{43} حدیث غلمان ، عالی اور نازل سند کا نکتہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-24

{43} حدیث غلمان ، عالی اور نازل سند کا نکتہ


{43} حدیث غلمان ، عالی اور نازل  سند کا نکتہ
✿ ✿ ✿ ✿
- - - -
✿ آں جناب فرماتے ہیں:
((قارئین ذرا موصوف کی عبارت "امام ابن ابی شیبہ نے اپنے استاذ ”علي بن الحسن بن شقيق“ سے کئی روایات لائے ہیں" پر غور کریں ، اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کئی روایات کی تعداد کتنی ہوگی۔ چالیس ، پچاس ، سو ، دو سو؟؟؟؟ نہیں ۔بلکہ آپ تعجب کریں گے کہ ہاتھ کی انگلیوں کے برابر بھی نہیں))
.
✿ اور آگے اس کی توجیہ میں تو  کمال کردیا فرماتے ہی:
((اس کی وجہ یہ ہے کہ گرچہ انہوں نے ان سے بعض حدیثیں روایت کی ہیں لیکن دونوں ایک ہی طبقہ کے ہیں، دونوں کو حافظ ابن حجر نے طبقہ عاشرہ میں شمار کیا ہے جوکہ كبار الآخذين عن تبع الأتباع کا طبقہ ہے۔ اس لئے حقیقت میں وہ ان کے قرین ہیں، تلمیذ نہیں ۔ بلکہ ان کے کیا ؟ ان کے استاد ابن مبارک کے قرین ہیں ابن ابی شیبہ۔ عبد اللہ بن مبارک سے انہوں نے ڈائرکٹ سنا ہے ، اور روایت بھی کی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے علی بن الحسن بن شقیق سے جتنی حدیثیں روایت کی ہیں ان سے دس گنا سے بھی زیادہ حدیثیں ان کے استاد ابن مبارک سے انہوں نے ڈائرکٹ روایت کی ہیں۔ بلکہ ابن مبارک کے بعض کبار مشایخ سے بھی انہوں نے حدیثیں روایت کی ہیں))
.
❀ عرض ہے کہ:
محترم نے یہاں عالی ونال سندکا نکتہ بیان کرکے اس پر اترانے کی کوشش کی ہے ۔ اس لئے اس نکتہ دانی کی پول کھولنا بہت ضروری ہے ۔
محترم نے یہ تاثر دیا ہے کہ امام ابن ابی شیبہ ،  یہ  ابن المبارک کے ڈئریکٹ شاگرد ہیں ، اس لئے وہ ابن المبارک سے براہ راست روایت کرسکتے ہیں ۔ اس سے ان کی سند عالی ہوگی اور یہی ابن ابی شیبہ نے کیا ہے ۔
اس کے برخلاف وہ اگر علی بن الحسن بن شقیق کے واسطے سے ابن المبارک سے روایت کرتے تو ان کی سند نازل ہوگی ، اس لئے ابن ابی شیبہ نے علی بن الحسن بن شقیق کے واسطے صرف چند ہی روایت لی جسے انگلیوں پر گناجاسکتا ہے۔
اوراس کے  دس گنا سے بھی زیادہ انہوں نے ابن المبارک سےبراہ راست روایت کیا ہے کیونکہ اس سے ان کی سند عالی ہے۔
بالفاظ دیگر محترم نے قارئین کو یہ تاثر دیا ہے کہ ابن المبارک سے امام ابن ابی شیبہ کی نازل سند بہت کم ہے بلکہ اتنا کم ہے کہ انہیں انگلیوں پر بھی نہیں گنا جاسکتا ہے۔ اور اس کے دس گنا زیادہ ابن ابی شیبہ نے ابن المبارک کی عالی سند سے روایت کیا ہے ۔
.
قارئین کی اطلاع کے لئے عرض کردوں کہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے صرف علی بن الحسن کے واسطے ہی ابن المبارک کی نازل سند روایت نہیں کی ہے ۔
بلکہ اور بھی کوئی رواۃ کے واسطے ابن المبارک سے نازل سند روایت کی ہے ۔
یعنی علی بن الحسن بن شقیق کی طرح ابن المبارک کے اور بھی کئی شاگردوں سے واسطے سے ابن المبارک کی روایت نقل کی ہے ۔مثلا ، يحيى بن آدم ، علي بن إسحاق ، معتمر ، عبد الرحمن بن مهدي ، أبو أسامة ،عفان اور يعمر بن بشر۔
ابن المبارک کے یہ کل آٹھ (😎 شاگرد ہیں جن کے واسطے ابن المبارک کی روایات کو ابن ابی شیبہ نے نقل کیا ہے اور ان شاگردوں  میں سے بعض شاگردوں کی روایت کئی ایک ہیں ۔
یہ صرف ایک طریق یعنی ابن المبارک والے طریق کا حال ہے کہ اس طریق کو انہوں نے کتنی بار  نازل سند سے روایت کیا ہے ۔
اس کے علاوہ امام ابن ابی شیبہ کی اس کتاب میں دیگر جو نازل سندیں ہیں ان کی بات ہی الگ ہے ۔
اس طرح ابن ابی شیبہ کے یہاں اگر ان کی نازل سندوں  کا شمار کریں  تو یہ  تعداد ہاتھ کی انگلیاں کیا ، ہاتھ  اور پاؤں ، دونوں کی انگلیوں پر بھی نہیں گنی جاسکتی ہے۔
.
