{48} کتاب الاموال میں، ابن زنجویہ کی ابوعبید سے روایات کی نوعیت
✿ ✿ ✿ ✿
ابن زنجویہ نے اپنی کتاب الاموال میں اپنے استاذ ابوعبید کی کتاب الاموال سے بہت استفادہ کیا ہے ۔جیساکہ کتاب کے محقق نے بھی مقدمہ میں صراحت کررکھی ہے کماسیاتی ،اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابن زنجویہ کے پاس ان کے استاذ ابوعبید کی کتاب الاموال موجود تھی اور وہ اسی کتاب کو دیکھ کر اس سے اقتباسات نقل کرتے تھے۔
اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
.
● اولا:- ابواب کی مماثلت:
ابن زنجویہ نے اپنی کتاب اموال میں جو ابواب قائم کئے ہیں وہ اکثر ان کے استاذ ابوعبید کی کتاب ہی کے ابواب کی نقل ہیں ، چنانچہ کتاب کے محقق دکتور شاکر ذیب فرماتے ہیں:
”يتبع ابن زنجويه شيخه أبا عبيد في وضع عناوين الكتاب وسردها بتسلسلها وترتيبها،من بداية الكتاب إلي أول كتاب الصدقة تقريبا ، فقليلا ما نجد بابا عند أبي عبيد غير مذكور عند ابن زنجويه “ [الأموال لابن زنجويه 1/ 47]
.
● ثانیا:- ابوعبید کے اقوال وتشریحات کااندراج:
كتاب كے محقق دكتور شاكر ذيب فرماتے هيں:
”يكتفي ابن زنجويه بنقل تعليقات أبي عبيد علي النصوص ، و آرائه في المسائل الفقهية “ [الأموال لابن زنجويه 1/ 48]
.
● ثالثا:-ابوعبید کی روایات کا صیغہ قال سے بیان:
ابن زنجویہ نے اپنی کتاب میں ابوعبید کے حوالے سے جو بھی روایات ذکر کی ہیں وہ قال کے صیغہ سے ذکر کی ہیں جو کہ تعلیق کا صیغہ ہے اور ابو عبید کی تمام روایات و اقوال کو انہوں نے اسی صیغہ سے نقل کیا ہے جبکہ دوسری روایات کو انہوں نے عام تحدیثی صیغے سے بیان کیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ابن زنجویہ نے یہ الگ اسلوب صرف اور صرف ابوعبید ہی کی روایات کے ساتھ کیوں اپنایا کہ ان کی تمام کی تمام روایات کو صیغہ تعلیق قال ہی سے بیان کیا ہے؟؟
قال گرچہ غیر مدلس کی جانب سے عموما سماع پر دلالت کرتا ہے(عموما سماع کی وضاحت آگے ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ میں آرہی ہے )
لیکن محض سماع سے کوئی روایت عام تحدیثی روایت نہیں ہوسکتی، ورنہ ابوعبید کی کتاب کے راوی امام بغوی نے ”حدثنا“ کہہ کر ہی کتاب کو روایت کیا ہے، جو سماع کے ثبوت میں صریح ہے تو کیا محض ثبوت سماع کے سبب اسے عام تحدیث مان لیا جائے ؟؟
لہٰذا ابن زنجویہ کی اپنی کتاب میں ابو عبید کے علاوہ باقی روایات کو عام تحدیثی انداز میں روایت کرنا اور صرف ابو عبید کی روایات کو الگ الگ تھلگ صیغہ یعنی قال سے روایت کرنا صاف دلیل ہے کہ یہ عام تحدیثی روایت نہیں ہے بلکہ روایت کردہ کتاب سے اقتباس ہے ۔
واضح رہے کہ ہماری تلاش کے مطابق صرف اور صرف چار مقامات ایسے ملے ہیں، جہاں ابن زنجویہ نے عام تحدیثی انداز میں ابوعبید کی روایت ذکر کی ہے اور ظن غالب ہے کہ یہ چار مقامات بھی تصحیف زدہ ہیں ۔
اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ اگر بعض روایات کو ابن زنجویہ عام تحدیثی انداز میں بھی بیان کرتے، تو یہ بات صرف چار ہی مقامات پر نہ ہوتی بلکہ بہت سے مقامات پر یہ بات ہونی چاہے ۔
دوسری دلیل یہ کہ ابن زنجویہ کی کتاب میں بعض مقامات پر امام ابوعبید کے اپنے اقوال کو بھی تحدیثی صیغے سے درج کیا گیا ہے مثلا ایک جگہ ہے :
أنا أبو عبيد ووجه هذا الحديث أن . . . [الأموال لابن زنجويه 1/ 418]
ظاہر ہے کہ یہ عجیب بات ہے کیونکہ یہاں ابوعبید کوئی روایت نہیں بیان کررہے کہ ان کے شاگرد کو حدثنا یا اخبرنا کہنے کی ضرورت ہو بلکہ ابوعبید یہاں پر اپنی رائے ذکر کررہے ہیں اور ایسی باتوں کو قال کے ذریعہ ہی نقل کیا جاتا ہے نہ کہ حدثنا کے ذریعہ ۔
مثلا کسی راوی کو امام بخاری ضعیف کہیں اور امام ترمذی اسے نقل کریں تو یہ نہیں کہیں گے کہ :حدثنا محمد أن فلاں ضعيف ۔۔ بلکہ یوں کہیں گے کہ : قال محمد أن فلان ضعيف۔۔۔ اس طرح کی مثالوں کے لئے الکامل لابن عدی کی طرف مراجعت مفید ہوگی ۔
نیز ابن زنجویہ کی کتاب میں اخبرنا کے صیغہ سے منقول مذکورہ قول ابو عبید کی کتاب میں اس طرح ہے :
قال أبو عبيد وجه هذا الحديث أن . . .[الأموال للقاسم بن سلام، ت: سيد رجب: 1/ 277]
ظاہر ہے کہ یہی صیغہ درست ہے اور اخبرنا تصحیف ہی ہے ۔
بالفرض مان لیں کہ ان چار مقامات پر عام تحدیث ہی ہے تو چار روایات میں ابن زنجویہ کا منفرد ہونا کوئی امر مستغرب نہیں ہے ۔
بلکہ ان میں بھی بعض میں ابن زنجویہ کی متابعت موجود ہے ۔
.
● رابعا:-ابوعبید کی مرویات پر استدراک:
ابن زنجویہ کا ابوعبید کی کتاب کے عناوین و ابواب کے تحت اموال سے متعلق مزید روایات کا بیان بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ابوعبید کی کتاب ان کے سامنے ہے اسی وجہ سے بعض اہل علم نے ابن زنجویہ کی کتاب کو ابوعبید کی کتاب پر زیادات یعنی استدراک قراردیا ہے۔
.
● خامسا:-ابوعبید کی بعض مرویات پر استخراج:
ابن زنجویہ کا ابوعبید کی بعض مرویات کو ابوعبید کے بجائے اپنی دوسری سند سے ذکر کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ابوعبید کی کتاب ابن زنجویہ کے سامنے ہے اسی لئے بعض اہل علم نے ابن زنجویہ کی کتاب کو ابو عبید کی کتاب پر استخراج کے مانند قراردیا ہے ۔
.
⟐ مذکورہ بالا سارے دلائل سے صاف بتا چلتا ہے کہ ابن زنجویہ نے ابو عبید کی کتاب کو سامنے رکھ کر ہی اپنی کتاب مرتب کی ہے اور اپنی کتاب میں ابن زنجویہ کی کتاب سے اقتباسات نقل کئے ہیں ۔
.
✿ ابن زنجویہ کی کتاب الاموال کے محقق دکتور شاکر ذیب ابن زنجویہ اور ابو عبید دونوں کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یعتبر أبوعبید أبرزشیوخ ابن زنجويه فی ھذا الکتاب ، وقد ألف كتابا في الموضوع نفسه ، فاستفاد منه ابن زنجويه كثيرا فهو يكثر من رواية الأحاديث والآثار من طريقه ، ومن ذكر أقواله الفقهية وآرائه في مختلف المسائل ، وتعليقاته حول النصوص حتي بلغ مجموع ما حكاه من أقواله حوالي أربعمائة قول وذلك سوي روايته عنه الآحاديث والآثار “ [الأموال لابن زنجويه 1/ 47]
ملاحظہ فرمائیں کہ کتاب کے محقق کتنی صراحت کے ساتھ بتلارہے ہیں کہ ابن زنجویہ نے امام ابوعبید کی کتاب الاموال سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے پھر کتاب کے اس استفادہ کی تفصیل یہ بتارہے ہیں کہ انہوں نے ان کے طریق سے بہت سی احادیث و آثار کو ذکر کیا ہے اور مختلف مسائل میں ان کے فقہی اقوال و آراء کا تذکرہ کیا ہے حتی کہ یہ اقوال تقریبا چار سو (400) کی تعداد میں ہیں ۔
قارئین غور کریں کہ یہ چار سو(400) اقوال ابن زنجویہ نے ابو عبید کی کتاب ہی سے نقل کئے ہیں ۔
اور جس صیغہ سے یہ اقوال نقل کئے ہیں عین اسی صیغہ سے احادیث وآثار کو بھی ابو عبید کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔
نقل کا یہ مشترک اسلوب صاف بتلاتا ہے کہ ابن زنجویہ یہ سب کچھ ابو عبید کی کتاب ہی سے نقل کررہے ہیں ۔
.
✿ بعض شبہات کا ازالہ:
❀ قرأۃ علی الشیخ اور صیغہ حدثنا اور کتاب کی روایت:
ابن زنجویہ نے ابوعبید کے حوالے سے جن روایات کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے انہیں قال ابوعبید کے صیغہ سے ذکر کیا ہے لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ابن زنجویہ نے خود یہ صراحت کررکھی ہے کہ انہوں نے امام ابوعبید سے قرأۃ علی الشیخ یعنی عرض کے ذریعہ ان روایات کو اپنے شیخ سے نقل کیا ہے اس لئے ابن زنجویہ ان روایات کو ابو عبید کی کتاب سے نقل نہیں کررہے ہیں بلکہ ابوعبید سے عام تحمل وتحديث كے انداز ميں روايت کررہے ہیں ۔
.
جوابا عرض ہے کہ:
محض صیغہ تحمل کی بناپر عام تحمل و تحدیث کی بات کرنا انتہائی عجیب بات ہے ۔ورنہ ماننا پڑے گا کہ ابوعبید کی کتاب کے راوی امام بغوی کا بھی یہی معاملہ ہے ۔کیونکہ امام بغوی نے ابوعبید کی روایات کو ”قرأۃ علی الشیخ“ نہیں بلکہ انتہائی اعلی درجہ کے صیغہ تحمل ”حدثنا“ سے نقل کیا ہے !!
تو کیا محض اس صیغہ تحمل کی بناپر یہ فیصلہ کردیا جائے کہ امام بغوی کی روایت بھی عام تحدیثی روایت ہے ؟؟ اور یہ کتابی نسخہ کی روایت نہیں ہے ؟؟
دراصل ابن زنجویہ امام ابوعبید کے شاگرد ہیں اور انہوں نے امام ابوعبید کے پاس ان کی کتاب اموال ان پر پڑھی ہے ۔ یعنی یہ بھی اس کتاب کے راوی ہیں ۔اورانہوں نے اپنے استاذ سے یہ کتاب حاصل بھی کی تھی اور اسی کو سامنے رکھ کر اپنی کتاب مرتب کی ہے ۔
لہٰذا ابن زنجویہ کا معاملہ بھی کتاب کی روایت ہی کا معاملہ ہے ۔
البتہ انہوں نے ایک طرف بعض مقامات کو ترک کیا اور دوسری طرف کئی جگہ اضافے کئے ہیں اسی لئے بعض ائمہ نے ابن زنجویہ کی اس کتاب کو ابوعبید کی کتاب پر استدراک کے مانند قراردیاہے۔
نیز ابوعبید کی کتاب کی بعض روایات کو ابن زنجویہ نے اپنے استاذ ابوعبید کے طریق کے علاوہ دوسرے طریق سے پیش کیا ہے اس بناپر بعض اہل علم نے ابن زنجویہ کی کتاب کو ابوعبید کی کتاب پر استخراج کے مانند قراردیا ہے۔
یعنی ابن زنجویہ نے اپنے استاذ ابو عبید کی کتاب کو عرضا روایت کرکے اسے حاصل کیا ، پھر اسے مرجع بنایا ، اس کے بعد اس میں حذف اضافہ کرتے ہوئے استدراک اور استخراج کیا ۔
لہٰذا حقیقت میں امام ابوعبید سے ابن زنجویہ کی روایت کتابی روایت ہی ہے ۔ اور انہوں نے اپنی مرتب کردہ کتاب میں ابوعبید کی روایت کردہ کتاب ہی کی باتیں یعنی اس کے اقتباسات پیش کئے ہیں ۔
الغرض یہ کہ ابن زنجویہ کی طرف سے قرأۃ علی الشیخ کتاب کی روایت میں ہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ اس ضمن میں قال سے نقل فرماتے ہیں ۔اس طرح وہ کتاب سے نقل اور تحدیثی نقل کے مابین فرق کررہے ہیں ۔
ورنہ یہ بھی سوچیں کہ اگر یہ قرأۃ علی الشیخ عام تحدیث کے قبیل سے ہوتا تو ابن زنجویہ اپنے دیگر مشائخ سے اس انداز تحمل سے روایت کردہ احادیث کو بھی اسی صیغہ سے بیان کرتے ۔
کیونکہ ظاہر ہے کہ انہوں نے دیگر مشائخ سے بھی بعض احادیث کی تحدیث اسی انداز سے کی ہوگی ۔
لیکن ان کی پوری کتاب دیکھ لیں صرف ابو عبید ہی سے نقل کردہ مواد کو قال سے پیش کرتے ہیں باقی ساری روایات کو عام تحدیثی انداز سے ہی روایت کرتے ہیں ۔
یہ فرق دلیل ہے کہ ابو عبید سے ابن زنجویہ کی نقل کی نوعیت الگ ہے اور دیگر مشائخ سے ان کے نقل کی نوعیت الگ ہے ۔
.
❀ کیا غیر مدلس کی طرف سے قال ہرجگہ تحدیثی تحمل پر دال ہے ؟
محدثین کی طرف سے یہ نقل کرنا کہ غیر مدلس کا قال سماع پر دال ہے ، پھر اس بنیاد پر یہ باور کرانا کہ غیر مدلس کا قال کہہ دینا عام تحدیثی روایت کے قبیل سے ہے ، بڑی عجیب وغریب بات ہے ۔
کیونکہ ”قال“ کو ایک طرف رکھیں کتابی نسخہ کا راوی کتاب روایت کرتے ہوئے ”حدثنا“ کہتا ہے جو قطعی طور پر سماع پر ہی دلالت کرتا ہے لیکن کیا اس بنیاد پر یہ دعوی کرنا درست ہوگا کہ کتابی نسخہ کا راوی حدثنا کہہ کر روایت کرے تو اسے عام تحدیثی روایت مانیں گے اور اسے کتابی نسخہ کی روایت کے قبیل سے نہیں لیں گے ؟؟
لہٰذا مسئلہ سماع اور غیر سماع کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ ابو عبید سے نقل کردہ مواد کو الگ الگ تھلک صیغہ یعنی صیغہ تعلیق سے پیش کرنے کا ہے ۔جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ یہ عام تحدیثی روایت نہیں ہے۔
.
⟐ امام بخاری رحمہ اللہ اپنے مشائخ سے جب قال کے صیغہ سے روایت کرتے ہیں تو ایسی روایت کو معلقات البخاری ہی میں شمار کیا جاتا ہے اور اس طرح کی روایات کو تعالیق البخاری عن مشائخہ کہتے ہیں۔بلکہ ایک باحث نے تو تعالیق البخاری عن مشائخہ پر دکتوراہ کا ایک مقالہ بھی لکھ رکھا ہے ۔
امام بخاری رحمہ اللہ اپنے شیخ سے ایک جگہ قال سے روایت کرتے ہیں اوردوسری جگہ اسی سے تحدیث کردیتے ہیں تو دوسری جگہ کی روایت ہی کو اصل کتاب کا حصہ مانا جاتا ہے اور پہلے مقام کی روایت کو تعلیقا شمار کیا جاتا ہے ، گرچہ یہاں بھی سماع متحقق ہے۔
بعض مقامات پر امام بخاری رحمہ اللہ اپنے مشائخ سے قال سے روایت کرتے ہیں اور پوری کتاب میں کہیں بھی تحدیث نہیں کرتے بلکہ اس طرح کی بعض روایات ایک ہی مقام پر ہوتی ہیں ایسی تمام روایات کو تعالیق البخاری ہی میں شمار کیا جاتا ہے۔
اور بعض مقامات پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے مشائخ سے تعلیقا روایت نقل کی ہے اور اپنی ہی کتاب میں دوسری جگہ جب تحدیث کیا تو اپنے اسی شیخ کے بیچ میں ایک واسطہ بڑھا دیا ہے ۔اسی بناپر بعض نے امام بخاری رحمہ اللہ کو مدلس کہہ دیا ہے جس کا دفاع کرتے ہوئے ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«لا يلزم من هذا الفعل الاصطلاحي له أن يوصف بالتدليس لأنا قد قدمنا الأسباب الحاملة للبخاري على عدم التصريح بالتحديث في الأحاديث التي علقها حتى لا يسوقها مساق أصل الكتاب فسواء عنده علقها عن شيخه أو شيخ شيخه وسواء عنده كان سمعها من هذا الذي علقه عنه أو سمعها عنه بواسطة» [تغليق التعليق لابن حجر: 2/ 9]
اورایک دوسرے مقام پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ہر راوی کی طرف سے قال ، سماع پر بھی دلالت نہیں کرتاہے نیز ہر عدم سماع والے قال کی بناپر تدلیس کا حکم بھی نہیں لگے گا ، ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
«ولا يلزم من ذلك أن يكون مدلسا عنهم فقد صرح الخطيب وغيره بأن لفظ قال لا يحمل على السماع إلا ممن عرف من عادته أنه لا يطلق ذلك إلا فيما سمع فاقتضى ذلك أن من لم يعرف ذلك من عادته كان الأمر فيه على الاحتمال» [مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 17]
.
❀ ابوعبید کی کتاب الاموال میں کسی روایت اور انہیں کے حوالے سے ابن زنجویہ کی کتاب الاموال میں اسی روایت کے الفاظ میں فرق:
ابو عبید کی کتاب سے نقل کردہ بعض روایات میں ابن زنجویہ کی کتاب میں الفاظ کا فرق پایا جاتا ہے ۔اسے بنیاد بنا کر یہ دعوی کرنا بھی درست نہیں ہے کہ یہ روایات ابو عبید کی کتاب سے منقول نہیں ہیں ۔
کیونکہ ابوعبید کی کتاب کے نسخوں میں اختلاف ہوسکتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ابن زنجویہ کے پاس ابو عبید کی کتاب کا جو نسخہ تھا عین اسی نسخہ سے ہی ابو عبید کا موجودہ محقق نسخہ طبع ہوا ہے ۔
نیز خود ابن زنجویہ ہی کی کتاب کے مختلف مخطوطات میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔بلکہ شاید ہی حدیث کی کوئی محقق کتاب ہو جس میں محققین نے حواشی میں نسخوں کے اختلاف کی وضاحت نہ کی ہے ۔ تو کیا مخطوطات میں ان اختلافات کی بنا پر یہ دعوی کردیا جائے کہ یہ نسخوں کی روایت نہیں ہے بلکہ عام تحدیثی روایت ہے ؟؟
.
❀ بعض اہل علم کا یہ کہنا کہ ابن زنجویہ کی کتاب ابو عبید کی کتاب پر استخراج کے مانند ہے:
سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھیں کہ کسی بھی محدث نے یہ نہیں کہا ہے کہ ابن زنجویہ کی کتاب ابو عبید کی کتاب پر مستخرج ہے بلکہ محدثین نے ”کالمستخرج“ کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی یہ کہا ہے کہ ابن زنجویہ نے ابو عبید ہی کی بعض روایات کو ان کے علاوہ دوسرے طرق سے نقل کیا ہے ۔لہذا ان مقامات کے لحاظ سے یہ کتاب ابوعبید کی کتاب پر مستخرج جیسی ہے ۔
بلکہ بعض مباحث میں ابن زنجویہ نے مستقل دیگر روایات کا بھی اضافہ کیا ہے اسی لئے بعض محدثین نے استخراج کے ساتھ زیادات کی بات بھی کہی ہے ۔بلکہ ابو عبید کی کتاب کے بعض مقامات کو ابن زنجویہ نے ترک بھی کردیا ہے ۔لہٰذا ابن زنجویہ نے اپنی اس کتاب میں ابو عبید کی کتاب کو لیکر حذف و اضافہ ، استخراج و استدراک ، استدلال و استنباط سب کچھ کیا ہے ۔
لہٰذا یہ کتاب عین مستخرج والی کتاب نہیں ہے ۔لہٰذا عین مستخرج والی کتاب کی بات کو مشابہ مستخرج والی کتاب پر فٹ کرنا درست نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ کہ اصحاب المستخرجات کے برعکس ابن زنجویہ نے اپنی اس کتاب میں ابو عبید سے جو نقل کیا ہے وہ خاص صیغہ تعلیق قال سے نقل کیا ہے جس کی وضاحت ماقبل میں ہوچکی ہے ۔
الغرض یہ کہ تمام قرائن وشواہد اسی بات پر دال ہیں ابن زنجویہ نے ابو عبید کی کتاب کو ابو عبید پر پڑھا ہے ، اوران کے پاس بھی اس کتاب کا ایک نسخہ تھا یعنی وہ بھی اس کتاب کے راوی ہیں ، اور انہوں نے اپنی کتاب میں ابوعبید کی کتاب سے بہت استفادہ کیا ہے یعنی ابو عبید کی کتاب سے بہت ساری باتیں نقل کی ہیں ۔
واضح رہے کہ ابن زنجویہ نے ابو عبید کی کتاب سے جو روایات اپنی کتاب میں نقل کی ہیں انہیں میں سے بعض روایات کو دوسرے ائمہ نے ابو عبید سے روایت بھی کیا ہے ۔
مثلا دیکھئے : ابن زنجویہ کی کتاب میں موجود روایت نمبر (109) اور اس کے ساتھ دیکھئے [المحلى لابن حزم : 4/ 101]
(جاری ہے ۔۔۔)
No comments:
Post a Comment