{41} حدیث غلمان ، راوی کے تعین پر فریق مخالف کے بقیہ دلائل کا جائزہ
✿ ✿ ✿ ✿
✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((حافظ مزی رحمہ اللہ نے گرچہ عبد اللہ بن مبارک کے شاگردوں میں علی بن الحسن نام کے دو شاگردوں کا بیان کیا ہے، لیکن تلاش بسیار کے باوجود کہیں پر بھی علی بن الحسن النسائی کی روایت عبد اللہ بن مبارک سے نہیں ملی))
.
واہ !
ہندوستان کے ساتھ اب امام مزی کا دور بھی قحط الرجال کا شکار ہوگیا ہے ، وہ بھی صرف اپنے مطلب کے لئے ، سبحان اللہ !
عرض ہے کہ :
⟐ اولا:
محترم آپ نے امام مزی رحمہ اللہ ہی کے حوالے سے ابن شقیق کو قیس بن الربیع کا شاگرد بتلایاہے ۔ لیکن تلاش بسیار کے باوجود ہمیں کہیں پربھی قیس بن الربیع سے ابن شقیق کی روایت نہیں ملی !
کیا خیال ہے ؟ انکار کردیا جائے امام مزی کے بیان کا ؟
⟐ ثانیا:
ایسی روایت اگر آپ کو نہ مل سکی تو یہ آپ کی معلومات کا نقص ہے ، ہمیں تو الحمدللہ معمولی تلاش سے ہی ابن المبارک سے ”علي بن الحسن النسائي“ کی روایت مل گئی ۔آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ أخبرنا أبو بكر الخراجى حدثنا سارية حدثنا عبد الكريم السكرى حدثنا وهب بن زمعة أخبرنا على النسائي قال : سألت عبد الله بن المبارك عن الذى إذا دعا مسح وجهه ، فلم يجب ، قال علي : ولم أره يفعل ذلك ، وكان عبدالله يقنت بعدالركوع [ رسالة البيهقي إلى أبي محمد الجويني المطبوعة في المنيرية : 2/ 285]
ملاحظہ فرمائیں :
یہاں سند میں پوری صراحت کے ساتھ ”على النسائي“ موجودہے۔
اور یہ عبداللہ بن المبارک کا ایک فتوی اور ایک عمل روایت کررہے ہیں ۔
.
✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((ہو سکتا ہے کسی جگہ امام مزی کو ان کی ایک دو روایت عبد اللہ بن مبارک سے ملی ہو۔ جس وجہ سے ان کے شاگردوں میں انہوں نے اسے بھی شمار کیا ہو۔ لیکن بلا شبہہ وہ ان کے معروف شاگردوں میں سے نہیں ہیں۔ حتی کہ علی بن الحسن النسائی کا ترجمہ بھی کہیں نہیں ملتا۔ اگر وہ معروف راوی ہوتے تو ضرور ان کا ترجمہ بھی محدثین کرام درج فرماتے۔))
.
عرض ہے کہ معروف یعنی مشہور شاگردوں میں سے نہیں ہیں یہ تو ہمیں بھی تسلیم ہے ۔لیکن عدم شہرت کے سبب شاگردی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
رہی بات ترجمہ کی تو بہت سے رواۃ کا ترجمہ نہیں ملتا ہے۔ لیکن اس کے سبب اسے غیر معروف ہی کہا جاسکتا ہے اس کے وجود کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
.
✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((بلکہ یہ بھی شک ہے کہ کہیں ان کے نام میں تصحیف نہ ہوئی ہو۔ یہ شک اس لئے ہے کیونکہ امام بخاری نے تاریخ کبیر میں اسی طرح کے نام کے ایک راوی کا تذکرہ کیا ہے ، فرماتے ہیں: "علي بن حسن النسائي، سمع حجاج بن محمد." (التاريخ الكبير للبخاري بحواشي المطبوع (6/ 269)
اس کے حاشیہ میں محقق کتاب فرماتے ہیں: " لم نظفر به، ولعل في اسمائه أو نسبته تصحيفا"۔))
.
عرض ہے کہ:
⟐ اولا:
تحقیق کی دنیا میں کوئی یقین کے ساتھ بھی بات کرے ، لیکن دلیل نہ دے تو اس کی بات کا کوئی وزن نہیں ہے۔
تو پھر جو یقین نہیں، بلکہ شک کے ساتھ بات کرے ، بھلا دنیا ئے تحقیق میں اس کی کیا قدر و قمیت ہوسکتی ہے؟؟
⟐ ثانیا:
امام مزی رحمہ اللہ نے صرف ایک ہی جگہ ”علي بن الحسن النسائي“ کا نام درج نہیں کیا ہے ، کہ تصحیف کا شک کیا جائے ، بلکہ کئی جگہ انہوں نے یہی نام ذکر کیا ہے۔
● حتی کہ بعض نسائی رواۃ کے تلامذہ میں بھی ان کا ذکر کیا ہے ۔
مثلا: ”عمرو بن منصور النسائي“ کے ترجمہ میں ان کے اساتذہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وعلي بن الحسن النسائي “ [تهذيب الكمال للمزي: 22/ 251]
● نیز انہوں نے رقہ میں سکونت اختیار کی تھی جیساکہ خود فریق مخالف نے بھی اعتراف کیا ہے ، اور رقہ کے بھی کئی رواۃ سے انہوں نے روایت کیا ہے ، اور امام مزی رحمہ اللہ ایک رقی راوی ”العلاء بن هلال ، الرقي“ کے ترجمہ میں ان کے شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وعلي بن الحسن النسائي ثم الرقي “[تهذيب الكمال للمزي: 22/ 545]
اور بھی کئی مقامات پر انہوں نے یہ نام ایسے ہی ذکر کیاہے ، لہٰذا تصحیف کا شک کرنا ایک بچکانہ وسوسہ کے سوا کچھ نہیں ۔
.
✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((اس کے بالمقابل علی بن الحسن بن شقیق المروزی عبد اللہ بن مبارک کے مشہور و معروف شاگرد ہیں۔ بعض احادیث کے متعلق خود ان کا بیان ہے کہ میں نے اسے ابن مبارک سے تیس سے زائد بار سنا ہے۔۔۔الی ۔۔۔ ایک جگہ پر کتاب الاموال لابن زنجویہ کے محقق جنہوں نے کتاب کی ایک ایک حدیث کے ساتھ اپنا قیمتی وقت بتایا ہے فرماتے ہیں:
"فيه علي بن الحسن, وهو ابن شقيق أبي عبد الرحمن المروزي, قال عنه الحافظ في التقريب: ثقة حافظ" (دیکھیں: الاموال لابن زنجویہ 1/182)۔))
.
عرض ہے کہ :
⟐ اولا:
”علي بن الحسن النسائي“ کی توثیق ثابت ہی نہیں ہے ۔ اس لئے اس کے اس بیان کا بھی اعتبار نہیں ہے ، جسے آپ دلیل بنا رہے ہیں ۔
بلکہ ہم نے امام ابن حبان رحمہ اللہ سے اس پر جرح بھی پیش کردی ہے جس میں امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے سند ومتن میں الٹ پلٹ کرنے سے متصف کیا ہے ، اس جرح کی روشنی میں اس کا بیان تو اوربھی ناقابل اعتبار ہوجاتاہے۔
اور اگر یہ جرح نہ بھی مانیں تب بھی چونکہ اس کا ثقہ ہونا ثابت نہیں اس لئے اس کے اس بیان کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
⟐ ثانیا:
اگر مان بھی لیں کہ اس نے ان ساری روایات کو ابن المبارک سے سنا ہے تو بھی یہ اس بات کی دلیل ہرگز نہیں ہے کہ یہاں یہ ”علي بن الحسن النسائي“ نہیں ہوسکتا ۔
کیونکہ یہ مشہور راوی نہیں ہے ، بلکہ اس کی ثقاہت بھی ثابت نہیں ہے ۔ لہٰذا اس کے بارے میں اگر یہ صراحت نہیں ہے کہ اس نے ابن المبارک سے ڈھیر ساری روایات بیان کی ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
خود اسی سند میں دیکھیں کہ جس طرح اس نے ابن المبارک کے حوالے سے اتنی ساری روایات بیان کی ہیں ، ٹھیک اسی طرح اس سے ابن زنجویہ نے یہ ساری روایات بیان کی ہیں ۔
لیکن کیا کتب رجال میں ابن زنجویہ کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ ”علي بن الحسن “ سے ان کا خاص تعلق تھا ؟؟؟؟
ہرگز نہیں !
تو جس طرح اس کے غیر مشہور اور نامعلوم التوثیق ہونے کے سبب ، اس سے ابن زنجویہ کی اتنی روایات کے باوجود بھی ، ائمہ نے ابن زنجویہ سے اس کا خاص تعلق نہیں بیان کیا ۔
ٹھیک اسی طرح اس کے غیر مشہور اور نامعلوم التوثیق ہونے کے سبب ، ابن المبارک کے حوالے سے اس کی اس قدر مرویات کے باوجود ابن المبارک سے بھی اس کا خاص تعلق بیان نہیں کیا گیا ۔
رہی بات محقق کی تو محقق کے حوالے پر ہم کہہ چکے ہیں کہ محقق نے اپنا قیمتی وقت لگا کراس روایت کو ضعیف ہی قراردیا ہے ۔
آپ ان کی یہ بات بھی مان لیں قصہ ختم !
اور اگر آپ خود ان کی تضعیف ہی کو نہیں مانتے ، تو دوسروں کے سامنے ان کے گن گانے کی کیا ضرورت ہے ۔
.
✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((کتاب الاموال لابن زنجویہ کے اندر آپ کو دسیوں جگہ علی بن الحسن کے ساتھ سفیان بن عبد الملک مقرون ملیں گے۔ یعنی اس طرح روایت کرتے ہوئے ملیں گے:
"أنا سُفْيَانُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، وَعَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ"۔۔۔الخ))
.
عرض ہے کہ اس شبہہ کو آپ نے کئی جگہ دہرایا ہے ، اس کا مفصل جواب پوسٹ نمبر {39} میں دیا جاچکا ہے ۔
.
✿ موصوف آگے فرماتے ہیں:
((سابعا:
کتب الرجال میں ابن زنجویہ کا ترجمہ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے طلب علم کے لئے بکثرت ممالک کا سفر کیا ہے۔ ۔۔۔ ان میں سے ایک شہر "مرو" کے علماء سے بھی انہوں نے استفادہ کیا ہے۔۔۔۔اس لئے علی بن الحسن بن شقیق المروزی کا ان کے مشایخ میں سے ہونا کوئی مستغرب امر نہیں۔۔۔))
.
سبحان اللہ !
ابن زنجویہ کا اپنے علاقہ ”نساء“ سے دور جاگر ”مرو“ کے راوی سے روایت لینا امر مستغرب نہیں ہے ۔
لیکن ابن زنجویہ کا اپنے ہی علاقہ ”نساء“ کے راوی سے روایت لینا امر مستغرب ہے ۔ واہ ۔
.
آگے فرماتے ہیں:
((جہاں تک ان کا نسائی ہونا ہے ، تو گرچہ وہ نسا کے رہنے والے تھے لیکن ان کے مشایخ میں سے اس علاقہ کا ابھی تک مجھے کوئی شیخ نہیں ملا ہے۔ (ہو سکتا ہے کہ موجود ہو) ۔ اور علی بن الحسن النسائی کے بارے میں بھی ملتا ہے کہ وہ رقہ میں مقیم تھے))
.
عرض ہے کہ :
● اگران کے مشائخ میں آپ کو کوئی نسائی راوی نہیں ملا تو کیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نسا کے نہیں ہیں؟؟
آپ مرو سے ان کے اساتذہ کو ذکر کرکے یہ ثابت کررہے ہیں کہ یہ مرو گئے تھے ، لیکن ان کا نسا کا ہونا تو ان کے اساتذہ کی فہرست دیکھے بغیر ہی مسلم ہے !!
اگر یہ نسا کے نہ ہوتے ، پھر آپ کہتے کہ ان کے اساتذہ میں کوئی نسائی راوی نہیں ملا ،تو بات کچھ اور ہوتی ، لیکن ان کا تو نسائی ہونا تو پہلے ہی سے مسلمہ حقیقت ہے ، پھر خواہ مخواہ نسا سے ان کے اساتذہ کی چھان بین چہ معنی دارد ؟
● نیز:
آپ کی طرف سے تعین کردہ راوی ”علي بن الحسن بن شقيق“ یہ نہ تو ابن زنجویہ کے علاقہ کے ہیں، اور نہ ہی ان کے اساتذہ میں ان کا تذکرہ ہے ۔
پھر بھی آپ کی نظرمیں یہ ان کے استاذ ہوسکتے ہیں ۔
اور ”علي بن الحسن النسائي“ جو ان کے علاقہ ہی کے وہ ان کے استاذ نہیں ہوسکتے ؟؟
عجیب منطق ہے !!
● علاوہ بریں :
آپ خود اعلان فرماتے ہیں کہ ابن زنجویہ نے طلب حدیث کے لئے جگہ جگہ کا سفر کیا ہے ۔آپ ہی کے الفاظ ہیں:
((انہوں نے طلب علم کے لئے بکثرت ممالک کا سفر کیا ہے۔ ان کے زمانے میں علم کے جو مراکز تھے شاید ہی ان سے کوئی جگہ چھوٹ گئی ہو))
اب ایک پل کے لئے غور کیجئے کہ جو امام طلب روایات کے لئے دنیا بھر کی خاک چھانے ، کیا وہ اپنے علاقہ کے راوی سے روایت نہیں لے گا ؟
بلکہ ایسا شخص تو اپنے علاقہ کے راوی سے سب سے زیادہ روایات لے گا اور حقیقت بھی یہ ہے کہ ابن زنجویہ نے اپنے علاقہ کے راوی ”علي بن الحسن النسائي“ سے سب سے زیادہ روایت لی ہے ، جیساکہ ان کی کتاب الاموال سے واضح ہے ۔
.
● اور رہی بات یہ کہ ”علي بن الحسن النسائي“ رقہ میں مقیم تھے ۔
تو اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ وہ اپنے علاقہ میں رہے ہی نہیں ؟ یا رقہ سے کبھی اپنے علاقہ میں آتے ہی نہ تھے ؟
مزید یہ کہ ”علي بن الحسن النسائي“ ہی سے ایک دوسرے نسائی راوی ”عمرو بن منصور النسائي“ نے روایت کیا ہے ۔ چنانچہ:
أبو نعيم الأصبهاني (المتوفى 430 ) نے کہا:
حدثنا أبو عمرو بن حمدان، حدثنا عبد الله بن محمد بن سيار، حدثنا عمرو بن منصور، حدثنا علي بن الحسن النسائي، حدثنا العلاء بن هلال ۔۔۔۔[الأربعون لأبي نعيم الأصبهاني ص: 58]
امام مزی رحمہ اللہ نے بھی ”عمرو بن منصور النسائي“ کے اساتذہ میں ”علي بن الحسن النسائي“ کا ذکر کیا ہے دیکھیں :[تهذيب الكمال للمزي: 22/ 251]
تو جب ”علي بن الحسن النسائي“سے نسا کے رہنے والے ”عمرو بن منصور النسائي“ روایت کرسکتے ہیں ۔
تو انہیں سے نسا ہی کے رہنے والے ”ابن زنجویہ النسائی“ کیوں نہیں روایت کرسکتے ؟؟
.
✿ موصوف آخر میں اظہار تعجب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((ایک عجیب وغریب چیز جو شیخ محترم کی تحریر میں نظر آئی وہ یہ کہ انہوں نے علی بن الحسن النسائی کو ایک جگہ پر نا معلوم التوثیق کہا ہے اور ایک جگہ پر انہیں ضعیف کہا ہے))
.
عرض ہے کہ ہم نے ایک جگہ نہیں بلکہ ہر جگہ غیرمعروف ہی لکھا ہے۔
اور ضعیف صرف ایک جگہ لکھا ہے جو سبقت قلم کا نتیجہ ہے ، جیساکہ میری محولہ پوری تحریرسے واضح ہے ۔چنانچہ کوئی بھی پوسٹ نمبر {27} مکمل پڑھ کر دیکھ لے ، ہم نے ہرجگہ اسے غیر معروف ہی لکھا ہے ۔
مزید یہ کہ میری درجنوں کتابیں مطبوع ہے جن میں رجال پر کافی بحثیں پھیلی ہوئی ہیں ، اور کئی جگہ ہم نے غیرمعروف رواۃ پر بات کی ہے ، لیکن ہماری کسی بھی کتاب میں کوئی نہیں دکھا سکتا ہے کہ ہم نے کہیں پر بھی کسی غیرمعروف راوی کو ضعیف لکھا ہو ۔
اس لئے جمع خاطر رکھیں یہ سبقت قلم کی غلطی ہے ، لہٰذا اس پر لمبی چوڑی تقریر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ باذوق قارئین کتابت کی اس طرح کی غلطیوں کی خود اصلاح کرلیتےہیں، لیکن بحث و مباحثہ میں مخالف فریق سے اس کی امید بہت کم ہوتی ہے ۔
نوٹ :
واضح رہے کہ بعد میں ہمیں اس راوی کی تضعیف امام ابن حبان رحمہ اللہ سے مل گئی ہے، جیسا کہ ہم یہ حوالہ پیش بھی کرچکے ہیں، اس لیے اب ہماری نظر میں یہ راوی ضعیف ہی ہے
(جارہی ہے ۔۔۔۔۔)
No comments:
Post a Comment