{42} حدیث غلمان ، راوی کا تعین ، امام بخاری رحمہ اللہ کی کتب کے موضوعات - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-23

{42} حدیث غلمان ، راوی کا تعین ، امام بخاری رحمہ اللہ کی کتب کے موضوعات

{42} حدیث غلمان ، راوی کا تعین ، امام بخاری رحمہ اللہ  کی کتب کے موضوعات
✿ ✿ ✿ ✿
 -  -  -  - 
✿ فریق مخالف فرماتے ہیں:
(( آپ سے مطالبہ ہے کہ ابو عبید کی وہ سینکڑوں روایات جو ابن زنجویہ ان سے روایت کرنے میں متفرد ہیں ابن زنجویہ کے علاوہ ابو عبید کے کسی دوسرے شاگرد کی کتابوں میں دکھا دیں ۔ بات ختم ،کیا صرف علی بن الحسن بن شقیق کے شاگردوں کی کتابوں میں ہی ان کی روایات ملنی چاہئے یا ابو عبید کے شاگردوں کی کتابوں میں بھی ابو عبید کی روایات ملنی چاہئے؟؟
کیا ابو عبید کے شاگردوں کی کتابوں میں زکاۃ و صدقات ، مغازی وفتوح ، مال غنیمت وفے ، خمس وعطیات، صلح و جزیہ وغیرہ سے تعلق رکھنے والے ابواب اور روایات نہیں ہیں؟؟؟؟؟
ان کے شاگردوں میں امام دارمی ہیں جن کی کتاب "سنن دارمی" چھپی ہوئی ہے، اسی طرح حارث بن ابی اسامہ ہیں جن کی کتاب مسند ہے ، بغیۃ الباحث کے نام سے جس کے زوائد پر کتاب چھپی ہوئی ہے۔ (جس طرح انہوں نے مسند احمد کا ذکر کیا ہے، اور جس کا جواب بھی آگے آرہا ہے۔ ان کے مقابلے میں اس کا ہم نے ذکر کیا ہے) بلکہ امام بلاذری ہیں جنہوں نے تقریبا اسی موضوع پر کتاب لکھی ہے جس پر ابن زنجویہ نے کتاب لکھی ہے لیکن ابو عبید کی صرف ثلث اول کے اندر وہ ایک سو بیس کے قریب حدیثیں جنہیں ابن زنجویہ نے روایت کی ہیں ان کی کتابوں میں کیوں نہیں ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اس کا جو جواب ہوگا وہی جواب علی بن الحسن بن شقیق کے تعلق ہمارا ہوگا۔))
 . 
 ❀ عرض ہے کہ:
 ● اولا:
اگر ابن زنجویہ ، ان روایات کو نقل کرنے میں  منفرد بھی ہوتے تو بھی  کوئی مسئلہ نہ تھا کیونکہ وہ ابو عبید سے تحدیث نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کی کتاب سے اقتباسات نقل کررہے ہیں ۔
اورکتاب سے اقتباس نقل کرنا تو درکنار پوری کتاب بھی نقل کرنا ، تحدیث کے قبیل سے نہیں جیساکہ خود موصوف نے تسلیم کیا ہے کماسیاتی ۔
 ● ثانیا:
  ابن زنجویہ نے ابو عبید سے جو روایات نقل کی وہ کسی بھی روایت کے نقل میں منفرد قطعا نہیں ہیں ۔
بلکہ ابو عبید کے شاگرد بغوی نے تو ابو عبید سے ساری روایات ہی بیان کردی ہیں ۔
اور امام بلاذری  کے بارے میں خود آپ نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے بھی ابو عبید کی کتاب کا کئی حصہ نقل کیا ہے ۔
تو محترم :
یہ کل تین رواۃ ہو گئے (اوریہ بھی صرف آپ کے اعتراف پر ، اور ہم نے اپنی طرف سے تو ابھی دیکھا بھی نہیں اکہ بو عبید کی اس کتاب کی باتوں کو اور کون کون رواۃ نقل کرتے ہیں)
تو یہ تین رواۃ جو ایک ہی  مواد کے کل حصے یا بعض حصے کو نقل کرتے  ہیں ۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مواد ابو عبید ہی سے نقل کیا گیا ہے ۔یعنی ابو عبید کے تعین میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں رہی ۔
یہ تو تھا ہمارا جواب !
 . 
اب آپ نےبھولے پن سے یہ کہہ تو دیا ہے کہ:
((اس کا جو جواب ہوگا وہی جواب علی بن الحسن بن شقیق کے تعلق ہمارا ہوگا))
لیکن کیا آپ ہماری بات پر یہ جواب دے سکتے ہیں قطعا نہیں ! بلکہ آخری سانس تک ہماری بات کا جواب آپ سے نہیں بن پڑنے والا۔
ہماری بات کیا ہے ؟ قارئین ایک بار پھر سنیں:
ہمارا کہنا یہ ہے کہ ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے جو ایک سو پنچانوے(195) روایات نقل کی ہیں ، یہ  علی بن الحسن ، مشہور راوی علی ابن الحسن بن شقیق نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے سیکڑوں شاگرد ہیں اور کسی نے بھی ان ایک سو پنچانوے(195) روایات میں سے ایک روایت بھی نقل نہیں کیا ہے ۔
یاد رہے کہ ہمارا مطالبہ یہ   ہر گز نہیں ہے کہ  ان ایک سو پنچانوے(195) روایات میں سے ہر ہر روایت کو علی بن الحسن بن شقیق کے دیگرشاگردوں سے دکھایا جائے ۔
بلکہ ہمارا مطالبہ تو بہت آسان ہے وہ یہ کہ ان ایک سو پنچانوے(195) روایات میں کوئی ایک روایت بھی علی بن الحسن بن شقیق کے کسی دوسرے شاگرد سے دکھا جائے !
لیکن ہمارے محترم ایسی ایک روایت بھی پیش کرنے سے بالکل عاجز ہیں و بے بس ہیں ۔
 . 
 ● ثانیا:
دوسری بات یہ کہ ہماری بات کسی کتاب کے نسخہ کو نقل کرنے سے  متعلق نہیں بلکہ کسی راوی سے براہ راست ان کی روایات نقل کرنے سے متعلق ہے ۔
ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے کوئی ان کی کتاب کا نسخہ روایت نہیں کیاہے ، بلکہ ان کی مرویات نقل کیا ہے ۔
اور موصوف یہاں جو مثالیں دے رہے وہ ابو عبید کی ایک کتاب یعنی نسخہ کی مثال دے رہے ہیں ۔
اور کتاب کے نسخہ کی روایت کا معاملہ الگ ہوتا ، بلکہ کتاب مشہور ہونے کے بعد اس نسخہ کی سند کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اس کے بغیر بھی کتاب حجت ہوتی ہے ۔
ایک مشہور  کتاب کے بارے میں نسخہ کی سند  لے کر اعتراض کرنا ہی بچکانہ بات ہے ۔
اور لطف کی بات یہ ہے کہ فریق مخالف نے خود یہ حقیقت ظاہر کر دی کہ کتاب کے نسخہ کی روایت کا معاملہ الگ ہوتا ہے ،چنانچہ فرماتے ہیں:
((امام بخاری رحمہ اللہ سے ان کے نوے ہزار شاگردوں نے صحیح بخاری کو سنا ہے جیسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے ذکر کیا ہے، لیکن ان میں سے کتنے شاگردوں کی روایتوں کا ذکر اب کتابوں میں موجود ہے؟ ))
محترم جب کتاب لکھ دی جائے اور عام ہوجائے تو پھر اس کتابی نسخہ کی روایت کی سندوں کا اعتبار ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ اصل کتاب ہی مرجع ہوتی ہے ۔
اب ذرا غور کریں کہ :
کہ آپ نے ہمارے سوال کا جواب دینے کے لئے کون سی وادی میں قدم رکھ دیا ہے ؟؟
محترم ہماری بات کا تعلق کسی کتاب کی روایت سے نہیں ، بلکہ کسی راوی سے براہ راست ان کی مرویات کی روایت سے ہے ۔
ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے ، اس کی کوئی کتاب روایت نہیں کی ہے، بلکہ براہ راست اس کی روایات کو روایت کیا ہے ۔
جبکہ آپ امام ابوعبید کی کتاب کو لیکر بیٹھ گئے ، اور یہ سوال کرنے لگ گئے کہ اس کتاب کے جس حصہ کو ابن زنجویہ نے  نقل کیا ہے اور کن کن لوگوں نے اسی حصہ کو نقل کیا ہے؟
اور بدقسمتی سے اس غیر متعلق سوال میں بھی موصوف کی امید پر پانی پھر گیا کیونکہ کتاب کی روایت میں بھی کوئی ایک شاگرد منفرد  نہیں ہے ۔بلکہ موصوف ہی کے اعتراف کے مطابق  تین رواۃ نے  اس کتاب کے کئی حصوں کو نقل کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب ابوعبیدہی کی ہے ۔
لیکن ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے کوئی کتاب روایت نہیں کی ہے ، بلکہ براہ راست  ان کی مرویات کو روایت کیا ہے ۔
اور اس نوع کی روایت کوئی ایک دو نہیں بلکہ پوری ایک سو پنچانوے(195) روایات ہیں ، اور روایات کے اتنے بڑے حصہ میں ایک روایت بھی علی بن الحسن بن شقیق کے کسی شاگرد نے روایت نہیں کیا ہے جو زبردست دلیل ہے کہ یہ روایات علی بن الحسن بن شقیق کی نہیں، بلکہ  علی بن الحسن نام کے دوسرے راوی کی ہیں ، جو اسی طبقہ کا ہے ۔
اور کتب احادیث کی پوری تاریخ میں اس کی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ کسی ثقہ اور مشہور  راوی نے اپنے کسی  ثقہ اور مشہور شیخ سے  ایک سو پنچانوے(195) روایات بیان کی ہوں جن میں سے ایک روایت بھی اس شیخ کے دوسرے کسی شاگرد نے نہ بیان کیا ہو۔
فریق مخالف سے گذارش ہے کتاب کے نسخوں کے دامن میں پناہ لینے کے بجائے روایات کی دنیا سے اس کی کوئی ایک مثال بھی پیش کردیں  ۔دیدہ باید !
 ✿  فرماتے ہیں:
((اس پر آپ سے یہ عرض کرنا ہے کہ علی بن الحسن بن شقیق کے شاگردوں کی تصنیفات میں پہلے ان ابواب (زکاۃ و صدقات ، مغازی وفتوح ، مال غنیمت وفے ، خمس وعطیات، صلح و جزیہ وغیرہ) پر مشتمل کوئی کتاب دکھا دیں جس کتاب میں وہ علی بن الحسن بن شقیق کی ان حدیثوں کو روایت کر سکتے تھے جسے روایت کرنے میں ابن زنجویہ متفرد ہیں ۔ پھر آپ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ جب وہ بھی روایت کر سکتے تھے تو انہوں نے روایت کیوں نہ کی؟؟؟؟))
 . 
 ❀  عرض ہے کہ:
 علی  بن الحسن بن شقیق کے شاگرد امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ ہیں ۔
اب ان کی کتاب مصنف کے موضوعات دیکھیں۔
كتاب الزكاة ، كتاب المغازي ، كتاب الجهاد ۔ كتاب الأيمان والنذور والكفارات ، ، كتاب البيوع والأقضية ، كتاب الديات ، كتاب الفرائض ۔
یہ صرف مرکزی موضوعات ہیں ان کی تحت ذیلی موضوعات یعنی ابواب دیکھیں تو ان میں مال سے متعلق ہرطرح روایات ملیں گی ۔
بلکہ مال سے متعلق جن روایات کو ابن زنجویہ نے اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا ہے وہ بھی ان مرکزی یا ذیلی موضوعات میں  ملیں گی. 
 . 
 ✿  فرماتے ہیں:
((موصوف نے ایک جگہ پر ایک پوسٹ میں امام بخاری، احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ کا نام لیا ہے ۔بلکہ ایک پوسٹ میں تو انہوں نے ابن المنذر کا نام تک علی بن الحسن بن شقیق کے شاگردوں میں کر دیا ہے))
 . 
 ❀ عرض ہے کہ:
 ابن المنذر کا نام پیش کرنا بے شک جلدبازی کا نتیجہ ہے، یقینا یہ علی بن الحسن بن شقیق کے شاگرد نہیں ہیں ۔
لیکن  امام بخاری ، امام احمد اور امام ابن ابی شیبہ تو ان کے شاگرد ہیں ، جیساکہ خود آپ کو تسلیم ہے ۔
پھرہمارا سوال وہی ہے کہ امام بخاری ، امام احمد اور امام ابن ابی شیبہ رحمہم اللہ نے ، اسی طرح جو ائمہ ایک یا دو واسطے سے علی بن الحسن بن شقیق سے روایت کرتے ہیں ان لوگوں نے ان ایک سو پنچانوے (195) روایات میں سے کسی ایک بھی روایت کو نقل نہ کیا جنہیں ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے نقل کیا ۔
کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ابن زنجویہ جس علی بن الحسن سے روایت کرتے ہیں وہ دوسرے علی بن الحسن ہیں جو انہیں کے علاقہ اور اسی طبقے کے ہیں ۔
 . 
 ✿ فرماتے ہیں:
((سب سے پہلا سوال یہ کہ صحیح بخاری کے علاوہ امام بخاری کی دو چار کتابیں موصوف قارئین کو دکھائیں جس میں (((((زکاۃ و صدقات ، مغازی وفتوح ، مال غنیمت وفے ، خمس وعطیات، صلح و جزیہ وغیرہ))))) کے ابواب اور احادیث موجود ہوں))
 . 
 ❀  عرض ہے کہ :
 ● اولا:
 صحیح بخاری میں تو یہ موضوعات موجود ہیں ، اور آپ نے بڑے طنطنے کے ساتھ یہ تاثر دیا تھا کہ ان موضوعات پر ابن زنجویہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں جمع کیا ۔
 ● ثانیا:
امام بخاری رحمہ اللہ کی  دوسری کئی کتب میں رجال ، علل سے متعلق باتیں ہیں، اور یہ باتیں تو ہرموضوع سے متعلق روایات کے تحت ہوسکی ہے ۔لہٰذا ان کتب میں یہ ان روایات کا موقع ومحل ہے ۔ 
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب التاریخ دیکھیں ان میں انہوں جو  روایات درج کی ہیں وہ مختلف موضوعات سے تعلق رکھتی ہیں ۔
دکتور محمدبن عبدالکریم نے التاریخ کی روایات کی تخریج کی ہے اور کتاب کے اخیر میں فقہی موضوعات کی فہرست دی ہے جس میں کتاب الزکاۃ ، کتاب الجہاد ،  کتاب المغازی ، کتاب البیوع والمعاملات ، کتاب الاحکام والفرائض ، کتاب الحدود والدیات ، کتاب التفسیر وغیرہ کے موضوعات ہے ۔ دیکھئے: [تخريج الأحاديث المرفوعة المسندة في كتاب التاريخ الكبير : ص 1329 تا 1367]
اب بتلائیں کہ کیا یہ موضوعات اموال سے تعلق نہیں رکھتے ؟؟؟؟؟
 . 
 ● بلکہ ابن زنجویہ نے ایک روایت علي بن الحسن سے نقل کی ہے جس کے اوپر کی سند اس طرح  ہے:
عن ابن المبارك، عن معمر، عن سماك بن الفضل، عن شهاب بن عبد الله الخولاني، قال: خرج سعد الأعرج - وكان من أصحاب يعلى بن أمية - حتى قدم المدينة، فقال له عمر بن الخطاب: أين تريد؟ قال: أريد الجهاد، قال: «فارجع إلى صاحبك» ويعلى يومئذ على اليمن، فإن عملا بحق جهاد حسن، فلما أراد أن يرجع، قال له عمر: " إذا مررتم بصاحب المال، فلا تنسوا الحسبة، ولا تنسوها صاحبها، ثم قال: أفرقوا المال ثلاث فرق، فخيروا صاحب المال ثلثا، ثم اختاروا أنتم أحد الثلثين، ثم ضعوها في كذا وكذا، فوضعها لهم، فقال سعد الأعرج: كنا نخرج فنأخذ الصدقة، ثم نقسمها، فما نرجع إلا بسياطنا [الأموال لابن زنجويه 2/ 873]
 . 
عین اسی سند سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی روایت کو بیان کیا ہے ۔
چنانچہ کہا:
سعد الأعرج من أصحاب يعلى بن أمية قدم المدينة فقال له عمر: أين تريد؟ قال: الجهاد، قال: ارجع إلى صاحبك - ويعلى يومئذ على اليمن - فإن عملا بحق جهاد حسن، قال سعد الأعرج: ما كنا نرجع إلا بسياطنا - قاله لي محمد أخبرنا ابن المبارك عن معمر عن سماك بن الفضل عن شهاب بن عبد الله [التاريخ الكبير للبخاري، ط العثمانية: 4/ 53]
 . 
ملاحظہ فرمائیں ایک روایت جسے ابن المبارک کے طریق سے ابن زنجویہ روایت کرتے ہیں ۔
عین اسی روایت کو امام بخاری بھی ابن المبارک ہی کے طریق سے ،اور اوپر مکمل اسی سند سے روایت کرتےہیں۔
لیکن اپنے استاذ علی بن الحسن بن شقیق کے طریق سے نہیں بلکہ اپنے دوسرے استاذ محمد کے طریق سے ۔اور ان سے بھی حدثنا کے صیغہ سے نہیں بلکہ قال لی کے صیغے سے ۔اور دونوں صیغہ گرچہ اتصال پر دال ہیں لیکن دونوں میں بہرحال فرق ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ جب یہ روایت اموال ہی سے متعلق ہے جیساکہ ابن زنجویہ نے بھی اسی روایت کو اموال میں بیان کررکھا ہے ۔ تو امام بخاری رحمہ اللہ اسے اپنے استاذ علی بن الحسن سے کیوں نہ روایت کیا ؟ ظاہر ہے کہ یہ علی بن الحسن بن شقیق کی روایت ہے ہی نہیں ۔
 . 
 ● یہ صرف ایک ہی مثال نہیں ہے بلکہ ایک اور مثال دیکھیں:
 ابن زنجویہ نے ایک روایت علي بن الحسن سے نقل کی ہے جس کے اوپر کی سند اس طرح  ہے:
عن ابن المبارك، عن عمرو بن أبي سفيان الجمحي، أن جابر بن سعر الديلي، من كنانة، أخبره، أن أباه أخبره قال: كنت في غنم لنا بالخمص۔۔۔۔[الأموال لابن زنجويه 3/ 883]
 . 
عین اسی سند سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی روایت کو بیان کیا ہے ۔
چنانچہ کہا:
قال لنا معاذ بن أسد نا  ابن المبارك  نا  عمرو بن أبي سفيان الجمحي أن جابر بن سعر  3  الديلي من كنانة أخبره أن أباه قال: كنت في غنم لنا بالمخمص۔۔۔۔[التاريخ الكبير للبخاري، ط العثمانية: 4/ 199]
 . 
ملاحظہ فرمائیں ایک روایت جسے ابن المبارک کے طریق سے ابن زنجویہ روایت کرتے ہیں ۔
عین اسی روایت کو امام بخاری بھی ابن المبارک ہی کے طریق سے ،اور اوپر مکمل اسی سند سے روایت کرتےہیں۔
لیکن اپنے استاذ علی بن الحسن بن شقیق کے طریق سے نہیں بلکہ اپنے دوسرے استاذ معاذ بن أسد  کے طریق سے ۔اور ان سے بھی حدثنا کے صیغہ سے نہیں بلکہ قال لنا کے صیغے سے ۔
اب سوال یہ ہے کہ جب یہ روایت اموال ہی سے متعلق ہے جیساکہ ابن زنجویہ نے بھی اسی روایت کو اموال میں بیان کررکھا ہے ۔ تو امام بخاری رحمہ اللہ اسے اپنے استاذ علی بن الحسن سے کیوں نہ روایت کیا ؟ ظاہر ہے کہ یہ علی بن الحسن بن شقیق کی روایت ہے ہی نہیں ۔
 . 
اب قارئین غور کریں کہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کی کتب میں  اموال کے نہ صرف موضوعات ہیں بلکہ ابن زنجویہ کی کتاب الاموال ہی میں موجود  بعض روایات  امام بخاری رحمہ اللہ نقل بھی فرماتے ہیں وہ بھی ابن المبارک ہی کے طریق سے ۔ لیکن اپنے استاذ علی بن الحسن کے طریق سے نہیں بلکہ اپنے دیگر اساتذہ سے ۔
یہ واضح دلیل ہے کہ یہ روایات علی بن الحسن بن شقیق کی نہیں ہیں بلکہ دوسرے علی بن الحسن کی ہیں ۔
 . 
 ✿  اس تفصیل موصوف کا اگلا اعتراض بھی اپنے تمام نکات کے ساتھی ہوا ہوجاتا ہے فرماتے ہیں:
((جہاں تک صحیح بخاری کی بات ہے تو اس میں امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط معروف ہے، صرف علی بن الحسن بن شقیق ان کے اساتذہ میں سے ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ان سے روایت کریں ہی، بلکہ پوری سند کا صحیح ترین ہونا ان کی اولین شرط ہے، اس لئے اوپر کی پوری سند بھی دیکھی جائےگی ۔۔۔۔الخ))
 ❀ عرض ہے کہ :
 ● اولا:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان موضوعات سے متعلق روایات دیگر کتب میں بھی نقل کی ہیں جیساکہ تفصیل پیش کی جاچکی ہے ۔
تو امام بخاری رحمہ اللہ ان دوسری کتب میں تو یہ روایات نقل کرسکتے تھے۔
 ●  ثانیا:
ابن زنجویہ   کے یہاں علی ابن الحسن کی موجود روایات میں بہت سی روایات کی سند ابن المبارک سے اوپر نہ صرف امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے بلکہ اعلی درجہ کی صحیح ہے اور ان روایات کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتب میں درج بھی کیا ہے لیکن ابن المبارک  کی سند سے نہیں دیگر سند سے اوربعض کا درجہ ابن المبارک والی سند سے نسبتا کم ترہی ہے مثلا:
 . 
 ● اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ سے متعلق ایک تحریر لکھوائی تھی ، جس کی بنیاد پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی فیصلہ کرتے تھے اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ بھی اسی سے فیصلہ کرتے تھے ۔یہ دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما اس تحریر کے راوی ہے ۔
اسی تحریر کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے مختصر یا مفصل آٹھ مقامات پر ذکر کیاہے ایک جگہ ہے :
 حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى الأنصاري، قال: حدثني أبي، قال: حدثني ثمامة بن عبد الله بن أنس، أن أنسا، حدثه: أن أبا بكر رضي الله عنه، كتب له هذا الكتاب۔۔۔۔[صحيح البخاري 2/ 118]
اس سندکے راوی ”عبد الله بن المثنى“ پر کافی کلام ہے ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دینے کے باوجود بھی تقریب میں اس کا جو درجہ بتایا ہے وہ ہے :
 صدوق كثير الغلط [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3571]
اورصحیح بخاری میں آٹھوں مقامات پر از اول تا اخیر مکمل سند یہی ہے ۔ 
 . 
جبکہ یہی حدیث عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اور اس کی ایک سند ابن زنجویہ نے علی بن الحسن کے واسطے  اس طرح نقل کی ہے :
 عن ابن المبارك، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر بن الخطاب، مثل ذلك [الأموال لابن زنجويه 2/ 811]
 . 
ملاحظہ فرمائیں یہ اس حدیث کی کتنی مضبوط سند ہے ۔ابن المبارک سمیت ان سے اوپر تمام رجال صحیحین کے رجال ہیں ۔
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے آٹھ جگہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی روایت سے اس حدیث کو پیش کیا اور آٹھوں جگہ از اول تا اخیر ایک ہی سند سے پیش کیا ، حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ جب حدیث کا تکرار کرتے ہیں تو اکثر طریق بدل بدل کر پیش کرتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کےاستاذ علی بن الحسن بن شقیق کے پاس بھی تھی ، تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس اعلی درجے کی سند سے اس روایت کو ایک جگہ بھی کیوں نہ پیش کیا ؟؟ جبکہ انہوں نے اسی حدیث کو آٹھ جگہ اپنی کتاب میں پیش کیا اور اپنے معمول کے خلاف ایک ہی سند سے پیش کیا ؟؟
ظاہر ہے کہ یہ روایت امام بخاری کے استاذ علی بن الحسن بن شقیق کے پاس تھی ہی نہیں ۔
 . 
 ● ایک اور مثال دیکھیں:
صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے:
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا أبو عمر حفص بن ميسرة، عن زيد بن أسلم، عن عياض بن عبد الله بن سعد، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: «كنا نخرج في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم .  الفطر صاعا من طعام»، وقال أبو سعيد: «وكان طعامنا الشعير والزبيب والأقط والتمر»[صحيح البخاري 2/ 131]
یہ روایت نہ صرف صحیح بخاری میں ہے بلکہ امام بخاری نے اسے اپنی کتاب میں چار الگ الگ طرق سے روایت کیا ہے ۔
 . 
اور یہ روایت ابن زنجویہ کی کتاب میں ابن المبارک کے طریق سے ہے اور ابن المبارک سے اوپر سند شیخین کی شرط پر ہے  ، ملاحظہ ہو:
علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن محمد بن عجلان، عن عياض، عن أبي سعيد الخدري قال: ما كنت لأعطي أبدا إلا صاعا، فإنا كنا نعطي على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، أو صاعا من زبيب، أو صاعا من أقط[الأموال لابن زنجويه 3/ 1249]
 . 
اگر ابن المبارک سے اوپر اس سندکا تقابل صحیح بخاری کی چاروں سندوں سے کریں تو بعض کی سند کی بنسبت یہ  زیادہ مضبوط ہے ۔
 نیز ابن المبارک سمیت ان سے اوپر  سارے رجال سے روایت لینے میں بخاری ومسلم کا اتفاق ہے  ، جبکہ صحیح بخاری میں موجود اس کی بعض سند کے بعض رجال سے صرف امام بخاری نے احتجاج کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر اس حدیث کو واقعی امام بخاری کے استاذ علی بن الحسن بن شقیق نے ابن المبارک سے اس عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے ، تو آخر امام بخاری رحمہ اللہ نے چار بار یہ روایت ذکر کرکے کسی بھی مقام پر علی بن الحسن بن شقیق سے اسے کیوں نہ روایت کیا ؟؟؟
ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ روایت علی بن الحسن بن شقیق کی ہے ہی نہیں بلکہ علی بن الحسن نام کے دوسرے راوی کی ہے۔
 . 
 ✿ موصوف فرماتے ہیں:
((دوسری بات : امام بخاری کی کتاب کا اصل موضوع آثار کی روایت کرنا ہے ہی نہیں ۔ بلکہ وہ آثار جنہیں وہ روایت کرتے ہیں ضمنا روایت کرتے ہیں، اور انہیں بھی بکثرت معلقا روایت کرتے ہیں))
 . 
 ❀ عرض ہے کہ:
آثار کی کچھ روایات تو ہیں ، نیز امام بخاری رحمہ اللہ اموال سے متعلق مرفوع احادیث بھی تو روایت کی ہیں ، اپنی کتاب صحیح میں بھی اور دوسری کتب میں بھی ، کمامضی ۔
 . 
 ✿  موصوف فرماتے ہیں:
((تیسری بات: امام بخاری رحمہ اللہ نے بے شمار صحیح حدیثوں کو اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی ہے جیسے کہ انہوں نے اس کی صراحت کی ہوئی ہے))
 . 
❀ عرض ہے کہ:
لیکن اورپر دکھایا جاچکاہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ابن زنجویہ کی کتاب والی احادیث اپنی کتاب صحیح بخاری میں بھی اور دیگر کتب میں بھی درج کی ہے ، لیکن علی بن الحسن بن شقیق کے طریق سے نہیں ۔آخر کیوں ؟ بالخصوص جبکہ ان میں سے بعض احادیث کی سند ابن المبارک سے اوپر قوت میں اعلی درجہ میں پر ہے ۔
 . 
 ✿ 
چوتھی بات: ان کی صحیح میں علی بن الحسن بن شقیق سے صرف ایک ہی روایت مجھے ملی۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ان کی دوسری حدیثیں کیوں روایت نہیں کی ، تو یہی اعتراض تو ہم اس وقت بھی کر سکتے ہیں جب انہیں علی بن الحسن بن نسائی تسلیم کر لیں۔
یعنی یہ اعتراض تو اس وقت بھی کر سکتے ہیں کہ جب علی بن الحسن بن شقیق نے ابن مبارک کی کتابوں کو چودہ چودہ بار سنا ہے تو اس سند سے امام بخاری نے صرف ایک ہی حدیث روایت کیوں کی؟اس کا جو جواب ہوگا وہی انہیں علی بن الحسن بن شقیق ماننے کی صورت میں ہمارا جواب ہے۔
 . 
❀  عرض ہے کہ:
 ● اولا:
امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف سے ایک حدیث روایت کرنے پر  بھی تو اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ علی بن الحسن بن شقیق نے ابن المبارک سے  روایات کا کوئی حصہ نقل کیا ہے ۔اور یہ صرف امام بخاری کی طرف سے نہیں بلکہ کئی ائمہ سے متعدد روایات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ۔
لیکن آپ جو علی بن الحسن بن شقیق سے ابن زنجویہ کے پاس ایک سو پنچانوے (195) روایات ہونے کا ہوئی دعوی کررہے ہیں ، اس  کی تصدیق کے لئے تو ایک روایت بھی نہیں ہے ، اگر ہے تو کہاں ہے ؟؟؟
 . 
 ● ثانیا:
 ابن شقیق نے ابن المبارک کی کتاب چودہ بار سنا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں ابن المبارک سے روایت کتنا کیا ہے ؟؟؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ بھی کسی نے سناہے ؟؟ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی روایات کتنی ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
تو محترم آپ ابن زنجویہ کی کتاب کو برطرف رکھ کر صحیح سندوں سے یہ ثابت کردیں کہ علی بن الحسن بن شقیق نے ابن المبارک سے کتنی روایات نقل کی ہے ؟؟
ہم تو  مشہور کتب دیکھنے کے بعد  پندرہ روایت بھی ایسی نہیں پاسکے جو ہر طرح سے صحیح ہوں اور انہیں علی بن الحسن نے ابن المبارک سے روایت کیا ہے ہو ۔
چونکہ ہم نے ساری کتب نہیں دیکھی ہیں اس لئے دعوی تو نہیں کرتے کہ یہ روایات کتنی ہیں ؟؟ لیکن آپ چونکہ اس بات کو دلیل بناکر پیش کررہے ہیں اس لئے پہلے یہ ثابت کریں کہ علی بن الحسن نے ابن المبارک سے کتنی صحیح روایات نقل کی ہیں ۔
تب امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں ہم بتاتے ہیں کہ انہوں نے ان صحیح احادیث کو کیوں نہ روایت کیا۔
البتہ اس وقت اتنا دعوی ضرور کرتے ہیں کہ ابن المبارک رحمہ اللہ سے علی بن الحسن بن شقیق کے واسطے سے دنیا بھر کے محدثین نے اس تعداد کا نصف حصہ بلکہ ایک بٹا تین حصہ بھی روایت نہیں کیا ہے جتنا آپ کے بقول تنہا ابن زنجویہ نے روایت کیا ہے ۔ اور آپ کی طرف اعداو واشمار آنے کے بعدہم دو بارہ دیکھتے ہیں کہ یہ فرق کتنا ہے ۔
 . 
 ●  ثالثا:
ہم نے آپ کے سامنے  دس بیس روایات سے متعلق بات نہیں کی ہے بلکہ پورے ایک سو پنچانوے (195) روایات سے متعلق بات کی ہے ۔
ہم کب سے کہتے جارہے ہیں ایک سو پنچانوے (195) روایات کو اگر ابن زنجویہ نے علی بن الحسن بن شقیق سے ہی روایت کیا ہے تو ان میں سے کوئی ایک روایت بھی ابن زنجویہ کے علاوہ کہیں پر دکھا دیں ۔
یا پھردنیائے حدیث سے ایسی کوئی ایک بھی مثال پیش کریں کہ کسی ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی سے اس کے صرف ایک ثقہ شاگرد نے تنہا ہی اتنی تعداد میں روایت بیان کیا ہو ۔پھر اس پر آپ یہ کہہ سکتے ہیں اس کا جو جواب ہوگا ، وہی ابن زنجویہ والی روایات کا بھی جواب ہوگا ۔
لیکن اس طرح کی مثال پیش کرنے کے بجائے بغیر دلیل کے صرف ہوا میں بات کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا ہے ۔
 . 
 ● رابعا:
ہماری دلیل صرف یہ نہیں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے علی بن الحسن بن شقیق سے یہ روایات کیوں نہ بیان کیں ۔
بلکہ ہماری دلیل ابن زنجویہ کے علاوہ ، علی بن الحسن بن شقیق کے تمام شاگردوں کی پوری جماعت ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ اس جماعت کے ایک فرد ہیں ۔
ہم یہ کہہ رہے کہ اس پوری جماعت کی روایات یکجا  کرکے دیکھیں تو ان میں کسی ایک کے یہاں بھی ، ایک سو پنچانوے روایات میں سے ایک بھی نہیں ہیں ۔
یہ توممکن ہے کہ کسی ایک شاگرد کے پاس اس کے استاذ کے  بقیہ  شاگردوں کی ساری روایات یا کچھ روایات  نہ ہوں ۔ 
لیکن یہ قطعا ممکن نہیں ہے ، کہ کسی ایک ہی شاگرد کے پاس اس کے استاذ کی ایک سو پنچانوے (195)روایات ہوں اور دیگر تمام کے تمام شاگردوں میں اتنے بڑے مجموعے میں سے ایک بھی روایت نہ ہو ۔
لہٰذا اگر یہ بھی فرض کرلیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے علی بن الحسن بن شقیق عن المبارک کے طریق سے ایک بھی روایت بیان نہیں کی ہے تو بھی ہماری دلیل اپنی جگہ پر قائم ہے کیونکہ ہماری دلیل کسی ایک کے پاس  ایک سو پنچانوے (195)روایات کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ شاگردوں کی تمام جماعت کے پاس ان میں سے کوئی ایک روایت بھی نہ ہونا ہے ۔
اس کو مثال سے یوں سمجھیں کی کسی علاقہ میں آگ لگی ہو تو ممکن ہے اس علاقہ کے کسی شخص کو یا دو چار کو  اس کی آگاہی نہ ہوئی ہو ۔
لیکن اس علاقہ کے کسی بھی فرد کو اس آگ کی خبر نہ لگے یہ ناممکن ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ  سو پنچانوے (195)روایات میں سے ہر روایت کو ابن شقیق کے ہر شاگرد کے پاس دکھا یا جائے !
بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ اس مجموعہ روایات میں کوئی ایک روایت بھی کسی ایک بھی شاگرد کے پاس دکھائی جائے !
اور افسوس صد افسوس کہ فریق مخالف اس آسان سے آسان مطالبے کو بھی پورا کرنے سے اب تلک بالکل عاجز و لاچار ہیں۔ 
اس اذیت ناک عاجزی پر یقینا خود ان کے اعوان وانصار کو بھی ترس آرہا ہوگا ۔ 
امید ہے کہ اب بات سمجھ میں آگئی ہوگی اور سارا اشکال رفع ہوگیا ہوگا۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment