{31} ”عمل اہل مدینہ“ کے دعوے میں مالکیہ کی غلطیاں - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-12

{31} ”عمل اہل مدینہ“ کے دعوے میں مالکیہ کی غلطیاں


{31} ”عمل اہل مدینہ“ کے دعوے میں مالکیہ کی غلطیاں
✿ ✿ ✿ ✿
اللہ کے فضل وکرم سے گذشتہ دو پوسٹوں میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ امام ابن عبدالبر نے اہل مدینہ والا جو قول نقل کیا ہے وہ نہ تو سلف اہل مدینہ سے ثابت ہے اور نہ ہی اس کا وہ متعین مفہوم ہے جو فریق مخالف کی طرف سے پیش کیا گیا ہے ۔
اب آئیے یہ بھی واضح کردیں کہ عمل اہل مدینہ کے نقل میں مالکیوں نے کس طرح کی غلطیاں کی ہیں:
 ⋆   مالکیوں کے عمل اہل مدینہ کے دعوئے کا سب سے بڑا ماخذ امام مالک کے اقوال ہی ہیں ، اورچونکہ امام مالک نے صراحت کے ساتھ وہ تمام مسائل منقول نہیں ہیں جن میں انہوں نے عمل اہل مدینہ کو بنیاد بنایا ہے اس لئے مالکیہ نے اپنے اپنے فہم سے اس بابت اجتہاد کیاہے ۔
حسان محمد حسين عبد الغني لکھتے ہیں:
” ولما لم توجد رواية مسندة صحيحة لإمام مالك توضح المسائل التي اعتمد فيها علي إجماع أهل المدينة أو عملهم ، اجتهد كل متكلم في المسألة بماسنح له وخطر“[ خبر الواحد إذا خالف عمل أهل المدينة: ص88]
 ⋆  مزید یہ کہ امام مالک رحمہ اللہ کس اسلوب اورکن الفاظ میں اہل مدینہ کے عمل کا ذکرتےہیں اس بارے میں بھی ان کے یہاں کوئی خاص لفظ یا خاص ضابطہ نہیں ہے ۔اس لئے مالکیہ امام مالک کے ایسے الفاظ کے پیش نظر بھی عمل اہل مدینہ کا دعوی کربیٹھتے ہیں جو الفاظ حقیقت میں اس پر دلالت ہی نہیں کرتے ۔
حسان محمد حسين عبد الغني لکھتے ہیں:
”ان هذه العبارات والمصطلحات التي أطلقها مالك مختلفة ، وظاهر كثير منها لايبين المراد هل هو عمل لأهل المدينة ، أو هو إجماع جمهورهم ، أو هو قول لبعضهم ، أو هو رأي للإمام مالك اختاره“[ خبر الواحد إذا خالف عمل أهل المدينة: ص133]
اب کچھ نمونے بھی ملاحظہ کریں :
.
✿ امام مالک کے قول ”الأمرعندنا“  سے اہل مدینہ کے عمل کا دعوی کرنا:
امام مالک رحمہ اللہ جب  ”الأمرعندنا“ کہتے ہیں تو اس سے کیا مراد ہے اس کے تعین میں مالکیوں کا بیان مضطرب ہے۔
● بعض نے یہ نقل کیا ہے کہ جب امام مالک ”الأمرعندنا“ کہتے ہیں تو اس سے ربیعہ اور ابن ہرمز کو مراد لیتے ہیں ۔
القاضي عياض مالکی رحمہ اللہ، الدراوردي سے نقل کرتے ہیں:
”إذ قال مالك على هذا فأدركت أهل العلم ببلدنا ”والأمر عندنا“ فإنه يريد ربيعة وابن هرمز“ [ترتيب المدارك وتقريب المسالك 2/ 75]
● جبکہ بعض نے یہ نقل کیا ہے امام مالک جب ”والأمر عندنا“ کہتے ہیں تو اس سے ان کے دور کے اہل مدینہ کا عمل مراد ہوتا ہے ۔
قاض عیاض مالکی رحمہ اللہ اسماعیل بن أبي أويس سے نقل کرتے ہیں:
”وما قلت ”الأمر عندنا“ فهو ما عمل الناس به عندنا وجرت به الأحكام وعرفه الجاهل والعالم“ [ترتيب المدارك وتقريب المسالك 2/ 74]
● دوسری طرف خود  اسماعیل بن أبي أويس ہی سے منقول ہے کہ  ”الأمر عندنا“  سے امام مالک کی مراد ان کی وہ اپنی رائے ہے جسے انہوں نے اہل علم کے مختلف اقوال میں سے اختیار کی ہے ، چنانچہ سليمان بن خلف الباجی رحمہ اللہ ،  اسماعیل بن أبي أويس ہی سے امام مالک کا بیان نقل کرتے ہیں کہ :
”أما قولی   ”الأمر عندنا“ و  ”سمعت بعض أہل العلم “ فھو قول من أرتضية و أقتدي به وما أخبرته من قول بعضهم“ [احكام الفصول في احكام الاصول: ص418]
اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بات بھی علی الاطلاق صحیح نہیں ہے ۔
لہٰذا بعض مالکیہ ، وہ بھی اچھے خاسے علماء مالکیہ کا  محض امام مالک کے الفاظ  ”الأمر عندنا“ سے عمل اہل مدینہ پر استدلال کرنا بالکل غلط ہے ، بعض مسائل میں امام مالک کے اس طرح کے اقوال کو لیکر مالکیہ نے عمل اہل مدینہ کے جو بے بنیاد دعوے کئے ہیں  ان کا بیان کافی تفصیل طلب ہے ، اس بارے میں چند مسائل کو تفصیل سے دیکھنے کے عمل اہل مدینہ پر لکھی گئی دکتور احمد سیف کی کتاب بے حدمفید ہے دیکھئے:[عمل أهل المدينة بين مصطلحات مالك وآراء الأصولين : ص 166 تا 237]
بالخصوص صفحہ 237 کا ابتدائی حصہ تو کافی دلچسپ ہے۔
.
✿ امام مالک کے کسی قول ہی کی بنیاد پر اہل مدینہ کے عمل کا دعوی کرنا:
اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے حدیث ”المتبايعان كل واحد منهما بالخيار ۔۔۔“ کو رد کردیا ہے ، جیسا کہ مؤطا میں ان کے الفاظ موجود ہیں دیکھیں[موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 671] حالانکہ امام مالک رحمہ اللہ نے خود ہی اس حدیث کو سلسلہ ذہب والی سند سے روایت کیا ہے ۔
امام مالک رحمہ اللہ کے اس موقف سے بہت سے ائمہ نے اختلاف کیا ہے جن میں سرفہرست امام شافعی رحمہ اللہ ہیں ۔
 ⟐  بلکہ امام ابن القدامہ(المتوفى 620) نے تو یہاں تک نقل کیا ہے کہ :
”وقال الشافعي، - رحمه الله -: لا أدري هل اتهم مالك نفسه أو نافعا؟ وأعظم أن أقول: عبد الله بن عمر“   [المغني لابن قدامة: 3/ 483]
 ⟐  اور اس سے بھی بڑی بات امام احمد رحمہ اللہ(المتوفى241) نے امام مالك كے معاصر ،امام ابن ابی ذئب سے نقل کی ہے کہ انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ کی طرف سے اس حدیث کو رد کئے جانے پر کہا:
”يستتاب مالك، فإن تاب، وإلا ضربت عنقه“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت الأزهري: 1/ 296، وإسناده صحيح إلي أحمد، وانظر:المغني لابن قدامة: 3/ 483]
مذہبی برادری کو اپنے اصول سے یہ دونوں اقوال ثابت ماننا چاہئے اور ان کے ثبوت پر سوال اٹھانے والوں کے خلاف جذباتی تقریر شروع کردینی چاہئے ، بالخصوص جبکہ پہلے قول کو ابن قدامہ رحمہ اللہ اور دوسرے قول کو امام احمد رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔اور ان دونوں کا مقام محتاج تعارف نہیں ہے ۔
لیکن چونکہ یہ دونوں اقوال بے سند ہیں ، نہ تو امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے امام شافعی تک اپنی سند بیان کی ہے ، اور نہ ہی امام احمد رحمہ اللہ نے امام ابن ابی ذئب تک اپنی سند بیان کی ہے ، لہذا ہم ایک عظیم امام کے حق میں  ایسے پرتشدد اور قبیح بیان کو بلا سند صحیح ہرگز تسلیم نہیں کرسکتے ۔
یہ دونوں اقوال اپنی شناعت و قباحت کے باوجود بھی مذہبی کتب میں نقل ہوئے ہیں ، اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مذہبی کتب میں ، وہ بھی مستند ائمہ سے کیا کچھ نہیں نقل ہوسکتا ہے، اس لئے ہر قول اور ہر نقل پر آنکھ بند کرکے ایمان ہرگز نہیں لانا چاہئے ۔
بہرحال بات یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ایک مشہور اور اعلی درجہ کی صحیح حدیث کو رد کردیا ہے ، بعض خیراندیشوں نے رد کی تاویل بھی کی ہے اور کہا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے حدیث کو رد نہیں کیا ہے بلکہ ان کا مطلب کچھ اور ہے ،  لیکن اکثر اہل علم حتی کہ امام مالک کے تلامذہ نے بھی اقرار کیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے واقعی اس حدیث کو رد کردیا ہے ۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ اس حدیث کو امام مالک رحمہ اللہ نے کیوں رد کردیا ہے ، امام مالک رحمہ اللہ کے بعض تلامذہ کا بیان ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے ، بعض نے کچھ اور بات کہی ہے ۔ لیکن بہت سے مالکیہ نے محض قیاس آرائی کرتے ہوئے یہ دعوی کرلیا کہ اس حدیث پر اہل مدینہ کا عمل نہیں تھا اس لئے امام مالک رحمہ اللہ نے اسے رد کردیا ۔
اوریہاں ہم اسی بات کو دکھانا چاہتے ہیں ، ورنہ  ہم ذاتی طورپر اس بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہتے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے واقعی اس حدیث کو رد کیا ہے یا نہیں کیا ہے، اور کیا ہے تو کیوں کیا ہے ؟
ہمارا مقصود صرف یہ دکھلانا ہے کہ بعض مالکیہ نے یہ دعوی کیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے عمل اہل مدینہ کے سبب اس حدیث کو رد کیا ہے اور یہ دعوی کرنے والے کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں امام ابن رشد القرطبی ، اورابن رشد الحفيد رحمہمااللہ جیسے لوگ بھی اسی قطار میں کھڑے ہیں دیکھئے:[المقدمات الممهدات 2/ 95 ،  بداية المجتهد ونهاية المقتصد 3/ 188] 
لیکن قیاس آرائی پر مبنی اس دعوے کو خود کئی مالکیہ نے قبول نہیں کیا ہے بلکہ بعض مالکیہ نے بڑی سختی کے ساتھ اس کی تردید کی ہے۔ حتی کہ قاضی أبو بكر بن العربي المالكي (المتوفى543) نے تو ایسے لوگوں کو جاہل اورغبی تک کہہ ڈالا ہے ان کے الفاظ ہیں:
”فظن الجهال المتوسمون بالعلم من أصحابنا أن مالكًا إنما تعلق فيه بعمل أهل المدينة وهذه غباوة“ [القبس في شرح موطأ مالك بن أنس ص: 845]
خودابن اعبدالبر رحمہ اللہ نے بھی  اس مسئلہ میں  بعض اہل علم سے نہ صرف یہ کہ عمل اہل مدینہ کے دعوئے کی تردید نقل  کی ہے بلکہ اس کے برعکس یہ بھی نقل کیا ہے کہ حدیث الخیار پر عمل اہل مدینہ کے علماء سے ثابت ہے اور ترک امام مالک کے سواء کسی سے ثابت نہیں ہے ،ان کے الفاظ ہیں:
” وقال بعضهم لا يصح دعوى إجماع أهل المدينة في هذه المسألة لأن سعيد بن المسيب وابن شهاب وهما أجل فقهاء أهل المدينة روي عنهما منصوصا العمل به   ولم يرو عن أحد من أهل المدينة نصا ترك العمل به إلا عن مالك وربيعة وقد اختلف فيه عن ربيعة وقد كان ابن أبي ذئب وهو من فقهاء أهل المدينة في عصر مالك ينكر على مالك اختباره ترك العمل به حتى جرى منه لذلك في مالك قول خشن حمله عليه الغضب ولم يستحسن مثله منه فكيف يصح لأحد أن يدعي إجماع أهل المدينة في هذه المسألة“[التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 14/ 9- 10]
در اصل ایک طرف تو امام مالک رحمہ اللہ سے صراحتا اس مسئلہ میں عمل اہل مدینہ کے دعوی کا ثبوت نہیں ہے دوسری طرف مدینہ کے صحابہ وتابعین اورتبع تابعین میں ایک لمبی فہرست ہے جن سے اس حدیث پر عمل ثابت ہے ، مثلا دیکھئے: [المسائل التى بناها مالك على عمل أهل المدينة:656-658]
الغرض یہ کہ بعض مالکیہ نے محض امام مالک کے بعض فتاوی کے سبب بھی اہل مدینہ کا دعوی کرلیا ہے ۔
 ⋆  دکتور أحمد محمد نور سيف  لکھتے ہیں:
”ولقد أدي الخلط بين هذه المصطلحات ، عدم وضوح مدلولاتها عندالكثيرين إلي مشاكل عدة ، حيث ادعي البعض أن كل قضية يرويها مالك هي عمل لأهل المدينة ، أو كل قضية يرد فيها مصطلح من المصطلحات ، هي أجماع لهم ، كما مرت أمثلة لهذا التساهل في قضية خيار الشرط، دون أن يراعي فيها أن يكون القول رأيا لمالك أو عملا لأهل المدينة ، أو إجماعا منهم“[عمل أهل المدينة بين مصطلحات مالك وآراء الأصوليين ,ص 418]
.
✿ امام مالک کی طرف غلط طور پر منسوب قول سے بھی اہل مدینہ کے عمل کا دعوی کرنا:
ہماری معلومات کی حدتک امام مالک سے بسند صحیح کوئی بھی ایسا قول موجود نہیں جس میں انہوں نے پوری صراحت کے ساتھ یہ فتوی دیا ہو کہ نماز میں ارسال کرنا ہے اور ہاتھ نہیں باندھنا ہے بلکہ انہوں نے اپنی کتاب مؤطا میں ہاتھ باندھنے کی روایت نقل کی ہے اور اس کے خلاف کوئی بات نہیں کہی ہے ۔
لیکن بہت سے مالکیہ نے نہ صرف یہ کہ امام مالک رحمہ اللہ کی طرف ارسال کا قول منسوب کردیا ہے بلکہ بعض مالکیہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ امام مالک نے عمل اہل مدینہ کے سبب ارسال کا فتوی دیا ہے ۔ دیکھئے [سدل اليدين في الصلاة أحكامه وأدلته: ص49، نصرة الفقيه السالك:ص22]
  ✿  قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ عمل اہل مدینہ کے نقل میں مالکیوں کا کیا حال ہے؟
کبھی امام مالک رحمہ اللہ کے مجمل کلام سے اہل مدینہ کا عمل کشید کرلیا جاتا ہے ۔
 کبھی امام مالک رحمہ اللہ کے کسی فتوی کے سبب اہل مدینہ کے عمل کا دعوی کیا جارہا ہے ۔
اور کبھی تو  امام مالک رحمہ اللہ کی طرف منسوب غلط فتوی کی بنیاد پر اہل مدینہ کے عمل کا حوالہ دیا جاتاہے۔
اب انصاف کریں کہ عمل اہل مدینہ کے دعوائے مالکیہ  میں جب اس قدر تسامحات اور مغالطات ہیں ، تو جس مسئلہ میں پوری دنیا کے مالکیوں میں سے کسی نے بھی عمل اہل مدینہ کی بات نہ کی ہو بلکہ چوتھی صدی کے اواخر اور پانچویں صدی کے اوائل میں پائے جانے والے صرف ابن عبدالبر رحمہ اللہ واحد اور تنہا ہوں جنہوں نے اہل مدینہ کی بات کی ہو اوراس پر کوئی نص یا دلیل نقل نہ کی ہو تو آخر ہم محض ان کے اس بے دلیل اور مجمل نقل پر یہ کیسے مان لیں کہ ان کی مراد نہ صرف یہ کہ تمام اہل مدینہ ہیں؟ بلکہ اہل مدینہ میں بھی صحابہ وتابعین مراد ہیں اور یہ بات صحابہ وتابعین سے ثابت بھی ہے ؟؟؟
بالخصوص جب کہ اہل مدینہ (صحابہ وتابعین وغیرہم) سے اس کے برخلاف عمل صحیح سندوں سے بھی ثابت ہے اور مذہبی اصول کے مطابق دیگر اور بھی کئی ذرائع سے ثابت ہے ۔کما مضی وسیاتی۔
یہاں تک تو ہم نے اس مفروضہ کا رد کیا ہے کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اصطلاحی طور پر عمل اہل مدینہ کا ذکر کیا ہے ، اور اس سے صحابہ وتابعین کو مراد لیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ماننے کی صورت میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا یہ دعوی بالکل بے سند ہے بلکہ صحیح سندوں سے وارد اہل مدینہ کے عمل کے خلاف بھی  ہے۔
لیکن امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ اس قول کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس سے سلف اہل مدینہ مراد ہی نہیں ہیں بلکہ امام مالک کے بعد کے اہل مدینہ والے مراد ہیں اور ان میں بھی سب مراد نہیں ہے اس کی تفصیل اگلی سطور میں ان شاء اللہ
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment