{25} فطرہ میں قیمت ونقد کے جواز پر صحابہ و تابعین کے اجماع کی وضاحت اور اشکالات کا ازالہ (چودہویں قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-06

{25} فطرہ میں قیمت ونقد کے جواز پر صحابہ و تابعین کے اجماع کی وضاحت اور اشکالات کا ازالہ (چودہویں قسط)

{25} فطرہ میں قیمت ونقد کے جواز پر صحابہ و تابعین کے اجماع کی وضاحت اور اشکالات کا ازالہ (چودہویں قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
قارئین کرام ! گذشتہ قسطوں میں آپ نے پڑھ لیا ہے کہ فطرہ میں نقد کا جواز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ، اور اس کے ناجائز ہونے کا فتوی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے بھی نہیں دیا ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد عہد تابعین کا بھی یہی حال رہا ہے ۔ متعدد تابعین نے فطرہ میں نقد کے جواز کا فتوی دیا ہے یا اس پر عمل کیا ہے، لیکن کسی نے اس کے عدم جواز کی بات نہیں کی ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ جب صحابہ وتابعین کی ایک جماعت  سے فطرہ میں نقدی کے  جواز کا قول موجود ہے ، اور اس کے معارض اس دور میں کسی بھی صحابی یا تابعی کا فتوی نہیں پایا جاتا تو اس جواز پر اس دور کے صحابہ وتابعین کے اجماع کا دعوی کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ اور کیا اس اجماع کو کسی نے نقل بھی کیا ہے یا نہیں ؟
تو اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم اجماع کی دو اہم قسموں کا تعارف پیش کردینا ضروی سمجھتے ہیں ۔
.
✿  پہلی قسم :  اجماع قطعی :
اس سے مراد وہ اجماع ہے جس کا انعقاد  تواتر اور صراحت  کے ساتھ ہوا ہو، اور یہ اس قدر عام ہو کہ  کسی  بھی عالم سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے تو ایک ہی جواب ملے ۔
اس طرح کا اجماع قطعی حجت ہے ، اس کی حجیت پر تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے ، اس کا ماننا سب پر لازم اور ضروی ہے ، اگر کوئی اس سے انکار کرے تو وہ گمراہ ہے اور سخت سزا کا مستحق ہے ۔
✿  دوسری قسم : اجماع ظنی :
اس سے مراد ایسا اجماع ہے جس کا انعقاد تواتر اور صراحت کے ساتھ نہ ہوا ہو ، اور اس کے وقوع پر کوئی قطعی دلیل موجود نہ ہو۔
اس طرح کے  اجماع کے امکان وقوع  میں بھی اختلاف ہے ۔اوراس کی حجیت میں بھی اختلاف ہے ۔
اور راجح بات یہ ہے کہ یہ اجماع ممکن بھی ہے اور حجت بھی ہے لیکن امکان اور حجیت دونوں اعتبار سے اس کا معاملہ اجماع قطعی جیسانہیں ہے۔
⟐ جہاں تک امکان وقوع کی بات ہے تو اس سلسلے میں سب سے معتدل قول ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے ، کہ صحابہ کی جماعت میں اس طرح کے اجماع کا انعقاد تو بہت ممکن ہے، لیکن صحابہ کے بعد کےادوار میں اس طرح کے اجماع کا انعقاد کافی مشکل ہے کیونکہ عہد صحابہ کے بعد زمین کے بہت سارے حصوں میں علماء ومجتہدین وجود میں آگئے اور جس طرح صحابہ کے اقوال وفتاوی کو جمع کرنے اورانہیں بیان کرنے کا اہتمام تھا ، بعد کے علماء و مجتہدین کے ساتھ یہ معاملہ نہیں رہا ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ساتھ یہی موقف امام ابن حبان ، امام ابن حزم ، علامہ رازی  وغیرہم  کا بھی ہے ، امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ظاہر ہوتا ہے۔ بلکہ امام احمد رحمہ اللہ تو اس طرح کے معاملے میں لفظ اجماع کے استعمال ہی کو درست نہیں جانتے ان کا کہنا ہے اس معاملے میں صرف اختلاف سے لاعلمی کی صراحت کی جائے اور اجماع کا لفظ استعمال نہ کیا جائے ۔
نیز  ماضی کے کسی دور میں کسی مسئلہ سے متعلق اس وقت کے مختلف علماء کے اقوال کو جمع کیا جائے اور کوئی اختلاف سامنے نہ آئے  تو بعض اسے ”اجماع استقرائی“ سے تعبیر کرتے ہیں ۔
اورا گر ماضی میں ایک دو عالم کا کوئی فتوی ملے اور پھر اس دور میں ان سے اختلاف کرنے والا کوئی نہ ملے تو بعض علماء اسے ”اجماع سکوتی“ سے تعبیرکرتے ہیں ۔
اجماع کی یہ ساری قسمیں اجماع ظنی ہی کے قبیل سے ہیں ۔
⟐ رہی بات اجماع ظنی کی حجیت کے اعتبار سے تو یہ اس درجہ میں حجت ہے کہ کسی مجتہد کو اس پر اطمینان ہو تو اس پر اعتماد کرسکتا ہے ، اس کے سہارے فتوی دے سکتا ہے ، بالخصوص اگر اس کا تعلق صحابہ وتابعین سے ہو تو نصوص کے فہم میں اسے ترجیح دینا ہی اقرب الصواب ہے ۔ لیکن بہرحال یہ ایسی حجت نہیں ہے کہ دوسروں پر اسے مسلط کیا جاسکے اور دوسرں کے لئے بھی اسے لازم الاتباع قراردیاجاسکے ۔
اجماع کی یہ دو قسمیں قطعی اور ظنی بہت سے علماء نے بیان کی ہیں ، اگر ہم تفصیل میں جائیں اور ہرپہلو سے متعلق اہل علم کی عبارتیں نقل کریں تو بات بہت دور تک چلی جائے گی اس لئے ہم محض تلخیص ہی ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں شائقین اس سے متعلق اہل علم کے اقوال بالخصوص اجماع پر لکھی گئی کتب کا مراجعہ فرمائیں۔ان شاء اللہ کسی الگ مضمون میں اجماع سے متعلق تفصیل سے لکھا جائے گا ۔یسر اللہ لنا ذلک
.
✿ اجماع کی مذکورہ دونوں قسموں کو اچھی طرح ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ مذہبی برادری ان دونوں کو بہت خلط ملط کرتی ہے ۔
یادرہے کہ مذہبی برادری میں جس اجماع کی دن رات گردان ہوتی ہے وہ ننوانے فی صد دوسری قسم ہی کا اجماع یعنی اجماع ظنی ہی ہوتا ہے ، لیکن مصیبت یہ ہے کہ یہ لوگ دعوی تو دوسری قسم والے اجماع (اجماع ظنی) کا کرتے ہیں ، لیکن اسے پہلے قسم والے اجماع (اجماع قطعی) کی حیثیت دے بیٹھتے ہیں ۔
● بلکہ بعض مذہبی علماء کے دعوائے اجماع کا حال تو یہ ہے کہ وہ حقیقت میں اجماع ظنی بھی نہیں ہوتا ہے ، بلکہ جمہور کا قول ہوتا ہے لیکن اپنے مذہب کی نمائندگی میں اس پر بھی اجماع کا لیبل لگا دیتے ہیں، امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس  طرح کے دعوائے اجماع میں کافی مشہور ہیں ۔اس طرح کے اجماع کو ”اجماع ناقص“سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
● حتی کہ مذہبی برادری میں یہ صورت حال بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ محض ائمہ اربعہ یا مذاہب اربعہ کے اتفاق کو اجماع سے تعبیر کردیتے ۔
● اور اس سے بھی آگے بڑھیں تو ایک ہی مذہب کے پیروکار محض اپنے مذہب کے علماء کے اتفاق کو اجماع کا نام دیتے نظر آتے ہیں ۔
مؤخر الذکر دونوں اجماع کو ”اجماع مذہبی“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
◈ اجماع ناقص اور اجماع مذہبی درحقیقت اجماع ظنی بھی نہیں ہے ، مذہبی حلقہ نے خوا مخواہ اسے اجماع کے باب میں شمار کرلیا ہے۔بلکہ اجماع ظنی کی صورتیں صرف وہی ہیں جنہیں اوپربیان کیا گیا ہے۔
.
✿ اجماع قطعی اور اجماع ظنی کی وضاحت کے بعد ہم عرض کرتے ہیں کہ ہم نے فطرہ میں نقد کے جواز پر صحابہ وتابعین کے جس اجماع کی بات کہی ہے، وہ اجماع ظنی ہے ۔لیکن اس سے قبل کہ ہم مزید اس کی توضیح کریں ،  مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اجماع ظنی کی ایک مثال بھی پیش کردیں ، جس کی روشنی میں فطرہ کی متعلق ہماری بات سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔
.
❀ طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر عہد صدیقی اور عہدفاروقی کے ابتدائی دو سال تک صحابہ وتابعین کا اجماع :
کوئی شخص ایک ہی مجلس میں تین بار اپنی بیوی کو طلاق دے تو وہ کتنی شمار ہوگی اس بارے میں صحابہ کے ایک خاص دور کے بعد اختلاف رونما ہوگیا ، اور بعد میں جمہور اہل علم اس طرف چلے گئے کہ ایک مجلس کی تین طلاق واقع ہوجائے گی ، حتی کہ مذاہب اربعہ ایسی طلاق کے وقوع پر متفق ہوگئے ، بلکہ متاخرین مذہبی مفیان میں سے کئی ایک نے تو وقوع پر اجماع کا دعوی بھی کرلیا، حالانکہ طلاق ثلاثہ کے وقوع پرکسی بھی اعتبار(اجماع قطعی یا اجماع ظنی) سے دعوائے اجماع کی گنجائش نہیں ہے ۔
دوسری طرف چونکہ یہ بیان موجود ہے کہ عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور میں تین طلاق ایک مانی جاتی تھی اور اس دور میں کسی اختلاف کا سراغ نہیں ملتا ، اس لئے اس بات کو بنیاد بناکر علامہ البانی رحمہ اللہ نے عہد صحابہ کے اس ابتدائی دور میں طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر اجماع کا دعوی کیا ہے ، چنانچہ:
⋆  علامہ البانی رحمہ اللہ (المتوفی1420 ) فرماتے ہیں :
”فهل يجوز مع هذا كله أن يترك الحكم المحكم الذي أجمع عليه المسلمون في خلافة أبي بكر وأول خلافة عمر“
”تو کیا ان سب کے باوجود یہ جائز ہوگا کہ اس محکم حکم کو ترک کردیا جائے جس پر عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کا اجماع ہوا“ [سلسلة الأحاديث الضعيفة 3/ 272]
.
❀ طلاق ثلاثہ کے عدم وقوع پر اجماع کے ناقل:
قارئین کرام ! آپ نے اوپر ملاحظہ فرمالیا ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ چودہویں صدی میں طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر عہد صدیقی و عہد فاروقی کے ابتدائی دور میں اجماع کا دعوی کررہے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کس بنیاد پر اجماع کا دعوی کیا ہے؟  اس اجماع کو کس نے نقل کیا ہے؟ جبکہ مذہبی برادری میں ایسے دعوائے اجماع کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا ہے !
.
◈ مصطلحہ ”اجماع“  اور عہد صحابہ وتابعین:
تو سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ  بطور فقہی اصطلاح لفظ ”اجماع“ کا  استعمال بعد میں شروع ہوا ہے ۔
عہد صحابہ وتابعین  میں اس کے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے امت کے اتفاق اور اجتماعیت کا حوالہ تو ملتا ہے ، لیکن خاص فقہی اصطلاح کے طور پر لفظ ”اجماع“  کا استعمال اس دور میں رائج نہیں تھا ، لہٰذا اس دور سے متعلق  اگراجماع کے نقل کا حوالہ ملے گا تو ، معنوی اور مفہومی کے اعتبار سے ہی ملے گا ، خاص فقہی اصطلاع لفظ ”اجماع“ کے ساتھ نہیں ملے گا۔
اس اعتبار سے ہم دیکھیں تو صحابہ کے ابتدائی دور میں طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر اجماع کے ناقل عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہی ہیں ، کیونکہ معنوی طور پر یہی یہ بیان کررہے ہیں کہ اس دور میں تین طلاق کے ایک ہونے پر اجماع ہوا تھا ۔دیکھئے :[صحيح مسلم ، رقم 1472]
علامہ البانی رحمہ اللہ کے دعوی کے بنیاد یہی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہی ہے ، اس بیان کے ہوتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس بات کی تفتیش نہیں کی کہ ان سے پہلے کسی نے ایسا دعوی کیا ہے یا نہیں اور نہ ہی مذہبی برادری کے اختلاف کو خاطر میں لایا ، بلکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی نقل ہی کو بنیاد بناکر چودہویں صدی میں مسلمانوں کے ابتدائی دور سے متعلق اجماع کا دعوی کردیا ۔
اس سے یہ اصولی بات معلوم ہوئی کہ اگر آپ کے پاس مسلمانوں کے ابتدائی دور سے متعلق اس طرح کے اجماع کا ثبوت ہے تو پھر اس ثبوت کی بنیاد پر اجماع کا دعوی کیا جاسکتا ہے ، گرچہ مابعد کی صدیوں میں اہل علم کا نہ صرف اس سے اختلاف ہو گیا ہو، بلکہ اہل علم کی اکثریت ہی اس اجماع کے خلاف چلی گئی حتی کہ مذاہب اربعہ نے بھی اس کے بر خلاف اتفاق کرلیا ہو۔
اب ہم اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں ۔
.
❀ فطرہ میں قیمت ونقد کے جواز پر صحابہ و تابعین کا اجماع:
جس طرح طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر مسلمانوں کے ابتدائی دور میں اجماع ہوا ، ٹھیک اسی طرح فطرہ میں نقد کے جواز پر بھی مسلمانوں کے ابتدائی دور میں اجماع ہوا۔
اور جس طرح طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر ایک دفعہ اجماع ہونے کے بعد امت میں اختلاف چل پڑا ، ٹھیک اسی طرح فطرہ میں نقد کے جواز پر بھی اجماع ہوجانے کے بعداختلاف چل پڑا ۔
بلکہ فطرہ میں نقد کے بارے میں اختلاف کی وہ شدت نہیں رہی جو طلاق ثلاثہ کو ایک ماننے میں رہی ، چنانچہ طلاق ثلاثہ کو ایک ماننے سے نہ صرف امت کی اکثریت نے انکار کیا ، بلکہ مذاہب اربعہ نے متفقہ طور پر اس کی خلاف ورزی کی ۔جبکہ فطرہ میں نقد کے جواز کو مذاہب اربعہ میں سب سے قدیم مذہب ، مذہب حنفی نے اختیار کیا اور اس کے سارے مفتیان نے اسے بلاچوں چرا تسلیم کیا ۔
.
❀ فطرہ میں جواز نقد  پر اجماع کے ناقل:
عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور  میں طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے پر اجماع کیسے ہوا ، اور یہ کیسے  نقل ہوا ، اور اس کے ناقل کون ہیں ، یہ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں اب اسی روشنی میں فطرہ میں نقد کے جواز پراجماع کا ثبوت اور اس کے ناقلین کو بھی ملاحظہ فرمائیں:
●  سعید ابن المسیب رحمہ اللہ کی روایت گذرچکی ہے کہ انہوں نے ایک دو نہیں بلکہ مہاجر صحابہ کی ایک جماعت سے فطرہ میں نقد دینے کی بات نقل کی ہے، اور یہ بھی نقل کیا کہ ان مہاجر صحابہ نے اس مسئلہ کو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا ، اورعمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اسے خوب سراہا اور کسی نے بھی اس سے اختلاف رائے ظاہر نہیں کیا ۔
●  عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد سے متعلق ایک نہیں پانچ رواۃ کا بیان ملتا ہے کہ انہوں نے سرکاری فرمان جاری کیا کہ دفتری حضرات سے ان کی تنخواہوں (درہم ) میں سے فطرہ وصول کیا جائے ، اس پر بھی کہیں سے کوئی اعتراض یا اس سے اختلاف کا ثبوت نہیں ملتا ۔ تفصیل مع حوالہ گذرچکی ہے ۔
●  بلکہ غور کریں کہ اگر عہد صدیقی سے متعلق صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ بیان کریں کہ اس دور میں تین طلاق ایک شمار ہوتی تھی تو اس بنیاد پر اجماع کا دعوی کیا جاسکتا ہے ، تو پھر عہد عمربن عبدالعزیز سے متعلق پانچ پانچ رواۃ بیان کررہے ہیں، کہ اس دور میں فطرہ نقدی کی شکل دیا جاتا تھا وہ بھی سرکاری ضابطے کے مطابق  تو بھلا اس بنیاد پر اجماع کا دعوی کیونکر نہیں کیا جاسکتا ؟؟
⟐ رہا یہ اعتراض کہ سرکاری فرمان کی مخالفت نہیں کی جاتی تو اس کا جواب دیا چکا ہے ۔ بلکہ دیت کے مسئلہ میں بسند صحیح  ثابت بھی کیا گیا ہے کہ عمربن عبدالعزیزرحمہ اللہ کے سرکاری فرمان کی امام عطاء نے مخالفت کی ۔تیرہویں قسط کا مراجعہ فرمائیں ۔
⟐ بعض نے نہ جانے کس بنیاد پر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا قول صرف اہل کوفہ وبصرہ کے لئے تھا ، حالانکہ  عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا یہ فرمان پانچ رواۃ نے نقل کیا ہے اور بعض نے بصرہ کا ذکر کیا ہے مگر اس کی تخصیص نہیں کی ہے اور بعض نے بصرہ کا ذکر بھی نہیں کیا ہے ، بلکہ بعض رواۃ تو بصرہ کے تھے بھی نہیں ۔
حتی کہ امام زہری رحمہ اللہ نے بھی کہا:
”أخذت الأئمة في الديوان زكاة الفطر في أعطياتهم“
” امراء نے دفاتر میں لوگوں کے تنخواہوں (درہم) سے صدقہ الفطر وصول کیا“ [الأموال لابن زنجويه 3/ 1268، وإسناده حسن ، عبد الله هو كاتب الليث وثبت في الكتاب والراوي عنه ابن زنجويه من الحفاظ]
امام زہری رحمہ اللہ نے یہاں کوئی تخصیص نہیں کی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ  مؤرخ امام ابن عبد ربه (المتوفی 328) نے بھی بلا کسی تخصیص کے عمربن عبدالعزیز کا یہ فرمان تمام عمال کے لئے ذکر کیا ہے ، لکھتے ہیں:
”وكتب عمر بن عبد العزيز إلى عماله ، مروا من كان قِبَلَكُم فلا يبقى أحد من أحرارهم ولا مماليكهم صغيرا ولا كبيرا، ذكرا ولا أنثى، إلا أخرج عنه صدقة فطر رمضان: مدّين من قمح، أو صاعا من تمر، أو قيمة ذلك نصف درهم“
”عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے عمال کو لکھا کہ وہ لوگوں کو حکم دیں کہ جو بھی تمہارے گھر کے آزاد ، غلام ، چھوٹے ،بڑے ، مرد اور خواتین ہوں ، ان سب کی طرف سے رمضان کا صدقہ الفطر دو مد( نصف صاع) گیہوں ، یا ایک صاع کھجور یا اس کی قیمت نصف درہم نکالیں“ [العقد الفريد5/ 183]
.
●مزید یہ بھی دیکھیں کہ عہد صدیقی  میں طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان کے علاوہ الگ سے کسی ایک بھی صحابی سے یہ خصوصی فتوی ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ہو ۔ پھر بھی محض ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بیان پر ہی اجماع کا دعوی کیا جاسکتا ہے ۔
تو پھر عہد عمربن عبدالعزیز میں نقدی فطرہ کے جواز سے متعلق پانچ رواۃ کے بیان کے علاوہ بھی الگ الگ سے مخصوص افراد اور مخصوص جماعت سے بھی فطرہ میں نقدی دینا ثابت ہے تو پھر اس پر تو بدرجہ اولی اجماع کا دعوی کیا جاسکتا ہے۔
.
⟐ اب ان سارے اعتراضات کو بھی دیکھ لیں جو کچھ اس طرح پیش کئے جاتے ہیں:
اگر فطرہ میں نقدی کے جواز پر اجماع ہوگیا تھا ، تو کیا اس اجماع کا علم امام مالک کو نہ ہوا یا ان کے بعد دیگر ائمہ کو نہ ہوا ؟
اگر نقدی کے جواز پر اجماع کا علم ہونے پر بھی امام مالک وغیرہ نے اختلاف کیا ، تو کیا وہ اس کے مجاز تھے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔
عرض ہے کہ:
یہ سارے اعترضات اسی طرح  طلاق ثلاثہ والے اجماع پر بھی وارد ہوتے ہیں ۔ فما کان جوابکم فھو جوابنا.
  دراصل طلاق ثلاثہ والا اجماع ہو یا فطرہ میں نقد کے جواز والا اجماع ، یہ اجماع ، اجماع قطعی نہیں بلکہ اجماع ظنی ہے اور اجماع ظنی کی حجیت اجماع قطعی کی طرح نہیں ہے جیساکہ شروع میں تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔اس لئے ایک مجتہد اس سے اختلاف بھی کرسکتا ہے۔
بلکہ فطرہ ہی کا ایک دوسرا  مسئلہ دیکھ لیں نصف صاع دینے پر نہ صرف صحابہ کا اجماع تھا بلکہ اہل مدینہ کا بھی اجماع تھا ، جیسا کہ امام طحاوی کا قول گذشتہ قسط میں گذرچکا ہے۔
افسوس ہے کہ مذہبی برادری کی طرح مانعین نقد بھی اجماع قطعی اور اجماع ظنی کو خلط ملط کرتےہیں ۔اوراجماع قطعی والی باتیں اجماع ظنی پر فٹ کرکے سوالات کرنے شروع کردیتے ہیں ۔
⋆ ممکن ہے کوئی کہے کہ اگرآپ کی مراد اجماع ظنی تھی تو آپ کو اس کی بھی صراحت کردینی چاہئے تھی ، تو عرض ہے کہ علمی دنیا کا غالب اسلوب یہی ہے کہ ہرطرح کے اجماع کو مطلق لفظ اجماع ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور اس کی نوعیت سیاق وسباق اور متعلقہ مسئلہ اور اس کے دلائل سے خود طے ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا یہ قاری کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ صحیح مفہوم اخذ کرے اوراگروہ غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے تو یہ اس کے فہم ونظر کا قصور ہے ۔
.
الغرض یہ کہ عہد صحابہ وتابعین میں فطرہ میں نقد کے جواز پر اجماع ہے اورچونکہ یہ اجماع ، اجماع ظنی ہے ، اس لئے یہ اجماع قطعی کی طرح سب  کے لئے لازم الاتباع نہیں ہوسکتا بلکہ مجتہدین اس سے اختلاف کرسکتے ہیں ، لہٰذا اس اجماع کو  بطور دلیل قطعی کے تو پیش نہیں کیا جاسکتا البتہ نصوص کے فہم اور اس کے معنی اور مفہوم کی تائید میں ضرور  پیش کیا جاسکتا ہے، اور یہی کام ہم نے کیاہے۔
.
جب یہ معلوم ہوگیا کہ فطرہ میں نقد کا جواز نہ صرف یہ کہ سلف میں صحابہ وتابعین سے ثابت ہے بلکہ اس کے جواز پر صحابہ وتابعین کا اجماع بھی ہے تو اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ سلف نے فطرہ میں طعام والی حدیث کا وہ مفہوم نہیں سمجھا ہے جسے مانعین نقد سمجھ رہے ہیں ، اسی بات کو ہم آگے مزید واضح کریں گے اور بتلائیں گے کہ فطرہ والی احادیث سے متعلق سلف کا فہم کیا تقاضا کرتا ہے ۔ ان شاء اللہ ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)
.

No comments:

Post a Comment