{52} ابن زنجویہ کے استاذ ”علی بن الحسن“ کی روایات کا موازنہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-08-02

{52} ابن زنجویہ کے استاذ ”علی بن الحسن“ کی روایات کا موازنہ

{52} ابن زنجویہ کے استاذ ”علی بن الحسن“  کی روایات کا موازنہ
✿ ✿ ✿ ✿
ابن زنجویہ نے اپنے جس استاذ علی بن الحسن سے ایک سو پنچانوے( 195) روایات نقل کی ہیں ، اس کے بارے میں ہم متعدد دلائل سے ثابت کرچکے ہیں کہ یہ ”علی بن الحسن النسائی“ ہی ہے ، جو ابن زنجویہ ہی کے علاقہ کا ہے ۔
لیکن فریق مخالف کو کسی نے یہ لقمہ دیا کہ ابن زنجویہ کی کتاب میں علی بن الحسن کی روایات کا موازنہ دیگر رواۃ کی روایات سے کر کے دیکھا جائے اگر اس کے بیان میں غلطی نظر نہیں آتی تو یہ دلیل ہوگی کہ ابن زنجویہ کا استاذ ضعیف ہے ورنہ یہ اس بات کی دلیل ہوگی ابن زنجویہ کا استاذ ثقہ ہے ۔
ہم اللہ کے فضل وکرم اس شبہہ کا جواب قدرے تفصیل سے دیں گے تاکہ اس پہلو کی حقیقت بھی قارئین پر واضح ہوجائے۔
قارئین کرام !
یہ بات معروف ہے کہ ائمہ ناقدین رواۃ پر جو کلام کرتے ہیں تو اکثر ان کی بنیاد رواۃ کی مرویات ہی ہوتی ہیں اور وہ موازنہ کے ذریعہ رواۃ کی حیثیت طے کرتے ہیں ۔ہم نے اپنی متعدد کتابوں میں کافہ عرصہ قبل ہی  یہ بات لکھ رکھی ہے ۔
 . 
 ✿ ائمہ فن کے نقد کا مرجع 
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ائمہ ناقدین ایک راوی کے صرف ایک ہی شاگرد اور اس کے صرف ایک ہی استاذ کی روایات دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں ؟
ظاہر ہے کہ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ ائمہ ناقدین متعلقہ راوی کے کئی شاگردوں ، نیز اس کے کئی اساتذہ سے اس کی روایات دیکھ کر پھر دیگر رواۃ کی روایات کے ساتھ ان کا موازنہ کرنے کے بعد ہی فیصلہ کرتے ہیں ۔
لیکن فریق مخالف کا حال یہ ہے کہ وہ علی بن الحسن کے صرف ایک شاگرد ابن زنجویہ کی  روایات ہی کے بل بوتے اس کی ثقاہت طے کرنے بیٹھ گئے ہیں ، سبحان اللہ !
مزید مصیبت یہ کہ ابن زنجویہ کی بھی ساری کتب دستیاب نہیں ہیں ، بلکہ ان کی دوسری کتب مثلا الترغیب والترہیب ، کتاب الاداب وغیرہ مفقود ہیں ۔اور یہ نہیں معلوم کہ ابن زنجویہ کی ان دوسری کتب میں علی بن الحسن کی روایات کا کیا حال ہے ، بالخصوص الترغیب والترہیب کا موضوع تو بہت ہی وسیع ہے ۔
لہٰذا ایک راوی کے صرف ایک ہی شاگرد اور اس کی بھی صرف محدود روایات ہی کو بنیاد بناکر اس راوی کا درجہ ثقاہت طے کرنا انتہائی نامعقول بات ہے ۔
 . 
 ✿  راوی کی تمام روایات اور غلطی کا تناسب:
اگر ایک راوی نے پانچ سو روایات بیان کی ہیں اور تین سو روایات میں غلطی کی ہے تو ایسا راوی ضعیف ہی ہوگا ۔
اور ایک امام ناقد ایسے راوی کو ضعیف کہے گا تو اس کی دو سو روایات کو دیکھ کر نہیں بلکہ اس کی پوری پانچ سو روایات کو سامنے رکھ کر ضعیف کہے گا ۔
فرض کریں  کہ اس ضعیف راوی کے کسی ایک شاگرد کے پاس ان پانچ سو روایات میں سے دو سو روایات ایسی ہوں جن میں سے زیادہ تر روایات صحیح ہوں ،ایسا اتفاقا ہوا ہو یا شاگرد نے اپنی کوشش سے زیادہ تر صحیح روایات ہی کا انتخاب کیا ہو ۔
پھر بعد کے ادوار میں اس ضعیف راوی کی ساری روایات مفقود ہوجائیں اور صرف  وہی دو سو روایات محفوظ رہیں جسے اس کے مذکورہ شاگرد نے روایت کررکھی ہے۔
تو ظاہر ہے کہ بعد کے کسی طالب علم کوصرف اتنی روایات دیکھ کر یہی لگے گا کہ یہ راوی زیادہ تر صحیح روایات ہی بیان کرتا ہے اور غلطیاں کم کرتا ہے ، اس لئے اسے محسوس ہوگا کہ ماضی کے ناقد امام نے اسے جو ضعیف کہا ہے وہ مناسب نہیں لگتا ۔
لیکن اس کے باوجود بھی بعد کا کوئی بھی  طالب علم یہ جرات نہیں کرسکتا کہ ماضی کے ناقد امام کے فیصلہ کو چلنج کردے اور اس راوی کو ضعیف کے بجائے ثقہ  یا صدوق قرار دے دے ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ بعد کے لوگوں کی معلومات انتہائی ناقص ہیں ۔
علی بن الحسن النسائی کے حوالے سے بھی یہی صورت حال ممکن ہے ، اس لئے محض ایک ہی کتاب سے اور اس کے ایک ہی شاگرد کی روایات دیکھ کر یہ گمان کرنا کہ یہ ثقہ معلوم ہوتا ہے  اس لئے دوسرا علی بن الحسن ہے ، درست نہیں ۔
کیونکہ ابن زنجویہ کے پاس اس کی بیشتر روایات میں متن کے صحیح ثابت ہونے پر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ابن زنجویہ کے پاس موجود روایات میں زیادہ تر صحیح روایات ہی آئی ہوں اور یہ راوی اپنی دیگر کثیر مرویات کی روشنی میں ضعیف ہی ہو ۔یاد رہے کہ مسند کتب  کی روشنی میں:
  ● ابن زنجویہ کے علاوہ اس کے اوربھی درج ذیل شاگرد ہیں :
  ①   عمرو بن منصور النسائي
  ②    محمد بن إبراهيم الطرسوسي
 ③ أبو زرعة الرازی
 ④ فهد بن سليمان
 ⑤ طاهر بن محمد بن الحسن التميمي
 ⑥ أبو بكر بن سهل التميمي
⑦ وھب بن زمعہ
⑧ محمد بن يحيى الذهلي
 . 
 ● نیز ابن المبارک کے علاوہ اس کے اوربھی درج ذیل اساتذہ ہیں :
 ① خالد بن حيان أبو يزيد الرقي
 ② سفیان بن عيينة
 ③ محمد بن سلمة
 ④ فياض بن محمد الرقي
 ⑤ سعيد بن مسلمة بن أمية
 ⑥ العلاء بن هلال 
⑦ سلمة بن سعيد
⑧ محمد بن حمير
⑨ عيسى بن يونس ، أبو محمد السبيعي 
⑩ ابن وهب
⑪ إسماعيل مبشر بن إسماعيل
اساتذہ و تلامذہ کی اس فہرست سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ علی بن الحسن بن النسائی کی کل روایات کتنی ہوں گی ۔
 . 
 ✿ ضبط میں مہارت کے باوجود بھی بعض رواۃ کا ناقابل اعتماد ہونا:
   . 
 ❀  جھوٹا اور کذاب راوی:
یہ بھی ذہن میں رہے کہ راوی کے ضعیف یا مجروح ہونے کی وجہ صرف ضبط میں کمزوری نہیں ہوتی ، بلکہ بعض رواۃ ضبط میں ماہر ہونے کے باوجود بھی ناقابل اعتماد ہوتے ہیں ۔
مثلا بعض کذاب راوی ضبط میں بہت ماہر ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہی کذابین کی حفظ و ضبط میں مہارت کے سبب امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کا ترجمہ تذکرۃ الحفاظ میں پیش کیا ہے۔
 ایسے رواۃ کی روایات کو اگر آپ دوسرے راویوں کی روایات سے ملا کر دیکھیں گے تو آپ کو اکثر حالتوں میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا لیکن اس کے باوجود بھی آپ اس راوی کی توثیق نہیں کرسکتے کیونکہ یہ کذاب ہونے کے سب ناقابل اعتماد ہوتاہے گرچہ حفظ و ضبط میں پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔
   . 
 ❀  سند اور متن چور راوی :
اور بعض رواۃ   سند و متن کی چوری کرتے ہیں ۔یعنی سند ومتن یہ اپنی طرف نہیں گھڑتے بلکہ  ایک روایت کی سند ہٹاکر اس کی جگہ دوسری سند فٹ کردیتے ہیں یا سند برقرار رکھ کر اس کی جگہ دوسرا متن بیان کردیتے ہیں ۔ بعض تو غلطی سے ایسا کرجاتے ہیں جبکہ بعض عمدا اور چالاکی سے ایسا کرتے ہیں، ان کا مقصد  نازل سند کو عالی ظاہر کرنا ہوتا ہے، یا حددرجہ کمزور سند کی جگہ بہتر سند ظاہرکرنا، یا خود کے پاس بھی دیگر مشائخ جیسی سندیں ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ،وغیرہ وغیرہ۔
ایسی صورت میں اگر آپ متن کو چیک کریں گے تو شواہد یا زیادہ تر اوپری طبقات میں متابعت کے سبب متن بالکل صحیح ثابت ہوگا مگر سنددر حقیقت ڈھول کی پول ہوگی ۔
   . 
 ❀  تدلیس کرنے والا راوی:
اور مدلس راوی تو نہ جھوٹا ہوتا اور نہ ہی سند چور ہوتا ہے بلکہ یہ عن کے ذریعہ سند سے بعض رواۃ کو حذف کردیتا ہے ، تدلیس اسناد والا اپنے اصل شیخ کو حذف کرتا ہے اور اوپر والے شیخ سے روایت کرتا ہے جو اس کا بھی شیخ ہوتا ہے ، اور تدلیس تسویہ والا راوی تو سند کے درمیان سے بھی رواۃ کو حذف کردیتا ہے۔
ایسے رواۃ کی احادیث کا موازنہ اگر دیگر رواۃ کی احادیث سے کریں تو آپ کو یہاں بھی متن صحیح و سالم ملے گا لیکن سند میں گڑبڑی ہوگی جس کی گرفت بڑی مشکل ہوتی ہے ۔
الغرض یہ کہ محض متن کے موازنہ ہی سے آج کا کوئی شخص کسی راوی کی ثقاہت کا فیصلہ نہیں کرسکتا ۔کیونکہ آج کسی بھی راوی کی ساری روایات موجود نہیں ہیں ۔
نیز  راوی کذاب بھی ہوسکتا ہے ، سند ومتن چور بھی ہوسکتا ہے اور مدلس بھی ہوسکتا ہے اور ایسی صورت میں محدود موازنہ بالکل ہی فائدہ نہیں دے سکتا ، بلکہ اس کے لئے سلف ناقدین جیسے علم کے ساتھ ساتھ ، نقد کی مہارت بھی اسی معیار کی مطلوب ہے، جس کا دعوی آج کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے ۔
 . 
 ✿ علی بن الحسن النسائی کا چہرہ :
درج بالا تفصیلات سے امید ہے کہ قارئین کے سامنے یہ بات واضح ہوچکی ہوگی کہ ابن زنجویہ کی کتاب میں علی بن الحسن کی روایات کا موازنہ کوئی فائدہ نہیں دسےسکتا کیونکہ اول تو یہ ایک محدود موازنہ ہوگا،  دوسرے یہ کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے علی بن الحسن پر جو جرح کی ہے اس کی رو سے اس کا چہرہ یہ سامنے آتا ہے کہ وہ سند اورمتن میں الٹ پلٹ کرنے والا راوی ہے ۔
ابن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
كان ممن يقلب الأخبار ويدخل المتن في المتن [المجروحين لابن حبان، تزايد: 2/ 114]
مزید ایک مثال دے کر فرمایا:
فسقط عليه متن خبر بريدة وإسناد هذا الخبر وأدخل الإسناد في الإسناد[المجروحين لابن حبان، تزايد: 2/ 115]
اس سے پتہ چلا کہ علی بن الحسن النسائی کی یہ حرکت پکڑی گئی ہے کہ وہ ایک متن کے ساتھ دوسری معروف سند کو فٹ کردیتا ہے ۔
ابن حبان رحمہ اللہ نے بطور نمونہ ایک مثال پیش کی ہے اس کی وضاحت ملاحظہ ہو:
 ● علی بن الحسن النسائی کے شیخ الشیخ امام اوزاعی کی ایک روایت ہے جو سنن ابن ماجہ میں بھی اس طرح موجود ہے :
حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم ومحمد بن الصباح، قالا: حدثنا الوليد بن مسلم قال: حدثنا الأوزاعي قال: حدثني يحيى بن أبي كثير، عن أبي قلابة، عن أبي المهاجر، عن بريدة الأسلمي، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة، فقال: «بكروا بالصلاة في اليوم الغيم، فإنه من فاتته صلاة العصر حبط عمله»[سنن ابن ماجه 1/ 227]
اس سند میں امام اوزاعی تک علی بن الحسن النسائی اپنے استاذ مبشر بن إسماعيل کے واسطے  پہنچتا ہے۔یعنی :
علی بن الحسن النسائی عن مبشر بن إسماعيل عن الاوزاعی ۔۔۔۔۔۔۔۔
 ● علی بن الحسن نے ایک دوسرا متن کہیں سے اٹھایا جو یوں تھا:
 عن فلاں قال كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في غزاة فلما قفلنا وقدمنا المدينة وافقنا الناس في صلاة الصبح ولم يكن النبي صلى الله عليه وسلم صلى ركعتي الفجر فدخل حجرة حفصة فصلى الركعتين ثم خرج فدخل مع الناس في الصلاة [المجروحين لابن حبان، تزايد: 2/ 115]
اس متن کی اصل سند کو علی بن الحسن النسائی نے حذف کردیا اور اس پر اپنے شیخ الشیخ اوزاعی والی وہ سند فٹ کردی جو سنن ابن ماجہ کے حوالے سے اوپر پیش کی گئی ہے ۔
یہ ہے علی بن الحسن النسائی کا چہرہ !!
علی بن الحسن النسائی کی یہ خصلت سامنے رکھ کر ابن زنجویہ کی کتاب میں اس کی مرویات کا جائزہ لیں تو  ابن حبان رحمہ اللہ کی پوری تصدیق ہوجاتی ہے۔
کیونکہ اس کتاب میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے بہت سارے متون کے ساتھ ایسی سندیں فٹ کردی ہیں جو حقیقت میں ان متون  کی سندیں نہیں ہیں ۔
کیونکہ اس کی بیان کردہ بہت سی  روایات متن کے اعتبار سے مطابق یا  بعض حذف واضافہ کے ساتھ اسی کے طبقہ کے دیگررواۃ کی یہاں بھی ملتی ہیں لیکن اس پر عموما وہ سند نہیں ہوتی جو علی بن الحسن بیان کرتا ہے ،سوائے چند روایات کے ۔
صرف اتنی تفصیل ہی پیش کردینا یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہوگا کہ ابن زنجویہ کی کتاب میں علی بن الحسن کی روایات کے موازنہ سے بھی بات نہیں بننے والی ہے ۔
تاہم ان شاء اللہ ہم آگے ابن زنجویہ کی کتاب سے علی بن الحسن کی کئی روایات اٹھا اٹھا کر بھی دکھلاتے ہیں کہ اس نے اس کی سند و متن میں کیا گل کھلائے ہیں ۔
(جاری ہے۔۔۔)

No comments:

Post a Comment