{32} امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے نقل کردہ قول کا مفہوم
✿ ✿ ✿ ✿
گذشتہ مباحث میں ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا نقل کردہ قول بے سند اور مجمل ہے اب آئیے اس کے مفہوم پربات کرتے ہیں۔
ہمیں سخت حیرت ہے کہ ہمارے مخالف نے چوتھی اور پانچویں صدی کے امام ابن عبدالبر (المتوفى463) کی عبارت میں مستعمل اہل مدینہ کا مفہوم کتنی جلد سمجھ لیا ،ماشاء اللہ۔
حالانکہ مالکیہ کے یہاں جس عمل اہل مدینہ کی گردان ہوتی ہے وہ کسی معمہ سے کم نہیں ہے ، عام لوگوں کو تو جانے دیں، امام شافعی رحمہ اللہ بھی اس بات پرحیرانی کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکے کہ آخر مالکیہ عمل مدینہ سے مراد کیا لیتے ہیں ؟ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وما كلمت منكم أحدا قط فرأيته يعرف معناها“ [ اختلاف مالك المطبوع مع الأم للشافعي 7/ 231]
ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:
”وما عرفنا ما تريد بالعمل إلى يومنا هذا وما أرانا نعرفه ما بقينا“[ اختلاف مالك المطبوع مع الأم للشافعي 7/ 244]
ملاحظہ فرمایا آپ نے !
امام شافعی رحمہ اللہ جو امام مالک کے شاگرد بھی ہیں پھر بھی وہ ان کے مذہب میں مستعمل عمل اہل مدینہ کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اور یہاں تک فرمارہے ہیں کہ آج تک اس کا مطلب نہ تو میری سمجھ میں آیا ہے اور نہ ہی اس بات کی امید ہے کہ اخیر زندگی تک کبھی یہ بات سمجھ میں بھی آئے گی ۔
اور ہمارے مہربان نے امام مالک (المتوفى 179)سے کئی صدی بعد پیداہونے والے امام ابن عبدالبر (المتوفى463) کی عبارت میں مستعمل اہل مدینہ کا مطلب بڑی آسانی سے سمجھ لیا اور سمجھا بھی دیا ، سبحان اللہ !
بہرحال ہم اتنی عجلت میں کوئی فیصلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے اس لئے کافی غورو خوض کے بعد اپنی گذارشات پیش کررہے ہیں ، ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
” ولا يجزأ فيها ولا في غيرها من الزكاة القيمة عند أهل المدينة وهو الصحيح عن مالك وأكثر أصحابه.وقد روي عنه وعن طائفة من أصحابه أنه تجزأ القيمة عمن أخرجها في زكاة الفطر قياسا على جواز فعل الساعي إذا أخذ عن السن غيرها او بدل العين منها على ما تقدم في آخر الباب قبل هذا والأول هو المشهور في مذهب مالك وأهل المدينة “[الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 323]
سب سے پہلے یہ نوٹ کریں کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے صرف زکاۃ الفطر میں ہی قیمت کی بات نہیں کی ہے بلکہ عام زکاۃ میں بھی قیمت کی بات کی ہے ۔
❀ اورزکاۃ میں قیمت کی بات ہو یا زکاۃ الفطر میں اس قیمت کے عدم جواز کی بات مذہب مالکی ہی سے شروع ہوئی مذہب مالکی سے قبل سابقہ دور اسلام میں قیمت کے عدم جواز کا فتوی صحیح سند کے ساتھ کسی ایک بھی عالم سے ثابت نہیں ہے ۔
❀ اور اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مذہب مالکی سے قبل مذہب حنفی کا دور ہے ، اس مذہب کے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ زکاۃ میں قیمت کا جواز ثابت ہے اور ان کے شاگردوں کا بھی اس پر اتفاق ہے بلکہ تمام احناف بالاتفاق زکاۃ میں قیمت کے جواز کے قائل ہیں ، ہماری ناقص معلومات کی حدتک متقدمین احناف میں زکاۃ میں قیمت کا جواز متفق علیہ ہے بلکہ متاخرین میں بھی ہمیں کوئی بھی حنفی عالم اس کے مخالف نہیں ملا۔
جبکہ مالکیہ کا حال یہ ہے کہ اسی مذہب نے زکاۃ میں قیمت کے عدم جواز کا فتوی شروع کیا ہے ، خود اس مذہب کے علماء کا بھی اس پر اتفاق نہیں ہے بلکہ خود امام مذہب امام مالک رحمہ اللہ سے ہی اس بارے میں دو قول مروی جیساکہ اوپر امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی نقل میں بھی یہ بات موجود ہے اور گذشتہ پوسٹ نمبر (29) میں اس کی مزید تفصیل پیش کی جاچکی ہے۔قارئین اسے ضرور پڑھیں۔
.
✿ دوسری طرف یہ دیکھیں کہ امام مالک اور مذہب مالکی سے قبل زکاۃ میں قیمت کے جواز کا فتوی صحیح سند سے پوری صراحت کے ساتھ ملتا ہے کہ اور ان کا کوئی مخالف نہیں ملتا ۔
ایسی صورت میں جب امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ ایک مالکی کتاب میں یہ فرمارہے ہیں کہ زکاۃ (عام زکاۃ یا فطرہ کی زکاۃ) میں اہل مدینہ کا مذہب یہ ہے کہ قیمت جائز نہیں تو اس سے امام مالک اور ان کے بعد کے اہل مدینہ ہی مراد ہوسکتے ہیں ۔
● بالخصوص جبکہ امام مالک اور ان کے اصحاب اور ان کے بعد کے لوگوں کا قول وعمل نقل کرتے ہوئے بھی امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ اہل مدینہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جیساکہ پوسٹ نمبر (30) میں حوالے دئے جاچکے ہیںَ۔
● مزید یہ کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے علاوہ عام ائمہ تو درکنار کسی مالکی امام نے بھی نقد کے عدم جواز پر مصطلحہ عمل اہل مدینہ کی بات نہیں کی ہے اور نہ ہی مدینہ کے صحابہ وتابعین کی طرف ایسا کوئی فتوی منسوب کیا ہے ۔ لہٰذا یہ متعین ہوجاتا ہے کہ یہاں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام مالک ، ان کے اصحاب اور ان کے بعد کے لوگوں کے عمل ہی کی طرف اشارہ کیاہے۔
اور یہ ماننے کی صورت میں ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول بے سند ہے کیونکہ امام مالک اور ان کے اصحاب وغیرہ سے دیگر صحیح سندوں سے بھی یہ بات ثابت ہے ۔لہٰذا اس مفہوم میں یہ بے سند بات بھی دیگرذرائع سے ثابت ہونے کے سبب مقبول ہے ۔
سند صحیح کے مطالبے کی بات تو تب آتی ہے کہ جب فریق مخالف یہاں اہل مدینہ کو خاص مصطلحہ اہل مدینہ کے معنی میں لے لیتے ہیں اور اس میں بھی صحابہ وتابعین کا تعین کربیٹھتے ہیں ۔
.
✿ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اہل مدینہ کا اتفاق نقل نہیں کیاہے:
یہ بھی یادرہے کہ امام مالک کے بعد مدینہ میں جب نقد کے عدم جواز کا فتوی شروع ہوا تو اس کے بعد بھی اس پر سارے اہل مدینہ کا اتفاق نہیں ہوا بلکہ خود امام مالک رحمہ اللہ سے اس بارے میں دو قول روایت کیا گیا ہے۔اورامام مالک کے شاگردوں اور بعد کے مالکیہ میں یہ اختلاف رہاہے۔
اور امام عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی زیربحث نقل میں اس اختلاف کو بھی شامل کیا ہے چنانچہ امام ابن عبدالبررحمہ اللہ نے اجمالی طورپر اہل مدینہ (یعنی امام مالک، ان کے اصحاب اوران کے بعد کے لوگ جیساکہ اوپر وضاحت ہوچکی ہے) کا عمل نقل کیا تو اس میں اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
” وهو الصحيح عن مالك وأكثر أصحابه “[الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 323]
یعنی امام مالک اوران کے اکثر اصحاب کا صحیح قول یہی ہے ۔
پھر عین اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
” وقد روي عنه وعن طائفة من أصحابه أنه تجزأ القيمة “[الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 323]
یعنی امام مالک ہی سے اور ان کے شاگردوں کی ایک جماعت سے قیمت کا جواز بھی مروی ہے ۔
یادرہے کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس نسبت پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے جیسا کہ گذشتہ پوسٹ نمبر (29) میں وضاحت ہوچکی ہے ۔
اور اس کے مخالف قول کو انہوں نے جو صحیح اور مشہور کہا ہے تو یہ مذہبی اصطلاح کے مطابق کہاہے یعنی مذہب میں اختیار کردہ اور مفتی بہ قول یہی ہے ۔
بہرحال اس اختلاف کے ذکر کرنے کے بعد اخیر میں ابن عبدالبر رحمہ اللہ کیا فرماتے ہیں وہ بھی دیکھیں:
”والأول هو المشهور في مذهب مالك وأهل المدينة “[الكافي في فقه أهل المدينة المالكي 1/ 323]
یعنی مذہب مالک اور مذہب اہل مدینہ میں پہلا قول ہی مشہور ہے ۔
یہاں غور کریں کہ امام مالک کے بعد ان کے اصحاب کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ امام مالک کے بعد اہل مدینہ کے الفاظ کہہ دیا ہے۔
یہ واضح اشارہ ہے کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ اہل مدینہ سے مراد امام مالک ، ان کے اصحاب اوران کے بعد کے لوگوں ہی کو مراد لے رہے ہیں ۔
نیز الفاظ ”هو المشهور“ کا مذہب اہل مدینہ سے تعلق بھی دیکھیں ، ابن عبدالبر رحمہ اللہ مذہب اہل مدینہ میں عدم جواز کے قول کو مشہور قول بتلارہے ہیں یعنی صاف اعتراف کررہے ہیں کہ اہل مدینہ کا دوسرا قول بھی ہے گرچہ وہ مشہور نہیں ہے اور مذہب مالکی میں اس پر اعتماد نہیں کیا ہے ۔
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ایک تو متاخرین اہل مدینہ کا قول نقل کیا ہے اوراس پر بھی تمام اہل مدینہ کا اتفاق نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس میں اہل مدینہ کا اختلاف بھی بتلایاہے بلکہ خود امام مالک رحمہ اللہ سے بھی دوسرا قول بھی نقل کردیا ہے۔
.
✿ یہ واضح کرنے کے بعد کہ فطرہ میں نقد کے عدم جواز کا فتوی پوری دنیا میں سب سے پہلے امام مالک رحمہ اللہ نے دیا ہے جیساکہ اور بھی بہت سے مسائل میں انہوں نے منفرد فتاوے دئے ہیں ۔آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ امام سے پہلے اہل مدینہ کا موقف کیا تھا ؟
تو عرض ہے کہ :
.
❀ اولا:
امیر المؤمنین عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق روایت گذرچکی ہے کہ ان کے دور میں مہاجر صحابہ کی ایک جماعت نے فطرہ میں درہم ادا کیا اور کسی بھی طرف سے ان پر اعتراض نہیں کیا گیا ۔
.
❀ ثانیا:
عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ایک دوسرے امیر المؤمنین عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی مدینہ ہی کے تھے انہوں نے یہ فتوی دیا کہ فطرہ میں طعام کی جگہ نقد نکال سکتے ہیں ۔ بلکہ اسے باقاعدہ سرکاری قانون بنادیا کہ جو چاہئے فطرہ میں طعام دے اور جو چاہے درہم دے ۔
ان کے اس فرمان کے خلاف بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا ۔
.
❀ ثالثا:
اس کے علاوہ ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ کی روایت بھی گذرچکی ہے ۔انہوں نے جن لوگوں کا دور پایا ان کے متعلق بیان کیا کہ وہ فطرہ میں درہم نکالتے ہیں اور انہوں نے مدینہ کے صحابہ وتابعین کا دور بھی پایا ہے بلکہ ان میں سے کئی ایک کے شاگرد ہیں اور ان کے ساتھ اٹھے بیٹھے بھی ہیں ۔
یہ ساری بارتیں ثابت کرتی ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ سے پہلے نہ صرف اہل مدینہ بلکہ ہر جگہ فطرہ میں طعام کے ساتھ ساتھ نقد دینے کا بھی عمل تھا اوراس پرکسی کو بھی اعتراض نہ تھا ۔
بلکہ بعض مذہبی اصولوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام مالک سے قبل مدینہ میں فطرہ میں طعام کے ساتھ نقد پر بھی عمل تھا ۔یہ بات ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں مناسبت کی وجہ سے یہاں دوبارہ پیش کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
.
❀ رابعا:
أبو الفضل القاضي عياض بن موسى اليحصبي (المتوفى 544 ) ابن ابی الزیاد سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”قال ابن أبي الزناد كان عمر بن عبد العزيز يجمع الفقهاء ويسألهم عن السنن والأقضية التي يعمل بها فيثبتها وما كان منه لا يعمل به الناس ألغاه، وإن كان مخرجه من ثقة “[ترتيب المدارك وتقريب المسالك 1/ 46]
یہ قول کس قدر واضح ہے کہ عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ اہل مدینہ کے فقہاء کو جمع کرتے تھے اور اہل مدینہ کے یہاں معمول بہا مسائل دریافت کرتے تھے ، اور جن مسائل پر اہل مدینہ کا عمل ہوتا تھا انہیں کودرست گردانتے تھے ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ فطرہ میں طعام اور نقد دونوں پر اہل مدینہ کا عمل تھا کیونکہ عمر بن العزیز رحمہ اللہ نے دونوں پرعمل کے لئے سرکاری فرمان جاری کیا تھا ۔
واضح رہے کہ اہل مدینہ کے عمل کو حجت ثابت کرنے کے لئے یا اس کی اہمیت کو بتانے کے کے لئے جن دلائل کو پیش کیا جاتا ہے انہیں میں سے ایک دلیل ابن أبي الزناد کا یہ قول بھی ہے ، خود أبو الفضل القاضي عياض نے یہ قول ”باب ما جاء عن السلف والعلماء في الرجوع إلى عمل أهل المدينة في وجوب الرجوع إلى عمل أهل المدينة وكونه حجة عندهم“ کے تحت ذکر کیا ہے ۔[ترتيب المدارك وتقريب المسالك 1/ 46]
اب غور کریں کہ اگر اہل مدینہ کے عمل کے حجت ہونے یا اس کی طرف رجوع کرنے کی دلیل یہ بھی ہے کہ عمربن العزیز رحمہ اللہ اہل مدینہ کے عمل ہی کی بنیاد پر فتوی دیتے تھے اور مسائل کو درست مانتے تھے تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ فطرہ میں طعام اور نقد دونوں کا جو انہوں نے فتوی دیا ہے ان دونوں پراہل مدینہ کا عمل تھا ۔
.
❀ خامسا:
اہل مدینہ کے عمل کو جاننے کے لئے جو مآخذ بتلائے گئے ہیں انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مدینہ کے والی یا قاضی نے کوئی فیصلہ کیا ہے اور وہ فیصلہ مشہور ہوا ہو اور اس پر کوئی اعتراض نہ ہوا ہو تو وہ دلیل ہے کہ اہل مدینہ کا عمل اسی پر تھا چنانچہ:
حسان محمد حسين عبد الغني لکھتے ہیں:
”وبعضه عمل به بعض الولاة والقضاة حتي اشتهر وكله سمي اجماع أهل المدينه“ [ خبر الواحد إذا خالف عمل أهل المدينة: ص101، 102]
اور پیچھے متعدد مقامات بسند صحیح گذرچکا ہے کہ مدینہ کے عام قاضی نہیں بلکہ خود امیر المؤمنین عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ فتوی دیا اور باقاعدہ سرکاری دستور بنایا کہ فطرہ میں طعام یا درہم وصول کیا جائے اوریہ بات مشہور و معروف بھی ہوئی اور کسی نے اس پر نکیرنہ کی ۔
لہٰذا خود مالکیہ کے اصول کے مطابق بھی اہل مدینہ کا عمل فطرہ نقد کے جواز ہی کا ثابت ہوتا ہے ، والحمدللہ۔
یہ فلسفہ سنجی کرنا کہ یہ فرمان اہل مدینہ کے لئے نہ تھا بلکہ صرف اہل بصرہ کے لئے تھا یہ نئی اور حادث بات انتہائی نامعقول ہونے کے ساتھ ساتھ روایات اور اہل علم کی تصریحات کے خلاف بھی ہے اس کا رد پہلے مختصرا ہوچکا ہے اور آگے ہم مستقل موضوع کے تحت پوری تفصیل سے اس شبہہ کی تردید کریں گے تاکہ ہرطرح کے شبہات رفع ہوجائیں گے ۔
سردست اتنا عرض ہے کہ اگرہم اس نامعقول بات کو جدلا مان بھی لیں تو بھی اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے مدینہ سے فطرہ میں نقد کے جواز کافتوی صادر ہوا اور وہ بھی امیر المؤمنین کی زبانی ، پھر بھی مدینہ کے کسی بھی عالم نے اس پر اعتراض نہ کیا ہے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل مدینہ کے یہاں اس کا جواز مسلم تھا ، اور عمل اہل مدینہ کی بحث جب ہوتی ہے تو اس میں اہل مدینہ کے آراء بھی شامل مانی جاتی ہیں نہ کہ صرف ان کا جسمانی عمل، جیساکہ اہل مدینہ کا مفہوم بتانے والوں نے اس کی وضاحت کی ہے ۔
.
✿ اب رہی بات یہ ہے کہ اگر امام مالک رحمہ اللہ سے پہلے فطرہ میں نقد کا جواز مسلم تھا تو پھر امام مالک رحمہ اللہ نے اس سے اختلاف کیوں کیا ؟
تو عرض ہے کہ:
● ابن تیمیہ وغیرہم کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ جس عمل اہل مدینہ کو حجت سمجھتے تھے وہ مقتل عثمان رضی اللہ عنہ سے قبل والوں کا عمل ہے۔نہ کہ امام مالک کے اپنے دور کے لوگوں کا عمل ۔اس لئے ممکن ہے کہ اس مدت سے متعلق امام مالک رحمہ اللہ کو کوئی اثر نہ ملا ہو ، اور اس مدت کے بعد والوں کا اثر اگر ملا ہو یا اپنے دور کے بعض لوگوں کا عمل دیکھا ہو تو اپنے منہج کے مطابق اس کا کوئی اعتبار نہ کیا ہو۔
● امام مالک رحمہ اللہ کے علم میں بھی ساری روایات اور سارے اقوال ہوں یہ ضروری نہیں ہے ۔اس لئے اگر انہوں نے کسی مسئلہ میں کوئی نیا اجتہاد کیا ہے تو دیگرائمہ کی طرح ان کے بارے میں بھی یہ حسن ظن رکھا جائے گا ان تک سلف سے یہ باتیں نہیں پہنچ سکیں یا کچھ باتیں پہنچی بھی تو وہ اجماع قطعی کے معیار کی نہ تھیں کہ امام مالک رحمہ اللہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ۔