یہ واضح ہونے کے بعد کہ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی اس کتاب میں بہت سے مقامات پر نازل سندوں سے روایت کیا ہے ۔
اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ ابن زنجویہ نے علی بن الحسن کے واسطے جو ایک سو پنچانوے(195) روایات نقل کی ہیں ان میں سے کوئی روایت جب ابن ابی شیبہ نقل کرتے تو کس طرح کی سند سے نقل کرتے ہیں ۔
سب سے پہلے یہ  ذہن میں رکھ لیں کہ ابن زنجویہ نے علی بن الحسن کے واسطے کل  ایک سو پنچانوے(195) روایات نقل کی ہیں جن میں سے پانچ کے علاوہ باقی ساری روایات ابن المبارک ہی کے طریق سے ہیں ۔یعنی ابن زنجویہ نے ”علی بن الحسن عن ابن المبارک“ کے طریق سے ایک سو نوے (190) روایت نقل کی ہیں ۔
ہمارا سوال یہ تھا کہ اگر ابن زنجویہ کے شیخ ”علی بن الحسن“ یہ ”علی بن الحسن النسائی“ نہیں بلکہ ”علی بن الحسن بن شقیق“ ہیں تو پھر ان کے شاگرد امام ابن ابی شیبہ ہیں ، تو انہوں نے ابن زنجویہ کی طرح ان روایات میں سے ایک بھی کیوں نہ نقل کی ۔
اس پر فریق مخالف نے یہ نکتہ سنجی کی ہے کہ ابن ابی شیبہ یہ خود ابن المبارک کے ڈائریکٹ استاذ ہیں ۔اس لئے انہیں ”علی بن الحسن بن شقیق“ کا واسطہ لینے کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ اس سے ان کی سند نازل ہوجاتی۔
اس جواب کا دو مطلب ہوا:
● پہلا یہ کہ ابن زنجویہ والی روایت کو امام ابن ابی شیبہ نازل سند سے روایت نہیں کرسکتے ۔
● دوسرا یہ کہ ان روایات کو امام ابن ابی شیبہ نے ڈائریکٹ ابن المبارک سے روایت کردیا ہے ۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا یہ دونوں باتیں واقعتا صحیح ہیں؟
.
✿  ✿ ابن ابی شیبہ کے یہاں ابن زنجویہ والی روایت کی نازل سندیں:✿
   ❀ پہلی مثال:
● ابن زنجویہ کی یہ روایت دیکھیں:
أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن معمر، حدثني سهيل بن أبي صالح، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ليس فيما دون خمسة أوساق صدقة , ولا فيما دون خمس أواق صدقة , ولا فيما دون خمس ذود صدقة».[الأموال لابن زنجويه 3/ 910]
● اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ان کی سند دیکھیں:
حدثنا علي بن إسحاق، عن ابن مبارك، عن معمر، عن سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ليس في أقل من خمس ذود صدقة [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 174]
ملاحظہ فرمائیں !
ایک ہی روایت ہے طریق بھی ابن المبارک کا ہے !
لیکن ابن ابی شیبہ اسے ڈائریکٹ ابن المبارک سے نہیں بلکہ نازل سند سے روایت کرتے ہیں اور ابن المبارک اور اپنے بیچ ”علي بن إسحاق“ کا واسطہ لاتے ہیں۔
اب  موصوف سے  پوچھنا یہ ہے کہ آپ کی نظر میں نازل سند کا مطلب کیا ہے ؟ کیا آپ نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ابن ابی شیبہ کی سند نازل تبھی ہوگی جب وہ علی بن الحسن بن شقیق کا واسطہ لے آئیں گے ؟ اور اگر ان کے علاوہ کسی اور کا واسطہ لے آئیں تو ان کی سند نازل نہیں بلکہ عالی ہی رہے گی ؟ 
بہرحال ابن ابی شیبہ نے اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کیا ہے ، اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کرنا تھا تو امام ابن ابی شیبہ نے اسے ابن المبارک کے شاگرد ”علی بن الحسن بن شقیق“کے واسطے کیوں نہ نقل کیا ؟
.
   ❀ دوسری مثال:
● ابن زنجویہ کی یہ روایت دیکھیں:
 ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن مصعب بن محمد عن يعلى بن أبي يحيى، مولى لفاطمة ابنة الحسين، عن الحسين بن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.(للسائل حق وإن جاء على فرس) [الأموال لابن زنجويه 3/ 1125]
● اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ان کی سند دیکھیں:
حدثنا وكيع، عن سفيان، عن مصعب بن محمد، عن يعلى بن أبي يحيى، عن فاطمة بنت حسين، عن أبيها، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: للسائل حق وإن جاء على فرس
[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 147]
ملاحظہ فرمائیں !
ایک ہی روایت ہے  مصعب سے اوپر پوری سند بھی ایک ہی ہے !
لیکن ابن ابی شیبہ نے اسے ڈائریکٹ ابن المبارک سے نہیں روایت کیا ، حتی کہ ان کے طریق سے بھی نہیں روایت کیا ۔بلکہ ان کے ہم طبقہ سفیان سے روایت کیا اور وہ بھی نازل سند سے !
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کرنا تھا تو امام ابن ابی شیبہ نے اسے ابن المبارک کے شاگرد ”علی بن الحسن بن شقیق“کے واسطے کیوں نہ نقل کیا ؟
.
   ❀ تیسری مثال:
● ابن زنجویہ کی یہ روایت دیکھیں:
ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن مجالد، عن الشعبي قال: «ليس في مال اليتيم زكاة»[الأموال لابن زنجويه 3/ 998]
● اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ان کی سند دیکھیں:
حدثنا وكيع، عن سفيان، عن جابر، عن عامر، قال: ليس في مال اليتيم زكاة[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 237]
ملاحظہ فرمائیں !
ایک ہی روایت ہے  ۔عامر الشعبی سے مروی ہے۔
لیکن ابن ابی شیبہ نے اسے ڈائریکٹ ابن المبارک سے نہیں روایت کیا ، حتی کہ ان کے طریق سے بھی نہیں روایت کیا ۔ اور وہ بھی نازل سند سے روایت کیا !
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کرنا تھا تو امام ابن ابی شیبہ نے اسے ابن المبارک کے شاگرد ”علی بن الحسن بن شقیق“کے واسطے کیوں نہ نقل کیا ؟ بالخصوص جبکہ ابن المبارک والی سند میں کذاب راوی نہیں ہے ، جبکہ ابن ابی شیبہ والی سند میں جابر جعفی کذاب راوی موجود ہے ۔
.
   ❀ چوتھی مثال:
● ابن زنجویہ کی یہ روایت دیکھیں:
ثنا سفيان بن عبد الملك، وعلي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن الأوزاعي، أن عمر بن عبد العزيز «كان لا يرى في البقر العوامل، والقطار من الإبل زكاة»[الأموال لابن زنجويه 2/ 835]
● اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ان کی سند دیکھیں:
حدثنا عباد بن عوام، عن حجاج، عن الحكم؛ أن عمر بن عبد العزيز، قال: ليس في البقر العوامل صدقة[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 189]
ملاحظہ فرمائیں !
ایک ہی روایت ہے  ۔
لیکن ابن ابی شیبہ نے اسے ڈائریکٹ ابن المبارک سے نہیں روایت کیا ، حتی کہ ان کے طریق سے بھی نہیں روایت کیا ۔ اور وہ بھی نازل سند سے روایت کیا  !
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کرنا تھا تو امام ابن ابی شیبہ نے اسے ابن المبارک کے شاگرد ”علی بن الحسن بن شقیق“کے واسطے کیوں نہ نقل کیا ؟ بالخصوص جبکہ ابن المبارک والی روایت مفصل ہے یعنی مزید فوائد پر مشتمل ہے ۔
.
   ❀ پانچویں مثال:
● ابن زنجویہ کی یہ روایت دیکھیں:
أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن يونس، ۔۔۔ قال يونس، وقال ابن شهاب: وبلغنا أن عثمان فرض على أهل البدو، في كل فرس دينارا أو شاتين[الأموال لابن زنجويه 3/ 1026]
● اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ان کی سند دیکھیں:
حدثنا محمد بن بكر، عن ابن جريج، قال: أخبرني عبد الله بن أبي حسين، أن ابن شهاب أخبره؛ أن عثمان كان يصدق الخيل[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 241]
ملاحظہ فرمائیں !
ایک ہی روایت ہے  ۔
لیکن ابن ابی شیبہ نے اسے ڈائریکٹ ابن المبارک سے نہیں روایت کیا ، حتی کہ ان کے طریق سے بھی نہیں روایت کیا ۔ اور وہ بھی نازل سند سے روایت کیا !
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کرنا تھا تو امام ابن ابی شیبہ نے اسے ابن المبارک کے شاگرد ”علی بن الحسن بن شقیق“کے واسطے کیوں نہ نقل کیا ؟ بالخصوص جبکہ ابن المبارک والی روایت مفصل ہے یعنی مزید فوائد پر مشتمل ہے ۔
.
❀ چھٹی مثال:
● ابن زنجویہ کی یہ روایت دیکھیں:
أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، أنه كان يقول: «صدقة الثمار والزرع، ما كان من نخل أو كرم أو زرع، من حنطة أو شعير أو لت»[الأموال لابن زنجويه 3/ 1030]
● اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ان کی سند دیکھیں:
حدثنا محمد بن بكر، عن ابن جريج، قال: أخبرني موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر؛ أنه كان يقول: صدقة الثمار والزرع، وما كان من نخل، أو زرع من حنطة، أو شعير، أو سلت۔۔۔[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 224]
ملاحظہ فرمائیں !
ایک ہی روایت ہے  ۔
لیکن ابن ابی شیبہ نے اسے ڈائریکٹ ابن المبارک سے نہیں روایت کیا ، حتی کہ ان کے طریق سے بھی نہیں روایت کیا ۔ اور وہ بھی نازل سند سے روایت کیا !
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کرنا تھا تو امام ابن ابی شیبہ نے اسے ابن المبارک کے شاگرد ”علی بن الحسن بن شقیق“کے واسطے کیوں نہ نقل کیا ؟
.
❀ ساتویں مثال:
● ابن زنجویہ کی یہ روایت دیکھیں:
ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن أبي جعفر، عن عمرو بن دينار، عن جابر بن عبد الله الأنصاري قال: «ليس فيما دون خمسة أواق صدقة، ولا فيما دون خمسة أوساق صدقة»[الأموال لابن زنجويه 3/ 1040]
● اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ان کی سند دیکھیں:
حدثنا أبو خالد، عن أشعث، عن أيوب، عن أبي قلابة (ح) وعن أبي الزبير، عن جابر، قال: ليس فيما دون خمسة أوساق صدقة[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 205]
ملاحظہ فرمائیں !
ایک ہی روایت ہے  ۔
لیکن ابن ابی شیبہ نے اسے ڈائریکٹ ابن المبارک سے نہیں روایت کیا ، حتی کہ ان کے طریق سے بھی نہیں روایت کیا ۔ اور وہ بھی نازل سند سے روایت کیا !
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کرنا تھا تو امام ابن ابی شیبہ نے اسے ابن المبارک کے شاگرد ”علی بن الحسن بن شقیق“کے واسطے کیوں نہ نقل کیا ؟
.
❀ آٹھویں مثال:
● ابن زنجویہ کی یہ روایت دیکھیں:
أنا سفيان بن عبد الملك، وعلي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، أن عمر بن الخطاب، كان يأخذ صدقة الغنم على هذا الكتاب وقال في حديثه: " ولا تخرج في الصدقة هرمة، ولا ذات عوار ولا تيس إلا أن يشاء المصدق[الأموال لابن زنجويه 2/ 855]
● اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ان کی سند دیکھیں:
حدثنا عباد بن عوام، عن سفيان بن حسين، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم كتاب الصدقة فقرنه بسيفه، أو قال: بوصيته ثم لم يخرجه إلى عماله حتى قبض، فلما قبض عمل به أبو بكر حتى هلك، ثم عمل به عمر: لا يؤخذ في الصدقة هرمة، ولا ذات عوار[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 202]
ملاحظہ فرمائیں !
ایک ہی روایت ہے  ۔
لیکن ابن ابی شیبہ نے اسے ڈائریکٹ ابن المبارک سے نہیں روایت کیا ، حتی کہ ان کے طریق سے بھی نہیں روایت کیا ۔ اور وہ بھی نازل سند سے روایت کیا !
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کرنا تھا تو امام ابن ابی شیبہ نے اسے ابن المبارک کے شاگرد ”علی بن الحسن بن شقیق“کے واسطے کیوں نہ نقل کیا ؟
.
❀ نویں مثال:
● ابن زنجویہ کی یہ روایت دیکھیں:
ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن يونس، عن الزهري: " في الرجل يقدم زكاته قبل السنة بأشهر، أيجزئ ذلك عنه؟ قال: نعم، وقد أحسن[الأموال لابن زنجويه 3/ 1180]
● اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ان کی سند دیکھیں:
حدثنا عمر بن (كذا ، والصواب ”عن“  كما في المواضع الأخري في الكتاب)  يونس، عن الزهري؛ أنه كان لا يرى بأسا أن يعجل الرجل زكاته قبل الحل[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 232]
ملاحظہ فرمائیں !
ایک ہی روایت ہے  ۔
لیکن ابن ابی شیبہ نے اسے ڈائریکٹ ابن المبارک سے نہیں روایت کیا ، حتی کہ ان کے طریق سے بھی نہیں روایت کیا ۔ اور وہ بھی نازل سند سے روایت کیا !
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  جب اس روایت کو نازل سند ہی سے روایت کرنا تھا تو امام ابن ابی شیبہ نے اسے ابن المبارک کے شاگرد ”علی بن الحسن بن شقیق“کے واسطے کیوں نہ نقل کیا ؟
قارئین کرام !
یہ چند ایسی روایات ہیں جو ابن زنجویہ کی کتاب میں موجود ہیں ۔
اوران سب کو امام ابن ابی شیبہ نے بھی روایت کیا ہے اورنازل سند سے روایت کیا ہے۔
لیکن ان میں سے کسی بھی روایت کو انہوں نے ”علی بن الحسن بن شقیق“ سے روایت نہیں کیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ امام ابن ابی شیبہ اپنی کتاب میں اموال سے متعلق روایات لانے کے لئے ہر راوی کا  دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں ، اور سند عالی کی پرواہ  نہ کرتے ہوئے دسیوں روایات   نازل سندوں سے لارہے ہیں ، تو آخر انہوں نے اپنے استاذ علی بن الحسن بن شقیق کے دروازے پردستک کیوں نہ دی ؟ جن کے پاس فریق مخالف کے بقول اموال سے متعلق روایات کا انبار ہے، یعنی کل ایک سو پنچانوے (195) روایات ہیں ؟؟
فریق مخالف یہ سکھارہے تھے کہ ان سے روایت کرنے میں سند نازل ہوجاتی ، اورہم اوپر متعدد مثالوں سے دکھا چکے ہیں کہ ان سے نہ روایت کرکے بھی انہوں نے نازل ہی سند سے روایت کیا ہے ۔پھرہمارا سوال باقی ہے کہ آخر ان روایات کو انہوں نے  ”علی بن الحسن بن شقیق“ سے کیوں نہ روایت کیا ہے ؟ بالخصوص جبکہ یہ روایات  ”علی بن الحسن بن شقیق“ کی ماننے کی صورت میں ان کی سندیں مزيد بہتر ہیں،  بلکہ ابن ابی شیبہ کی بيان كرده  بعض سند میں تو کذاب راوی بھی موجود ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ یہ روایات ”علی بن الحسن بن شقیق“ کے پاس ہے ہیں ہی نہیں ۔
.
✿  ✿ ابن ابی شیبہ کے یہاں ابن زنجویہ والی روایت کی عالی  سندیں:✿
فریق مخالف کی نازل سند والی نکتہ سنجی کی پول تو ہم نے كهول دی ہے اب دوسرے پہلو کو دیکھتے  ہیں ۔
فریق مخالف کے اصول سے ابن ابی شیبہ نے  ”علی بن الحسن بن شقیق“ سے روایت نہیں کیا کیونکہ ان سے روایت کرنے میں سند نازل ہوجاتی ۔
تو پھر اس کا لازمی تقاضہ یہ ہوا کہ ابن ابی شیبہ نے ان روایات کو براہ راست عبداللہ بن مبارک سے ہی روایت کردیا ہے ۔
لیکن آپ مصنف ابن ابی شیبہ میں اموال سے متعلق تمام روایات چھان مارئے ہیں ۔
اپ دو تین جگہ کے علاوہ ہر جگہ یہی  دیکھیں گے کہ امام ابن شیبہ نے ان روایات کو جب عالی سند سے روایت کیا ہے تو بھی اپنے استاذ ابن المبارک سے نہیں بلکہ دیگر اساتذہ کے حوالے سے روایت کیا ہے ۔ ذیل میں بطور مثال کچھ روایات پیش کرتے ہیں :
پہلے اموال کی روایت ہے ، پھر وہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ سے بھی پیش کی گئی ہے دونوں کتب کی سندوں کو بغور دیکھیں:
.
✿ (1)
● ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن سعيد، عن قتادة، عن الحسن، وعلي، وخلاس، وأبي حسان الأعرج قالوا: «ليس فيه زكاة»[الأموال لابن زنجويه 3/ 982]
●حدثنا عبدة، عن سعيد، عن قتادة، عن الحسن وخلاس، قالا: لا زكاة في الحلي[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 250]
.
✿ (2)
●ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن عوف قال: قرئ علينا كتاب عمر بن عبد العزيز في صدقة رمضان: «واجعل على أهل الديوان نصف درهم من كل إنسان، يؤخذ من أعطياتهم»[الأموال لابن زنجويه 3/ 1268]
●حدثنا أبو أسامة، عن عوف، قال: سمعت كتاب عمر بن عبد العزيز يقرأ إلى عدي بالبصرة: يؤخذ من أهل الديوان من أعطياتهم، عن كل إنسان نصف درهم[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 293]
.
✿ (3)
● أنا علي، عن ابن المبارك، عن ابن أبي ذئب، عن ابن قسيط، أن سعيد بن المسيب، وأبا سلمة بن عبد الرحمن، ومحمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، وعطاء بن يسار كانوا يقولون: «من كان له  عبد في زرع أو ضرع، فليؤد زكاته بالمدينة يعني زكاة الفطر[الأموال لابن زنجويه 3/ 1258]
●حدثنا وكيع، عن ابن أبي ذئب، عن يزيد بن عبد الله بن قسيط، عن محمد بن عبد الرحمن وسعيد بن المسيب وعطاء بن يسار وأبي سلمة بن عبد الرحمن، قالوا: من كان له عبد في زرع أو ضرع، فعليه صدقة الفطر[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 296]
.
✿ (4)
●أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن سعيد، أن الحسن قال: " في الرجل يخرج زكاة ماله فتضيع، قال: لا تجزيء عنه " وعن سعيد أيضا، عن حماد، عن النخعي قال: لا تجزيء عنه[الأموال لابن زنجويه 3/ 1184]
●حدثنا حفص، عن هشام، عن الحسن، قال: يخرج مكانها[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 325]
●حدثنا أبو بحر البكراوي، عن يونس، عن الحسن، قال: يخرج مكانها[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 326]
●حدثنا عبد الوهاب بن عطاء، عن ابن أبي عروبة، عن حماد، عن إبراهيم؛ في الرجل أخرج زكاة ماله فضاعت، قال: لا تجزىء عنه حتى يضعها مواضعها[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 326]
.
✿ (5)
●ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن خالد الحذاء، عن أبي قلابة قال: قال عثمان في صدقة رمضان: «عن الصغير والكبير، الحر والعبد، الذكر والأنثى، حتى ذكر الحمل صاعا من تمر، أو نصف صاع من بر عن كل إنسان»[الأموال لابن زنجويه 3/ 1243]
●حدثنا عبد الوهاب الثقفي، عن خالد، عن أبي قلابة، عن عثمان، قال: صاع من تمر، أو نصف صاع من بر.[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 284]
.
ہم صرف پانچ پر اکتفاء کرتے ہیں ورنہ اس طرح کی مثالیں اور بھی ہیں جن میں ابن ابی شیبہ ، ابن زنجویہ ہی کی روایت نقل کرتے ہیں ۔
لیکن نہ تو علی بن الحسن بن شقیق سے اور نہ ہی ابن المبارک سے ۔
حالانکہ حالات اس کے متقاضی تھے  مثلا 4 نمبر کی مثال میں دیکھیں کہ انہوں نے دو دو طریق سے حسن بصری اور ابراہیم نخعی کا قول روایت کیا ہے ، لیکن ابن المبارک کا طریق بالکل ذکر نہیں کیا !!
اسی طرح آخری مثال نمبر (5) دیکھیں کہ  اسے  ابن المبارک سے نقل کرتے ، تو متن بھی مفصل ہوتا اور سند بھی نسبتا اصح  ہوتی ، لیکن انہوں نے دوسری سند سے روایت کیا جس کا متن بھی مختصر ہے اور سند بھی ابن المبارک کی سند کی بنسبت کم درجے کی صحت والی ہے ۔
پھر موصوف کا یہ شور مچانا کیا معنی رکھتا ہے کہ ابن ابی شیبہ نے عالی سند کی وجہ سے علی بن الحسن بن شقیق سے روایت نہیں کیا ہے ؟؟
اگر یہی بات ہے تو پھر عالی سند کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں روایات کو علی بن الحسن بن شقیق کے استاذ ابن المبارک سے روایت کرنا چاہئے ! لیکن مصنف ابن ابی شیبہ میں ایسی صورت حال بھی نظر نہیں آتی ہے!
ہم نے تلاش کیا تو  پورے مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن زنجویہ والی صرف دو ہی روایات مل سکیں، جنہیں امام ابن ابی شیبہ نے عالی سند یعنی ابن المبارک سے نقل کیا ہے ، ممکن ہے مزید تلاشنے پر ایک دو روایت اور مل جائے ۔
اب اگر فریق مخالف کے بقول ابن ابی شیبہ نے  عالی سند کے پیش نظر ہی علی بن الحسن بن شقیق کی اموال والی روایات کو  نہیں لیا ، کیونکہ وہ خود ابن المبارک سے یہ روایات لے سکتے تھے تو  کیا ایسی صورت میں اموال سے متعلق  عالی سند یعنی ابن المبارک  سے پوری کتاب میں وہ صرف دو تین ہی روایت نقل فرماتے ؟؟
صاف بات یہ ہے کہ  ابن زنجویہ والی روایات علی بن الحسن بن شقیق کی ہیں ہی نہیں ، ورنہ جس طرح امام ابن ابی شیبہ نے کئی نازل سندوں سے بہت سی روایات نقل کی ہیں ، اسی طرح وہ علی بن الحسن بن شقیق سے بھی اموال والی روایات لیتے ، بالخصوص جبکہ فریق مخالف کے بقول ان کے پاس اموال سے متعلق ایک سو پنچانوے (195) روایات موجود ہیں ۔
.
✿ موصوف نے آگے امام احمد رحمہ اللہ سے متعلق بھی یہی نکتہ سنجی کی ہے فرماتے ہیں:
((اور امام احمد بن حنبل کے سوال پر یہ کہنا ہے کہ ان کی کتاب کا اصل موضوع مرفوع حدیثیں ہیں، آثار صحابہ ، تابعین یا تبع تابعین ان کی کتاب کا موضوع ہے ہی نہیں۔
علی بن الحسن بن شقیق سے ابن زنجویہ نے کتنی مرفوع حدیثیں روایت کی ہیں پہلے اسے دیکھیں خود بخود اس اعتراض کی علمی قیمت معلوم ہو جائےگی۔ یہ تو پہلی بات ہوئی ۔
اور دوسری اہم بات یہ کہ امام احمد بھی علی بن الحسن بن شقیق کے طبقے کے ہیں ۔ حافظ ابن حجر ان کے متعلق فرماتے ہیں: "هو رأس الطبقة العاشرة"۔ تقريب التهذيب (ص: 84)۔
اس لئے سند نازل کی جو بات ابن ابی شیبہ کے متعلق ابھی ذکر کی گئی وہی امام احمد بن حنبل کے تعلق سے بھی ذکر کی جائے گی))
.
❀ عرض ہے کہ:
  جہاں تک بات ہے ان کی کتاب مسند کے موضوع کی تو گرچہ  اس میں مرفوع روایات ہی غالب  ہیں لیکن ساتھ  ساتھ اس میں موقوف روایات وآثار بھی ہیں ۔اورابن زنجویہ والی روایات ان سب پر مشتمل ہے ۔
علاوہ بریں امام احمد رحمہ اللہ نے علل اوررجال پر بات کی ہے اور اس ضمن میں بھی بہت سی روایات کو بیان کیا ہے اور اس کے تحت ہر موضوع کی روایات آجاتی ہیں جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے حوالے سے واضح کیا جاچکا ہے۔
رہی عالی اور نازل سند کی نکتہ سنجی تو اس کا جواب بھی وہی ہے جو   امام ابن ابی شیبہ سے متعلق دیا گیا ہے ۔
کیونکہ ابن زنجویہ کی کتاب میں موجود علی بن الحسن ہی کی بعض روایات کو  امام احمد رحمہ اللہ نے روایت کررکھا ہے بلکہ بعض کو تو نازل سند سے بھی روایت کیا ہے۔
 . 
✿ موصوف آگے اپنی نکتہ دانی کا تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں:
((ایسی صورت میں علی بن الحسن بن شقیق سے اگر وہ روایت کریں تو دو طبقہ ان کی سند نازل ہو جائےگی۔ اور محدثین کے نزدیک یہ قول بہت ہی معروف ومشہور ہے "النزول شؤم"۔ لہذا جب وہ ان کےشیخ یا شیخ الشیخ سے روایت کر سکتے ہیں تو سند نازل کا اہتمام کیونکر کریں گے؟؟؟؟؟؟؟؟اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت ساری جگہوں پر موصوف سے یہ غلطی ہوئی ہے))
.
❀ عرض ہے کہ:
موصوف نے اس نکتے کو بڑے اہتمام سے پیش کیا ہے ، بلکہ باقاعدہ اسے نکتہ کا نام دیا ہے ، حالانکہ علم حدیث کے مبتدی طلباء تک کو  یہ معلوم ہے ، بلکہ ہمارے یہاں گلی محلی کے کسی عام اہل حدیث نوجوان سے کوئی حنفی سوال کرلے کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ سے احادیث کیوں نہ روایت کیں ، تو وہ بھی فی الفور بول اٹھے گا کہ امام مسلم کی رسائی امام بخاری کے شیوخ تک تھی ، لہٰذا امام بخاری کا واسطہ لانے کی ضرورت ہی نہ تھی اس سے بلاوجہ ان کی سند نازل ہوجاتی۔
اور یہ بے چارے ہم جیسے طویلب علم کو یہ نکتہ سکھانے آئے ہیں ، ابھی  دو سال قبل ہم نے  ”صحیح بخاری اور امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے :
« امام مسلم نے امام بخاری سے جو احادیث سنی تھیں انہیں احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے خود امام بخاری کے اساتذہ سے بھی سن رکھا تھا ۔یعنی ان کے پاس عالی سند کے ساتھ یہ احادیث تھیں اس لئے ظاہر ہے کہ وہ عالی سند چھوڑ کر نازل سند سے کیوں روایت کریں گے ۔بالخصوص جب کہ ان کی کتاب صحیح مسلم میں صحت کا معیار بلند ہے اور ثقہ رواۃ سے سند جس قدر عالی ہوتی ہے اتنی ہی صحت کے بلند معیار پرہوتی ہے۔»( مضمون کے لئے دیکھئے مجلہ الجماعہ ،  ، جولائی ، اگست 2016)
اس کے علاوہ کتب ستہ وغیرہ کی سند اجازہ کے حامل ممبئی میں کئی مشائخ موجود ہیں ، لیکن میں نے ان سے اجازۃ لینے کے بجائے ملک کے مختلف علاقوں کا سفر محض  اس لئے کیا تاکہ عالی سند مل جائے ، اور ہمارے مہربان ہمیں یہ نکتہ پڑھارہے کہ سند عالی کیا ہوتی ہے ، سند نازل کیا ہوتی ہے ، سبحان اللہ ۔
.
اس نکتہ دانی کے مظاہرہ پر میں طلاب علم کے سامنے ایک اور نکتہ پیش کرتا ہوں وہ یہ کہ جب کوئی شخص کسی عام فہم اور مشہور بات کو بڑے اہتمام سے بیان کرے اور اسے ایک نایاب نکتہ باور کرائے تو سمجھ جانا چاہئے کہ یہ بدنصیب جلد ہی اس سے اس سے باخبر ہوا ہے ، پہلے خود ہی اس سے لا علم تھا اور اپنی طرح دوسروں کو بھی ایسے ہی سمجھ رہاہے۔والمرء یقیس علی نفسہ۔
بہرحال ان نکتہ کا جواب اوپر گذرچکا ہے ۔
.
✿ موصوف   فرماتے ہیں:
(((خاکسار نے ابن ابی شیبہ اور ان کے مصنف کے تعلق سے ماجستیر کے منہجیہ میں ایک بحث لکھی ہے، جسے ان شاء اللہ کسی موقع پر اردو میں نشر کیا جائےگا۔)))
.
❀ عرض ہے کہ:
  ایک علمی بحث میں اس طرح کی غیر متعلق چیزوں  کا پرچار نہ کیا کریں ورنہ ہمارے منہ سے بھی  تبصرہ پھسل سکتاہے۔
مثلا ابھی حال ہی میں ایک بڑے شیخ سے ملاقات ہوئی جو دکتور ہیں اور حدیث میں متخصص ہیں اور مدینہ سے فارغ بھی ہیں اور سعودی عرب کے مشہور جامعہ میں استاذ بھی ہیں ۔
میں نے ان سے سعودی مقلدین،حنبلی مشائخ اور جامعہ اسلامیہ مدینہ میں تقلیدی مذہب کی ترویج وتبلیغ پر تبادلہ خیال کیا ، اور انہوں نے نہ صرف میرے خیالات کی پرزور تائید فرمائی بلکہ  تقلید و تعصب  سے آباد  ایسی دنیا  کی سیر کرائی جس پر اظہار افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔میرے ساتھ ایک مدنی استاذ اور دوسرے عالم بھی موجود تھے، وہ بھی اس بات کے گواہ ہیں۔
اسی دوران ناچیز نے  ماجستر کی ایک بحث کا حوالہ دیا تو دکتور محترم نے فرمایاکہ : (ماجستروالی بحوث سے دھوکہ نہ کھائیں بعض بحوث لکھنے گھامڑ ہوتے ہیں اور بعض مشرف تو اس سے بھی بڑے گھامڑ ہوتے ہیں)
(جاری ہے ۔۔۔)

No comments:

Post a Comment