{54} ابن زنجویہ کے شیخ ”علی بن الحسن“ اور سند و متن میں غلطیاں - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-08-04

{54} ابن زنجویہ کے شیخ ”علی بن الحسن“ اور سند و متن میں غلطیاں

{54} ابن زنجویہ کے شیخ ”علی بن الحسن“ اور سند و متن میں غلطیاں
✿ ✿ ✿ ✿
ابن زنجویہ کے شیخ علی بن الحسن نے ابن المبارک سے  پچاس سے زائد ایسی روایات بیان کی ہیں ، جو کسی دوسری کتاب میں سرے سے ملتی ہیں نہیں ہے ، نہ ابن المبارک کی سند سے اور نہ ہی کسی اور سند سے ۔اس لئے ان پچاس روایات میں علی بن الحسن کی پوزیش کیا ہے یہ قطعی طور پر طے ہی نہیں کیا جاسکتا ۔
اورجب صرف اسی کتاب میں اس کی روایت کردہ پچاس روایات کا دیگر طرق سے کوئی سراغ نہیں ملتا تو بتلائے کہ ابن زنجویہ کی دیگر کتب میں نہ جانے اس کی کتنی روایات ہوں گی جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، اس لئے صرف اس کی ایک کتاب اور ایک ہی استاذ وشاگرد سے روایات سامنے رکھ کراس کے درجہ کا تعین آج کا کوئی شخص قطعا نہیں کرسکتا، جیساکہ مزید وضاحت پہلے کی جاچکی ہے۔
اب آئیے اس کی کچھ ایسی روایات پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں جن میں سند یا متن کے اعتبار سے یہ غلطی کرتا ہے ۔
 . 
 ✿ پہلی مثال:
 ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن يونس، عن الزهري قال: الرجل يكون له الدين , قال: «كان يؤدي صدقة الدين في السنة في كل عام , يؤخذ من صاحب الدين الذي له على الناس , ثم داين الناس ديونا هالكة , فنرى أن ما قبض منها أدى زكاة ما غاب , من حين غاب إلى يوم اقتضى عن كل عام»[الأموال لابن زنجويه ،رقم 1722]
 ◄  اس روایت کے متن کو غور سے دیکھئے ”كان يؤدي صدقة الدين في السنة في كل عام“کے ذریعہ کسی کا عمل نقل کیا گیا ہے لیکن عامل کا ذکر نہیں ہے ، اس کے بعد ایک فتوی نقل کیا گیا ہے جو امام زہری کا ہے ۔
دوسری روایت میں امام زہری رحمہ اللہ کا فتوی معنوی طور پر تو ملتا ہے لیکن شروع کے حصہ کا کوئی سراغ نہیں ملتا ، امام زہری کا فتوی مصنف عبدالرزاق میں اس طرح ہے :
❀ عن معمر قال: سألت الزهري عن الرجل يكون له الدين أيزكيه؟ قال: «نعم إذا كان في ثقة، وإذا كان يخاف عليه التوى فلا يزكيه، فإذا قبضه زكاه لما غاب عنه» [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 4/ 104]
اب دیکھئے کہ علی بن الحسن نے کیا کیا ؟ امام زہری کا یہ فتوی اٹھایا اور نہ جانے کہاں سے ایک متن اور لیا ، اور دونوں کو ایک سند سے بیان کردیا ! ظاہر ہے کہ اس نے کہیں اور سے متن اٹھا کرکسی اور سند کے ساتھ لاکر جوڑ دیا ہے ۔اس کی یہی وہ خصلت ہے جسے ابن حبان رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے ۔
 . 
 ✿ دوسری مثال:
 ایک مرفوع حدیث ”للسائل حق، وإن جاء على فرس“ کو علی بن الحسن نے ابن المبارک کے طریق سے دو بار بیان کیا ، لیکن دونوں بار ابن المبارک سے اوپر سند میں فرق ہے، دونوں سند ملاحظہ ہو:
  ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن مصعب بن محمد عن يعلى بن أبي يحيى، مولى لفاطمة ابنة الحسين، عن الحسين بن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، مثله.
 أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن ابن جريج، عن مصعب بن محمد، عن يعلى بن أبي يحيى، عن سكينة بنت حسين، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله
[الأموال لابن زنجويه 3/ 1126]
 ◄ دوسری سند میں ابن المبارک اور مصعب کے بیچ ابن جریج کا اضافہ ہے اور راوی حسین بن علی کی جگہ سکینہ بنت حسین کا ذکر ہے ۔
جبکہ اس روایت کو معصب سے دیگر محدثین نقل کرتے ہیں تو :
  ⟐   اول تو روایت سکینہ بنت حسین کی نہیں ہوتی ہے بلکہ حسین رضی اللہ عنہ ہی کی ہوتی ہے۔
  ⟐ دوم یعلی رحمہ اللہ  فاطمہ بنت حسین سے نقل کرتے ہیں ، نہ کہ ڈائریکٹ حسین رضی اللہ عنہ سے ۔ ملاحظہ ہو:
 ❀   مصعب کے شاگرد سفیان کی روایت:
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، حدثنا مصعب بن محمد بن شرحبيل، حدثني يعلى بن أبي يحيى، عن فاطمة بنت حسين، عن حسين بن علي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «للسائل حق، وإن جاء على فرس»[سنن أبي داود 2/ 126]
  ❀   مصعب کے شاگرد وکیع کی روایت:
حدثنا وكيع، عن سفيان، عن مصعب بن محمد، عن يعلى بن أبي يحيى، عن فاطمة بنت حسين، عن أبيها، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: للسائل حق وإن جاء على فرس.[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 147]
 ❀  مصعب کے شاگرد یحیی بن ایوب کی روایت:
حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن الحكم، حدثنا شعيب بن يحيى، عن يحيى بن أيوب، عن مصعب بن محمد بن شرحبيل، أن يعلى، حدثه عن فاطمة بنت حسين، عن أبيها الحسين بن علي، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «للسائل حق وإن جاء على فرس»[الذرية الطاهرة للدولابي ص: 93] 
 ❀  زہیر بن معاویہ کی مصعب کے شیخ یعلی مولی فاطمہ سے روایت :
 حدثنا علي بن الجعد قال: نا زهير بن معاوية، قال: حدثني مولى لفاطمة بنت الحسين، عن فاطمة بنت الحسين، عن أبيها الحسين بن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «للسائل حق، وإن جاء على فرس» قال أبو بكر: قال لي الحسن بن عبد العزيز الجروي معنى هذا الحديث: «السائل يسأل في الحمالة»[مكارم الأخلاق لابن أبي الدنيا ص: 119]
قارئین کرام:
ملاحظہ فرمائیں کہ مصعب کے تمام شاگرد اس روایت کو یعلی عن فاطمۃ عن الحسین کے طریق سے روایت کرتے ہیں ۔
بلکہ اسی طرح زہربن معاویہ بھی یعلی کی متابعت کرتے ہیں ۔
لیکن ان سب سے ہٹ کر علی بن الحسن اس روایت کے لئے ابن المبارک کی سند وجود میں لے آتا ہے اور اس سند کو دو بار بیان کرتا ہے دونوں بار غلطی کرتا ہے۔
ایک بار یعلی اور حسین رضی اللہ عنہ کے بیچ سے فاطمہ کا واسطہ حذف کردیتا ہے ۔ 
اور دوسری بار ابن لمبارک اور مصعب کے بیچ ابن جریج کا واسطہ بڑھا دیتا ہے نیز یعلی کے استاذ کی جگہ سکینہ بنت حسین کا ذکر کرتا ہے اور اسی پر سند ختم کردیتا ہے۔
کیا یہ بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ سند میں الٹ پلٹ کرنے والا راوی ہے اور ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کا یہی چہرہ بیان کیا ہے ؟؟
 . 
 ✿ تیسری مثال:
 أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن ابن عيينة، عن يزيد بن يزيد بن جابر، عن عبد الملك بن أبي بكر قال: قال رجل لعمر بن الخطاب رحمة الله عليه: «يجيء إبان زكاتي ولي دين؟ فأمره أن يزكي»[الأموال لابن زنجويه ، رقم 1708]
 ◄ اس روایت کو علی بن الحسن نے ابن عیینہ کی سند سے بیان کیا ہے لیکن عبد الملك بن أبي بكر سے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کردیا ہے ، حالانکہ اسی روایت کو امام عبدالرزاق نے ابن عیینہ ہی کی سند سے روایت کیا تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی یہ روایت عبد الرحمن بن الحارث بن هشام کے حوالے سے روایت کیا ہے ملاحظہ ہو:
 ❀ عن ابن عيينة، عن يزيد بن يزيد بن جابر، عن عبد الملك بن أبي بكر، عن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام قال: قال رجل لعمر بن الخطاب يجيء إبان زكاتي، ولي دين؟ «فأمره أن يزكيه»[مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 4/ 103]
دراصل عبد الملك بن أبي بكر والی روایت ابن جریج کی بیان کردہ ہے جیساکہ مصنف عبدالرزاق میں اس طرح ہے :
 ❀ عن ابن جريج قال: أخبرني يزيد بن يزيد بن جابر، أن عبد الملك بن أبي بكر، أخبره، أن رجلا قال لعمر بن الخطاب: يا أمير المؤمنين يكون عندنا النفقة، فأبادر الصدقة، وأنفق على أهلي، وأقضي ديني قال: «فلا تبادر بها، فإذا جاءت فاحسب دينك ما عليك فاجمع ذلك جميعا ثم زكه»[مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 4/ 102]
لیکن علی بن الحسن نے اسی روایت پر ابن عینہ کی سند فٹ کردی ہے اس سے ابن حبان رحمہ اللہ کے نقد کی تائید ہوتی ہے کہ یہ سند میں الٹ پلٹ کرتا ہے ۔
 . 
 ✿ چوتھی مثال:
 أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، أن عبد الله بن عبد الله، حدثه، عن رجلين من أهل البادية قالا: أتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع , فزحمنا الناس حتى وصلنا إليه , فسألناه , فرفع رأسه , فإذا هما جليدان، فقال: «إن شئتما فعلت , ولا حظ فيها لغني ولا لقوي مكتسب»[الأموال لابن زنجويه ، رقم 2069]
 ◄ علی بن الحسن نے یہاں دو صحابہ سے روایت بیان کرنے والا عبد الله بن عبد الله کو بتلایا ہے ۔
جبکہ دیگر محدثین اسی روایت کو اسی سند سے بیان کرتے ہیں تو دونوں صحابہ سے روایت کرنے والا عبيد الله بن عدي کو بتلاتے ہیں جیساکہ :
❀ خود ابن زنجویہ نے علی بن الحسن کے علاوہ دوسرے طریق سے ایسے ہی بیان کیا ہے ملاحظہ ہو:
أنا محاضر، ثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبيد الله بن عدي، أخبرنا رجلان أنهما أتيا النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع فسألاه الصدقة , فصعد فيهما بصره وخفضه , ثم قال: «إن شئتما أن أعطيكما منها , ولا حظ فيها لغني , ولا لقوي مكتسب»[الأموال لابن زنجويه ، رقم 2070]
❀ امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے بھی ایسے ہی روایت کرتے ہوئے کہا:
 حدثنا مسدد، حدثنا عيسى بن يونس، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عبيد الله بن عدي بن الخيار، قال: أخبرني رجلان: أنهما أتيا النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، وهو يقسم الصدقة، فسألاه منها، فرفع فينا البصر وخفضه، فرآنا جلدين، فقال: «إن شئتما أعطيتكما، ولا حظ فيها لغني، ولا لقوي مكتسب»[سنن أبي داود 2/ 118]
❀ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے بھی ایسے ہی روایت کرتے ہوئے کہا:
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام ، قال : حدثني أبي أن عبيد الله بن عدي ، حدثه أن رجلين أخبراه أنهما أتيا النبي صلى الله عليه وسلم يسألانه من الصدقة ، فقلب فيهما البصر ، ورآهما جلدين ، فقال : إن شئتما أعطيتكما ، ولا حظ فيها لغني ، ولا لقوي مكتسب[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 224]
ہشام کے اور بھی کئی شاگردوں نے ایسے ہی روایت کیا ہے، لیکن ان سب کے خلاف علی بن الحسن روایت کرتا ہے اور دونوں صحابہ سے روایت کرنے والے راوی کو بدل دیتا ہے ، اور اس طرح وہ ابن المبارک کو ہشام کے دیگر شاگردوں کی مخالف کرنے والا ظاہر کرتا ہے جبکہ حقیقت میں ابن المبارک اس غلطی سے بڑی ہے اور یہ کارنامہ علی بن الحسن ہی کا ہے ۔
  . 
 ✿ پانچویں مثال:
أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن يونس، عن ابن شهاب قال: أخبرني السائب بن يزيد أن أباه «كان يقوم خيله، فيدفع صدقتها من أثمانها إلى عمر بن الخطاب» قال يونس، وقال ابن شهاب: وبلغنا أن عثمان فرض على أهل البدو، في كل فرس دينارا أو شاتين[الأموال لابن زنجويه  ، رقم 1890]
 ◄ علی بن الحسن نے  اس روایت میں امام زہری کے شاگر یونس ہی کے طریق سے دو اثر نقل کیا ہے، ایک عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اور دوسرا عثمان رضی اللہ عنہ کا ۔
جبکہ دیگر کتب میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ زہری کے طریق سے امام مالک صرف عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی کا اثر نقل کرتے ہیں ، اور سائب بن یزید کے والد کا عمل نقل کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
 ❀ حدثنا ابن أبي داود , قال: ثنا عبد الله بن محمد بن أسماء , قال: ثنا جويرية , عن مالك , عن الزهري , أن السائب بن يزيد , أخبره , قال: «رأيت أبي يقوم الخيل , ويدفع صدقتها إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه»[شرح معاني الآثار، ت النجار: 2/ 26]
اور جب زہری کے دوسرے شاگرد ابن ابی حسین زہری سے نقل کرتے ہیں تو یہ سائب بن یزید  کا عمل نقل کرتے ہیں اور ساتھ ہی زہری سے عثمان رضی اللہ عنہ کا اثر بھی نقل کرتےہیں ، ملاحظہ کریں:
❀ عن ابن جريج قال: أخبرني ابن أبي الحسين، أن ابن شهاب، أخبره «أن عثمان كان يصدق الخيل» وأن السائب بن يزيد أخبره أنه كان يأتي عمر بن الخطاب بصدقة الخيل " قال ابن أبي حسين وقال ابن شهاب: «لم أعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم سن صدقة الخيل»[مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 4/ 35]
اب علی بن الحسن کا کارنامہ دیکھیں وہ زہری کے طریق سے یونس کی ایسی روایت ایجاد کررہاہے جو سب کے خلاف ہے ۔
امام مالک کے خلاف اس لئے کہ امام مالک نے سائب بن یزید کے والد کا عمل نقل کیا ہے مگر عثمان رضی اللہ عنہ کا اثر ذکر نہیں کیا ہے۔
اور ابن ابی حسین کے خلاف اس لئے ہے کیونکہ اس نے گرچہ نے دونوں اثر کا ذکر کیاہے مگر سائب بن یزید کا عمل ذکر کیا ہے نہ کہ ان کے والد کا ۔
اس سے ظاہر ہے کہ علی بن الحسن نے دو الگ الگ سند سے آنے والے متن کو رد وبدل کرکے ایک بنایا پھر  ایک ہی سند کے ساتھ اسے  جوڑ کر بیان کردیا ہے اور اس کی یہی عادت ابن حبان نے بتلائی ہے۔
  . 
 ✿ چھٹی مثال:
 أنا علي بن الحسن، أنا ابن المبارك، عن ابن جريج، عن عطاء قال: «لا صدقة إلا في نخل أو عنب أو حب» وعمرو بن دينار، وعبد الكريم [الأموال لابن زنجويه 3/ 1031]
 ◄ اس روایت میں علی بن الحسن نے  ابن المبارک کے واسطے ابن جریج کے حوالے سے امام عطاء کاقول نقل کرنے کے ساتھ ساتھ، عمرو بن دينار اور عبد الكريم کا نام بھی 
ذکر کردیاہے یعنی ان کا بھی یہی قول ہے۔
جبکہ ابن المبارک ہی کے شاگرد یحیی بن آدم رحمہ اللہ نے ان کے واسطے یہ روایت نقل کرتے ہیں تو صرف امام عطاء ہی کے قول کا ذکرکرتے ہیں ،ملاحظہ ہو:
❀ حدثنا ابن المبارك، عن ابن جريج، عن عطاء، قال: " لا صدقة إلا في نخل أو عنب أو حب، وليس في شيء من الخضر , يعني: والفواكه كلها - صدقة "[الخراج ليحيى بن آدم ص: 148، وانظر: السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 4/ 130]
دراصل ابن جریج کے واسطے ان دونوں کا قول ابن المبارک نے نہیں بلکہ امام عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے ، ملاحظہ ہو:
❀ عن ابن جريج قال: قال لي عطاء: «لا صدقة إلا في نخل أو عنب، أو حرث» وقال ذلك عمرو بن دينار، وعبد الكريم بن أبي المخارق[مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 4/ 114]
لیکن علی بن الحسن نے ان دونوں کے اقوال کو بھی ایک ہی سند کے ساتھ فٹ کردیا ۔
نیز علی بن الحسن نے جس انداز سے ان دونوں کا نام ذکر کیا ہے اس میں سند کے ساتھ اس کا ظاہری ربط بھی نہیں دکھتا  ، یعنی اس نے دوسری جگہ کا متن کاپی پیسٹ تو کردیا کہ لیکن سند کے ساتھ ٹھیک طرح مربوط نہیں کرسکا، یہی چوک اس سے اوپر مذکور پہلی مثال میں بھی ہوئی ہے ۔
  . 
 ✿ ساتویں مثال:
 ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن زكريا بن إسحاق، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن أبي معبد، مولى ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمعاذ بن جبل , حين بعثه إلى أهل اليمن: «إنك ستأتي قوما من أهل الكتاب , فإذا جئتهم , فادعهم إلى أن يشهدوا أن لا إله إلا الله , وأن محمدا رسول الله , فإن هم طاعوا لك بذلك , فأعلمهم أن الله قد فرض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم طاعوا لك بذلك فأخبرهم أن الله فرض عليهم صدقة , تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم , فإن هم طاعوا لك بذلك , فإياك وكرائم أموالهم , واتق دعوة المظلوم؛ فإنه ليس بينها وبين الله حجاب»[الأموال لابن زنجويه 3/ 882 ، رقم 1559]
 ◄ اس روایت کو علی بن الحسن غلطی سے مرسلا بیان کرررہاہے جبکہ یہ روایت موصول ہے مثلا صحیح بخاری سے اسے دیکھئے:
❀ حدثني حبان، أخبرنا عبد الله، عن زكرياء بن إسحاق، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن أبي معبد، مولى ابن عباس، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمعاذ بن جبل حين بعثه إلى اليمن: «إنك ستأتي قوما من أهل الكتاب، فإذا جئتهم فادعهم إلى أن يشهدوا أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله  ، فإن هم طاعوا لك بذلك، فأخبرهم أن الله قد فرض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم طاعوا لك بذلك فأخبرهم أن الله قد فرض عليهم صدقة، تؤخذ من أغنيائهم فترد على فقرائهم، فإن هم طاعوا لك بذلك فإياك وكرائم أموالهم، واتق دعوة المظلوم، فإنه ليس بينه وبين الله حجاب» [صحيح البخاري ، رقم 4347]
دراصل یہ روایت ابن المبارک کے طریق سے اور بعض دوسرے طرق سے متصل ہی ہے ، اور  ابن المبار ک کے علاوہ  بعض دیگر طرق میں مرسل وارد ہے، لیکن علی بن الحسن نے اسے ابن المبارک ہی کے طریق سے مرسل بنا ڈلا ۔
  . 
 ✿ آٹھویں مثال:
 ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن سعيد، عن قتادة، عن الحسن، وعلي، وخلاس، وأبي حسان الأعرج قالوا: «ليس فيه زكاة»[الأموال لابن زنجويه ، رقم 1789]
 ◄ اسی روایت کو ابن ابی شیبہ نے سعید ہی کے طریق سے نقل کیا ہے مگر قائلین میں صرف دو نام ہیں ملاحظہ ہو:
❀ حدثنا عبدة، عن سعيد، عن قتادة، عن الحسن وخلاس، قالا: لا زكاة في الحلي [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 250]
لیکن علی بن الحسن نے کہیں سے دو اور نام بھی اٹھا کر اسی سند کے ساتھ فٹ کردیا ۔
  . 
 ✿ نویں مثال:
أنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن معمر، أنه بلغه عن طاوس، وعكرمة، قالا: «ليس في الورس , ولا في العطب , ولا في العسل زكاة» قال عبد الله: والعطب: القطن[الأموال لابن زنجويه، رقم 2036]
 ◄ اسی روایت کو ابن المبارک ہی کے طریق سے ابن المبارک کے شاگر یحیی بن آدم نے بھی نقل کیا ہے لیکن انہوں نے عسل کے لفظ کا اضافہ نہیں بیان کیا ہے ، ملاحظہ ہو:
❀ حدثنا ابن مبارك، عن معمر، قال: بلغني، عن طاوس، وعكرمة في الورس والعطب زكاة. قال: " العطب: القطن "[الخراج ليحيى بن آدم ص: 153]
لیکن علی بن الحسن نے نہ معلوم کس روایت سے عسل کا لفظ اٹھا کر یہاں بھی درج کردیا ۔
  . 
 ✿ دسویں مثال:
 ثنا علي بن الحسن، عن ابن المبارك، عن مجالد بن سعيد، عن الشعبي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سأل الناس ليثري به ماله , فهو رضف يأكله من نار جهنم , وخدوش في وجهه يوم القيامة»[الأموال لابن زنجويه ، رقم 2073]
 ◄ علی بن الحسن نے ابن المبارک کے حوالے سے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے ، جبکہ اسی روایت کو مجالد کے تمام شاگرد موصولا بیان کرتے ہیں مثلا:
❀  مجالد کے شاگردعبد الله بن نمير کی روایت:
حدثنا ابن نمير، عن مجالد، عن الشعبي، عن حبشي السلولي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سأل الناس ليثري به ماله، فإنه خموش في وجهه ورضف من جهنم يأكله يوم القيامة, وذلك في حجة الوداع[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 379]
❀  مجالد کے شاگردعبد الرحيم بن سليمان کی روایت:
حدثنا عبد الرحيم بن سليمان، عن مجالد، عن عامر، عن حبشي بن جنادة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: الصدقة لا تحل لغني، ولا لذي مرة سوي.[مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 20/ 334]
اب ذرا غور کریں !
علی بن الحسن کی روایت پر اعتماد کرلیں تو ابن المبارک پر سوالیہ نشان لگتا ہے کہ مجالد کے شاگردوں کے خلاف یہ اس کی روایت کو مرسلا بیان کررہے ہیں !
ظاہر ہے کہ یہ ابن المبارک کی غلطی نہیں بلکہ علی بن الحسن کی غلطی ہے جو علی بن الحسن النسائی ہے ۔
 ● لطیفہ:
مزے  کی بات یہ ہے کہ مؤخر الذکر اسی روایت کو علی بن الحسن بن شقیق بھی بیان کرتے ہیں مگر ”ابن المبارک عن مجالد“  کے طریق سے نہیں بلکہ ”أبو حمزة عن الشعبي“کے طریق سے ، اور موصول ہی بیان کرتے ہیں ،چنانچہ:
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360) نے کہا:
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا محمد بن علي بن الحسن بن شقيق، ثنا أبي، ثنا أبو حمزة، عن الشعبي، عن حبشي بن جنادة السلولي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من سأل الناس في غير مصيبة حاجته فكأنما يلتقم الرضفة»[المعجم الكبير للطبراني :4/ 14]
ملاحظہ فرمائیں کہ طبرانی کی یہ روایت بھی فیصلہ کررہی ہے کہ  ابن زنجویہ کے جس استاذ علی بن الحسن نے ابن المبارک سے یہ روایت بیان کی ہے وہ علی بن الحسن بن شقیق نہیں ہیں کیونکہ علی بن الحسن بن شقیق تو یہی روایت ابن المبارک کے علاوہ دوسرے طریق سے اور موصولا بیان کرتےہیں ۔
تلک عشرۃ کاملہ 
قارئین کرام !
ان دس مثالوں پر غور کیجئے اور دیکھئے کہ علی بن الحسن سند و متن میں کیا کیا گل کھلا رہا ہے ، یہ دیکھ کر بلاتردد یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ یہ علی بن الحسن النسائی ہی ہے اور  اس کے بارے میں ابن حبان رحمہ اللہ نے بالکل درست کہا ہے کہ یہ سند ومتن میں غلطیاں کرتا ہے ۔
 واضح رہے کہ اگر ابن زنجویہ کے اس استاذ کو ان غلطیوں سے بری قرار دیں تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ یہ غلطیاں ابن المبارک نے کی ہیں ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین نے ابن المبارک کی ایسی غلطیوں کی کوئی صراحت نہیں کی ہے۔اور نہ ہی ان کے شاگرد علی بن الحسن بن شقیق کی ایسی حالت بیان کی ہے۔
البتہ ابن حبان رحمہ اللہ نے علی بن الحسن النسائی کی یہ حالت بیان کی ہے اس لئے اس سے بھی طے ہوجاتا ہے کہ یہاں علی بن الحسن النسائی ہی ہے ۔

No comments:

Post a Comment