{49} کسی مشہور اور کثیرالتلامذہ راوی سے کسی ایک ہی راوی کا تن تنہا روایات کا ڈھیر نقل کرنا - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-30

{49} کسی مشہور اور کثیرالتلامذہ راوی سے کسی ایک ہی راوی کا تن تنہا روایات کا ڈھیر نقل کرنا

{49} کسی مشہور اور کثیرالتلامذہ راوی سے کسی ایک ہی راوی کا تن تنہا روایات کا ڈھیر نقل کرنا 
✿ ✿ ✿ ✿
ابن زنجویہ نے علی بن الحسن نامی راوی سے اپنی کتاب میں پانچ کم دو سو روایات نقل کیا ہے ۔
گذشتہ پوسٹس میں ہم تفصیل سے بتلا چکے ہیں کہ یہاں علی بن الحسن یہ علی بن الحسن النسائی ہے جو ابن زنجویہ کے علاقہ کا ہے ۔
لیکن بعض حضرات اس بات پر مصر ہیں کہ یہاں علی بن الحسن سے مراد علی بن الحسن بن شقیق ہے۔
اس پر ہم نے بہت سے ملاحظات پیش کئے ہیں جن میں سے ایک یہ کہ علی بن الحسن بن شقیق تو بہت ہی مشہور و معروف ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی ہے۔لیکن اس کے دیگر تلامذہ کے یہاں ابن زنجویہ کی نقل کردہ روایات میں سے کوئی ایک  روایت بھی نہیں ملتی !!
اب کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ علی بن الحسن بن شقیق کی تقریبا دو سو روایات کا ڈھیر ایسا ہو جن میں سے ایک روایت کو بھی ان کے شاگردوں میں سے کوئی نہ بیان کرے بلکہ ان تمام کی تمام روایات کو ان سے ابن زنجویہ بیان کریں جو ان کے شاگرد بھی نہیں ہیں ، نہ ان کے علاقہ کے ہیں ۔
اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ابن زنجویہ نے جس علی بن الحسن سے یہ روایات نقل کی ہیں وہ علی بن الحسن بن شقیق نہیں ہوسکتے بلکہ یہ علی بن الحسن بن النسائی ہی ہوسکتے ہیں جو ابن زنجویہ النسائی ہی کے علاقہ کے ہیں ۔ جیساکہ پوسٹ نمبر (35) اور اس کے بعد کی پوسٹس میں ہم تفصیلات پیش کرچکے ہیں ۔
  . 
یہاں غور کریں کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ کسی مشہور راوی سے کوئی ایک راوی ڈھیر ساری روایات کیوں نقل کررہا ہے ، بلکہ ہمارا کہنا ہے کہ ایسے مشہور ثقہ راوی سے ان ڈھیر ساری روایات میں سے کوئی ایک روایت بھی اس کے دیگر تلامذہ میں سے کوئی کیوں نقل نہیں کرتا ؟؟؟
آخر ایک ہی راوی تن تنہا اتنی ڈھیر ساری روایات کیسے نقل کردیں جن میں سے کوئی ایک روایت بھی کسی دوسرے شاگرد نے نقل نہ کی ؟؟
اور یہ سوال بھی ہم ایسے شخص کے تفرد پر اٹھارہے ہیں جو اس مشہور راوی کا شاگرد بھی نہیں ہے جس  سے اتنی ساری روایات تنہا ہی نقل کر رہا ہے۔
  . 
ہمارے اس سوال بعض حضرات اب تک عجیب وغریب جواب دیتے آئے ہیں ۔
اورحال ہی میں محققین اور متخصصین کی ایک ٹیم نے کافی محنت شاقہ اور ”بعضهم لبعض ظهيرا“ بن کر اس کا جو جواب تلاش کیا ہے وہ یہ کہ:
((امام ابن ابی شیبہ، امام وکیع بن الجراح الکوفی سے سینکڑوں حدیثوں کے روایت کرنے میں متفرد ہیں))
لیکن اس جملے کے آگے جو کچھ کہا گیا ہے درحقیقت خود اپنے ہی اعتراض کا جواب بھی حاضر کردیا گیا ، فرماتے ہیں:
((واضح ہو کہ ابن ابی شیبہ نے وکیع بن الجراح سے اپنے مصنف میں( 7607) حدیثیں روایت کی ہیں۔ اس سے آدھی بھی حدیثیں ان کے کسی دوسرے شاگرد کے پاس نہیں ملتیں))
اس بیان کی حقیقت کیا ہے یہ تو چیک کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا  لیکن سردست ہم اتنا عرض کریں گے کہ :
ابن ابی شیبہ نے امام وکیع سے جو روایات نقل کی ہیں ان تمام کی تمام روایات میں ابن ابی شیبہ منفرد نہیں ہے بلکہ فریق مخالف ہی کے حساب سے تقریبا نصف حصہ میں ان کی متابعت بھی موجود ہے یعنی امام وکیع ہی سے ان کے دیگر شاگردوں نے بھی یہ روایات بیان کی ہیں۔
یعنی مجموعی تناسب کے اعتبار سے تقریبا پچاس فیصد(٪ 50) روایات میں ابن ابی شیبہ کی متابعت موجود ہے ۔اس لئے اس بات میں ذرا بھی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ روایات امام وکیع ہی کی ہے۔
لیکن ابن زنجویہ عن علی بن الحسن کا معاملہ دیکھئے کہ اگر یہاں علی بن الحسن سے علی بن الحسن بن شقیق مراد لے لیں تو پھر تقریبا دو سو کی کثیر روایات میں نصف تو درکنار ربع یا عشر حصہ میں بھی ابن زنجویہ کی متابعت نہیں ہے بلکہ ایک فیصد بھی متابعت موجود نہیں حتی کہ ایک روایت میں بھی متابعت موجود نہیں ہے ۔
دوسری طرف یہ بھی دیکھیں کہ ابن زنجویہ کا علی بن الحسن بن شقیق کا شاگرد ہونا ثابت نہیں ہے ، جبکہ امام ابن ابی شیبہ محدثین کی بے شمار تصریحات کے مطابق امام وکیع کے شاگرد ہیں ۔اور نہ صرف شاگر ہے بلکہ ان کے علاقہ کے بھی ہیں اور اپنے علاقہ کوفہ کے مشائخ سے انہوں نے بچپن میں روایات اخذ کرنا شروع کردیا تھا ۔
اس لئے امام وکیع جیسے حافظ کبیر سے ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کا خصوصی اورطویل تعلق ہے ، اس لئے ان کے پاس امام وکیع کی بہت زیادہ روایات جمع ہونا کوئی امر مستغرب نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم نے سابقہ طویل بحث میں کبھی بھی یہ نہیں کیا ہے کہ علی بن الحسن بن شقیق کے پاس ابن المبارک کی ڈھیر ساری روایات کہاں سے آسکتی ہیں ؟ کیونکہ یہ دونوں ہم علاقہ ہیں مزید دونوں کا خصوصی تعلق بھی ہے۔
لیکن ابن زنجویہ اور علی بن الحسن بن شقیق کا یہ معاملہ ہرگز نہیں ہے ، دونوں کا خصوصی تعلق تو درکنار دونوں ہم علاقہ بھی نہیں ہیں ، بلکہ دونوں کے مابین استاذ و شاگرد کا رشتہ تک ثابت نہیں ہے۔
الغرض یہ کہ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے امام وکیع سے جو ڈھیر ساری روایات نقل کی ہیں ان میں :
مجموعی تناسب سے تقریبا نصف حصہ میں ابن ابی شیبہ کی متابعت بھی موجود ہے ۔
علاوہ بریں ابن ابی شیبہ ائمہ فن کی بے شمار تصریحات سے امام وکیع کے شاگرد بھی ہیں ۔
نیز ابن ابی شیبہ امام وکیع کے ہم علاقہ بھی ہیں ۔
اس کی سے ساتھ ابن ابی شیبہ کے ترجمہ میں یہ بھی ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہم علاقہ مشائخ سے بچپن میں ہی ان کی روایات لینا شروع کردیا تھا۔
یہ ساری باتیں ابن زنجویہ اور علی بن الحسن کے تعلق سے قطعا نہیں ہیں ۔
لہٰذا فریق مخالف کوئی ایک ایسی مثال تلاش کریں جس میں ایک مشہور و معروف ثقہ اور کثیر التلامذہ راوی سے کسی  راوی (جس کی اس سے شاگردی کی بھی صراحت نہ ملے )نے تقریبا دو سو جیسی  ڈھیر ساری روایات کا ایسا مجموعہ نقل ہو کہ اس کثیر مجموعہ روایات میں سے ایک روایت بھی اس مشہور ثقہ راوی کے دیگر تلامذہ میں کسی کے یہاں موجود نہ ہو۔
دنیائے روایات سے ایسی کوئی ایک ہی مثال پیش کریں ! دیدہ باید !!
لطف کی بات یہ ہے کہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ اپنے استاذ وکیع سے فریق مخالف کی تلاش کے مطابق تقریبا آٹھ ہزار روایات نقل کرتے ہیں ۔
لیکن یہی ابن ابی شیبہ اپنے استاذ علی بن الحسن بن شقیق سے ان روایات میں سے ایک روایت بھی نقل نہیں کرتے جنہیں ابن زنجویہ نے علی بن الحسن سے نقل کیا ہے !!!
حالانکہ ابن ابی شیبہ آثار کی روایت میں سب سے ماہر ہیں  حتی کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا:
وكان أحفظ أهل زمانة بالمقاطيع [الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 8/ 358]
  . 
✿ فریق مخالف نے جو دوسری مثال ابن ماجہ سے متعلق پیش کی ہے اس کا بھی یہی حال ہے۔
فریق مخالف کے بقول امام ابن ماجہ نے ابن ابی شیبہ سے تقریبا گیارہ سو حدیثیں اپنی سنن کے اندر روایت کی ہیں جن میں سے دو سو سے زیادہ ایسی حدیثیں ہیں جنہیں ہم ابن ماجہ کے علاوہ ان کے کسی دوسرے شاگرد کے پاس نہیں پاتے ۔
عرض ہے کہ فریق مخالف ہی کے اعداد وشمار کے مطاق گیارہ سو کے مجموعہ روایت میں نو سو تو دیگر شاگردوں کے یہاں ہیں !!
یعنی مجموعی تناسب کے اعتبار سے تقریبا اسی فی صد (٪ 80) روایات میں ابن ماجہ رحمہ اللہ کی متابعت موجود ہے۔
اب غور کریں کہ کسی راوی کے مجموعہ روایات کی ایسی مثال جس میں اسی فیصد (٪ 80) کے حصہ کی متابعت موجود ہے ، اس کا اس راوی کی مجموعہ روایات سے کیا تعلق ہے جس میں ایک فیصد بلکہ ایک روایت میں بھی متابعت ثابت نہیں ہے ۔
مزید وضاحت اس سے قبل والی مثال کے تحت ہوچکی ہے۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment