: 2/ 184 أيضا 434، و ابن لهيعه بريء من التدليس انظر:الإمام عبد الله بن لهيعة : ص75، معجم المدلسين ص278 ، و مع ذلك له شواهد]
.
✿ قارئین انصاف کریں !
پانچ ثقہ اور جلیل القدر رواۃ متفق اللسان ہو کر عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے حوالے سے نقد والی روایت نقل کررہے ہیں اور ہمارے مہربان صرف مصنف ابن ابی شیبہ کی، وہ بھی غلط سلط سنددکھا کر قارئین کو یہ امید دلا رہے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہوسکتی ہے ۔
واضح رہے کہ امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) اس نقد والی روایت کی تصحیح بھی کرچکے ہیں دیکھیں :[المحلی لابن حزم 4/ 254 ] 
اب غور کیا جائے جس روایت کو محدثین صحیح بھی کہہ چکے ہیں اور اس کے اتنے سارے صحیح طرق بھی موجود ہیں ، کیا ایسی روایت کی صرف ایک سند دکھا کر قارئین کو شک میں ڈالنا اور اس کی استنادی حالت پر گرد اچھالنا کسی سنجیدہ باحث کا کام ہوسکتا ہے؟
اورلطف تو یہ ہے کہ موصوف نے جس وہمی مقدمہ کی بنیاد پر عوف البصری کی نقد والی روایت پر گرد اچھالنے کی کوشش کی ہے ، اب خود اسی مقدمہ سے عوف البصری کی طعام والی روایت ہی گرد آلود ہوچکی ہے ! 
 موصوف کے تشکیکی تیور سے قارئین بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر انہیں عوف البصری کی نقد والی روایت کے بجائے ان کی طعام والی روایت سے متعلق اتنے سارے صحیح طرق مل جاتے تو موصف نقد والی روایت کا نہ جانے کیا حال کرتے ! حالانکہ اب معاملہ بالکل الٹ  گیا ہے!! اور ان کے انصاف کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے ۔
بہرحال ہماری نظر میں عوف البصری کی دونوں روایت صحیح ہے، دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ، تاہم اب بھی جن کی نگاہیں تضاد ہی دیکھ رہی ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ عوف کی طعام والی روایت سے دست بردار ہوجائیں ، کیونکہ ہم نے نقد والی روایت کے پانچ صحیح طرق پیش کردئے ہیں ۔ والحمدللہ رب العالمین۔
.
✿ موصوف نے ایک نکتہ آفرینی یہ بھی کی ہے کہ عمربن العزیز رحمہ اللہ کا یہ فرمان صرف اہل کوفہ وبصرہ کے لئے تھا ۔
اس پر بہت کچھ کہا جاسکتاہے لیکن سردست اتنا ہی عرض کریں گے کہ اوپر عمربن العزیر رحمہ اللہ کے اس فرمان سے متعلق پانچ رواۃ کا بیان نقل کیا جاچکا ہے ان میں سے يزيد بن أبي حبيب رحمہ اللہ مصر کے رہنے والے ہیں اور عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا یہی فرمان نقل کررہے ہیں ، نیز معمر بن راشد گرچہ اصلا بصری ہیں لیکن یہ یمن میں سکونت پذیر تھے ۔ان دونوں کی روایات بتلاتی ہے کہ عمر بن عبدالعزیر رحمہ اللہ کا یہ فرمان سب کے لئے تھا ۔
  علاوہ بریں اگر فرض بھی کر لیں کہ یہ فرمان صرف اہل کوفہ وبصرہ کے لئے تھا تو بھی اس جلیل القدر تابعی کی طرف اس کا جواز تو ثابت ہوتا ہے ، نیز اس فرمان پرکسی بھی علمی حلقہ سے رد و قدح کا منقول نہ ہونا صاف بتلاتا ہےکہ تابعین کے یہاں اس کا جواز مسلم تھا ۔ 
اس قسط سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تابعین رحمہ اللہ نے نقد کے جواز کا فتوی دیا ہے اور اس پران کا عمل بھی رہاہے ، تابعین کے اس دور میں  نقد کے جواز کے خلاف کسی بھی دوسرے تابعی کا فتوی نہیں ملتا جس کا مطلب یہی ہے کہ صحابہ کی طرح تابعین کے یہاں بھی اس کے جواز میں کوئی دو رائے نہیں تھی ، اب ہم آگے صحابہ وتابعین کے اس اتفاقی پہلو پر بات کریں گے ان شاء اللہ ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment