{50} ابن زنجویہ اور ابن ابی اویس - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-07-31

{50} ابن زنجویہ اور ابن ابی اویس

{50} ابن زنجویہ اور ابن ابی اویس
✿ ✿ ✿ ✿
سابقہ پوسٹ ذہن میں رکھ کر اس پوسٹ کو بھی پڑھیں تو ان شاء اللہ ساری حقیقت عیاں ہوجائے گی ۔
بعض حضرات فرماتے ہیں:
((ابن زنجویہ نے ابن ابی اویس سے بے شمار ایسی حدیثیں روایت کی ہیں جنہیں ابن زنجویہ کے علاوہ کسی دوسرے نے روایت نہیں کی ہیں))
عرض ہے کہ:
کیا اس مجموعہ روایات میں سے ایک روایت کو بھی ابن زنجویہ کے علاوہ ابن ابی اویس کے کسی دوسرے شاگر نے روایت نہیں کیا ہے ؟؟
یہ مثال ہماری جس بات کے خلاف پیش کی جارہی ہے اسے ہم باربار واضح کرچکے اور گذشتہ پوسٹ نمبر (49) کی ابتداء میں مزید واضح کرچکے ہیں قارئین ملاحظہ فرمالیں ۔
یہ مثال ہماری بات کے خلاف ہرگز نہیں ہوسکتی کیونکہ اس مجموعہ رویات میں سے کئی روایات کو ابن زنجویہ کے علاوہ ابن ابی اویس کے دیگر شاگردوں نے بھی روایت کیا ہے ۔
حتی کی ابن زنجویہ نے اپنی کتاب میں بالکل شروع میں پہلے ہی صفحہ پر بن ابی اویس کی سب سے پہلی جو روایت درج کی ہے وہ یہ ہے :
 . 
  ● ابن زنجويه (المتوفى251 ) نے کہا:
أنا ابن أبي أويس، حدثني سليمان بن بلال، عن محمد بن عجلان، عن القعقاع بن حكيم الكناني، وعبيد الله بن مقسم، عن أبي صالح  السمان، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الدين النصيحة، إن الدين النصيحة، إن الدين النصيحة». قال: «لله ولكتابه ولرسوله، ولأئمة المسلمين وعامتهم»[الأموال لابن زنجويه 1/ 61 ، 62]
اس پہلی روایت ہی کو ابن زنجویہ کے علاوہ ابن ابی اویس کے دیگر شاگردوں نے بھی روایت کیا ہے ۔
چنانچہ :
 ● امام ابن أبي عاصم رحمه الله (المتوفى287) نے کہا:
حدثنا عبد الله بن شبيب، ثنا ابن أبي أويس، ثنا سليمان بن بلال، عن محمد بن عجلان، عن القعقاع بن حكيم، وعبيد الله بن مقسم، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «الدين النصيحة» ثلاثا. قالوا: لمن يا رسول الله؟ قال: «لله، ولكتابه، ولرسوله، ولأئمة المسلمين، وعامتهم»[السنة لابن أبي عاصم 2/ 520]
ملاحظہ کریں:
کتاب کے پہلے صفحہ پر اور ابن ابی اویس کی پہلی روایت ہی میں ابن زنجویہ کی متابعت موجود ہے۔
اور کتاب کے اندر بھی بہت  ساری روایات میں ابن ابی اویس سے ابن زنجویہ کی متابعت موجود ہے ۔لیکن اس کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے یہ وضاحت بہت اہم ہے کہ ابن ابی اویس صحیح بخاری کے ان رجال میں سے ہیں جو مختلف فیہ ہیں  اور بہت سے ائمہ نے تو انہیں ضعیف ہی کہا ہے ۔(راقم الحروف نظر میں یہ کم ازکم صدوق ہیں ان شاء اللہ)
اموال کے محقق دکتور شاکر ذیب جن کے تخصص اور دکتوری صلاحیت کا حوالہ دیتے ہوئے فریق مخالف نہیں تھکتے انہوں نے بھی ابن ابی اویس کی پہلی روایت ہی کے حاشیہ میں لکھا ہے :
”وإسناده ابن زنجويه ضعيف لأجل ابن أبي اويس ذكره الحافظ في التقريب وقال : صدوق أخطأ في أحاديث من حفظه مات 226 ، وفي هدي الساري : لايحتج بشيء من حديثه غير مافي الصحيح من أجل ماقدح فيه النسائي وغيره ، الا ان شاركه فيه غيره فيعتبربه“[الأموال لابن زنجويه 1/ 62]
ظاہر کہ جو راوی مختلف فیہ ہو تو بہت سے محدثین کا اس کی روایت سے اعراض کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
لیکن بہر حال ابن زنجویہ اس سے نقل کردہ روایات مین منفرد قطعا نہیں ہیں ۔
بلکہ خود فریق مخالف اقرار کرتے ہیں کہ:
((امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ابن ابی اویس سے کافی حدیثیں روایت کی ہیں۔ جن میں سے بعض حدیثیں الاموال لابن زنجویہ میں بھی ہیں))
الغرض جب اس سے روایت کردہ احادیث میں ابن زنجویہ منفرد نہیں ہیں تو یہ مثال بے سود ہے۔
 . 
✿ رہا فریق مخالف کا یہ کہنا کہ :
((اور ہر جگہ انہیں ابن ابی اویس ہی کہا ہے، کہیں پر پورا نام ذکر نہیں کیا ہے))
تو عرض کہ ایک ہی طبقہ میں ابن ابی اویس سے کوئی دوسرا راوی معروف نہیں ہے اس لئے اس لئے ان کے مکمل نام کی صراحت کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
البتہ اگر ان کے نام کا ذکر کرتے ہوئے ہوئے اسماعیل کہتے تو وضاحت کی ضرورت تھی کیونکہ اس طبقہ میں اسماعیل نام کے کئی ہیں لیکن ابن زنجویہ نے ان کے اصل نام کے بجائے ابن ابی اویس کہا ہے جو خود اپنے آپ میں وضاحت ہی ہے ۔
 . 
✿ رہی بات  سفیان بن عبد الملک المروزی کی تو  ابن زنجویہ نے ان سے بیس سے کچھ زائد روایات نقل کیا ہے ان میں سے بھی بعض مکرر  ہیں۔
علاوہ بریں ابن حبان کے علاوہ کسی نے بھی ان کی توثیق نہیں کی ہے ۔
اسی لئے امام ذہبی نے ان کے بارے وثق کہا ہے ۔[الكاشف للذهبي ت عوامة: 1/ 449]
اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے کہ اس سے امام ذہبی رحمہ اللہ کا اشارہ اس بات کی طرف ہوتا ہے کہ ان کی توثیق میں امام ابن حبان منفرد ہیں اور ابن حبان کی منفرد توثیق معتبر نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے غالبا تہذیب کے رموز پر اعتماد کرتے ہوئے اسے صحیح مسلم کا راوی سمجھ کر ثقہ کہہ دیا ہے جیساکہ تہذیب و تقریب کے رموز سے پتہ چلتا ہے، حالانکہ امام مسلم نے صرف مقدمہ میں ان سے روایت لی ہے جس سے توثیق ثابت نہیں ہوتی ہے۔
معلوم ہوا کہ ابن حبان اس کی توثیق میں منفرد ہے ۔
ظاہر ہے کہ ایسے راوی سے روایت میں اگر ابن زنجویہ کے علاوہ دیگر رواۃ اعراض کریں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔)

No comments:

Post a Comment