{30} ”الكافي في فقه أهل المدينة المالکی“ فقہ مالکی کی کتاب ہے ۔ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-11

{30} ”الكافي في فقه أهل المدينة المالکی“ فقہ مالکی کی کتاب ہے ۔


{30} ”الكافي في فقه أهل المدينة  المالکی“ فقہ مالکی کی کتاب ہے ۔
✿ ✿ ✿ ✿
گذشتہ پوسٹ میں الحمدللہ واضح کیا جاچکا ہے کہ ”الکافی“ میں ابن عبدالبر کا اہل مدینہ والا قول بے سند اور غیر ثابت ہے ۔
اب آئیے اللہ کے فضل وکرم سے فریق مخالف کی ایک دوسری بڑی غلط فہمی کا ازالہ پیش کرتے ہیں وہ یہ کہ فریق مخالف یہ سمجھ رہے کہ امام ابن عبدالبر کی یہ کتاب خاص اس ”عمل أهل المدينة“ پرلکھی گئی ہے جسے اصطلاح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔بلکہ اس اصطلاح میں بھی موصوف نے ایک خاص مرتبہ کو متعین کردیا ہے کہ اس سے صحابہ وتابعین ہی مراد ہیں۔
 . 
موصوف کے کچھ جملے ملاحظہ فرمائیں:
 ⟐ ((  کتاب کا اصل عنوان ہی "اہل مدینہ " کی فقہ ہے۔ پوری کتاب اہل مدینہ کے عمل سے بھری پڑی ہے))
 ⟐ ((اہل مدینہ سے کس دور کے اہل مدینہ مراد ہیں تو اس کی وضاحت خود ابن عبد البر رحمہ اللہ نے مقدمہ میں کر دی ہے کہ اس سے امام مالک کے اسلاف (صحابہ وتابعین) مراد ہیں))
 ⟐ ((اسی طرح جب "عمل اہل المدینہ " کے اصطلاح کا اطلاق کیا جاتا ہے تو اس سے "صحابہ وتابعین کے علماء اور فضلاء مراد ہوتے ہیں" جس کی صراحت متعدد علماء اور باحثین نے کی ہے))
 موصوف نے اور بھی مقامات پر اس سے ملتی جلتی باتیں کہی ہیں ۔
ان تمام عبارتوں سے ظاہر ہے کہ ہمارے محترم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ابن اعبدالبر نے یہ کتاب خاص اصطلاحی ”عمل اہل مدینہ“ پر لکھی ہے بلکہ ان تمام عبارتوں میں موصوف نے اہل مدینہ کی تعین صحابہ وتابعین سے کی ہے ۔یعنی موصوف کی نظر میں ابن عبدالبر کی اس کتاب میں مستعمل ” اہل مدینہ “ سے نہ صرف صحابہ وتابعین  کے دور کا عمل مراد ہے بلکہ صرف صحابہ وتابعین ہی کا عمل مراد ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امام ابن عبدالبر کی کتاب کے نام میں موجود ”أهل المدينة“ سے یہ اصطلاح مراد ہی نہیں ہے ۔
 . 
 ✿ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی مراد کیا ہے وہ واضح کرنے سے پہلے قارئین یہ جان لیں کہ، اہل علم نے عمل اہل مدینہ کے مراتب کو کئی لحاظ سے بیان کیا ہے ، سب سے مناسب بیان شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا لگتا ہے جسے بعد کی بعض مالکی کتب میں بیان کیا گیا ہے ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے الفاظ اختصار کے ساتھ ملاحظہ ہوں:
وذلك أن إجماع أهل المدينة على أربع مراتب.