● مزید یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ فطرہ میں نقد کے جواز کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس وقت طعام کوئی دیتا ہی نہ تھا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ بعض لوگ طعام سے فطرہ دیتے تھے تو بعض لوگ نقد سے بھی دیتے تھے اور ظاہر ہے کہ طعام سے فطرہ دینے والوں کی تعداد ہی زیادہ تھی ۔جیساکہ دونوں طرح کی روایات سے واضح ہے ۔مزید یہ کہ طعام سے فطرہ دینا ہرایک کے لئے آسان ہے جبکہ نقد سے دینا سب کے لئے آسان نہیں ہے ۔
اس اعتبار سے امام مالک رحمہ اللہ کے دور میں بھی اکثر یت کا عمل طعام ہی پر ہوگا ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں امام مالک رحمہ اللہ کا اسے اہمیت نہ دینا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
● اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ :
یہ صرف واحد مسئلہ نہیں ہے جس میں امام مالک رحمہ اللہ نے کوئی نیا فتوی دیا ہے بلکہ اور بھی کئی مسائل میں امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے اسلاف کی مخالفت کی ہے ان مسائل سے متعلق جو کچھ بھی کہا جائے وہی یہاں بھی سمجھ لیا جائے۔
⋆ مثلا گیہوں میں ایک صاع ہی دینے کا فتوی امام مالک رحمہ اللہ نے دے رکھا ہے حالانکہ صحیحین کی شرط پر اس بارے میں صحیح مرفوع روایت موجود ہے ۔اور صحابہ وتابعین کے تو بے شمار آثار موجود ہیں کہ گیہوں میں نصف صاع فطرہ دیا جائے گا ۔حتی کہ بعض ائمہ نے گیہوں میں نصف صاع دینے پر امام مالک سے قبل کے اہل مدینہ کا اجماع نقل کیا ہے ، اور ہماری ناقص معلومات کے مطابق اس دعوائے اجماع کے خلاف کوئی بھی قول بسند صحیح ثابت نہیں ہے، واللہ اعلم۔
⋆ اسی طرح بیع الخیار سے متعلق بھی امام مالک رحمہ اللہ کا جو فتوی ہے ان سے قبل اس طرح کا فتوی کسی بھی مدنی عالم سے بسند صحیح کم ازکم ناچیز کو نہیں مل سکا واللہ اعلم۔
اس طرح کے اور بھی مسائل ہیں جن میں امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے اسلاف سے ہٹ کر منفرد رائے اختیار کی ہے ان تمام مسائل سے متعلق جو کچھ بھی کہا جائے وہی یہاں بھی سمجھ لیا جائے ۔
.
الغرض یہ کہ فطرہ میں نقد کے عدم جواز کا فتوی پوری دنیا میں سب سے پہلے امام مالک رحمہ اللہ نے ہی دیا ہے ۔اوران سے بھی اس بارے میں دوسرا قول مروی ہے ۔
اورامام مالک سے قبل اہل مدینہ اور تمام لوگوں کا موقف یہ رہا ہے کہ فطرہ میں طعام اور نقد دونوں جائز ہے ۔البتہ اس دور میں طعام دینا اکثریت کے لئے زیادہ آسان تھا اس لئے اکثریت نے طعام ہی پر عمل کیا ہے ، لیکن بعض نے نقد پر بھی عمل کیا ہے ۔اور اس پر کسی نے نکیر نہیں کی ہے ۔
اس سے نہ صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ فطرہ میں نقد بلاتردد جائز ہے بلکہ یہ بھی طے ہوجاتا ہے کہ فطرہ والی احادیث کا وہ مفہوم ہرگز نہیں ہے جسے بعد میں لوگوں نے پیش کرنا شروع کیا ہے ، ان احادیث سے متعلق سلف کا فہم کیا ہے ان شاء اللہ اس پر الگ سے مستقل بحث کی جائے گی ۔
فی الحال ہم حالیہ بحث سے متعلق کچھ باقی ماندہ شبہات کا بھی ازالہ پیش کردینا چاہتے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
No comments:
Post a Comment