{27} سعید بن المسیب کی ایک ضعیف اور غیر متعلق روایت سے استدلال کا جائزہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-08

{27} سعید بن المسیب کی ایک ضعیف اور غیر متعلق روایت سے استدلال کا جائزہ

{27} سعید بن المسیب کی ایک ضعیف اور غیر متعلق روایت سے استدلال کا جائزہ
✿ ✿ ✿ ✿
نوٹ:
ارادہ یہ تھا کہ فطرہ سے متعلق بحث کے اگلے  حصے کو اپنے پیج پر منتقل کردیا جائے اور باقی بحث وہی جاری رکھی جائے ، لیکن بہت سے احباب اور دوستوں کا مشورہ و اصرار ہے کہ یہ بحث  بوجوہ اسی آئ ڈی پر جاری رہنی جائے ، لہٰذا ہم یہیں پر اس بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔قارئین صرف اتنا ذہن میں رکھیں کہ ہم دو طرح سے بحث کو آگے بڑھا رہے ہیں ایک میں قسط نمبرات ہیں ان میں ساری قسطیں ایک دوسرے سے مربوط ہے۔اور دوسرے میں مکرر اعتراضات کے جوابات ہیں ، اس طرح کی تحریروں پر  قسط نمبر درج نہیں ہوگا بلکہ شروع  میں صرف پوسٹ نمبر رہے گا ، اور شروع کا نمبر ساری تحریروں کی ابتداء میں تسلسل کے ساتھ ملے گا۔
✿ ✿ ✿ ✿
سعید ابن المسیب رحمہ اللہ کی ایک صحیح روایت پیش کرکے ہم نے ثابت کردیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فطرہ میں نقد دینا ثابت ہے ۔
بعض لوگ جب متعدد کوششوں کے بعد بھی اس روایت کا کوئی جواب نہیں دے سکے تو سعید ابن المسیب کی ایک غیر متعلق روایت لے کر اس سے ایسا مطلب کشید کرنا شروع کردیا جس کا اس روایت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ یہ روایت غیرمتعلق ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف و مردود بھی ہے ۔
ہم اللہ کے فضل وکرم سے سب سے پہلے اس روایت کی استنادی حالت واضح کریں گے اس کے بعد اس کے مفہوم پر بھی بحث کریں گے ۔
ملاحظہ ہو یہ روایت مع سند ومتن :
.
✿ امام ابن زنجويه (المتوفى251) نے کہا:
ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن ابن أبي ذئب، عن الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب قال: سألت سعيد بن المسيب فقلت: إن لنا كرما فيه غلمان وماشية، وإنا نؤدي زكاتها أفيجزئ ذلك عن صدقة الفطر عنهم؟ قال: لا يا ابن أخي، إنما هي زكاة أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن تزكوا بها فطركم، فقلت: فعلى من هي؟ قال: " على الصغير والكبير، والحر والعبد، والشاهد والغائب، قلت: فإني أخشى أن لا يخرجوا، قال: فأخرجها عنهم [الأموال لابن زنجويه 3/ 1258]
اس روایت کا ترجمہ اور اس کامفہوم ہم بعد میں پیش کریں گے۔
اس سے پہلے ہم قارئین کے سامنے اس کی استنادی حالت واضح کرتے ہیں :
اس روایت میں عبداللہ بن مبارک کے شاگرد ”علي بن الحسن“ کون ہیں ، ان کا تعین کرنا ضروری ہے ۔
ہمیں پہلے لگا تھا کہ عبداللہ بن مبارک کے شاگردوں میں ایک ہی ”علي بن الحسن“ ہیں ، اور تعین کی ضرورت نہیں ہے ، لیکن ہم نے کتب رجال میں عبداللہ بن مبارک کے جملہ تلامذہ کی فہرست دیکھی تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مبارک کے شاگردوں میں اس نام کے دو راوی مذکور ہیں ، ان میں ایک ثقہ ہے جبکہ دوسرا راوی نا معلوم التوثیق ہے ، یعنی اس کی عدالت وثقاہت کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے ۔
اور بدقسمتی سے یہی راوی یہاں اس سند میں موجود ہے ، لہٰذا اس کے سبب یہ روایت ضعیف ہے، تفصیل ملاحظہ ہو:
.
✿ ”على بن الحسن“ کے تعین کی دلیل
واضح رہے کہ مذکورہ روایت کی سند میں عبداللہ بن مبارک کے شاگرد کے طور پر ”على بن الحسن“ کا نام ہے ، اور عبداللہ بن مبارک کے شاگردوں میں اس نام کے دو رواۃ ہیں ۔
● ایک ”على بن الحسن ، المروزى“ ہیں ، دیکھئے : [تهذيب الكمال للمزي: 16/ 12]
● دوسرا ”على بن الحسن النسائى“ ہے ، دیکھئے : [تهذيب الكمال للمزي: 16/ 12]
ان دونوں میں سے اول الذکر ثقہ ہے جبکہ ثانی الذکر ضعیف ہے۔
اس لئے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ یہاں کون راوی ہے ؟
❀ چونکہ یہ سند صرف اسی کتاب میں ہے اور دوسری کسی اور کتاب میں اس سند کا وجود ہی نہیں ہے ، لہٰذا یہ امید ختم ہوجاتی ہے کہ کسی دوسری کتاب میں اس سند کے اندر ”على بن الحسن“ کا نام مزید وضاحت کے ساتھ آیا ہو۔
.
❀ اب راوی کے تعین کا ایک دوسرا راستہ اساتذہ اور تلامذہ کا رشتہ ہے ۔
ابن المبارک رحمہ اللہ کے تلامذہ میں چونکہ ان دونوں کا نام مل رہا ہے لہٰذا ابن المبارک کے تلامذہ کی فہرست سے کوئی تعین نہیں ہوسکتا۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا ان دونوں میں کس سے امام ابن زنجویہ روایت کرتے ہیں کیونکہ مذکورہ سند میں ان دونوں میں سے جو بھی ہے ، وہ امام ابن زنجویہ کا استاذ ہے اور امام ابن زنجویہ اس کے شاگرد ہیں۔
اب یہ پتہ کرنے کے لئے ہمیں دونوں ”على بن الحسن “ کے شاگردوں کی لسٹ دیکھنی ہوگی ۔
جب کتب رجال میں ہم ان دونوں کے شاگردوں کی فہرست دیکھتے ہیں تو ان دونوں میں سے کسی کے شاگرد کے طور پر امام زنجویہ کا نام نہیں ملتا ہے۔
اب ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ امام ابن زنجویہ کا ترجمہ دیکھا جائے اوران کے اساتذہ کی فہرست دیکھی جائے ۔
چنانچہ ہم جب امام ابن زنجویہ کا ترجمہ کتب رجال میں دیکھتے ہیں اوران کے اساتذہ کی فہرست پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کے اساتذہ میں بھی مذکورہ دونوں رواۃ میں سے کسی کا نام نہیں ملتا۔
اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ کتب رجال میں مذکور اساتذہ وتلامذہ کے رشتوں کے ذریعہ بھی یہاں تعین ممکن نہیں ہے۔
.
❀ اب تعین کا ایک اور ذریعہ یہ ہے کہ ان دونوں رواۃ کا علاقہ دیکھا جائے ، پھر یہ پتہ کیا جائے کہ امام ابن زنجویہ کے علاقہ کا کون راوی ہے ؟
اگران دونوں میں سے کوئی بھی امام ابن زنجویہ ہی کے علاقہ کا نکلا تو یہ ایک قوی قرینہ ہوگا کہ یہی شخص امام ابن زنجویہ کا استاذ ہے ۔
جب ہم ابن المبارک کے دونوں شاگردوں کے علاقہ کو دیکھتے ہیں تو ان دونوں میں سے ” على بن الحسن النسائى“ کے نام کے ساتھ ”النسائى“ کی نسبت ملتی ہے ، دیکھئے : [تهذيب الكمال للمزي: 16/ 12]
اس سے معلوم ہوا کہ مذکورۃ دونوں شاگردوں میں ” على بن الحسن “ ”نساء“ کے علاقے کا ہے ، اور یہی علاقہ امام ابن زنجویہ کا بھی ہے ، چنانچہ:
● امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) امام ابن زنجویہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
”هو الذي أظهر السنة بنسا“، نساء کے علاقہ میں انہوں نے ہی سنت کو غالب کیا ہے [الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 8/ 197]
● امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571) امام ابن زنجویہ کا ذکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حميد بن زنجويه واسمه مخلد بن قتيبة بن عبد الله وزنجويه لقب مخلد أبو أحمد الأزدي النسائي [تاريخ دمشق لابن عساكر: 15/ 279]
● امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) امام ابن زنجویہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حميد بن زنجويه الحافظ أبو أحمد الأزدي النسائي [تاريخ الإسلام ت بشار 6/ 76]
● دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
واسمه حميد بن مخلد بن قتيبة الأزدي، النسائي،[سير أعلام النبلاء للذهبي: 12/ 20]
ملاحظہ فرمائیں!
على بن الحسن النسائى جس طرح ”نسائی“ راوی ہے، اسی طرح امام ابن زنجویہ بھی ”نسائی“ ہیں ۔ یہ یکسانیت دلیل ہے کہ یہاں امام ابن زنجویہ کے استاذ یہی ہے ۔
اوراس راوی کا ذکر ابن المبارک کے شاگردوں میں تو ملتا ہے مگراس کی توثیق کسی ایک بھی امام سے نہیں ملتی ہے ، لہٰذا اس نامعلوم التوثیق راوی کے سبب یہ روایت ضعیف ہے۔
.
❀ واضح رہے کہ اگر ہم مؤخرا الذکر راوی کو متعین نہ مانیں تو پھر دونوں میں سے کسی کا بھی تعین نہیں ہوسکے گا لہٰذا اس عدم تعین کے سبب بھی یہ روایت ضعیف ہی رہے گی ۔
غرض یہ کہ یہ روایت ضعیف ومردود ہے لہٰذا اس سے استدلال بھی مردود ہے ۔
فی الحال ہم صرف اس روایت کے استنادی حالت بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں اب آگے ہم اس کے مفہوم پر بات کریں گے اور یہ واضح کریں گے کہ اس سے جو مطلب کشید کیا گیا ہے اس کا اس روایت میں دور دور تک کوئی وجود نہیں ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔)

No comments:

Post a Comment