{24} صحابہ وتابعین کی طرف سے فطرہ میں نقد کے جواز کے خلاف کسی بھی دوسرے صحابی یا تابعی کا فتوی ثابت نہیں (تیرہویں قسط) - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-05

{24} صحابہ وتابعین کی طرف سے فطرہ میں نقد کے جواز کے خلاف کسی بھی دوسرے صحابی یا تابعی کا فتوی ثابت نہیں (تیرہویں قسط)

{24}   صحابہ وتابعین کی طرف سے فطرہ میں نقد کے جواز کے خلاف کسی بھی دوسرے صحابی یا تابعی کا فتوی ثابت نہیں  (تیرہویں قسط)
✿ ✿ ✿ ✿
گذشتہ قسطوں میں  یہ ثابت کردیا گیا ہے کہ فطرہ میں نقد دینے کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جائز سمجھتے تھے اور اس پر ان کا عمل بھی تھا ، اسی طرح تابعین رحمہم اللہ بھی فطرہ میں نقدی دینے کے قائل تھے اور اس پر عامل بھی تھے ۔ اس دور میں صحابہ وتابعین کے اس فتوی وعمل کے معارض کسی بھی صحابی یا تابعی کا فتوی ثابت نہیں ہے۔
بعض حضرات چونکہ اس بات سے عاجز ہیں کہ صحابہ وتابعین کے موقف جواز کے معارض کسی بھی دوسرے صحابی یا تابعی کا کوئی فتوی ثابت کرسکیں ، اس لئے یہ لوگ محض کچھ شبہات پیش کرکے اسے جواز کے معارض باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں ذیل میں ایسے شبہات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:
.
✿ پہلا شبہہ:
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى 463) لکھتے ہیں:
”ولا يجزأ فيها ولا في غيرها من الزكاة القيمة عند أهل المدينة وهو الصحيح عن مالك وأكثر أصحابه“
”زکاۃ الفطر یا دوسری عام زکاۃ میں قیمت دینا کافی نہیں ہے اہل مدینہ کے نزدیک ، اور امام مالک اور ان کے اکثر اصحاب کا صحیح قول یہی ہے “[الكافي في فقه أهل المدينة المالکی 1/ 323]
عرض ہے کہ:
● اولا:
امام ابن عبدالبر کی تاریخ پیدائش( 368) ہجری ہے ، یعنی چوتھی صدی ہجری کے نصف آخر میں  یہ پیدا ہوئے ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے اس نقل کے ثبوت کے لئے صحیح سند موجود ہو ۔ اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس قول کی صحیح سند تو درکنار سرے سے سند ہی پیش نہیں کی ہے ۔ اور نہ ہی دنیا کی کسی کتاب میں ہمیں اس کی کوئی سند مل سکی ۔بہت ممکن  ہے کہ انہوں نے محض امام مالک کے قول سے یہ قیاس آرائی کرلی ہوگی کہ اہل مدینہ کا بھی یہ فتوی رہا ہوگا۔
کوئی بھی صورت ہو بہرحال یہ بے سند اور بے سر پیر کی بات ہے اور  ثبوت کے میدان میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
خود ابن عبدالبر کا حال یہ ہے کہ وہ بعض اہل علم کی طرف منسوب اقوال کو اس لئے رد کردیتے ہیں کہ ان تک وہ صحیح سند سے منقول نہیں ہوا ، چنانچہ ایک مقام پر انہوں نے دو ائمہ سے منقول قول کا رد یہ کہتے ہوئے کیا کہ :
”وفي الإسناد عنهما من لا يحتج به“ ، ان دونوں سے یہ قول جس سند سے منقول ہے اس میں ایسا راوی ہے جو ناقابل احتجاج ہے۔[التمهيد لابن عبد البر 6/ 336]
● ثانیا:
اہل مدینہ سے کس دور کے اہل مدینہ والے مراد ہیں؟  اس کی تحدید بھی ابن عبدالبررحمہ اللہ کے قول میں نہیں ہے ، اگرامام مالک رحمہ اللہ کے دور کے لوگ مراد ہیں ، تو یہ بات خود قدمائے اہل مدینہ کے خلاف ہے ۔کیونکہ عہد فاروقی اور عمربن عبدالعزیزرحمہ اللہ کے دور میں اہل مدینہ سے فطرہ میں نقد کا ثبوت موجودہے۔
● ثالثا:
اجماع اور اہل علم کا اتفاق نقل کرنے میں ابن عبدالبر  رحمہ اللہ کے یہاں جو سقم ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہے ، غیر ثابت اجماع اور نام نہاد اتفاق نقل کرنے میں سب زیادہ شہرت امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے حاصل کی ہے، امام نووی وغیرہ کا ذکر تو بہت بعد میں آتا ہے۔ بلکہ حد ہوگئی کہ امام ابن عبدالبر کے سامنے بعض ائمہ مجتہدین کا اختلاف موجود ہوتا ہے ، لیکن پھر بھی جمہور کے مقابل میں ان کے اختلاف کو نظر انداز کرکے اتفاق کا دعوی کر بیٹھتے ہیں ، جیسا کہ متعدد مقامات پر انہوں نے خود اپنے اس منہج کو واضح کردیا ہے ، چانچہ ایک مسئلہ میں ”ولا خلاف بين العلماء في ذلك“ کا دعوی کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”وإنما قلنا هذا لأنا لم نعد ما روي عن أبي حنيفة وبعض أصحابنا في ترك الاعتدال خلافا لأن مخالف الجمهور والآثار محجوج بهم “[الاستذكار 2/ 307]
ملاحظہ فرمائیں ، نہ صرف امام ابوحنیفہ بلکہ بعض مالکیہ کے اختلاف کو بھی برطرف کرکے عدم اختلاف کا دعوی کرلیا ۔
● رابعا:
اگر بغیر صحیح سند کے امام ابن عبدالبر کی نقل کردہ بات معتبر مان لی جائے تو انہیں نے خود امام مالک سےفطرہ میں نقد کے جواز کا فتوی بھی نقل کیا ہے لکھتے ہیں:
”وقد روي عنه وعن طائفة من أصحابه أنه تجزأ القيمة عمن أخرجها في زكاة الفطر“ ،
 ”امام مالک اور ان کے اصحاب کی ایک جماعت سے یہ بھی مروی ہے کہ فطرہ میں قیمت نکالنا جائز ہے“[الكافي في فقه أهل المدينة المالکی1/ 323]
اب اگر نقل میں صحت سند کی شرط کے بغیر ایمان لے آیا جائے تو خود امام مالک رحمہ اللہ سے بھی فطرہ میں نقد کے جواز کا قول ثابت ہوجائے گا۔
● خامسا:
⟐ عمربن عبدالعزيز رحمہ اللہ مدینہ ہی کے تھے انہوں نے  باقاعدہ سرکاری فرمان جاری کیا کہ فطرہ میں نقد وصول کیا جائے ، یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ فطرہ میں نقد پر اہل مدینہ کا عمل تھا ۔
بلکہ اگر کہا جائے کہ  امام مالک کے دور میں بھی  اہل مدینہ کا عمل طعام اور نقد دونوں پر تھا تو یہ بھی غلط نہ ہوگا  ۔چنانچہ :
⟐ امام ابن زنجويه (المتوفى251) نے کہا:
”أنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يونس، عن ابن شهاب قال: أخذت الأئمة في الديوان زكاة الفطر في أعطياتهم“ 
”امام ابن شہاب زہری مدنی فرماتے ہیں : امراء نے دفاتر میں لوگوں کے تنخواہوں (درہم) سے صدقہ الفطر وصول کیا“  [الأموال لابن زنجويه 3/ 1268، وإسناده حسن ، عبد الله هو كاتب الليث وثبت في الكتاب والراوي عنه ابن زنجويه من الحفاظ]
امام زہری مدنی ہیں اور انہوں نے اپنے اس بیان سے اہل مدینہ یا کسی بھی علاقہ کا استثناء نہیں کیا ہے ، نیز :
⟐ امام ابن زنجويه (المتوفى251) نے کہا:
”ثنا أبو الأسود، ثنا ابن لهيعة، عن يزيد بن أبي حبيب، أن عمر بن عبد العزيز كتب: يؤخذ من عطاء كل رجل نصف درهم زكاة الفطر " قال يزيد: فهم حتى الآن يأخذونهم به“ 
”یزید بن ابی حبیب المصری فرماتے ہیں کہ عمربن عبدالعزیز نے لکھا کہ ہرشخص کی تنخواہ سے نصف درہم صدقۃ الفطر وصول کیا جائے ، یزید بن ابی حبیب المصری مزید فرماتے ہیں کہ آج بھی امرا فطرہ میں یہ نقدی وصول کرتے ہیں“ [الأموال لابن زنجويه 3/ 1267، وإسناده صحيح رواية أبي الإسود عن ابن لهيعه صحيح انظر: المعرفة للفسوي: 2/ 184 أيضا 434، و ابن لهيعه بريء من التدليس انظر:الإمام عبد الله بن لهيعة : ص75، معجم المدلسين ص278 ، و مع ذلك له شواهد]
یزید بن ابی حبیب المصری نے اپنے دور تک نقدی دینے کے عمل کا تسلسل نقل کیا ہے اور انہوں نے  بھی کسی علاقہ کا استثناء نہیں کیا ہے ۔
لہٰذا محض امام مالک کے فتوی پر یہ قیاس لگانا کہ اہل مدینہ فطرہ میں نقد کے عدم جواز کے قائل تھے سراسر غلط ہے ۔
.
⟐ نیز یہ بھی دیکھیں کہ فطرہ میں نصف صاع گیہوں دینے پر مدینہ کے صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی جماعت کا فتوی اور عمل ہے لیکن امام مالک نے اہل مدینہ کے اس فتوی اورعمل کے خلاف گیہوں میں بھی ایک صاع کافتوی دیا ۔
⋆ اس بات کو لیکر امام ابن حزم رحمہ اللہ مالکیہ پر تناقض وارد کیا ہے کہ ایک طرف اہل مدینہ کے عمل کو دلیل بناتے ہیں اوردوسری طرف نصف صاع گیہوں کے مسئلہ میں اہل مدینہ کی مخالف کرتے ہیں ابن حزم کے الفاظ ہیں:
” تناقض هاهنا المالكيون المهولون بعمل أهل المدينة فخالفوا أبا بكر، وعمر، (وعثمان) وعلي بن أبي طالب، وعائشة، وأسماء بنت أبي بكر، وأبا هريرة، وجابر بن عبد الله وابن مسعود، وابن عباس، وابن الزبير، وأبا سعيد الخدري، وهو عنهم كلهم صحيح إلا عن أبي بكر، وابن مسعود“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 4/ 252]
 ⋆ بلکہ امام طحاوی نے نصف صاع گیہوں دینے پر صحابہ کے اجماع کا دعوی کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی مخالفت درست نہیں ہے ان کے الفاظ ہیں:
” فلا ينبغي لأحد أن يخالف ذلك , إذ كان قد صار إجماعا في زمن أبي بكر وعمر وعثمان وعلي رضي الله عنهم إلى زمن من ذكرنا من التابعين“  [شرح معاني الآثار، ت النجار: 2/ 47]
غور کرنے کی بات ہے کہ اگرامام مالک نصف صاع گیہوں کے مسئلہ میں اہل مدینہ کی مخالفت کرسکتے ہیں تو فطرہ میں نقد دینے کی مخالفت کیوں نہیں کرسکتے ؟
لہٰذا محض نقد کے خلاف امام مالک کے فتوی سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اہل مدینہ بھی اسے ناجائز سمجھتے تھے بالکل غلط ہے ۔
.
✿ دوسرا شبہہ :
بعض امام عطاء رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ وہ فطرہ میں درہم دینے کو ناپسند کرتے تھے ، چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا عمر، عن ابن جريج، عن عطاء؛ أنه كره أن يعطي في صدقة الفطر ورقا ، امام عطاء سے منقول ہے کہ انہوں نے صدقۃ  الفطر میں چاندی (درہم) دینے کو ناپسندکیاہے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 294]
عرض ہے کہ:
اس میں اول تو صرف ناپسندیدگی کی بات ہے جو صراحتا جواز کے منافی نہیں ہے ، دوسرے یہ ناپسندیدگی کا قول بھی ثابت نہیں ہے ، کیونکہ سند میں موجود ”عمر“ یہ ”عمربن ہارون البلخی“ ہے اور یہ سخت ضعیف ومتہم  ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں ائمہ ناقدین کے اقوال کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا:
” متروك“ ، یہ ” متروك“ ہے۔[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم4979]
.
✿ تیسرا شبہہ:
بعض لوگوں نے یہ عجیب رویہ اپنا رکھا ہے کہ فطرہ میں بعض صحابہ سے طعام دینے کا فتوی یا عمل پیش کرتے ہے ، پھر اسے نقد کے معارض دکھلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
عرض ہے کہ :
  یہ دو الگ الگ چیزیں اور ایک چیز دوسرے کے منافی ہے ہیں نہیں ، ورنہ یہ بتائیں جو صحابہ یا تابعین فطرہ میں نقد دیتے تھے کیا ان کے بارے میں یہ مان لیں کہ وہ طعام کو ناجائز سمجھتے تھے ؟ اس سلسلے میں مزید وضاحت  بارہویں قسط میں ہوچکی ہے ۔
.
✿ چوتھا شبہ:
عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بارے میں جب یہ کہاجاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ فطرہ میں نقد کو جائز کہا ہے بلکہ اسے قانونی حیثیت دے دی تھی اور باقاعدہ سرکاری فرمان صادر کردیا تھا کہ دفتری حضرات سے ان کی تنخواہوں سے فطرہ میں درہم وصول کئے جائیں اور اس پر کسی نے بھی نہ تو کوئی نکیر کی ہے اور نہ ہی اختلاف ظاہر کیا ہے ۔
تو اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ خلیفہ اگر مرجوح قول پرفتوی دے دے اور اسے قانون بنادے تو اس سے اختلاف جائز نہیں ہے ۔
عرض ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عملا کوئی اختلاف نہیں کرسکتا ہے اور سرکاری قانون کے خلاف کوئی مہم نہیں چلا سکتا ہے ۔
لیکن ایک عالم اپنا عندیہ اور اپنا نقطہ نظر تو پیش ہی کرسکتا ہے ، بلکہ خلفاء کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ کوئی بھی قانون پاس کرنے سے پہلے دیگر اہل علم سے رائے مشورہ کیا کرتے تھے ، پھر اس مرحلہ میں تو کوئی اختلاف کرہی سکتا تھا  لیکن ایسا اختلاف بھی کہیں منقول نہیں ہے ۔
مزید یہ کہ سرکاری طور پر کوئی فیصلہ ہونے کے بعد بھی  دیگر اہل علم سے اختلاف ثابت ہے ، بلکہ خاص حکومتی معاملے میں بھی اختلاف ثابت ہے چہ جائے کہ کوئی خالص علمی مسئلہ ہو ، مثلا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو ولی عہد بنانے کا فیصلہ کردیا اور  جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے تسلیم بھی کرلیا لیکن پھر بھی بعض صحابہ نے ا س سے اختلاف رائے ظاہرکیا ۔علمی معاملے میں بھی اس کی مثالیں موجودہ ہیں ۔
بلکہ خود عمر بن عبد العزیر رحمہ اللہ کے ایک اور فرمان (دیت ) کے بارے میں صحیح سند سے ملتا ہے کہ اس سے امام عطاء رحمہ اللہ نے اختلاف کیاہے ، چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن ابن جريج , قال: قلت لعطاء: لم لا يكون به , والحر بالحر؟ قال: «لأن الحرين ديتهما سواء , والعبدان مال فقيمة المصاب» قلت: فإن شجه الحر أو فقأ عينه قال: «فقيمته كما أفسده , ولا يقاد منه» فأخبرته بكتاب عمر بن عبد العزيز فأبى إلا قوله هذا “ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 10/ 6 ، و إسناده صحيح]
اب اگر امام عطاء رحمہ اللہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس فرمان سے اختلاف کرسکتے ہیں ، تو امام عطاء یا کوئی دوسرے امام فطرہ والے فرمان سے بھی  اختلاف کرسکتے ہیں ، لیکن ایسا کہیں بھی منقول نہیں ہے ۔
.
✿ پانچوں شبہ:
بعض حضرات سے جب یہ کہاجاتا ہے کہ صحابہ اور تابعین کی طرف سے جواز نقد کے فتوی کے خلاف ، نقد سے منع کا کوئی فتوی دکھاؤ تو کہتے ہیں کہ منع کی دلیل طلب کرنا بریلویوں کا کام ہے ۔سبحان اللہ !
عرض ہے کہ یہ بات عبادات میں کتاب وسنت سے دلائل کے باب میں نہیں کہی جارہی ہے بلکہ اجتہاد اور فتاوی  کے باب میں کہی جارہی ہے ، عبادات میں کتاب وسنت سے جس بات کی دلیل نہیں ہوگی بے شک وہ بات غیر مشروع ہوگی کیونکہ اس کی مشروعیت کا کتاب وسنت سے ثبوت نہ ہونا ہی اس کے بطلان کی دلیل ہے ۔
لیکن جب بات اجتہاد اور اہل علم کے فتاوی کی ہو، اور اہل علم کی ایک جماعت کے فتوی کے بارے میں کوئی یہ دعوی کرے گا کہ اس سے دیگر لوگوں نے اختلاف کیا ہے، تو اسے اس دعوی کا ثبوت پیش کرنا ہوگا ۔کیونکہ اس بات میں وہ دوسرے اہل علم کی طرف ایک دوسری بات منسوب کررہا ہے ظاہرہے کہ یہ نسبت بغیر دلیل کے نہیں کی جاسکتی ۔
ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ وتابعین سے فطرہ میں نقد کے جواز کا تو ثبوت ملتا ہے لیکن ان قائلین جواز کے معارض ان کے دور میں کوئی دوسرا فتوی نہیں ملتا ، لہذا جواز کا مسئلہ اس دور  میں اتفاقی تھا ، اب آگے اسی اتفاقی پہلو پر ہم بات کریں گے ان شاء اللہ
(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment