{51} ابن زنجویہ اور عبداللہ بن صالح - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-08-01

{51} ابن زنجویہ اور عبداللہ بن صالح

{51} ابن زنجویہ اور عبداللہ بن صالح
✿ ✿ ✿ ✿
گذشتہ پوسٹ میں  ابن ابی اویس کے بارے میں جوبات کہی گئی ہے وہی معاملہ عبداللہ بن صالح کا بھی ہے ۔
یعنی ان سے ابن زنجویہ کی نقل کردہ روایات میں بھی بہت ساری روایات میں ابن زنجویہ کی متابعت موجود ہے ۔
بلکہ ابن زنجویہ نے اپنی کتاب میں عبداللہ بن صالح  کی سب سے پہلی جو روایت درج کی ہے اس میں ہی ابن زنجویہ کی متابعت موجود ہے چنانچہ اموال میں ان کی پہلی روایت دیکھیں:
● ابن زنجويه (المتوفى251 ) نے کہا:
أنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث بن سعد، حدثني ابن الهاد، عن محمد بن إبراهيم، عن بسر بن سعيد، عن أبي قيس، مولى عمرو بن العاص عن عمرو بن العاص، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول  «إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب، فله أجران، وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ، كان له أجر». قال:  فحدثت بهذا أبا بكر بن محمد بن حزم، فقال لي: هكذا حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن عن أبي هريرة[الأموال لابن زنجويه 1/ 67]
اس پہلی روایت ہی کو ابن زنجویہ کے علاوہ عبداللہ بن صالح  کے دیگر کئی شاگردوں نے بھی روایت کیا ہے ۔
مثلا:
● امام ابن الأعرابي (المتوفى: 340) نے کہا:
 نا علي، نا عبد الله بن صالح، حدثني الليث بن سعد قال: حدثني يزيد بن عبد الله بن الهاد، عن محمد بن إبراهيم، عن ابن سعيد، عن أبي قيس، مولى عمرو بن العاص، عن عمرو بن العاص، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران، وإذا حكم فاجتهد فأخطأ فله أجر فحدثت بهذا الحديث أبا بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، فقال: هكذا حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله[معجم ابن الأعرابي 3/ 1046]
اس کے علاوہ اوربھی کئی رواۃ نے ابن زنجویہ  کی متابعت کی ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں:
عبداللہ بن صالح کی پہلی روایت ہی میں ابن زنجویہ کی متابعت موجود ہے۔
مزید یہ کہ عبداللہ بن صالح متکلم فیہ بھی ہیں ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
كاتب الليث صدوق كثير الغلط [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3388]
اموال کے محقق دکتور شاکرذیب نے بھی انہیں متعدد مقامات پر ضعیف ہی کہا ہے ۔
اور مذکورہ پہلی روایت میں دکتور موصوف مقدمہ فتح الباری سے ابن حجر کے الفاظ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 أن الذي يورده (ای البخاری )من أحاديثه صحيح عنده قد انتقاه من حديثه لكنه لا يكون على شرطه الذي هو أعلى شروط الصحة فلهذا لا يسوقه مساق أصل الكتاب [الأموال لابن زنجويه 1/ 67 ، نیز دیکھیں:مقدمة فتح الباري لابن حجر: ص: 415]
ظاہر ہے کہ ایسے روای سے اگر بہت سے لوگ روایت نہ کریں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔)

No comments:

Post a Comment