 ● " المرتبةالأولى " ما يجري مجرى النقل عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، مثل نقلهم لمقدار الصاع والمد؛ وكترك صدقة الخضراوات والأحباس فهذا مما هو حجة باتفاق العلماء۔۔۔
 ● "المرتبة الثانية " العمل القديم بالمدينة قبل مقتل عثمان بن عفان ، فهذا حجة في مذهب مالك۔۔۔
 ● "المرتبة الثالثة " إذا تعارض في المسألة دليلان كحديثين وقياسين جهل أيهما أرجح وأحدهما يعمل به أهل المدينة ، ففيه نزاع۔۔۔
 ● "المرتبة الرابعة " فهي العمل المتأخر بالمدينة فهذا هل هو حجة شرعية يجب اتباعه أم لا؟ فالذي عليه أئمة الناس أنه ليس بحجة شرعية۔۔۔وهو قول المحققين من أصحاب مالك۔۔۔ وربما جعله حجة بعض أهل المغرب من أصحابه۔۔[مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 20/ 303 - 310]
ہم نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بیان کردہ مراتب کو بہت اختصار کے ساتھ یہاں نقل کیا ہے ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بہت تفصیل سے مثالوں کے ساتھ اسے واضح کیا ہے تفصیل کے شائقین اصل کتاب میں پوری بحث پڑھ لیں ۔
 . 
 ◈ واضح رہے کہ یہ اصطلاح گرچہ مذہب مالکیہ میں بکثرت مستعمل ہے لیکن یہ مذہب مالکی کاخاصہ نہیں ہے بلکہ دیگر مذاہب بھی اس کا استعمال کرتے ہیں بلکہ اس سے استدلال بھی کرتے ہیں جیساکہ تفصیل ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام میں دیکھی جاسکتی ہے۔
 ◈ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بیان سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اہل مدینہ بول کر ہمیشہ صرف صحابہ و تابعین ہی مراد نہیں ہوتے ہیں بلکہ متاخرین اہل مدینہ بھی مراد ہوتے ہیں بلکہ بعض تو متاخرین اہل مدینہ کے عمل کو حجت بھی مانتے ہیں جیساکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیاہے۔
اس حقیقت کے سامنے آنے کے بعد کیا اس بات کی ذرا بھی گنجائش ہے کہ کسی بھی کتاب میں”اہل مدینہ“ کا حوالہ دیکھ کر جھٹ سے یہ دعوی کرلیا جائے کہ اس سے صحابہ وتابعین ہی مراد ہیں؟؟؟
 ✿  اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کیا اصطلاحی  ”عمل أهل المدينة“ ہی کو بیان کرنے کے لئے، اور اس میں بھی خاص”صحابہ وتابعین“ کے اقوال کو بیان کرنے کے لئے مذکورہ کتاب لکھی ہے؟ نیز اس کتاب میں جہاں بھی انہوں نے ”أهل المدينة“ کا لفظ استعمال کیا ہے کیا  وہاں صحابہ وتابعین ہی کو مراد لیا ہے ؟؟؟
تو عرض ہے کہ یہ کتاب خاص مصطلحہ اہل مدینہ پر نہیں لکھی گئی ہے بلکہ خاص مذہب مالکی پر لکھی ہے اور اہل مدینہ سے ان کی اولین مراد امام مالک اور ان کے اصحاب ہی ہیں ، ان کے ساتھ وہ دیگر اہل مدینہ کے اقوال بھی ذکر کرتے ہیں نیز بعض مقامات پر اصطلاحی عمل اہل مدینہ پر بھی فرق مراتب کے ساتھ بات کرتے ہیں ۔
اس لئے یہ سمجھ لینا اور قارئین کو یہ باور کرانا کہ  امام ابن عبدالبررحمہ اللہ نے یہ کتاب خاص مصطلحہ عمل اہل مدینہ پر لکھی ہے سراسر غلط بیانی ہے ۔مزید تفصیل ملاحظہ ہو:
 . 
 ❀ اولا:
سب سے پہلے کتاب کا نام ہی دیکھ لیتے ہیں ، نام کے شروع میں ”الكافي“ لفظ موجود ہے یہ لفظ ہی اپنے آپ میں اشارہ کررہا ہے کہ یہ ایک مخصوص مذہب پر لکھی گئی مختصر کتاب ہے ۔
یادرہے کہ چاروں مذاہب میں ”الكافي“ کے نام سے مختصر کتابیں لکھی گئی ہیں جس میں اس مذہب کے فقہ کو مختصرا پیش کیا گیا ہے مثلا:
 ①   الكافي في الفقه الحنفي 
 ② الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 
 ③  الكافي في الفقه الشافعي 
 ④  الكافي في فقه الإمام أحمد
یعنی نام کا پہلا لفظ ہی بتارہاہے کہ یہ ایک خاص فقہی مذہب کی کتاب ہے ۔
 . 
 ❀ ثانیا:
اس کتاب کے نام کا ابتدائی لفظ دیکھنے کے بعد اب اس نام کا آخری لفظ بھی دیکھ لیں جو کہ پوری صراحت کے ساتھ ”المالكي“ ہے۔
واضح رہے کہ اس کتاب کا نام صرف ”الكافي في فقه أهل المدينة“ نہیں ہے جیساکہ مکتبہ شاملہ میں درج ہے بلکہ پورا نام ”الكافي في فقه أهل المدينة المالكي“ ہے جیساکہ مطبوعہ نسخوں میں درج ہے ۔ ”المالكي“ کا لفظ پوری صراحت کے ساتھ بتارہاہے کہ یہ مذہب مالکی پرلکھی گئی کتاب ہے۔
 . 
 ❀ ثالثا:
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے شاگرد امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنے استاذ کی اس کتاب کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ولصاحبنا أبي عمر ابن عبد البر المذكور كتب لا مثل لها. منها كتابه المسمى بالكافي في الفقه على مذهب مالك وأصحابه “ [رسائل ابن حزم 2/ 180]
ملاحظہ فرمائیں کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے شاگر امام ابن حزم رحمہ اللہ اپنے استاذ کی اسی کتاب کا نام یہ ذکرکررہے ہیں:
”الكافي في الفقه على مذهب مالك وأصحابه“
یہ ایک متبحر فقیہ شاگرد کی شہادت ہے کہ یہ کتاب مذہب مالکی پر لکھی گئی ہے نہ کہ خاص مصطلحۃ اہل مدینہ پر ۔
 . 
 ❀ رابعا:
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس کتاب کو لکھنے جو وجہ بتلائی ہے وہ یہ کہ ان کے شاگردوں نے اس کا مطالبہ کیا تھا ، اب خود ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا بیان دیکھئے کہ ان کے شاگردوں نے مصطلحہ عمل اہل مدینہ پر کتاب لکھنے کا مطالبہ کیا تھا یا فقہ مالکی پر کتاب لکھنے کا مطالبہ کیا تھا ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
”فإن بعض إخواننا من أهل الطلب و العناية والرغبة في الزيادة من التعلم سألني أن أجمع له كتابا مختصرا في الفقه يجمع المسائل التي هي أصول وأمهات لما يبنى عليها من الفروع والبينات في فوائد الأحكام ومعرفة الحلال والحرام يكون جامعا مهذبا وكافيا مقربا ومختصرا مبوبا يستذكر به عند الاشتغال " وما يدرك الإنسان من الملال "، ويكفي عن المؤلفات الطوال ويقوم مقام المذاكرة عند عدم المدارسة“ [الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 136]
ملاحظہ فرمائیں ! اور اختصار ، اصول،  امہات ،فروع ، مہذب  اور مؤلفات طوال وغیرہ کی تعبیرات پر غور کریں !
 پورا سیاق چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ شاگردوں نے ایک خاص مذہب یعنی مذہب مالکی (جوکہ ان کا اور ان کے استاذ کا مذہب تھا ) پر کتاب لکھنے کا مطالبہ کیا اور مصطلحہ عمل اہل مدینہ کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں کیا ہے ۔یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کتاب خاص مذہب مالکی پرلکھی گئی کتاب ہے۔
 . 
 ❀ خامسا:
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کتاب کا پورا نام کیا رکھا ہے وہ گذرچکا ہے اب امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کتاب کا جو منہج ذکرکیا ہے وہ بھی دیکھ لیں، لکھتے ہیں:
”واعتمدت فيه على علم أهل المدينة وسلكت فيه مسلك مذهب الإمام أبي عبد الله مالك بن أنس رحمه الله لما صح له من جمع مذاهب أسلافه من أهل بلده مع حسن الاختيار وضبط الآثار فأتيت فيه بما لا يسع جهله لمن أحب أن يسم بالعلم نفسه ،و  اقتطعه من كتب المالكيين ومذهب المدنيين واقتصرت على الأصح علما والأوثق نقلا فعولت منها على سبعة  قوانين . دون ما سواها وهي الموطأ، والمدونة وكتاب ابن عبد الحكم والمبسوط لإسماعيل القاضي والحاوي لأبي الفرج، ومختصر أبي مصعب، وموطأ ابن وهب." وفيه من كتاب ابن الموازي ومختصر الوقار ومن العتبة والواضحة بقية صالحة“  [الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 138]
ملاحظہ کریں کہ اہل مدینہ کے ذکر کرنے کے بعد پوری صراحت کے ساتھ امام مالک کے مسلک ومنہج کو ذکر کیا ہے یعنی وہ امام مالک کے مذہب اورانہیں کی جمع کردہ فقہ کا ذکر کریں گے ۔اور پھر سب سے اہم چیز یہ دیکھیں کہ  یہ مواد جمع کرنے کے لئے انہوں نے جن مراجع کا حوالہ کیا ہے ان میں صرف اور صرف مالکیہ ہی کی کتب ہیں۔
کیا یہ واضح دلیل نہیں ہے کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ اس کتاب میں مذہب مالکی ہی کو بیان کریں گے نہ کہ خاص مصطلحہ اہل مدینہ پر بحث کریں گے ؟
 . 
 ❀ سادسا:
کتاب کے نام ، سبب تالیف ، منہج تالیف اور  مراجع تالیف کے بعد اب کتاب کھول کردیکھئے ، کتاب کا سب سے پہلا جملہ یہ ہے :
”الذي يوجب الوضوء عند أهل المدينة مالك وأصحابه أربعة أنواع“ [الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 145]
ملاحظہ فرمائیں کہ شروعات ہی اہل مدینہ کے لفظ سے کررہے ہیں اور یہاں صرف امام مالک اور ان کے اصحاب پر اہل مدینہ کا اطلاق کررہے ہیں ۔
کیا یہ واضح دلیل نہیں ہے کہ اس کتاب میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے  اہل مدینہ کا کئی لحاظ سے اطلاق کیا ہے نہ کہ خاص مصطلحہ عمل اہل مدینہ پر ہی کتاب لکھی ہے ؟
 . 
 ❀ سابعا:
صرف یہی نہیں  بلکہ اسی کتاب میں متعدد مقامات پر امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ امام مالک کے صرف شاگردوں کو بھی اہل مدینہ کے لفظ سے ذکرکرتے ہیں مثلا:
ایک مقام پر کہا: 
”ما ذكره إسماعيل في طواف الإفاضة هو قول مالك عند أهل المدينة“ [الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 360]
ایک اور مقام پر کہا:
”وروى أهل المدينة عن مالك“[الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 468]
ایک اور مقام پر کہا:
”وعلى هذا أكثر علماء أهل المدينة من أصحاب مالك وغيرهم“ [الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 2/ 528]
 . 
 ❀ ثامنا:
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بعض جگہ اہل مدینہ کا قول ذکر کرکے جب ان میں سے بعض کے ناموں کی صراحت کی ہے تو کسی صحابی یا تابعی کا نام ذکرنے کے بجائے امام مالک کے شاگردوں سے میں سے کسی کو ذکرکیا ہے مثلا ایک جگہ لکھتے ہیں:
”وقالت طائفة من أهل المدينة وغيرهم منهم عبد الملك بن عبد العزيز بل يرجع نصف المهر إلى الإبن“[الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 2/ 530]
عبد الملك بن عبد العزيز امام مالک کے شاگرد ہیں ۔
 . 
 ❀ تاسعا:
ایک مقام پر ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام مالک کا ایک فتوی پیش کرنے کے بعد اہل مدینہ بلکہ دیگر علماء کے فتوی کو اس کے خلاف بتلایا ہے لکھتے ہیں:
”مالك يجيز لمن نذر صوم اليوم الثالث من أيام التشريق۔۔۔وأما غير مالك من علماء أهل المدينة وغيرهم فإنهم يأبون من صيام ذلك اليوم في كل حال“ [الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 349]
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہاں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کا ذکر مصطلحہ عمل اہل مدینہ کے طور پر ذکر کیا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو امام مالک پر گرفت کیوں نہ کی جیساکہ اگلے حوالے میں انہیں نے گرفت کی ہے ، ملاحظہ کریں۔
 . 
 ❀ عاشرا:
امام مالک رحمہ اللہ نے بعض جگہ پر مصطلحہ عمل اہل مدینہ کی حیثیت سے بھی اہل مدینہ کا حوالہ دیا ہے لیکن ایسے مقام پر ان کا اسلوب کیا ہے وہ بھی دیکھیں:
”قال مالك وأصحابه يقضي باليمين مع الشاهد في كل البلاد ويحمل الناس عليه ولا يجوز خلاف ما قالوه من ذلك لتواتر الآثار به عن النبي ص وعن السلف والخلف من أهل المدينة والعمل المستفيض عندهم بذلك وقد ذكرنا الآثار في كتاب التمهيد“[الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 2/ 909]
ملاحظہ کریں کہ یہاں پر امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے مصطلحہ عمل اہل مدینہ کی بات کی، اور پوری وضاحت کردی کہ، شروع سے اہل مدینہ کا یہی  عمل رہا ہے ، اسی پر بس نہیں بلکہ اس سے اختلاف کو ناجائز بتلایاہے۔
لیکن کیا اس کتاب میں جہاں جہاں بھی امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کے عمل کا حوالہ دیا ہے وہاں اس سے اختلاف کو ناجائز بھی کہا ہے ؟ ہرگز نہیں !
یہ بھی بڑی واضح دلیل ہے کہ اس کتاب میں ہرجگہ امام ابن عبدالبر اہل مدینہ سے مصطلحہ عمل اہل مدینہ کو مراد نہیں لیتے ۔
 . 
 ⟐ فائدہ:
یہاں پر امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اہل مدینہ کے عمل پر بات کرتے ہوئے اس کے مراجع کے لئے اپنی کتاب التمہد کا حوالہ دیا ہے ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ضروری نہیں کہ اس کتاب میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ہر بات صرف انہیں کتابوں کو سامنے رکھ کر ذکر کی ہے جن کا ذکر شروع میں بطور مراجع کیا ہے بلکہ کتاب میں بعض مقامات پر انہوں نے اپنی دیگر معلومات سے بھی استفادہ کیا ہے۔
 . 
اس پوری تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی یہ کتاب خاص مصطلحہ”اہل مدینہ“ پر نہیں لکھی گی ہے بلکہ خاص ”مذہب مالکی“پر لکھی گئ ہے ۔
لہٰذا اس کتاب میں موجود لفظ اہل مدینہ کو  نہ صرف مصطلحہ عمل اہل مدینہ کے معنی میں لینا بلکہ اس سے صحابہ وتابعین ہی کے اقوال کو مراد لینا بہت بڑی بھول ہے ۔
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے زیر بحث بے سند حوالے کی حقیقت جاننے کے لئے یہ اور گذشتہ پوسٹ کافی ہے اور فریق مخالف کے مزید اعتراضات پر بات کرنے کی کوئی  ضرورت باقی نہین بچتی لیکن ہم تسلی کے لئے آگے اس پر بھی بات کریں گے ان شاء اللہ
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment