{29} امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے بے سند قول کی بے دلیل حمایت کا جائزہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-10

{29} امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے بے سند قول کی بے دلیل حمایت کا جائزہ



{29} امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے بے سند قول کی بے دلیل حمایت کا جائزہ
✿ ✿ ✿ ✿
نوٹ : سعید بن المسیب کی روایت سے متعلق فریق مخالف کے مکرر اور سہ کرر اعتراضات کے جوابات دئے جاچکے ہیں ، اس تعلق سے مزید اگلے سلسلہ اعتراض کا جواب آگے آئے گا ، ان شاء اللہ۔
✿ ✿ ✿ ✿
سردست ہم  اللہ کے فضل وکرم سے اس بے سند اور بے سر پیر قول کی مزید حقیقت واضح کریں گے جسے فریق مخالف نے امام ابن عبدالبررحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا تھا ، اور جب سند صحیح کا مطالبہ کیا گیا تو بجائے اس کی کوئی صحیح سند پیش کرتے ، آں جناب تنکوں کا سہارا لینے لگے بلکہ  مذہبی برادری کی اس پالیسی کی دہائی دینے لگے جو مذہبی حلقوں کا خاص شعار ہے۔
اس کا جواب دینے سے قبل قارئین کو ہم یہ دکھلاتے ہیں  کہ اس طرح کے اصول پر اہل مدینہ سے فطرہ میں نقد کے جواز پر ایک اور دلیل فراہم ہوجاتی ہے چنانچہ :
أبو الفضل القاضي عياض بن موسى اليحصبي (المتوفى 544 )  ابن ابی الزیاد سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”قال ابن أبي الزناد كان عمر بن عبد العزيز يجمع الفقهاء ويسألهم عن السنن والأقضية التي يعمل بها فيثبتها وما كان منه لا يعمل به الناس ألغاه، وإن كان مخرجه من ثقة “[ترتيب المدارك وتقريب المسالك 1/ 46]
یہ قول کس قدر واضح ہے کہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اہل مدینہ کے فقہاء کو جمع کرتے تھے اور اہل مدینہ کے یہاں معمول بہا مسائل دریافت کرتے تھے ، اور جن مسائل پر اہل مدینہ کا عمل ہوتا تھا انہیں کودرست گردانتے تھے ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ فطرہ میں طعام اور نقد دونوں پر اہل مدینہ کا عمل تھا کیونکہ عمر بن العزیز رحمہ اللہ نے دونوں پرعمل کے لئے سرکاری فرمان جاری کیا تھا ۔
واضح رہے کہ اہل مدینہ کے عمل کو حجت ثابت کرنے کے  لئے یا اس کی اہمیت کو بتانے کے کے لئے جن دلائل کو پیش کیا جاتا ہے انہیں میں سے ایک دلیل ابن أبي الزناد کا یہ قول بھی ہے ، خود أبو الفضل القاضي عياض نے یہ قول  ”باب ما جاء عن السلف والعلماء في الرجوع إلى عمل أهل المدينة في وجوب الرجوع إلى عمل أهل المدينة وكونه حجة عندهم“ کے تحت ذکر کیا ہے ۔[ترتيب المدارك وتقريب المسالك 1/ 46]
اب غور کریں کہ اگر اہل مدینہ کے عمل کے حجت ہونے یا اس کی طرف رجوع کرنے کی دلیل یہ بھی ہے کہ عمربن العزیز رحمہ اللہ اہل مدینہ کے عمل ہی کی بنیاد پر فتوی دیتے تھے اور مسائل کو درست مانتے تھے تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ فطرہ میں طعام اور نقد دونوں کا جو انہوں نے فتوی دیا ہے ان دونوں پراہل مدینہ کا عمل تھا ۔
یاد رہے کہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی طرف سے فطرہ میں طعام اور نقد دینے کا فرمان صحیح سند سے ثابت ہے جیساکہ پہلے پیش کیا جاچکا ہے اس فرمان کے خلاف مدینہ کیا پوری دنیا سے بھی کسی نے آواز نہیں اٹھائی یہ خود اپنے آپ میں دلیل ہے کہ فطرہ میں نقد کا جواز اور اس پر عمل اہل مدینہ سے ثابت ہے۔ والحمدللہ۔
.
✿  اب آئیے موصوف کے شبہات کو دیکھتے ہیں ۔
”الكافي في فقه أهل المدينة المالکی“ میں ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ بے سند قول پر ہم نے سند صحیح کا مطالبہ کیا تو آں جناب نے مذہبی رنگ میں جذباتی تقریر کے بعد ارشاد فرمایا کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سات اورمزید چار کتب سے اس کتاب میں مواد یکجا کیا ہے۔
عرض ہے کہ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ان کتابوں سے ہٹ کر اپنی دیگر معلومات سے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ ایک مقام پر تو انہوں نے اہل مدینہ کا عمل نقل کرنے کے بعد صراحت کے ساتھ اس کے کے مرجع کے لئے اپنی کتاب ”التمھید“ کا حوالہ دیا ہے۔ جیساکہ اگلی قسط میں یہ حوالہ آرہاہے ۔
مزید یہ کہ  ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جابجا اہل مدینہ کے علاوہ بھی دیگر علاقے کے لوگوں کے مذاہب کا ذکر بطور فائدہ کیا ہے ۔اور بھی بہت سی باتیں ضمنا عرض کی ہے ۔ لیکن اس سے قطع نظر اگر ہم یہ مان لیں کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی طرف سے اس کتاب میں درج شدہ ہر حرف مذکورہ گیارہ کتابوں سے ہی ماخوذ ہے تو بھی کیا یہ ہمارے سوال کا جواب ہے ؟؟؟
ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اہل مدینہ کی طرف ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جو بات منسوب کی ہے اس کی سند صحیح پیش کی جائے ، اس کے جواب میں آپ یہ فرماتے ہیں کہ امام ابن عبدالبررحمہ اللہ نے فلاں فلاں کتاب سے نقل کیا ہے سبحان اللہ !
یہ تو ایسے ہی ہوا کہ مولانا زکر یا رحمہ اللہ  نے فضائل اعمال میں جو بے سر پیر کے واقعات نقل کئے ہیں ان کی بابت کوئی صحیح سند کا مطالبہ کرلے تو یہ جواب دیا جائے کہ مولانا زکریا صاحب نے فلاں فلاں کتاب سے اسے نقل کیا ہے ! یا فتح الباری میں بطور شرح  منقول کسی حدیث کی سند سے متعلق دریافت کیا جائے تو یہ کہہ دیا جائے کہ ابن حجررحمہ اللہ نے فلاں فلاں کتاب سے نقل کیا ہے ۔(یادرہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بطور شرح پیش کردہ احادیث کے بارے میں اپنا منہج یہ بیان کیا ہے کہ وہ صرف صحیح یا حسن احادیث ہی پیش کریں گے ، اور بطور فائدہ ضعیف روایت لائیں گے تو اس کی وضاحت کردیں گے )
محترم!
آپ دعوی یہ کررہے ہیں کہ امام ابن عبدالبر نے اہل مدینہ سے امام مالک کے اسلاف کو مراد لیا ہے تو کیا مذکورہ کتابوں کے مؤلفین نے اپنی کتب میں ہر بات کے لئے سند کا التزام کیا ہے ؟ اور امام مالک کے اسلاف سے کوئی بات نقل کرتے ہوئے انہیں نے ان تک اپنی سند پیش کی ہے ؟
معاملہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ان تمام کتابوں کے مؤلفین نے براہ راست امام مالک کے اسلاف سے ہی ساری باتیں بیان کی ہیں کہ محض یہ کتابیں ہی سند کا درجہ حاصل کرلیں ، مزید تسلی کے لئے ہم امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی وہ عبارت پیش کرتے ہیں جن میں انہوں نے اپنے مراجع کا ذکر کیا ہے ان کے الفاظ ہیں:
”واعتمدت فيه على علم  أهل المدينة وسلكت فيه  مسلك مذهب الإمام أبي عبد الله مالك بن أنس رحمه الله لما صح له من جمع مذاهب أسلافه من أهل بلده مع حسن الاختيار وضبط الآثار فأتيت فيه بما لا يسع جهله لمن أحب أن يسم بالعلم نفسه و  اقتطعه من كتب المالكيين ومذهب المدنيين واقتصرت على الأصح علما والأوثق نقلا فعولت منها على سبعة قوانين . دون ما سواها وهي الموطأ، والمدونة وكتاب ابن عبد الحكم والمبسوط لإسماعيل القاضي والحاوي لأبي الفرج، ومختصر أبي مصعب، وموطأ ابن وهب." وفيه من كتاب ابن الموازي ومختصر الوقار ومن العتبة والواضحة بقية صالحة “ [الكافي في فقه أهل المدينة المالکی 1/ 137-   138]
اس عبارت میں جن کتابوں کا ذکر ہے  مؤلفین کی تاریخ وفات کی ترتیب سے انہیں ملاحظہ کریں:
مؤطا امام مالک (وفات مصنف 179هـ)
موطأ ابن وهب(وفات مصنف197هـ)
كتاب ابن عبد الحكم(وفات مصنف 214هـ)
الواضحة (وفات مصنف239هـ)
مختصر أبي مصعب (وفات مصنف242 هـ)
العتبة (وفات مصنف255هـ)
المدونة (وفات مصنف  260هـ)
مختصر الوقار(وفات مصنف269هـ)
المبسوط لإسماعيل القاضي (وفات مصنف  282 هـ)
كتاب ابن الموازي (وفات مصنف296هـ)
الحاوي لأبي الفرج(وفات مصنف331هـ)
ان کتابوں کے مؤلفین کی تاریخ وفات دیکھئے اور موصوف کا دعوی سامنے لائیے !
دعوی یہ کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام مالک کے اسلاف یعنی امام مالک سے قبل کے اہل مدینہ کا قول نقل کیا ہے۔
اب ان کتابوں کو دیکھئے ۔
⟐ موطا امام مالک مطبوع ومشہور کتاب ہے اس میں ایسی کوئی بات امام مالک نے نقل نہیں کی ہے ۔
⟐ موطا ابن وہب بھی مطبوع ہے اور کتاب الزکاۃ اورکتاب الصوم مطبوعہ حصہ میں موجود ہے اس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
⟐ ان دوکتابوں کے علاوہ باقی ساری کتب کے مؤلفین تیسری یا چوتھی صدی ہجری کے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ تمام مصنفین خود براہ راست امام مالک کے اسلاف سے کوئی بات نقل نہیں کرسکتے ہیں بلکہ واسطوں کا سلسلہ ہونا لازم ہے ۔اب سوال یہی ہے کہ یہ واسطہ اور سلسلہ سند کیا ہے ؟  امام عبدالبر رحمہ اللہ نے کون سی کتاب سے مذکورہ بات نقل کی ہے ؟ کیا امام مالک کی کتاب سے یہ بات نقل کی ہے ؟ یا  امام مالک کے بعد ان کے شاگردوں یا پھر ان سے بھی نچلے لوگوں کی کی کتاب سے نقل کی ہے ؟
یہ تفصیلات مجہول ہیں یعنی سرے سے سند کا کوئی اتہ پتہ ہے ہی نہیں چہ جائے کہ اس کی صحت کا دعوی کیا جائے !!!
.
✿ ابن عبدالبر کے کلام ”واقتصرت على الأصح علما والأوثق نقلا“ کا مفہوم :
ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے مذکورہ کتابوں سے جو باتیں نقل کی ہے ان کے بارے میں کہا ہے کہ : ”واقتصرت على الأصح علما والأوثق نقلا“ یعنی  ”میں نے ان میں سے علم کے اعتبار سے اصح  بات اور نقل کے اعتبار سے زیادہ قابل اعتماد بات نقل کی ہے“ ان الفاظ  سے موصوف نے یہ سمجھ لیا کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ان کتابوں کےسندوں کی چھان بین کرلی ہے اور صرف صحیح سندوں سے مروی باتیں ہی نقل کی ہیں ۔
حالانکہ ان الفاظ کا صحیح مفہوم کچھ اور ہی ہے ۔یہاں دو جملہ ہے ہم دونوں کی تشریح پیش کرتے ہیں :
● پہلا جملہ ہے :  ”على الأصح علما“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو علم کے اعتبار سے صحیح ترین ہو یعنی جو کتاب وسنت کی روشنی میں دلائل کی رو سے صحیح ہو ۔یہاں ابن عبدالبر رحمہ اللہ سند کے اعتبار سے صحت کی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ دلائل کے اعتبار سے قول اور فتوی کی صحت کی بات کررہے ہیں ۔
● دوسرا جملہ ہے: ”والأوثق نقلا“ اس کا مطلب ہے جو نقل کے اعتبار سے زیادہ قابل اعتماد ہو ۔ یعنی ان اہل علم اور  فقہاء کے ذریعہ نقل ہوا جن کی نقل پر فقہاء کے یہاں زیادہ اعتماد کیا جاتا ہے ۔ فقہ کے طلبا ء اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک امام کے دو شاگردوں کی نقل میں اختلاف ہو یا شاگرد کے شاگردوں کے نقل میں اختلاف ہو تو مذہبی علماء نے ضابطے بیان کئے ہیں کہ کس کی بات زیادہ قابل اعتماد ہے ۔اسی طرح کتب مذاہب کے مصنفین کے بیان میں اختلاف ہو تو وہاں بھی ضابطے بیان کئے جاتے ہیں کہ کن کے نقل پر اعتماد کیا جائے گا ۔
⟐ غرض یہ کہ یہاں قابل اعتماد سے مراد صحیح سند سے منقول ہونا نہیں ہے بلکہ ان ذرائع سے منقول ہونا مراد ہے جن پر مذہبی علماء اعتماد کرتے ہیں ۔
بالفاظ دیگر یہ سمجھ لیں کہ کتب فقہ میں جب کسی کے قول کو ضعیف  کہا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے وہ قول صحیح سند سے ثابت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ قول اصح نہیں ہے ، یا مذہب میں اس پر اعتماد نہیں کیا گیا ہے ، یا وہ مفتی بہ نہیں ہے ۔
اس کے برخلاف جب کسی  قول کو صحیح کہا جاتا ہے کہ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ قائل سے بسند صحیح ثابت ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ قول اصح ہے ، یا مذہب میں اس پر اعتماد کیا گیا ہے یا وہ مفتی بہ ہے ۔
⟐ امام ابن عبدالبررحمہ اللہ نے اصح اور اوثق کے ذریعہ جو کچھ کہا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ قول علمی طور پر زیادہ صحیح ہے ، یا مذہب میں اس پر زیادہ اعتماد کیا گیا ہے ۔
ہمارے مہربان نے نہ جانے کیسے یہ سمجھ لیا کہ یہاں ابن عبدالبر رحمہ اللہ سند صحیح کی بات کررہے ہیں ۔لگتا ہے موصوف کے پاس مذہبی کتب کا کوئی خاص مطالعہ نہیں ہے اور نہ ہی مذہبی مصطلحات سے آں جناب کو آشنائی ہے ۔اس لئے آں محترم محدثین کے یہاں  سند صحیح اور فقہاء کے یہاں نقل صحیح میں فرق نہیں کرپارہے ہیں ۔
⟐ ذرا اس بات پر غور کیجئے کہ کتب فقہ  میں مرفوع احادیث کی بھی صحت کا التزام نہیں کیا جاتا ہے نہ انہیں سندوں کے ساتھ ذکر کیا جاتا  بلکہ صحیح وضعیف ہر طرح کی احادیث سے فقہی کتب کو بھردیا جاتا ہے ، ایسے میں یہ خیال کرنا کہ ان کتب فقہ میں فقہاء کے اقوال کو نہ صرف سند کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے بلکہ سندوں کی صحت کا بھی التزام کیا گیا ہے ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
.
✿  بالفرض ہم مان لیں کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جن مراجع کا ذکر کیا ہے ان میں ہر بات سند کے ساتھ مذکور ہے یا ان کی سندوں کو ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے پرکھا ہے اور صرف صحیح الاسناد اقوال ہی منتخب کئے ہیں تو بھی یہ محض امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی اپنی تحقیق ہوگی ،  اوراس شخص کے لئے کافی ہوگی جو اس معاملہ میں ان کی تقلید کرنا چاہے ۔
لیکن اگر بات تحقیق اور اثبات حجت کی ہو تو اس  باب میں یہ حوالہ قطعا بے سود ہے ۔
  مثال کے طور پر یہ دیکھیں کہ بعض کتب احادیث ایسی ہیں کہ ان کے مصنفین نے یہ شرط لگارکھی ہی کہ وہ ان میں صرف صحیح احادیث ہی نقل کریں گے ۔یا صرف صحیح احادیث ہی سے استدلال کریں گے ، مثلا ، المحلی لابن حزم ، الاحکام الصغری اور  فتح الباری وغیرہ ۔
اب اگر ان میں سے کسی کتاب میں کوئی ایسی روایت موجود ہو جس کی سند کا کچھ اتہ پتہ نہ ہو بلکہ یہ جس اصل سے نقل کی گئی ہو وہ اصل ہی مفقود ہو تو کیا ایسی روایت پیش کرکے کوئی شخص یہ دعوی کرسکتا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے ؟ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کرتحقیق اور الزام حجت کے طور پر کوئی شخص ایسی روایت کو پیش کرسکتا ہے ؟؟؟
ظاہر ہے کہ ایسا کرنا محض تقلید جامد ہوگی ، اور اس طرح کی تقلیدی روش  تحقیق اور تثبت کے میدان میں ذرہ برابر بھی مفید نہیں ہے ۔
بلکہ ان کتابوں کی کوئی ایسی روایت جو دیگر ثابت شدہ روایت کے خلاف ہو اسے تو کوئی تقلیدا بھی اختیار نہیں کرسکتا چہ جائے کہ سب کے نزدیک اس کی صحت کا دعوی کربیٹھے اور تحقیق و تثبت کے میدان میں الزام حجت طور پر اسے پیش کرے ۔
.
✿  موصوف نے آگے یہ بھی کہاہے کہ :((ہر ہر کتاب کے متعلق ابن عبد البر نے اپنی سند ذکر کی ہوئی ہے)) محترم یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی مشکاۃ میں منقول کسی کتاب کی حدیث کی سند دریافت کرلے تو جواب میں کوئی کتاب کے مصنف سے لیکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سند پیش کرنے کے بجائے اس کتاب تک اپنی سند پیش کرنے بیٹھ جائے ۔
محترم اصل مسئلہ ناقل سے لیکر کتاب تک کی سند کا نہیں کیونکہ کتاب تک رسائی کے بعد اس کی ضرورت ہی نہیں ، لہذا مسئلہ کتاب کے اندر موجود منقول قول کی قائل تک سندکا ہے ۔اور اوپر یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ اس کی سند کا اتہ پتہ ہی نہیں ہے چہ جائے کہ اس کی صحت کا دعوی کیا جائے ۔
.
✿  موصوف سند کے مطالبہ کا دوسرا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
((کتب الفقہ کا عمومی منہج کچھ اور ہے اور کتب الحدیث والرجال کا عمومی منہج کچھ اور۔۔۔الخ ))
یہ دوسرا جواب آپ کے پہلے جواب کی تردید کررہا ہے کیونکہ پہلے جواب میں آپ کتب الفقہ میں اقوال کے ساتھ نہ صرف سندوں کا وجود مان رہے ہیں بلکہ امام ابن عبدالبررحمہ اللہ سے ان کی چھان بین بھی کروارہے ہیں ۔ جب کہ یہاں آخر خود یہ دردناک اعتراف کررہے ہیں کہ کتب الفقہ میں نقل اقوال کا منہج ہی کچھ اور ہے ۔
بہرحال اوپر ہم خود یہ بات  کہہ چکے ہیں کہ کتب الفقہ میں اقوال کی سند کا ہی اہتمام نہیں کیا جاتا ہے چہ جائے کہ سند کی تحقیق و تصحیح بھی پرکام ہے ، بلکہ اقوال تو جانے دیں، کتب الفقہ میں احادیث کی سند کا بھی التزام نہیں کیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کتب الفقہ میں نہ صرف ضعیف اور مردود روایات کی بھرمار ہوتی ہے بلکہ موضوع اور من گھڑت روایات تک کتب الفقہ کا حصہ بن جاتی ہیں ۔اس سلسلے میں ہم بہت سے ائمہ کی تصریحات بھی نقل کرسکتے ہیں لیکن یہ اس قدر بدیہی بات ہے کہ اہل علم کی تصریحات سے تائید کی ضرورت نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ جب مذہبی برادری اپنی فقہی کتب میں احادیث کی سندوں کی بھی جانچ پڑتال نہیں کرتی ہے بلکہ کسی امام کے نقل ہی کو کافی سمجھ بیٹھتی ہے تو ان کے بارے میں یہ تصور بھی کیسے کیا جاسکتا ہےکہ انہوں نے اقوال کی سندوں کی بھی جانچ پڑتال کی ہے ۔
  ●  دراصل کتب فقہ میں نقل احادیث کا معاملہ ہو یا نقل اقوال کا یہ سارا معاملہ اکثر تقلیدی بنیادوں پر ہی چلتا ہے ۔پیش رو فقیہ نے کوئی حدیث نقل کردی یا کوئی قول نقل کردیا اور وہ بجائے خود ثقہ اور قابل اعتماد ہے تو اسی پربات ختم ہوجاتی ہے ، اور جب اقوال کے ناقلین قابل اعتبار نہیں ہوتے یا اقوال میں تعارض ہوتا ہے تبھی یہ حضرات تھوڑی بہت تفتیش کرتے ہیں وہ بھی صحت سند کے معیار پر نہیں پر بلکہ دیگر قرائن کی بنیاد پر ۔
  ●   اور بالخصوص اقوال کے معاملے میں سہل انگاری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی حیثیت شرعی دلیل کی نہیں ہوتی ہے ، اس لئے بھی ان کی تفتیش پر زیادہ توجہ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ہے ۔ جیسے تاریخی روایات کا معاملہ ہے کہ ان کا تعلق تشریعی امور سے نہیں ہوتا اس لئے ان کے بیان میں محدثین کے معیار کی پابندی نہیں کی جاتی ہے ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تا ریخی روایات اور اقوال کو اصول حدیث کے معیار پر نہیں پرکھا جائے گا ۔
⟐ دراصل تاریخی روایت اور اقوال کے ثبوت  میں دعوی بھی اصول حدیث کے معیار والا نہیں ہوتا ہے ، اور چونکہ ان کے ثبوت کا دعوی  ، حدیث کے ثبوت کے معیار کا نہیں ہوتا ہے اس لئے اس دعوی پر اصول حدیث کے معیار کی دلیل بھی طلب نہیں کی جاتی یعنی انہیں اصول حدیث کے معیار پر پرکھا بھی نہیں جاتا ۔
بعض لوگ یہ بات سمجھ نہیں پاتے اور یہ شور تو مچاتے ہیں کہ تاریخی روایات اور اقوال کو اصول حدیث کے معیار پر نہیں پرکھا جاتا لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ان تاریخی روایات اور اقوال کو بیان کرکے ان کے ثبوت پر دعوی بھی اصول حدیث کے معیار والا نہیں کیا جاتا ہے ۔
⟐ بالفاظ دیگر تاریخی روایات اور اقوال کے بیان میں تساہل اور سہل انگاری کی اجازت تب تک ہے جب تک کہ ان کو بیان کرنے کے بعد ان کے ثبوت کے سلسلے میں آپ ثبوت حدیث کے معیار کا دعوی نہ کریں ۔لیکن جب آپ کسی تاریخی روایت یا کسی قول کو بیان کرکے اس کے ثبوت میں ثبوت حدیث کے معیار کا دعوی کر بیٹھیں گے ، تو آپ کو اسی معیار پردلیل بھی دینی پڑے گی ۔
موصوف نے فقہی اقوال کے سلسلے میں مذہبی پالیسی کی دہائی تو دی ہے کہ ان کے یہاں ان اقوال کو اصول حدیث کے معیار پر نہیں پرکھا جاتا لیکن اس بات کو نظر انداز کرگئے کہ ان کے یہاں ان کے ثبوت کا دعوی بھی اصول حدیث کے معیار کا نہیں ہوتا ہے ۔بلکہ خاص مذہبی اصولوں پر ہوتا ہے ۔
محترم ! یہاں آپ کسی مذہبی شخص سے بات نہیں کررہے ہیں اس لئے مذہبی پالیسیوں کے حوالے مذہبی حلقوں تک محدود رکھیں ، ہم ان مذہبی ڈھکوسلوں پر ذرہ برابر بھی ایمان نہیں رکھتے ہیں بلکہ کتاب وسنت سے استدلال اور اقوال کے نقل وتثبت میں اللہ کے فضل وکرم سےہم  اسی منہج پرقائم ہیں ، جو مذہبی برادری کی ولادت سے پہلے امت میں معمول بہ تھا اور صحابہ کرام اور تابعین عظام کا طرہ امتیاز تھا ۔
احادیث کے ساتھ ہم ہر اس تاریخی روایت اور قول کی صحت اصول حدیث کے معیار پر ضروری سمجھتے ہیں ، جن کو ثبوت حدیث کے معیار پر ثابت مان کر اس سے استدلال کیا جارہا ہو ، مثلا کسی  تاریخی روایت کو بنیاد بناکر صحابہ پر یا کسی مسلمان پر سب وشتم کیا جارہا ہو ، یا کسی قول کو بنیاد بناکر اس پر استدلال کی عمارت کھڑی کی جارہی ہو یا اس کے پیش نظر دیگر مخالف مگر ثابت اقوال پر نکتہ چینی کی جارہی ہو ۔کیونکہ اس صورت میں معاملہ”إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا“ اور ”كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع“ کے قبیل سے ہے ۔
باقی کسی بے ضرر ضعیف تاریخی روایت کو محض حکایت کے قبیل سے کوئی بیان کررہا ہو ، یا کسی بے سندفقہی قول کو محض فائدہ اور ضمنی تائید میں پیش کررہا ہے تو یہ ”حدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج“  کے قبیل سے اور ہم اس کے خلاف نہیں ہیں ۔
.
✿  یہ تو عمومی  طور پر بات ہوئی کہ مذہبی برادری میں کسی قول کے نقل اور ثبوت کا معیار کیا ہے ۔اورہماری گفتگو کس معیار کے ثبوت پر ہورہی ہے ۔
لیکن خاص ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ اس قول کی بات کریں اور اسے امام مالک کے دور سے قبل کے اہل مدینہ کو مراد لیں تو یہ بے سر پیرکا قول مذہبی برادری کے اصول سے بھی مردود اور ناقابل التفات ہے۔
❀ کیونکہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس قول کے نقل میں منفرد ہیں خواہ یہ نقل انہوں نے اپنے ذکر کردہ مراجع سے کیا ہو یا اپنی دیگر معلومات سے ۔ہماری ناقص معلومات کی حدتک  کسی بھی مذہبی حلقے نے قدمائے اہل مدینہ کی طرف ایسی کوئی بات منسوب نہیں کی ہے ۔
❀ حتی کہ مالکیہ میں سے بھی کسی دوسرے مالکی  نے ایسا کوئی دعوی نہیں کیا ہے جبکہ مالکیہ کا حال یہ ہے کہ وہ اہل مدینہ کے تعامل کا حوالہ بڑی شان سے دیتے ہیں بلکہ جس مسئلہ میں اہل مدینہ کا تعامل نہیں ہوتا ہے اس میں بھی محض امام مالک کے قول کی بنیاد پر تعامل اہل مدینہ کا دعوی کربیٹھتے ہیں ۔اور مخالفین پر رد کرتے ہوئے اسے مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، دكتور أحمد محمد نور سيف اسی بابت  لکھتے ہیں:
”ولعل مثل هذا التصرف من بعض المالكية  الذين جعلوا من عمل أهل المدينة سلاحا يشهرونه في وجه خصومهم عندما يعوزهم الدليل، هو الذي اثار خصومهم عليهم ، بل وخالفهم من كان يعد منهم كالإمام الشافعي “[عمل أهل المدينة بين مصطلحات مالك وآراء الأصوليين ,ص 419]
اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی فطرہ میں نقد کے عدم جواز پر اہل مدینہ کا عمل تھا تو مالکیہ نے اپنے دلائل میں اسے ذکر کیوں نہ کیا ؟
❀ فریق مخالف نے کافی پہلے لکھا ہے کہ امام مالک نے نقد کے خلاف بڑا سخت فتوی دیا ہے ، لیکن باوجود اس سختی کے امام مالک نے اپنی تائید میں عمل اہل مدینہ کا حوالہ کیوں نہ دیا ؟
دكتور بوساف نے ”المسائل التي بناها الإمام مالك على عمل أهل المدينة“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اوراس میں ان مسائل کا ذکر کیا ہے جن میں امام مالک رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کے عمل پر اعتماد کیا ہے اس میں انہوں نے فطرہ میں نقد کے عدم جواز  کا مسئلہ ذکر ہی نہیں کیا ہے۔
● بلکہ خود ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اسی کتاب ”الكافي في فقه أهل المدينة المالکی“  میں ہی امام مالک سے ایک دوسرا قول بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے فطرہ میں نقد کو جائز کہاہے ۔ لکھتے ہیں:
”وقد روي عنه وعن طائفة من أصحابه أنه تجزأ القيمة عمن أخرجها في زكاة الفطر“
”اور امام مالک اور ان کے بعض اصحاب سے یہ بھی مروی ہے کہ صدقۃ الفطر میں قیمت نکالنا بھی کافی ہے “[الكافي في فقه أهل المدينة المالکی1/ 323]
اس دوسرے قول کی دلیل ذکر کرنے کے بعد  ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اسے مشہور قول کے خلاف تو کہا ہے لیکن اسے  غیرثابت نہیں کہا ہے ، اور فریق مخالف نے اس کتاب میں  ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ مواد کو صحیح الاسناد اور ثابت شدہ تسلیم کیا ہے لہٰذا فریق مخالف کے اصول  یہ قول ثابت شدہ ہے۔
رہا عام مالکیہ کا اس کے خلاف فتوی دینا تو اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہےکہ انہوں نے امام مالک کے اس دوسرے قول کو غیر مفتی بہ سمجھا ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امام مالک نے یہ دوسرا قول ارشاد ہی نہیں فرمایا ۔بلکہ مذہبی برادری میں تو ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کسی مسئلہ میں امام مذہب کا ایک ہی قول ہے لیکن متبعین مذہب نے اس قول کے خلاف فتوی دیا ہے۔
●  امام مالک کے ساتھ بعض مالکیہ سے بھی فطرہ میں نقد کے جواز کا قول موجود ہے اور اسے بھی امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام مالک کے حوالے کے ساتھ ہی نقل کیا ہے۔ مزید دیکھئے :[سراج السالك شرح أسهل المسالك:1/ 209 ، بلغة السالك لأقرب المسالك: 1/ 676 ، الفقه المالكي الميسر: ص 154]
● بلکہ امام مالک کے اوثق ترین شاگرد ابن القاسم رحمہ اللہ(المتوفی 191) نے بھی فطرہ میں نقد کے جواز کا فتوی دیا ہے ۔جیساکہ ابن القاسم کے شاگرد امام عيسى بن دينار القرطبي رحمہ اللہ(المتوفی212 ) نے ان سے نقل کیا ہے دیکھئے:[البيان والتحصيل: 2/ 486 ، النوادر والزيادات: 2/ 303 ، نصيحة المرابط شرح مختصر خليل بن إسحاق المالكي: 2/ 35]
اورامام مالک کے اوثق شاگرد امام ابن القاسم کا یہ فتوی دینا کہ فطرہ میں نقد جائز ہے یہ بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امام مالک کا بھی یہ ایک قول ہے ، بلکہ بعید نہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اخیر میں نقد کے جواز کا بھی فتوی دیا ہو ۔
کیونکہ ابن القاسم رحمہ اللہ کے بارے میں بعض اہل علم نے یہ کہا ہے کہ وہ امام مالک کے آخری قول پر ہی فتوی دیتے تھے ، اور ایسی صورت میں امام مالک کے مختلف اقوال میں سے کسی کا ذکر نہیں کرتے تھے ۔البتہ جب  وہ امام مالک کے قدیم قول پر فتوی دیتے تو ایسی صورت میں صراحت کرتے کہ امام مالک کا اس بار ےمیں دو قول ہے اور میں پہلے قول کو اختیار کرتا ہوں۔
چانچہ ابوبکر ابن ابی جمرہ المالکی رحمہ اللہ  ، ابن القاسم رحمہ اللہ کے بارے میں  فرماتے ہیں:
”وغلب علي الظن أنه يجيب في المسائل بقول مالك الأخير حيث يختلف قوله ، ولم ينقل أقواله نقلا مطلقا ، لأن ذلك يورث السائل وقفا وحيرة ، وحيث يكون رأي ابن القاسم يوافق قول مالك الأول ينبه علي ذلك   فيحكي قوليه ، ثم يقول بأول قوليه أقول“ [إقليد التقليد لابن أبي جمرة ، نقلا عن فقه ابن الماجشون في الفقه المالكي: ص303]
رہا یہ اشکال کہ اگر امام مالک کا آخری قول فطرہ میں نقد کے جواز کا بھی تھا تو پھر جمہور مالکیہ نے اسے کیوں اختیار نہ کیا تو یہ ضروری نہیں کہ مذہب کے متبعین ہمیشہ امام مذہب کے آخری قول ہی کو اختیار کریں ، بلکہ ابن القاسم کے بارے میں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ وہ بعض مسائل میں امام مالک کے قدیم قول پر بھی فتوی  دیتے تھے اور ان کا آخری قول اختیار نہیں کرتے ، بلکہ بعض مسائل میں تو امام مذہب کا ایک ہی قول ہوتا ہے لیکن مذہب کے متبعین اس کو ترک کردیتے ہیں اور بعد کے مجتہدین  میں سے کسی کے قول کو مفتی بہ قرار دیتے ہیں۔
لہٰذا جمہور مالکیہ کا فطرہ میں نقد کے عدم جواز کو اختیار کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام مالک سے اس بارے میں کوئی دوسرا قول مروی  نہیں ہے ۔بلکہ ابن القاسم کے فتوی سے اشارہ ملتا ہے کہ امام مالک کا آخری قول فطرہ میں نقد کے جواز کا بھی ہے ۔
واضح رہے کہ فقہ مالکی میں امام مالک سے ابن القاسم کی روایت اوثق ترین روایت مانی جاتی ہے ، چناچہ ابوالقاسم حمزہ بن محمد الکنانی رحمہ اللہ (المتوفی 357) فرماتے ہیں کہ :
”إذا اختلف الناس عن مالك فالقول ماقال ابن القاسم“
يعني ”جب امام مالك سے كوئي بات نقل كرنے ميں لوگوں كا اختلاف ہو تو ابن القاسم كي نقل كرده بات ہي قابل اعتماد ہے“ [الملخص لمسندالمؤطا:ص 29 وإسناده صحيح]
نیز دیکھیں: [جمهرة تراجم الفقهاء المالكية 2/ 647، الديباج المذهب 1/ 466 ، ترتيب المدارك 3/ 246 ]
بہرحال یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مالکیہ میں سے کئی اہل علم حضرات سے فطرہ میں نقد کا جواز منقول ہے بلکہ امام مالک کے اوثق شاگرد ابن القاسم رحمہ اللہ سے بھی اس کا جواز منقول ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا بھی ایک قول یہی ہے ۔
بلکہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ امام مالک اور ان کے بعض اصحاب سے فطرہ میں نقد کے جواز کا قول نقل کیا ہے ۔اور فریق مخالف کے اصول سے یہ ثابت ہے۔
سوال یہ ہے کہ مالکیہ میں سے کئی اہل علم فطرہ نقد کے جواز کے قائل ہیں بلکہ امام مالک سے بھی جواز کا قول مروی ہے پھر بھی ان کی مخالفت کرنے والا  کوئی بھی مالکی اہل مدینہ کے فتوی کی دہائی نہیں دے رہا ہے ، ایسی صورت میں خود مذہب مالکی کے اصولوں سے بھی  امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ  اہل مدینہ کے فتوی کو درست ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
مزید اس بات پر بھی غور کریں  کہ بعض مالکی محض امام مالک کے کسی فتوی ہی کو بنیاد بناکر یہ دعوی کربیٹھتے ہیں اہل مدینہ کا بھی یہی عمل ہے ۔(مثال آگے آئے گی )
حتی کہ بعض ایسے مسائل جو امام مالک سے ثابت بھی نہیں ہوتے ہیں، بعض مالکی اسے نہ صرف امام مالک کا فتوی بتاتے ہیں بلکہ خیالی فتوے کی بنیاد پر اسی پر اہل مدینہ کے عمل کا بھی دعوی کربیٹھتے ہیں ۔( اس کی مثال بھی  آگے آئے گی )
اور بعض اچھے خاصے مالکیوں کا بھی یہ حال ہے کہ امام مالک خود یا ان سے ان کے کسی شاگرد نے کسی مسئلہ میں ”الأمر عندنا“  نقل کردیا تو ان الفاظ کو بنیاد بناکر بھی اہل مدینہ کے عمل کا دعوی کربیٹھتے ہیں خود مالکی علماء نے اس طرزعمل پر گرفت کی ہے ۔(تفصیل آگے آئے گی )
غور فرمائیں کہ جب مالکیہ کے یہاں اہل مدینہ کے عمل کے دعوے میں اس قدر غلطیاں ہیں ، بلکہ بعض اچھے خاصے بھی یہ غلطی کرتے نظرآتے ہیں، اور دیگر مالکی علماء اس پر گرفت کرتے ہیں ۔ ایسے میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ صرف تنہا  کسی مسئلہ میں اہل مدینہ کے فتوی کا ذکر کرتے ہیں ، تو خود مذہب مالکی کے اصولوں  سے اسے ماننے کی گنجائش کہاں ہے ؟
اگر ہم یہ تسلیم بھی لیں کہ یہ  امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا اپنا قیاس نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنے کسی پیش رو سے نقل کیا ہے ، تو کیا اس باب میں مالکی علماء کی فروگذاشتوں کو دیکھتے ہوئے  یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ قول کس نے نقل کیا ؟ اور کس بنیاد پر نقل کیا ؟ کہیں اس ناقل نے امام مالک کے محض قول پر قیاس تو نہیں کیا ہے ؟ جیساکہ بعض دیگر مالکیوں نے ایسا کیا ہے ، یا امام مالک  سے منقول کسی عبارت کا غلط مطلب تو نہیں نکال لیا ؟جیساکہ بعض دوسرے مالکیوں کا یہ طرزعمل ہے ۔
دوسری طرف جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ امام ابن عبدالبر کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی عالم اسے ذکر نہیں کرتا ، بلکہ کوئی مالکی بھی اس کا نام نہیں لیتا ،  تو ایسی صورت میں اس قول کو بے سر پیر کا قول نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے ۔آخر مذہبی برادری کے یہاں  کسی قول اور نقل کو شاذ کہہ کرمردود قرار دینے کا جو اصول ہے وہ یہاں اپلائی نہیں ہوگا تو پھر کس جگہ اپلائی ہوگا ؟؟
.
✿  مذہبی برادری کی دوغلی پالیسی:
واضح رہے کہ مذہبی برادری کا گرچہ گھریلو اصول یہی ہے کہ فقہی اقوال کو بغیر سند کے نقل کیا جائے اور اصول حدیث کے معیار پر نہ اس کی صحت کا دعوی کیا جائے نہ اس معیار پر اس کی تحقیق کی جائے ۔
●  لیکن جب مذہبی برادری کے خلاف اہل الحدیث کے طرف سے کوئی فتوی پیش کیا جاتا ہے ، اور متبعین مذاہب کے نہج پر ہی بعض اقوال بھی پیش کردئے  جاتے ہیں تو ایسی صورت میں مذہبی برادری اہل الحدیث سے  جرح و تعدیل کے قواعد مستعار لے کر میدان میں اترجاتی ہے ، اور بے سند یا ضعیف السند اقوال پر جرح کرتے ہوئے بڑی بے دردی سے اسے رد کردیتی ہے ۔ اورجب کسی قول پر جرح کی کوئی گنجائش نہیں ملتی تو خود قائل ہی کو غیر مجتہد اور غیر فقیہ کہنے بیٹھ جاتی ہے ۔بلکہ بعض مذہبی حلقوں سے تو صحابہ تک کو غیر فقیہ کہہ دیا گیا ہے۔
گذشتہ قسطوں میں خودا مام ابن عبدالبر رحمہ اللہ سے بھی ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح انہوں نے بعض سند کے ساتھ منقول اقوال پر جرح کرکے اسے رد کردیا ہے ، اب انصاف کریں کہ فقہی بحث میں بھی  دوسروں کی طرف سے کوئی قول نقل ہو تو وہ امام ابن عبدالبر کی نظر میں نقد سے بالا تر نہیں ہے ، تو خود ابن عبدالبر رحمہ اللہ کوئی قول بے سند نقل کردیں جس کا کوئی سر پیر نہ ہو تو اس پر کیونکر ایمان لایا جاسکتاہے ؟؟
●  اورمعاملہ صرف یہی نہیں ہے کہ ابن عبدالبررحمہ اللہ کا نقل کردہ قول بے سند اور بے سر پیر کا ہے  ۔بلکہ  اس کے  برخلاف اہل مدینہ سے فطرہ میں نقد کے  جواز کا قول موجود ہے ، بلکہ خود مذہبی برادری کے اصول سے ثابت ہوتا ہےکہ اہل مدینہ کا عمل فطرہ میں نقد کے جواز ہی کا تھا ، کیونکہ مذہب مالکی میں اہل مدینہ کے عمل کی حجیت اوراہمیت کی ایک دلیل یہ بھی دی گئی ہے کہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اس کا اہتمام کرتے تھے یعنی وہ اہل مدینہ کے عمل کے مطابق ہی فتوی دیتے کما مضی ۔ اور خود عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے نقد کے جواز کا فتوی دیا ہے ، مذہبی اصول ہی کی رو سے نتیجہ ظاہر ہے کہ فطرہ میں نقد کے جواز پر ہی اہل مدینہ کا عمل تھا ۔
جہاں تک صحیح سند سے نقل کی بات ہے تو متعدد صحیح سندوں سے ثابت ہے کہ  مدینہ میں خلیفہ کی حیثیت سے عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ  نے فطرہ میں نقد کے جواز کا نہ صرف فتوی دیا ہے، بلکہ اس پر عمل کے لئے سرکاری فرمان بھی جاری کیا ہے ۔اور کسی نے نکیر نہیں کی یہ زبردست ثبوت ہے کہ اہل مدینہ کے یہاں اس کے جواز میں کوئی کلام نہ تھا ۔
رہی بات یہ کہ امام مالک نے پھر اس کی مخالفت کیوں کی؟ تو عرض ہے کہ امام مالک سے جواز کا قول بھی مروی ہے اور مالکی علماء ہی کی تصریحات کی روشنی  میں یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہ ان کا آخری قول تھا جیساکہ اوپر تفصیل پیش کی جاچکی ہے ۔
اور اگر یہ مان لیں کہ امام مالک رحمہ اللہ نے صرف عدم جواز ہی کا فتوی دیا ہے تو یہ کوئی ایک ہی مسئلہ نہیں ہے جس میں امام مالک رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کے عمل کے مخالفت کی ہے بلکہ بہت سے مسائل میں امام مالک رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کے عمل کی مخالفت کی ہے جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment