{53} الاموال لابن زنجویہ میں ”علی بن الحسن“ کی روایات اور اس کے مشائخ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-08-03

{53} الاموال لابن زنجویہ میں ”علی بن الحسن“ کی روایات اور اس کے مشائخ



{53} الاموال لابن زنجویہ میں ”علی بن الحسن“ کی روایات اور اس کے مشائخ
✿ ✿ ✿ ✿
اموال لابن زنجویہ میں آپ ”علی بن الحسن“ کی روایات اور ان کے مشائخ کا جائزہ لیں گے تو دو اہم حقیقتیں آپ کے سامنے آئیں گی۔
 . 
 ✿ اول: علی بن الحسن 5 کے علاوہ باقی 190 روایات صرف ابن المبارک سے ہی ناقل ہے:
بارہا بتایا جاچکاہے کہ اموال لابن زنجویہ میں ”علی بن الحسن“ کی کل ایک سو پنچانوے (195) روایات ہیں ۔
اب یہ بات بھی جان لیں کہ ”علی بن الحسن“ ان میں سے صرف اور صرف پانچ روایات ہی اپنے دیگر مشائخ سے روایت کرتا ہے ۔باقی ساری روایات اپنے ایک ہی شیخ ابن المبارک سے روایت کرتا ہے۔
اوردیگر مشائخ سے جو اس کی پانچ روایات ہیں ان میں بھی اس کا ہر شیخ الگ الگ ہے کما سیاتی۔یعنی ان پانچ روایات میں یہ اپنے دیگر اساتذہ سے صرف اور صرف ایک ایک روایت ہی نقل کرتا ہے مگر تنہا ابن المبارک سے ہی ایک سو نوے (190) روایات نقل کرتا ہے ۔
 ✿ دوم: ”علی بن الحسن“  ابن المبارک سے ایک دو جگہ ہی سماع کی صراحت کرتا:
یہ دوسری اہم حقیقت ہے کہ ”علی بن الحسن“ نے اپنی ساری روایات میں 5 کے علاوہ سب کو ابن المبارک سے ہی نقل کیا ہے لیکن ایک دو جگہ ہی اس نے ابن المبارک سے روایت کرتے ہوئے سماع کی تصريح کی ہے ۔
جب کی دوسری طرف جن پانچ اساتذہ سے ایک ایک روایت ہی نقل کرتا ہے ان میں سے ہر ایک روایت میں اپنے استاذ سے سماع کی صراحت بھی کرتا ہے ۔
ملاحظہ ہوں یہ پانچوں روایات :
 . 
 ❀ پہلی روایت:
أنا علي بن الحسن، أنا قيس بن الربيع، عن أبي حصين، عن عبد الله بن معاذ، قال: كنا مع سعيد بن عثمان بن عفان بخراسان ومعه قثم بن عباس، فغنموا غنائم كثيرة فقال سعيد لقثم: اجعل جائزتك أن أضرب لك في الغنيمة بألف سهم، قال قثم: لا ولكن أخمس، ثم أعطني من الخمس ما شئت "[الأموال لابن زنجويه ،رقم 1198]
 . 
 ❀ دوسری روایت:
أنا علي بن الحسن، أنا عبد الله بن إدريس، عن ليث، عن ميمون بن مهران، عن أبي ذر قال: «الصلاة عماد الإسلام، والجهاد سنام العمل، والصدقة شيء عجب شيء عجب» فقال رجل: لقد أوثق أو أفضل عمل في نفسي، قال: ما هو؟ قال: الصوم , قال: «قربة وليس هناك»[الأموال لابن زنجويه ، رقم 1330]
 . 
 ❀ تیسری روایت:
 ثنا علي بن الحسن، أنا سفيان بن عيينة، عن ابن طاوس، عن أبيه أنه قال: سألت ابن عباس عن الخيل: أفيها صدقة؟ فقال: «ليس على فرس الغازي في سبيل الله صدقة»[الأموال لابن زنجويه ، رقم1878 ]
 . 
 ❀ چوتھی روایت:
ثنا علي بن الحسن، أنا الحسين بن واقد قال: كان أيوب السختياني يؤدي زكاته في السنة مرتين، يقول: اختلفوا علينا فندفعها مرة إلى المساكين، وندفعها مرة أخرى إلى الإمام "[الأموال لابن زنجويه ، رقم 2169]
 . 
 ❀ پانچویں روایت:
 ثنا علي بن الحسن، (حدثنا)  هشيم، أخبرنا أبو حرة قال: قلت للحسن: الرجل يدفع من زكاة ماله إلى فقير، أيعلمه أنها من الزكاة؟ قال: تريد أن تقرعه بها، ادفع إليه ولا تعلمه "[الأموال لابن زنجويه ، 2356 ، دیکھئے حاشیہ میں دوسرے مخطوطہ کا حوالہ]
مطبوعہ نسخہ میں شروع کی چاروں روایات میں سماع کا صیغہ ہی ہے لیکن پانچویں روایت میں عن کا صیغہ ہے ، مگر حاشیہ میں محقق نے صاف لکھا ہے کہ دوسرے مخطوطہ میں یہاں ”حدثنا“ موجود ہے ، دیکھئے : [الأموال لابن زنجويه 3/ 1236حاشیہ 3] 
ابن المبارک کے علاوہ بقیہ مشائخ سے  علی بن الحسن کے انداز نقل سے لگتا ہے کہ دوسرے مخطوطہ والا صیغہ یعنی ”حدثنا“ ہی راجح ہے۔
 . 
 ✿ اب قارئین ذرا سنجیدگی سے غور کریں کہ آخر اس میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ علی بن الحسن جب ابن المبارک کے علاوہ دیگر مشائخ سے ایک ایک روایت بھی نقل کرتا ہے تو سماع کی صراحت کرتا ہے ۔مگر ابن المبارک سے ایک سو نوے (190) روایات نقل کرتا ہے مگر ایک دو جگہ ہی سماع کی صراحت کرتا ہے !!!
ظاہر ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے !
اس کے ساتھ ابن حبان رحمہ اللہ کی جرح سامنے رکھیں جس سے اس کا یہ چہرہ سامنے آتا ہے کہ یہ سند اور متن میں الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے ۔
 اب جو راوی پوری کی پوری سند میں الٹ پلٹ کر دے ، اس کے لئے یہ کون سی بڑی بات ہوگی کہ اپنے شیخ کو ساقط کرکے شیخ الشیخ سے روایت کرنے لگ جائے جسے تدلیس کہا جاتا ہے۔
ایک سند حذف کرکے دوسری سند فٹ کرنے کے مقابلے میں صرف اپنے شیخ کو حذف کرکے شیخ الشیخ سے روایت کرنا تو اس کے لئے معمولی بات ہی ہوگی ۔
ممکن ہے کہ کچھ کذابین یا  متروکین اور گئے گذرے رواۃ نے ابن المبارک کے حوالے سے  بہت سی روایات بیان کررکھی ہوں ، اور عام محدثین نے ایسے لوگوں کو لایکتب حدیثہ ہی کے زمرے میں رکھ کہ ان کی روایات لی ہی نہیں ، لیکن علی بن الحسن النسائی نے ایسے لوگوں کی روایات لے لیا اور چونکہ یہ خود ابن المبارک کا شاگرد تھا اس لئے اس نے ایسی بیشتر روایات کو عن کے صیغہ سے ابن المبارک کے حوالے سے بیان کرڈالا ۔پھر ابن زنجویہ نے ان سے سن کر اپنی اموال والی کتب میں انہیں درج کردیا ۔
اس بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اموال لابن زنجویہ میں علی بن الحسن نے ابن المبارک سے ایک سو پنچانوے (195) روایات نقل کرنے کے باوجود بھی صرف ایک دو جگہ ہی سماع کی صراحت کی ہے، جبکہ یہی علی بن الحسن جب اپنے دوسرے پانچ اساتذہ سے صرف ایک ایک روایت ہی نقل کرتا ہے تو ہر جگہ سماع کی صراحت کرتا ہے ۔
 . 
دوسری طرف  علی بن الحسن النسائی کے مقابلے میں دیگر کتب میں جب  ہم علی بن الحسن بن شقیق کی عبداللہ بن مبارک سے روایات دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ یہ ابن المبارک سے روایت کرتے ہوئے بکثرت سماع کی تصریح کرتے ہیں مثلا:
 . 
 ● امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا علي بن الحسن بن شقيق، أخبرنا عبد الله، أخبرنا ابن عون، قال: كتبت إلى نافع، فكتب إلي «إن النبي صلى الله عليه وسلم أغار على بني المصطلق وهم غارون، وأنعامهم تسقى على الماء، فقتل مقاتلتهم، وسبى ذراريهم۔۔۔۔۔[صحيح البخاري 3/ 148]
 . 
 ● امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
حدثنيه محمد بن عبد الله بن قهزاذ، حدثنا علي بن الحسن بن شقيق، وسلمة بن سليمان، قالا: أخبرنا عبد الله يعني ابن المبارك، أخبرنا إسماعيل بن أبي خالد، في هذا الإسناد بمعنى حديثهما[صحيح مسلم 3/ 764]
 . 
 ● امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حدثنا عبد الله بن منير، قال: سمعت   علي بن الحسن، قال: أخبرنا عبد الله بن المبارك، عن ابن جريج، عن الزهري، عن أبي بكر بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يكبر وهو يهوي»[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 34]
 . 
 ● امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
أخبرنا العباس بن محمد الدوري، قال: حدثنا علي بن الحسن بن شقيق، قال: أنبأنا عبد الله بن المبارك، عن معمر، عن الزهري، عن عروة بن الزبير، عن أم حبيبة «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، تزوجها وهي بأرض الحبشة۔۔۔۔۔[سنن النسائي 6/ 119]
 . 
 ● امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
أخبرنا محمد بن أحمد بن أبي عون، قال: حدثنا أبو ثور، قال: حدثنا علي بن الحسن بن شقيق، قال: حدثنا عبد الله بن المبارك، قال: حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، عن بسر بن عبيد الله، قال: سمعت أبا إدريس الخولاني، أنه سمع النواس بن سمعان، يقول: سمعت رسول الله۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[صحيح ابن حبان، ت الأرنؤوط: 3/ 222]
 . 
 ● امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا محمد بن عبد الرحيم ، قال : حدثنا علي بن الحسن بن شقيق ، قال : حدثنا ابن المبارك ، عن يحيى بن أيوب ، عن عبيد الله بن زحر ، عن علي بن يزيد ، عن القاسم ، عن أبي أمامة ، عن علي ، قال : كنت آتي النبي صلى الله عليه وسلم فأستأذن ۔۔۔۔[مسند البزار 2/ 137]
 . 
 ● امام ابن أبي عاصم رحمه الله (المتوفى287) نے کہا:
حدثنا محمد بن علي بن الحسن بن شقيق، نا أبي، نا ابن المبارك، عن، معمر، عن، الزهري، عن الهيثم بن أبي سنان، أن أبا هريرة، رضي الله عنه كان يقص فقال: " إن أخا لكم كان لا يقول الرفث يعني عبد الله بن رواحة۔۔۔۔۔۔[الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم 4/ 37]
 . 
 ● امام ابن الجارود رحمه الله (المتوفى307) نے کہا:
حدثنا يحيى بن جعفر بن أبي طالب قال ثني علي بن الحسن بن شقيق قال ثنا بن المبارك قال أنا معمر عن الزهري عن عروة بن الزبير عن أم حبيبة رضي الله عنها : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم تزوجها وهي بأرض الحبشة زوجها إياه النجاشي وأمهرها أربعة الآف ۔۔۔۔۔ [المنتقى لابن الجارود ص: 179]
 . 
 ● امام أبو عوانة الإسفراييني رحمه الله (المتوفى316) نے کہا:
حدثنا محمد بن حيويه، قثنا علي بن الحسن الشقيق، قثنا ابن المبارك، قال: أنبا سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن عطاء، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «العمرى ميراث لأهلها، أو جائزة لأهلها»[مستخرج أبي عوانة 3/ 467]
 . 
 ● امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
أخبرنا أحمد بن أبي إسحاق , عن علي بن الحسن بن شقيق قال: حدثنا عبد الله بن المبارك , عن أبي المنيب , عن الحسن بن أبي العمرطة قال: رأيت عمر بن عبد العزيز قبل أن يستخلف , فكنت تعرف الخير في وجهه , فلما استخلف رأيت الموت بين عينيه "[الطبقات الكبرى ط دار صادر 5/ 396]
تلک عشرۃ کاملہ
 ✿ قارئین ملاحظہ فرمائیں:
علی بن الحسن بن شقیق کا حال یہ ہے کہ مشہور کتب احادیث میں سے کسی کتاب میں ان کی چند ہی روایات ہوں تو اکثر بعض میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ابن المبارک سے نقل کرتے ہوئے سماع کی صراحت کرتےہیں ۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اموال لابن زنجویہ  میں وہ ایک سو نوے (190) روایات ابن المبارک سے نقل کریں اور صرف ایک دو روایت میں ہی سماع کی تصریح کریں ؟؟؟
صاف ظاہر ہے کہ اموال لابن زنجویہ والے ”علی بن الحسن“ یہ علی بن الحسن بن شقیق نہیں ہیں بلکہ یہ علی بن الحسن النسائی ہی ہے ۔
اور یہ سند ومتن بیان کرنے میں امانت دار نہیں ہے لہذا اس کی روایات ناقابل اعتماد ہیں. 
 . 
اب آگے ہم یہ دکھلائیں گے کہ اموال لابن زنجویہ والے ”علی بن الحسن“ نے سنداور متن میں کیسی کیسی غلطیاں کی ہیں، تاکہ موازنہ والے شبہ کی حقیقت مزید واضح ہوجائے. 
ان شاء اللہ 
(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment