{28} سعید بن المسیب کی غلمان والی ضعیف روایت کا مفہوم - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-09

{28} سعید بن المسیب کی غلمان والی ضعیف روایت کا مفہوم

{28} سعید بن المسیب کی غلمان والی ضعیف روایت کا مفہوم 
✿ ✿ ✿ ✿
گذشتہ سطور (پوسٹ نمبر 27) میں واضح کیا جاچکا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ اس روایت کا مفہوم کیا ہے ۔
سب سے پہلے یہ روایت مع متن وترجمہ دیکھ لیں۔
امام ابن زنجويه (المتوفى251) نے کہا:
”ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن ابن أبي ذئب، عن الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب قال: سألت سعيد بن المسيب فقلت: إن لنا كرما فيه غلمان وماشية، وإنا نؤدي زكاتها أفيجزئ ذلك عن صدقة الفطر عنهم؟ قال: لا يا ابن أخي، إنما هي زكاة أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن تزكوا بها فطركم، فقلت: فعلى من هي؟ قال: " على الصغير والكبير، والحر والعبد، والشاهد والغائب، قلت: فإني أخشى أن لا يخرجوا، قال: فأخرجها عنهم“
”حارث بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سعید ابن المسیب سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ : ہمارے پاس ایک باغ ہے جس میں خادمین اور مویشی (جانور) ہیں ، اور ہم ان مویشیوں (جانوروں) کی زکاۃ نکالتے ہیں تو کیا یہ زکاۃ ان (مویشویں کی دیکھ بھال کرنے والے) خادمین کی طرف سے صدقہ الفطر کے لئے بھی کفایت کرجائے گی ؟ سعید ابن المسیب رحمہ اللہ نے جواب دیا:  نہیں بھتیجے ! صدقۃ الفطر تو ایسی زکاۃ ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ اس سے تم اپنا فطرہ ادا کرو ۔ میں نے سوال کیا : تو یہ صدقہ الفطر کن لوگوں پر ہے ؟ تو سعید ابن المسیب نےجواب دیا: یہ چھوٹے ، بڑے ، آزاد ، غلام ، حاضر اور غائب پر واجب ہے ۔ میں نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ یہ خادمین یہ صدقہ الفطر نہیں ادا کرتے ہوں گے؟ سعید ابن المسیب نے کہا: تو پھر تم ہی ان کی طرف سے یہ صدقہ الفطر ادا کردو“ [الأموال لابن زنجويه 3/ 1258وإسناده ضعيف علي بن الحسن لايعرف]
.
✿  اس روایت کے اندر صرف یہ ہے کہ حارث بن عبدالرحمن کے ایک باغ میں جانور اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے خادمین تھے ، یہ خادمین جن جانوروں کی دیکھ بھال کرتے تھے ان جانوروں پر زکاۃ فرض تھی جسے حارث بن عبدالرحمن اداکرتے تھے ۔
چونکہ ان خادمین کی محنت جن جانور پر صرف ہوتی تھی ان پر فرض زکاۃ واجب تھی  جسے حارث بن عبدالرحمن اداکرتے تھے ۔اس لئے انہوں نے سوال کیا کہ جب ہم ان جانوروں کی فرض زکاۃ نکال دیتے ہیں  اور خادمین کی محنت انہیں پر صرف ہوتی ہے تو کیا یہ بات کافی نہیں ہوگی کہ ان خادمین پر جو صدقۃ الفطر والی زکاۃ ہے اس کے لئے بھی یہ کفایت کرجائے؟
اس پر سعید ابن المسیب نے جواب دیا کہ : صدقۃ الفطر کی زکاۃ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرہ کے طور پر فرض کیا ہے ، لہٰذا اسے بھی ادا کرنا ضروری ہے ۔
.
✿  سعید ابن المسیب سے حارث بن عبدالرحمن کا یہی سوال ایک دوسری سند سے منقول ہے اس میں اختصار کے ساتھ یہی بات دوسرے الفاظ میں مزید وضاحت کے ساتھ موجود ہے چنانچہ:
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”حدثنا نصر بن عاصم الأنطاكي، أن أنس بن عياض، أخبرهم عن الحارث يعني ابن عبد الرحمن، قال: سألت سعيد بن المسيب هل على الرعاء وعمال الحرث زكاة الفطر؟ قال: نعم، إنما هي زكاة الفطر، «أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بإخراجها عن الصغير والكبير والحر والعبد والرعاء وعمال الحرث»“
”حارث بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سعید ابن المسیب سے سوال کیا کہ : کیا چرواہوں اور کھیت میں کام کرنے والوں پر صدقۃ الفطر ہے ؟ تو سعید ابن المسیب نے جواب دیا : جی ہاں ! یہ فطرہ والی زکاۃ ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوٹے ، بڑے ، آزاد ، غلام ، چرواہوں اور کھیت میں کام کرنے والوں کی طرف سے نکالنے کا حکم دیا “ [المراسيل لأبي داود، ت الأرناؤوط: ص: 138 ،رقم 125وإسناده حسن إلي سعيد ابن المسيب]
.
●  اس روایت میں ایک طرف یہ دیکھئے کہ حارث بن عبدالرحمان نے سوال ہی یہی کیا ہے کہ چرواہوں یا کھیت میں کام کرنے والوں پرصدقۃ الفطر ہے یا نہیں ؟ یعنی اصلا ان کے صدقہ الفطر ہی کے بارے میں سوال کیا جارہا ہے ۔
●  دوسری طرف اس روایت میں یہ بھی دیکھئے کہ سعید ابن المسیب نے ”العبد“ یعنی غلام کا ذکرکرنے کے بعد ”والرعاء وعمال الحرث“ یعنی چرواہوں اور کھیت میں کام کرنے والوں کا ذکرکیا ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ چرواہوں اور کھیت میں کام کرنے والوں سے غلام مراد نہیں ہیں ۔
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ سعید ابن المسیب کی پہلی غلمان والی ضعیف روایت کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اس میں سائل یعنی حارث بن عبدالرحمن نے باغ میں کام کرنے والے خادمین کے بارے میں پوچھا ہے کہ ان پر بھی صدقہ الفطر ہے یا نہیں ۔
.
فریق مخالف کی غلط فہمیاں:
   -  -  -
❀  پہلی غلط فہمی:
اب آئے دیکھتے ہیں کہ فریق مخالف نے سعید ابن المسیب کی ضعیف روایت کا جو مطلب بیان کیا ہے اس کی کیا حقیقت ہے تو عرض ہے کہ:
فریق مخالف نے سب سے پہلی غلطی یہ کی کہ غلمان والی روایت میں ”إن لنا كرما فيه غلمان وماشية“ میں ”إن لنا كرما“ کا ترجمہ نفیس مال سے کیا ہے جو بالکل ہی غلط ہے اور سیاق وسباق سے کوسوں دور ہے۔
یہاں سیاق میں ”کرم“ کو ظرف یعنی جگہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اور پھر ”فيه“ کہہ کراس جگہ (باغ) میں موجود خادمین اور مویشیوں کا ذکر ہے۔
اس لئے ”إن لنا كرما فيه غلمان وماشية“ کا صحیح ترجمہ ہوگا : ”ہمارے پاس ایک باغ ہے جس میں خادمین اور مویشی (جانور) ہیں“
.
❀  دوسری غلط فہمی:
فریق مخالف نے دوسری غلطی یہ کی کہ بغیر کسی دلیل کے ”غلمان“ کا ترجمہ غلاموں سے کردیا ، حالانکہ ”غلمان“ کا اصل معنی بچے یا نوجوان کے ہیں ، بے شمار احادیث میں یہ لفظ اسی معنی میں مستعمل ہے ، نیز مطلق خادمین کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے ، ذیل میں بعض صحیح روایت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
⟐ ”عن أنس بن مالك رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال لأبي طلحة: «التمس غلاما من غلمانكم يخدمني حتى أخرج إلى خيبر» فخرج بي أبو طلحة مردفي، وأنا غلام راهقت الحلم، فكنت أخدم رسول الله صلى الله عليه وسلم۔۔۔“[صحيح البخاري 4/ 36 رقم 2893]
⟐ ”عن أبي مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حوسب رجل ممن كان قبلكم، فلم يوجد له من الخير شيء، إلا أنه كان يخالط الناس، وكان موسرا، فكان يأمر غلمانه أن يتجاوزوا عن المعسر۔۔۔“[صحيح مسلم 3/ 1195،رقم 1561]
اور جب ”غلمان“ ،  خادمین کے معنی میں مطلق مستعمل ہو تو وہ غلام خادم کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے اور آزاد  خادم کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے، لہٰذا بغیر کسی دلیل کے محض لفظ ”غلمان“ ہی کو بنیاد بناکر اس کا ترجمہ غلاموں سے کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔ بلکہ کسی ایک قسم کے خادم کو متعین کرنے کے لئے ضروری ہوگا کہ سیاق وسباق کے قرائن یا الگ سے اس کے دلائل موجود ہوں۔
سعید ابن المسیب والی روایت میں مستعمل  ”غلمان“ سے غلام خادم مراد لینے کےلئے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے ۔بلکہ سیاق وسباق کے قرائن تو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس روایت میں ”غلمان“ ، آزاد خادم کے لئے ہی مستعمل ہے ۔ کیونکہ سعید ابن المسیب نے جب یہ جواب دیا کہ صدقہ الفطر سب کی طرف سے ہے تو سائل یعنی حارث بن عبدالرحمان نے کہا:
”فإني أخشى أن لا يخرجوا“
”مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ فطرۃ نہیں نکالتے ہوں گے“
غور کریں کہ اگر ”غلمان“ سے  غلام مراد ہوتے تو پھر ان کی طرف سے فطرہ نکالنے کی ذمہ داری تو ان کے مالک یعنی حارث بن عبدالرحمن ہی کی تھی ، اس لئے انہیں یہ کہنا چاہئے کہ میں تو ان کی طرف  سے فطرہ نکالتا ہی نہ تھا ، لیکن یہ کہنے کے بجائے حارث بن عبدالرحمن اس کی ذمہ داری ”غلمان“ کے سر مان رہے ہیں اوریہ کہہ رہے کہ مجھے ڈر وہ اپنا فطرہ نہیں نکالتے ہیں ۔ یہ سیاق دلیل ہے کہ یہاں ”غلمان“ سے مراد آزاد خادم ہے نا کہ غلام خادم۔
مزید یہ بھی دیکھیں کہ جب حارث بن عبدالرحمن نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ یہ ”غلمان“ اپنا فطرہ نہیں نکالتے ہوں گے ، تو اس پر سعیب ابن المسیب نے یہ نہیں کہا کہ بھتیجے یہ صدقہ وہ کیوں نکالیں ؟ وہ تو تمہارے غلام ہیں ، اس لئے یہ ذمہ داری تمہاری ہی ہے ۔
بلکہ سعید ابن المسیب نے کہا:
”فأخرجها عنهم“
یعنی وہ نہیں نکال رہے ہیں تو تم ہی ان کی طرف سے یہ فطرہ نکال دو۔
حالانکہ اگر یہ غلام ہوتے تو سعید ابن المسیب یہ فرماتے ہیں کہ یہ فطرہ تو تمہیں ہی نکالنا ہے ، نہ کہ تمہارے غلاموں کو ۔
روایت کا یہ سارا سیاق صاف بتلاتا ہے کہ یہاں  ”غلمان“ سے مراد غلام نہیں بلکہ آزاد خادم  ہیں ۔
رہی یہ بات کہ امام زنجویہ نے اس روایت کو غلاموں کی طرف سے صدقہ الفطر کے باب میں ذکر کیا ہے ، تو عرض ہے کہ اس روایت میں سعید ابن المسیب کےجواب کے اندر غلام کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی ہے کہ حاضر وغائب سب پر صدقہ الفطر ہے ، سعید ابن المسیب کے الفاظ ہیں:
”على الصغير والكبير، والحر والعبد، والشاهد والغائب“
”یہ چھوٹے ، بڑے ، آزاد ، غلام ، حاضر اور غائب پر واجب ہے“
نیز اسی باب میں ایک روایت اس طرح ہے :
”أنا أبو نعيم، ثنا عمرو بن عثمان، قال: سمعت موسى بن طلحة قال: «ليس على الرقيق صدقة إلا صدقة الفطر»[الأموال لابن زنجويه 3/ 1259،رقم 2421]
ملاحظہ فرمائیں اگر موسی بن طلحہ کا یہ مختصر جملہ باب سے مطابقت رکھتا ہے ،تو سعید بن المسیب کا یہ جملہ ”على الصغير والكبير، والحر والعبد، والشاهد والغائب“ بدرجہ اولی باب سے مطابقت رکھے گا۔
.
❀  تیسری غلط فہمی:
فریق مخالف نے تیسری اور سب سے بڑی غلطی یہ کہ سائل یعنی حارث بن عبدالرحمن نے صرف مویشی کی زکاۃ دینے کی بات کہی ہے اور فریق مخالف نے یہ مطلب نکال لیا کہ سائل نے مویشی کے ساتھ غلمان کی بھی زکاۃ نکالنے کی بات کہی ہے ۔
سائل کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
”إن لنا كرما فيه غلمان وماشية، وإنا نؤدي زكاتها، أفيجزئ ذلك عن صدقة الفطر عنهم؟“
”ہمارے پاس ایک باغ ہے جس میں خادمین اور مویشی (جانور) ہیں ، اور ہم ان مویشیوں (جانوروں) کی زکاۃ نکالتے ہیں،تو کیا یہ زکاۃ ان (مویشویں کی دیکھ بھال کرنے والے) خادمین کی طرف سے صدقہ الفطر کے لئے بھی کفایت کرجائے گی ؟“
ملاحظہ فرمائیں یہاں ”زکاتھا“ میں ”ھا“ مؤنث کے ضمیر ہے جس سے قبل مؤنث مرجع ”ماشية“ موجوہے۔
اب جب مؤنث مرجع موجود ہے اور اقرب بھی ہے تو پھر یہاں اس مؤنث مرجع مین ”غلمان“ کو شامل کرنے کوئی گنجایش ہے ہی نہیں ، کیونکہ یہ نہ صرف یہ کہ مؤنث مرجع سے ابعد ہے بلکہ عاقل مذکر بھی ہے ، لہٰذا یہ مؤنث ضمیر کا مرجع بن ہی نہیں سکتا ۔
ہمارے سامنے کلام عرب سے کوئی ایک بھی مثال نہیں ہے کہ پہلے عاقل مذکر ذکر ہو اس کے بعد مؤنث غیر عاقل ذکر ہو پھر مؤنث ضمیر کو ایک ساتھ اقرب مذکر مؤنث اور ابعد مذکور مذکر دونوں کی طرف لوٹا دیا جائے ۔
اور ایسی کوئی مثال ہو بھی تو بھی اسے یہاں فٹ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، کیونکہ سیاق کسی بھی طرح اس کا متحمل نہیں ہے ۔
کیونکہ یہاں مویشیوں کی زکاۃ کا ذکر ہے جو کہ فرض زکاۃ ہے ، اور خادمین  پر ایسی کوئی زکاۃ فرض ہے ہی نہیں ، تو بھلا فرض زکاۃ والی ضمیر کے مرجع میں اصل اور متعلق مرجع کے ہوتے ہوئے بے اصل اور غیر متعلق مرجع کو کیونکر شامل کیا جاسکتاہے۔
مزید یہ کہ ایک روایت دوسری روایت کی تشریح ہوتی ہے ، اور اوپر ابوداؤد کے حوالے دوسری روایت پیش کیا جاچکی ہے جس میں صاف طور سے ذکر ہے کہ سوال میں یہ پوچھا جارہاہے کہ خادمین پر صدقہ الفطرواجب ہے یا نہیں ؟ نہ کہ ان کی زکاۃ کا ذکر کرکے اس میں صدقہ الفطر کی شمولیت کی بات پوچھی جارہی ہے ۔
.
✿ ✿ اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اگر ہم سعید ابن المسیب کی غلمان والی ضعیف روایت میں غلمان سے اگر غلام بھی مراد لے لیں تو بھی اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ حارث بن عبدالرحمن یہ پوچھ رہے ہیں غلام مویشویوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اورمویشیوں کی فرض زکاۃ ہم نکالتے ہیں تو کیا ایسے مویشویں کی دیکھ بھال کرنے والے غلاموں پر صدقہ الفطر بھی ضروری ہے ؟
اس کے جواب میں سعید بن المسیب نے بتلایا کہ یہ فطرہ والی زکاۃ ہے اس لئے غلاموں کی طرف سے یہ زکاۃ لازم ہے ۔
●  اس کے ساتھ ہم ابوداؤد والی مذکورہ روایت دیکھیں جس میں سعید ابن المسیب سے حارث بن عبدالرحمن ہی کے سوال کا ذکر ہے اس کے الفاظ ہیں:
”سألت سعيد بن المسيب هل على الرعاء وعمال الحرث زكاة الفطر؟“
”میں نے سعید ابن المسیب سے سوال کیا کہ : کیا چرواہوں اور کھیت میں کام کرنے والوں پر صدقۃ الفطر ہے ؟“[یہ روایت اوپر مکمل گذرچکی ہے]
یعنی غلمان کی طرح ”رعاء“ اور ”عمال“ کو غلام ہی  مان لیں تو سوال یہ ہورہا ہے کہ کیا غلاموں پر بھی صدقۃ الفطر ہے ؟
غور کریں سوال یہ نہیں ہورہا ہے کہ ہم غلاموں کی نفل زکاۃ نکالتے ہیں اس میں صدقہ الفطرکی شمولیت ہوسکتی ہے کہ نہیں بلکہ سوال یہ ہورہاہے کہ اموال زکاۃ پر کام کرنے والے غلاموں پر صدقہ الفطرہے یا نہیں ؟
●  نیز اس بات پر بھی غور کریں کہ اگر سائل کو یہ پوچھنا ہوتا کہ ہم غلاموں کی نفل زکاۃ نکالتے ہیں اس میں صدقۃ الفطر کی شمولیت ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ تو سائل صراحتا صرف غلاموں کی نفل زکاۃ ہی کا ذکر کرتے۔اوران کی خدمات کی نوعیت اور ان کی زیر نگرانی مویشیوں اور ان کی زکاۃ کا ذکر نہ کرتے
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سائل نے غلاموں کے ساتھ مویشیوں کا ذکر کیا ہے پھر مویشیوں کی طرف سے نکالی جانے والی فرض زکاۃ کا ذکر کیا ہے ۔اس سیاق سے صاف واضح ہے کہ یہاں یہی پوچھنا مقصود ہے کہ غلاموں کی دیکھ بھال میں رہنے والے مویشیوں کی زکاۃ نکال دینے سے کیا یہ غلاموں کے صدقہ الفطر کے لئے بھی کافی ہوجائے گی ؟
سعید ابن المسیب نے جواب میں سمجھایا کہ نہیں بلکہ صدقہ الفطر بھی دینا ہوگا کہ کیونکہ یہ فطرہ کے طور پر فرض ہے ۔
●  سعید ابن المسیب کی غلمان والی روایت کو اموال کے مصنف امام ابن زنجویہ نے جس باب میں ذکر کیا اس بات کی آخری روایت پر بھی غور کریں جو اس طرح ہے :
امام ابن زنجويه (المتوفى251) نے کہا:
”أنا يحيى بن يحيى، أخبرنا عبد الوارث بن سعيد، عن عامر الأحول، عن عكرمة بن خالد المخزومي: " في العبيد إذا كانوا في حرث أو في شيء، يخرج الصدقة من عمالتهم: لا أرى عليهم صدقة“
”عکرمہ بن خالد المخزومی غلاموں کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ غلام جب کھیت یا کسی جگہ کام کرتے ہوں تو ان کا کام جس مال پر ہوتا ہے اسی مال کی زکاۃ واجب ہوگی ، اور اس پر کام کرنے والے غلاموں کے بارے میں میرا خیال ہے کہ ان پر صدقۃ الفطر واجب نہیں ہے“[الأموال لابن زنجويه 3/ 1259، وإسناده حسن ، عامر الأحول حسن الحديث علي الأقل]
اس روایت سے بھی  مسئلہ کی نوعیت سمجھی جاسکتی ہے کہ اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ اموال زکاۃ پر اگر خادم یا غلام کام کررہا ہے تو کیا  کہ ایسے اموال کی زکاۃ نکال دینے سے یہ زکاۃ ان پر کام کرنے والے خادم یا غلام کے صدقہ الفطر کے لئے بھی کفایت کرجائے گی ؟
عکرمہ بن خالد المخزومی کا خیال ہے کہ کفایت کرجائے گی ، لیکن اس کے برعکس سعید ابن المسیب کا خیال ہے کہ کفایت نہیں کرے گی بلکہ ان اموال کی زکاۃ دینے کے ساتھ ساتھ ان پر کام کرنے والے خادم یا غلام کا صدقۃ الفطر بھی ادا کرنا ہوگا کیونکہ صدقۃ الفطر تو فطرہ کے طور پر فرض ہے  جو ضروری ہے ۔
خلاصہ بحث یہ کہ سعید ابن المسیب کی غلمان والی روایت اول تو ضعیف ہے جیساکہ پوسٹ نمبر {27} میں واضح کیا جاچکاہے ۔
اور بالفرض اسے صحیح بھی مان لیں تو اس میں غلاموں کی نفل زکاۃ کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں ہے ، بلکہ خادم یا غلام جن اموال زکاۃ پر کام کرتے ہیں ان کی فرض زکاۃ نکالنے کے بعد اس مسئلہ پر بات ہے کہ کیا یہ فرض زکاۃ ان اموال پر کام کرنے والے خادم یا غلام کے صدقہ الفطر کے لئے بھی کافی ہوگی یا نہیں؟ بعض کی نظرمیں کافی ہوگی ، جبکہ سعیدبن المسیب کی نظر میں کافی نہیں ہوگی ۔
 . 
نوٹ: 
فریق  مخالف کا کہنا ہے کہ انہوں  نے سعید بن المسیب کی غلمان والی ضعیف روایت پہلے بھی ذ کر کی تھی ، لیکن ہم نے اس پر خاموشی اختیار کی ، تو اس تعلق سے عرض ہے کہ موصوف نے پہلے ایک دوسری روایت کے ساتھ اسے اس طرح ذکر کیا تھا کہ دونوں روایات کے مابین صرف ایک دو سطر کا فاصلہ تھا اور روایات صرف عربی متن کے ساتھ تھیں ترجمہ کا فاصلہ بھی نہیں تھا، اور سبقت نظر سے ہماری توجہ صرف دوسری روایت پر مرکوز ہوگئی اور پہلی روایت چھوٹ گئی اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوا ۔
حتی کہ ہماری پچھلی کسی پوسٹ میں کسی نے کمنٹ میں یہ روایت پیش کرکے اس کا جواب طلب کیا تو وہاں بھی ہم نے یہی کہا کہ جب تک فریق مخالف یہ روایت پیش کرکے اس سے استدال نہیں کرتا ہم اس پر اپنا وقت ضائع نہیں کریں گے ۔
بعد میں جب فریق مخالف نے دوبارہ یہ روایت پیش کی  تو معلوم ہوا کہ یہ روایت پہلے بھی پیش کی جاچکی ہے سو اب اس روایت کا مکمل جواب دے دیا گیا ہے۔
 . 
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment