{44} حدیث غلمان ، کسی راوی کا ، کسی مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی سے تنہا بہت ساری روایات نقل کرنا - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-25

{44} حدیث غلمان ، کسی راوی کا ، کسی مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی سے تنہا بہت ساری روایات نقل کرنا

{44} حدیث غلمان ، کسی راوی کا ،  کسی مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی سے تنہا بہت ساری روایات نقل کرنا
✿ ✿ ✿ ✿
.
اصول حدیث میں یہ بات مسلم اور مشہور ہے کہ اگر کسی مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی سے کوئی راوی ایسی روایات بیان کرے جو اس مشہور ثقہ راوی کے دیگر کثیر تلامذہ میں سے کسی ایک کے یہاں بھی نہ ملے تو یہ اس بات کی دلیل ہے وہ روایات اس مشہور ثقہ کی نہیں ہیں ۔
پھر اس طرح کی روایات بیان کرنے والے کی ثقاہت اگراپنی جگہ پر مسلم نہ ہو تو اس کے اس تفرد ہی کے سبب اس پر جرح بھی کی جاتی ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رواۃ پر اکثر جرح کی بنیاد ہی یہی بات ہوتی ہے کہ اس کی بیان کردہ روایات میں کلی طور پر یا جزوی طور پر اس کی متابعت نہیں کی جاتی ہے ۔
اور اگر اس طرح کی منفرد روایات بیان کرنے والے کی ثقاہت مسلم ہو تو اس کی خاص اس قسم کی منفرد روایات کو رد کردیا جاتا ہے ۔
اصول حدیث میں یہ بات بہت مشہور ہے اوراس طرح کے مواقع پر محدثین سوال اٹھا تے ہیں کہ اگر یہ روایات  اس مشہور ثقہ کی ہی ہیں ، تو اس کے دیگر کثیر تلامذہ کہاں تھے ؟؟
لیکن ہمارے مخالف اس مسلم اور مشہور بات سے نابلد اور ناواقف ہونے کے سبب اس طرح کے سوال کو بے تکا کہتے ہیں ، سبحان اللہ ۔
ملاحظہ کریں فریق مخالف فرماتے ہیں:
((علم حدیث سے دلچسپی رکھنے والوں سے ایسے بے تکے سوالات کی امید نہیں کی جاتی۔ ایسے سوالات وہی کر سکتے ہیں جو خلط مبحث کے شکار ہوں یا پھر تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کر رہے ہوں))
.
✿ عرض ہے کہ :
ہم نے اپنی اس بات کی تائید کے لئے صرف امام ابوحاتم کا ایک قول پیش کیا تھا جس میں یہ اصولی بات موجود ہے ، جسے موصوف سمجھ ہی نہیں سکے ، اس کی وضاحت آگے آرہی ہے لیکن اس سے قبل آئیے کچھ اور محدثین سے یہ بات ثابت کردیتے ہیں :
.
❀(1)  امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233):
ایک حدیث کو سفیان ثوری رحمہ اللہ سے صرف اور صرف یحیی بن آدم نے روایت کیا اوریحیی بن آدم کے علاوہ ، سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کسی نے بھی یہ روایت نقل نہیں کو تو اس پر امام ابن معین رحمہ اللہ نے کہا:
”يرويه يحيى بن آدم عن سفيان عن زبيد ولا نعلم أحدا يرويه إلا يحيى بن آدم وهذا وهم لو كان هذا هكذا لحدث به الناس جميعا عن سفيان“[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 346]
ملاحظہ کریں:
امام ابن معین رحمہ اللہ سفیان ثوری کے پاس اس حدیث کے وجود کا اس لئے انکار کررہے ہیں، کہ سفیان ثوری کے دیگر کثیر تلامذہ نے اسے سفیان ثوری سے روایت نہیں کیا ہے۔
.
❀ (2) امام احمد (المتوفى241)رحمہ اللہ:
امام احمد رحمہ اللہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب حدیث  ”عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) : الخلافة بالمدينة، والملك بالشام“ کے بارے میں پوچھا گیا تو امام احمد رحمہ اللہ نےکہا:
”أصحاب أبي هريرة المعروفون ليس هذا عندهم“ [المنتخب من العلل عن أحمد للخلال، ت طارق: ص: 228]
ملاحظہ کریں:
امام احمد رحمہ اللہ یہ فرمارہے کہ  یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے صرف ایک شخص روایت کررہاہے، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دیگر مشہور تلامذہ اسے روایت نہیں کرتے ۔
.
❀ (3) امام مسلم (المتوفى261) رحمہ اللہ:
امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کے مقدمہ میں جو اصول حدیث بیان فرمائے ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ اس فن کے لئے  بنیادی مرجع ہیں ، بلکہ صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہونے کے سبب کافی مشہور بھی ہیں ، اس مقدمہ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس میں امام مسلم رحمہ اللہ نے بالکل یہی بات کہی ہے ۔
امام مسلم کے الفاظ ہیں:
”فأما من تراه يعمد لمثل الزهري في جلالته، وكثرة أصحابه الحفاظ المتقنين لحديثه وحديث غيره، أو لمثل هشام بن عروة، وحديثهما عند أهل العلم مبسوط مشترك، قد نقل أصحابهما عنهما حديثهما على الاتفاق منهم في أكثره، فيروي عنهما، أو عن أحدهما العدد من الحديث مما لا يعرفه أحد من أصحابهما، وليس ممن قد شاركهم في الصحيح مما عندهم، فغير جائز قبول حديث هذا الضرب من الناس“ [صحيح مسلم 1/ 7]
ملاحظہ کریں:
امام مسلم رحمہ اللہ فرمارہے ہیں کہ زہری ، ہشام بن عروہ اور ان جیسے ثقہ مشہور راوی جن کے بہت سارے تلامذہ ہیں، اور جن کی احادیث کو بہت سارے رواۃ نے بیان کررکھا ہے، اگر ان جیسے مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی سے کوئی شخص  ایسی روایات نقل کرتا ہے، جسے اسی ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی کے دیگر شاگرد روایت نہیں کرتے، توایسے لوگوں کی روایات ناقابل قبول ہوں گی ۔
یعنی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایات اس مشہور اور کثیر التلامذہ راوی سے ثابت نہیں ہیں ۔
.
❀ (4) أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277):
امام ابوحاتم کی نظر میں قتادۃ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کو مشہور ثقہ راوی، امام ولید بن مسلم سے صرف حکم بن موسی نے روایت کیا ،اور ولید کے دوسرے کسی بھی شاگرد نہیں روایت نہیں کیا تو امام ابوحاتم نے اس حدیث کو منکر قرار دیا ہے۔
اسی طرح اسی معنی میں  ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کو مشہور ثقہ راوی ، امام اوزاعی سے صرف ابن أبي العشرين نے روایت کیا ،اور امام اوزاعی کے کسی دوسرے شاگرد نے روایت نہ کیا تو امام ابوحاتم نے اسے بھی منکر قراردیا ۔
امام ابو حاتم  رحمہ اللہ سے ان کے بیٹے کا سوال اوراس پر امام ابوحاتم کا جواب ملاحظہ فرمائیں، ابن أبي حاتم رحمه الله کہتے ہیں:
”سألت أبي عن حديث ؛ رواه الحكم بن موسى ، عن الوليد بن مسلم ، عن الأوزاعي ، عن يحيى ، عن عبد الله بن أبي قتادة ، عن أبيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : أسوأ الناس سرقة : الذي يسرق صلاته الحديث.قال أبي : كذا حدثنا الحكم بن موسى ، ولا أعلم أحدا روى عن الوليد هذا الحديث غيره.
وقد عارضه حديث حدثناه هشام بن عمار ، عن عبد الحميد بن حبيب بن أبي العشرين ، عن الأوزاعي ، عن يحيى ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : أسوأ الناس سرقة.قلت لأبي : فأيهما أشبه عندك.قال : جميعا منكران ، ليس لواحد منهما معنى.قلت : لم ؟ 
قال : لأن حديث ابن أبي العشرين لم يرو أحد سواه وكان الوليد صنف كتاب الصلاة وليس فيه هذا الحديث“ [علل الحديث، ط الرشد: 1/ 170]
ملاحظہ فرمائیں!
امام ابوحاتم کی نظر میں  ایک حدیث کو ولید بن مسلم سے صرف حکم بن موسی روایت کرتے ہیں ، باقی ولید کا کوئی شاگرد روایت نہیں کرتا ، اس بناپر امام ابوحاتم نے اس حدیث کو منکر قراردیا ہے ۔
نیز دوسری حدیث  میں امام اوزاعی سے  ابن أبي العشرين کے علاوہ بھی کوئی اور روایت نہیں کرتا ، اس لئے اسے بھی امام ابوحاتم نے منکر قراردیا ہے ۔
 . 
 ❀ قارئین کرام!
ملاحظہ فرمائیں کہ محدثین کے یہاں کس قدر یہ بات معروف اور مسلم ہے کہ ایک مشہور اور کثیر التلامذہ راوی سے کوئی راوی ایسی روایات لاتا ہے ،جسے اس کے دیگر تلامذہ بیان نہیں کرتے تو یہ بات قابل گرفت ہوتی ہے، اور اس پر سوال کھڑا ہوتا ہےکہ اس مشہور ثقہ راوی کے دیگر تلامذہ نے کیوں ایسی روایات کو بیان نہ کیا ؟
 . 
لیکن قربان جائیں فریق مخالف پر بڑی بے حیائی سے فرماتے ہیں :
((علم حدیث سے دلچسپی رکھنے والوں سے ایسے بے تکے سوالات کی امید نہیں کی جاتی۔ ایسے سوالات وہی کر سکتے ہیں جو خلط مبحث کے شکار ہوں یا پھر تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کر رہے ))
 . 
بلکہ آگے چل کر بے شرمی اور ڈھٹائی کی حد کردی اور یہاں تک کہہ ڈالا:
((یہ اعتراض در اصل مستشرقین کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ اور عام روات حدیث تو کیا صحابہ کرام کو بھی وہ نہیں بخشتے ہیں، کہتے ہیں جب جم غفیر کے سامنے یہ واقعہ پیش ہوا ہے تو بیان کرنے والا صرف ایک کیوں ہے؟ان کی طرف سے یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ باقی حضرات کہاں چلے گئے تھے ، کیا وہ سو رہے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔اور اسی فکر نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تک کو نہ بخشا۔لیکن علمائے حدیث سے اس طرح کا اعتراض پہلے نہیں سنا گیا تھا ، جو اب سنا جارہا ہے۔
اگر یہ اعتراض جائز ٹھہرایا جائے تو اکثر وبیشتر حدیثیں اس زد میں آجائیں گی، کیونکہ اکثر حدیثیں فرد (غریب) ہیں۔ اس لئے جس طبقے میں بھی کوئی راوی متفرد ہوگا اس کے متعلق سوال آئےگا کہ میاں تم ہی اکیلے تھے اپنے استاد سے اسے سننے والے ؟ کہاں چلے گئے تھے تمہارے دیگر ساتھی ؟ کیا وہ سب سو رہے تھے؟؟ وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح ہزاروں احادیث شک کے دائرے میں آجائیں گی ، اور یہی مستشرقین کا مقصد ہے۔))
قارئین کرام ! ملاحظہ فرمایا آپ نے !
اپنے دلائل کی کمزوری چھپانے کے لئے پہلے متخصص متخصص کی رٹ لگارہے تھے ، اور جب ہم نے موصوف کو  خود مختصصین کی آراء کا خون کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا ، تو اب مستشرقین کی دامن میں پناہ لے رہے ہیں ، اور جس طرح متخصصین کے حوالے میں محض ہوائی باتیں تھی ، ایسے ہی مستشرقین کے حوالے بھی محض ہوائی باتیں ہیں ، نہ کوئی نام ! کوئی عبارت ! نہ کوئی اقتباس !
مصیبت یہ ہے کہ ہمارے مہربان جس طرح محدثین کی باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں ، ٹھیک اسی طرح مستشرقین کے اعتراضات بھی ان کے دائرہ فہم وتدبر  سے ما وراء  ہیں ۔
بلکہ موصوف سے اس طویل گفتگو کے بعد صاف اندازہ ہوا کہ آں جناب رٹو مزاج ہیں ، اور ان کی توانائیاں زیادہ تر رٹنے پر ہی صرف ہوئی ہیں ، فہم و بصیرت سے آں جناب کا واسطہ بہت کم ہی رہاہے ، اور یہ کوئی پسندیدہ عادت نہیں ہے اس طرح دل و دماغ پر زنگ لگ جاتا ہے ، اور فقہ و استنباط کی استطاعت حددرجہ کمزور ہوجاتی ہے ، بلکہ ایسے حضرات جب معمول (رٹے کی عادت) کے خلاف فہم و استدلال کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ طوطا اپنی کہی ہوئی بات کو سمجھنے یا سمجھانے لگا ہو۔
محدثین کے مسلمہ اصول کو مستشرقین کا اصول سمجھ لینا بلاشبہہ اسی قبیل سے ہے۔نیز آں جناب کی فہم وبصیرت کا ایک انتہائی بھونڈا اور بھدا نمونہ اگلی قسط  میں آرہا ہے ۔
ہمیں لگتا ہے کہ موصوف نے کسی بھی مستشرق کی کتاب نہیں پڑھی ہوگی، بلکہ کسی جگہ یہ پڑھ لیا ہوگا  ،یا کہیں لوگوں کو یہ بات کرتے ہوئے سن لیا ہوگا کہ مستشرقین حدیث پر اعتراضات کرتے ہیں اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر بھی طعن کرتے ہیں ۔پھر اسی سنی سنائی بات پرایک ہوائی قلعہ تعمیر کردیا !
محترم آپ نے اپنے اس دعوی کو بحث کا حصہ بنایا ہے اس لئے  آپ سے گذارش ہے کہ کسی مستشرق کے نام کی صراحت کریں ، نیز  اس کی اصل یا مترجم  کتاب سے  الفاظ نقل کریں ، اورحوالہ بھی دیں ، اس کے بغیر محض ہوا میں باتیں نہ کریں ۔
دراصل بات یہ ہے کہ موصوف مستشرقین کے یہاں امر”تواتر“اور محدثین کے یہاں امر ”متابعت“ کے فرق سے ناآشنا ہیں  ، اس لئے شرمناک خلط مبحث کے شکار ہیں ۔
 . 
 ✿ مستشرقین کے یہاں امر”تواتر“اور محدثین کے امر”متابعت“  میں فرق :
 موصوف سے غلط فہمی یہ ہوئی ہے کہ انہوں نے محدثین کے یہاں متابعت والی بحث کو مستشرقین کے یہاں ”تواتر“ والی بحث کے ساتھ غلط ملط کردیا ہے۔
عصر حاضر میں اہل سنت کے بعض گروہ  میں بھی یہ  بحث شروع ہوگئی ہے کہ سنت اور حدیث میں فرق ہے ۔
 . 
 ❀  بعض مستشرقین اور منکرین حدیث کے یہاں امر”تواتر“ کی بحث ❀
 ● دراصل حدیث اور سنت میں فرق کا نظریہ پوری دنیا میں سب سے پہلے ایک مشہور مستشرق گولڈ زیہر نے پیش کیا ہے جو ایک یہودی شخص تھا ۔
مستشرق گولڈ زیہر  یہودی لکھتا ہے  :
إن التمييز بين مصطلح الحديث ومصطلح السنة مسئلة واجبة ۔۔۔الفرق الذي يجب أن يظل في أذهاننا هو أن الحديث ۔ كما بينا قبل حين ۔ هوالخبر الشفهي المروي عن النبي  في حين أن السنة في الإستعمال الشائع عند جمهور المسلمين ۔۔۔۔الخ[ دیکھئے دراسات اسلامیہ ، از گولڈ زیہر ، عربی ترجمہ ص26]
یہ بحث کئی صفحات تک گئی ہے ۔
گولڈ زیہر  مستشرقین میں بہت بڑا مقام رکھتا ہے ، حتی کہ بعض نے اسے شیخ المستشرقین کہا ہے ۔
اور پوری دنیا میں حدیث پر تفصیلی شبہات  سب سے پہلے اسی شخص نے پیش کئے ہیں ، اس نے اپنی کتاب دراسات اسلامیہ کے دوسرے حصہ میں حدیث پر بہت تفصیل سے بحث کی ہے ، اس کے بعد کے سارے مستشرقین اسی کی کتاب سے الگ الگ اسلوب میں کاپی پیسٹ کرتے رہے ہیں ۔
جب گولڈ زیہر نے حدیث وسنت میں تفریق کا نظریہ پیش کیا تو پھر اسی نظریہ کو بعض عرب مفکرین نے بھی اپنا لیا ۔
 ● پھر یہ نظریہ بر صغیر تک پہنچا اور مرزا غلام احمد قادیانی نے احادیث سے پیچھا چھڑانے کے لئے اس کا خوب استعمال کیا ، دیکھئے [کشی نوح : ص82 ، بحوالہ حدیث وسنت میں تفریق کا فتنہ ، از انور یوسفی]
 ● پھر اسی نظریہ کو مولانا مودودی رحمہ اللہ اور مولانا امین حسن اصلاحی رحمہ اللہ نے بھی عام کیا  دیکھے [تفہیم القران از مولانا مودودی : 6 /170 ، مبادی تدبر حدیث از مولانا امین حسن اصلاحی : ص29]
حدیث وسنت میں ان حضرات کے فرق کا فلسفہ یہ ہے کہ سنت دین کی اس بات کو کہتے جو تواتر کے ساتھ منقول ہو ۔یعنی سنت اسی کو کہیں گے جسے مسلمانوں کی پوری جماعت تواتر کے ساتھ  بیان کرتے ہوئے اور اپناتے ہوئے چلی آئی ہو۔لیکن دین کی جس بات کو تواتر کا درجہ حاصل نہ ہو وہ حدیث ہے ، پھر ایسی احادیث منکریں حدیث کے یہاں حجت نہیں ہے ، ان کا خیال  یہ ہے کہ چونکہ یہ ہر دور کے تمام مسلمانوں کے ذریعہ نقل نہیں ہوئی ہے، اس لئے اس میں غلطی کا امکان ہے ۔
یہ انکار حدیث کا وہ چور دروازہ تھا جس کی داغ بیل گولڈ زیہر یہودی  نے ڈالی اور رفتہ رفتہ مسلمان بھی اس فریب میں آگئے ۔
فریق مخالف نے جس بات کو مستشرقین کی بات کہی ہے وہ یہی بات ہے جس کی وضاحت ہم نے اوپر کی ہے ۔
جبکہ ہم نے زیربحث حدیث کی تضعیف میں جوبات کہی ہے وہ بالکل الگ چیز ہے ، یہ مستشرقین کی بات  ہرگز نہیں بلکہ محدثین کی بات ہے، اور محدثین کے یہاں یہ مسلم امرہے تفصیل  آگے ملاحظہ ہو:
 . 
  ❀  محدثین  کے یہاں ”متابعت“ کی بحث ❀
اوپر آپ نے جو پڑھا ہے کہ بعض مستشرقین نے ایک شوشہ چھوڑا جس کی بنیاد بناکر منکرین حدیث نے احادیث کی صحت کے لئے تواتر کی شرط رکھ دی اور اسے سنت کے نام سے یاد کیا ۔ لیکن محدثین کسی حدیث کی صحت کے لئے یہ شرط قطعا نہیں لگاتے ۔
اورہم نے زیر بحث حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے جو بات کہی ہے وہ اس قبیل سے قطعا نہیں ہے کہ کسی بھی حدیث کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ اسے تمام لوگ روایت کریں ۔
بلکہ ہم نے متابعت کے اصول پر بات کی ہے جو محدثین کے یہاں ایک مسلم اور معروف و مشہور اصول ہے ۔ بلکہ جرح وتعدیل اور حدیث کی تصحیح و تضعیف کی پوری عمارت اسی اصول پر کھڑی ہے ۔اگر کوئی من چلا اس کا انکار کرے تو گویا  وہ اس عظیم فن اور مقدس علم ہی کا یک قلم انکار کررہا ہے ۔
ائمہ فن جب کسی راوی پر جرح یا اس کی توثیق کرتے ہیں تو یہی دیکھ کرکرتے ہیں کہ اس کی متابعات کا کیا حال ہے ، یعنی اس کی روایات کو دیگر رواۃ کی روایات کے ساتھ موازنہ کرکے فیصلہ کرتے ہیں ۔
بلکہ رواۃ کی ثقاہت پر اطمینان ہونے کے بعد بھی ،حالات اور تقاضوں کے پیش نظر اس کی روایات کو ، دیگر ثقہ روایات کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھتے ہیں ۔
 ● اورجب بھی کبھی صورت حال یہ نظر آتی ہے کہ کوئی راوی کسی مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی سے ایسی روایات بیان کررہا ہے جو اس کے دیگر مشہور اور کثیرتلامذہ میں کسی ایک کے یہاں بھی نہیں پائی جاتی ہے ۔تو پھر متابعت کے اسی اصول پر فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ روایات اس مشہور راوی سے ثابت نہیں ہیں ۔
 ● اور متابعت کے ثبوت کے لئے محدثین ہر گز یہ شرط نہیں لگاتے کہ ، کسی مشہور اور کثیر التلامذہ راوی کی روایت ، اس کے ہر ہر شاگرد کے پاس ہونی چاہئے ،  جیساکہ فریق مخالف نے مغالطہ دیا ہے ،بلکہ چند شاگردوں کی متابعت بھی کافی ہے ۔
 ● اور یہ متابعت بھی ہمیشہ تلاش نہیں کی جاتی ہے جیساکہ فریق مخالف نے یہ بھی مغالطہ دیا ہے ، بلکہ متابعات تبھی تلاش کی جاتی ہیں جب حالات اس کا تقاضا کریں ، اور ایسے حالات کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے ۔
● انہیں میں سے ایک یہ بھی کہ  کوئی راوی کسی مشہور ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی سے ایسی روایات بیان کررہا ہے جو اس کے دیگر مشہور اور کثیرتلامذہ میں کسی ایک کے یہاں بھی نہیں پائی جاتی ہو جیساکہ یہ چیز بڑی وضاحت کے ساتھ امام مسلم کے قول میں موجود ہے جسے شروع میں نقل کیا جاچکا ہے ۔
 . 
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم نے زیربحث حدیث کے سلسلے میں جوبات کہی ہے وہ نہ صرف محدثین کی بات ہے بلکہ تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے ۔ والحمدللہ ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment