{55} ”سفیان بن عبدالملک“ اور تقریب التہذیب کا رمز ”م“ - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-08-05

{55} ”سفیان بن عبدالملک“ اور تقریب التہذیب کا رمز ”م“



{55} ”سفیان بن عبدالملک“ اور تقریب التہذیب کا رمز ”م“
✿ ✿ ✿ ✿
سب سے پہلے یہ ذہن میں رکھ لیں کہ اموال لابن زنجویہ میں  ”سفیان بن عبدالملک“ کی بہت زیادہ روایات نہیں ہیں ، اس لئے اس کے تعلق سے اس بحث کی گنجائش ہی نہیں ہے جو ہم ابن زنجویہ کے دوسرے استاذ علی بن الحسن کے تعلق سے پیش کر رہے ہیں ، بعض حضرات یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں اس لئے نہ صرف یہ کہ غیرمتعلق مثالیں دے رہے ہیں بلکہ حیرت ہے کہ غریب حدیث کی مثال بھی اسی ضمن میں پیش کرجاتے ہیں  ، اس کی مزید وضاحت ہم آگے پیش کریں گے ، فی الحال ہم اس راوی  پر بات کرتے ہیں ۔
ہم نے کہا تھا کہ ابن حبان کے علاوہ کسی بھی راوی سے اس کی توثیق نہیں ملتی ہے اس لئے بہت ممکن ہے نامعلوم التوثیق ہونے کے سبب بھی بہت سے محدثین نے ان سے روایت کرنے سے اعراض کیا ہو۔ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے ، اس پر ہم نے عرض کیا تھا کہ ممکن ہے کہ ابن حجررحمہ اللہ نے اسے صحیح مسلم کا راوی سمجھ کر اس کی توثیق کردی ہو ، جیساکہ تقریب وتہذیب کے رموز سے پتہ چلتا ہے ۔ 
فریق مخالف کا کہنا ہے کہ تقریب یا تہذیب کسی میں بھی اس راوی کے لئے ”م“ یعنی صحیح مسلم کا رمز نہیں ہے بلکہ تقریب میں  ”مق“  یعنی مقدمہ صحیح مسلم کا رمز ہے۔
عرض ہے کہ تہذیب التہذیب کے ہندوستانی نسخہ میں اس راوی کے ساتھ سرے سے  صحیح مسلم کا رمز ہے ہی نہیں، جیساکہ فریق مخالف نے بھی کہا ہے  دیکھئے :[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 4/ 116]
چونکہ تہذیب التہذیب کے ہندوستانی نسخہ میں سرے سے صحیح مسلم کا رمز تھا ہی نہیں ، البتہ اس سے آگے سفیان ہی کے نام سے دوسرے راوی پر ”م“ کا رمز تھا ، حالانکہ یہ دوسرا راوی بھی مقدمہ مسلم میں ہی وارد ہے ۔ اور پھر تقریب میں ان دونوں پر  ”م“ یعنی صحیح مسلم کا رمز تھا ، اسی لئے ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ غالبا ابن حجر رحمہ اللہ کے تہذیب والے نسخے میں ان رواۃ پر ”م“ کا رمز تھا جس کے سبب انہوں نے تقریب میں بھی ان دونوں پر ”م“ کا رمز درج کیا ہے، اور اسے صحیح مسلم کا راوی سمجھ لیا ہے ۔
لیکن تہذیب التہذیب کے مخطوطات اور دیگر مطبوعہ نسخوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیب التہذیب میں دونوں سفیان پر ”مق“ کا رمز ہی موجود ہے ، اس لئے اصل بات یہ ہے کہ ابن حجررحمہ اللہ نے تقریب میں وہم یا سبقت قلم سے اس راوی پر ”م“ کا رمز درج کردیا ہے ۔
اور یہ بات متحقق ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں  اس راوی پر  ”م“ کا رمز ہی درج کیا ہے ، جیساکہ صحیح ترین مخطوطات اور مطبوعہ نسخوں میں دیکھاجاسکتاہے۔
 . 
 ✿ تقریب التہذیب کے مخطوطات :
سب سے پہلے ہم تقریب کے مخطوطات کی بات کرتے ہیں ۔
 ● تقریب کے مخطوطات میں سب سے معتبر مخطوطہ وہ ہے جو خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے اس میں اس راوی پر ”م“ ہی کا رمز ہے ۔اس کا عکس ہم اس پوسٹ کے ساتھ منسلک کررہے ہیں ۔

.


 ● اس کے علاوہ تقریب کے مزید پانچ مخطوطے اور ہیں اور سب میں اس راوی کے ساتھ ”م“ کا رمز موجود ہے ، ان پانچوں مخطوطات سے متعلقہ صفحہ کا عکس ہم پیش کررہے ہیں ۔
① 
  ② 
 ③ 
 ④ 
 ⑤ 
.
 ● ہمارے علم کی حدتک صرف اور صرف تقریب کے ایک ہی مخطوطہ میں ”مق“ کا رمز ہے جو خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اپنے نسخہ کے خلاف ہے نیز باقی پانچ مخطوطات کے بھی خلاف ہے ، ظاہر ہے کہ یہ ترمیم ناسخ کی طرف ہے ۔
 . 
 ✿ تقریب التہذیب کے مطبوعہ نسخے:
جہاں تک مطبوعہ نسخوں کی بات ہے تو:
  ●  ہندوستان سے امیر علی رحمہ اللہ کی تعلیق سے جو نسخہ مطبوع ہے اس میں ”م“ کا ہی رمز ہے اس کا عکس بھی ہم اس پوسٹ کے ساتھ منسلک کررہے ہیں ۔
.

 ● اس کے علاوہ عوامہ صاحب  کی تحقیق سے مطبوع نسخہ کو بہترین نسخہ مانا جاتا ہے اس میں بھی ”م“ کا ہی رمز ہے ، واضح رہے کہ عوامہ صاحب نے صراحت کی ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیق میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ والے نسخہ ہی کو اصل بنایا ہے ۔
.

دوسرا نسخہ

.
.
 ● دکتور بشار عواد اور شعیب الارنووط صاحبان نے بھی منفرد انداز میں تحریر التقریب کے نام سے تقریب کی تحقیق کی ہے اس میں بھی انہوں حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے نسخہ پر اعتماد کیا ہے اور ان محققین نے بھی اس راوی پر ”م“ کا ہی رمز درج کیا ہے ، اس کاعکس بھی ہم پیش کررہے ہیں ۔

.


 ● طارق بن عوض اللہ صاحب نے عوامہ صاحب اور شیخ ابوالاشبال صاحب کے نسخہ پر اعتماد کیا ہے ، لیکن اس راوی پر رمز میں انہوں نے عوامہ صاحب ہی پر اعتماد کیا ہے اور ”م“ کا رمز درج کیا ہے اس کا عکس بھی ہم پیش کررہے ہیں ۔
 
.

 ✿فریق مخالف کے محولہ نسخہ کا حال :
فریق مخالف نے شیخ ابوالاشبال صاحب کے نسخہ کا عکس پیش کیا ہے ، اور صرف اسی نسخہ کی بنیاد پر یہ دعوی کرلیا ہے کہ تقریب میں ”مق“ کا رمز ہے ۔
حالانکہ باحثین اچھی طرح جانتے ہیں کہ شیخ ابوالاشبال صاحب نے گرچہ کئی اعتبار سے عمدہ کام کیا ہے ، اور ان کی خدمات کو سراہا بھی گیا ہے ، لیکن آں جناب نے اپنے نسخہ میں مخطوطات کی کما حقہ رعایت نہیں کی ہے بلکہ بہت ساری جگہوں پر مخطوطات کے خلاف اپنی کدو کاوش سے اصل کتاب میں اصلاحات کردی ہیں اور حاشیہ میں ہرجگہ اپنے تصرفات کا حوالہ بھی نہیں دیاہے ۔
 . 
 ❀  یہی وجہ ہے کہ  بعض دکاترہ اور متخصصین نے اس پہلو سے  ان کے نسخہ کی شدید مذمت کی ہے حتی کہ دکتور بشار جیسے ماہر محقق نے لکھا ہے :
”ومن أسوء هذه الطبعات هي الطبعة التي قام بها أبو الاشبال صغير شاغف الباكستاني والتي طبعتها دار العاصمة بالرياض سنة 1416هـ، فقد عمد هذا الرجل إلى تشويه النص الذي كتبه الحافظ ابن حجر بأن كتب ما رأه صوابًا ضاربًا بعرض الحائط نسخة الحافظ ابن حجر التي كتبها بخطه، بل عد من اقتصر عليها مقصرا، وكان يزيد من النسخ المنتسخة عن نسخة ابن حجر عليها إذا وردت فيها زيادة، ولم يسأل نفسه: من أين أتت هذه الزيادة“ [ تحقيق النصوص بين أخطاء المؤلفين وإصلاح الرواة والنساخ والمحققين ص57 ]
 . 
ظاہر ہے کہ جب شیخ ابوالاشبال نے اصل متن میں اپنی طرف سے تصرفات کئے ہیں تو پھر  مخطوطات اور  مطبوعہ نسخوں کے متن کے ساتھ اس کا کوئی تقابل نہیں ہوسکتا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ بات متحقق ہے کہ تقریب میں ابن حجر رحمہ اللہ نے اس راوی کے ساتھ ”م“ کا رمز لکھا ہے ۔
اس لئے بہت ممکن ہے کہ انہوں نے اپنے تحریر کردہ اس رمز کے سبب اسے صحیح مسلم کا راوی سمجھ لیا ہو اور اس کی توثیق کردی ہو ۔
کیونکہ انہوں نے تہذیب ہی کا اختصار کیا ہے اور تہذیب میں ابن حبان کی توثیق کے علاوہ کوئی اور توثیق سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔نہ تہذیب الکمال میں اور نہ ہی تہذیب التہذیب میں ۔اور نہ ہی کسی اور مقام پر ان کی کوئی ثوثیق موجود ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی انہیں ثقہ نہیں کہا بلکہ ”وثق“ کہا ہے [الكاشف للذهبي ت عوامة: 1/ 449]
جس سے اس بات کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ان کی توثیق میں ابن حبان رحمہ اللہ منفرد ہیں ، جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے متعدد مقامات پر یہ وضاحت کی چند حوالے ملاحظہ ہوں:
 ● لذلك أشار الذهبي إلى تليين توثيق ابن حبان إياه - كما هي عادته - بقوله في " الكاشف ":" وثق[سلسلة الأحاديث الضعيفة  12/ 748]
 ● ولا ينفع فيه أن ابن حبان ذكره في "ثقاته "  ؛ لأن ذلك من تساهله المعروف! وقد أشار إلى ذلك الذهبي بقوله في " الكاشف ": " وُثِّق " [سلسلة الأحاديث الضعيفة 13/ 240]
إن الحافظ الذهبي لا يكاد يستعمل هذا الفعل: "وُثِّق "إلا في راوٍ تفرد بتوثيقه ابن حبان، فيشير بذلك إلى أنه توثيق ضعيف لا يعتمد [سلسلة الأحاديث الضعيفة 13/ 1080]
 ● وقال الذهبي عنه في " الكاشف ": " وثق "! قلت: يشير إلى أن ابن حبان وثقه، وأن توثيقه هنا غير معتمد لأنه يوثق من لا يعرف[سلسلة الأحاديث الصحيحة 6/ 733]
معلوم ہوا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظر میں اس راوی کو ابن حبان کے علاوہ کسی نے بھی ثقہ نہیں کہا ہے اسی لئے امام ذہبی نے اس کے بارے میں ”وثق“ کہہ کر یہ اشارہ دیا ہے کہ اس کی معتبر توثیق ثابت نہیں ہے ۔
بعض حضرات نے اپنا یہ معمول بنا کر رکھا ہے کہ کسی امام یا معاصر عالم کی تحقیق دلائل کی روشنی میں رد کی جائے تو یہ اس امام یا اس عالم کے فضائل بیان کرنے لگ جاتے ہیں ۔حالانکہ خود کا حال یہ ہے کہ اپنے مطلب کی بات ہوتی ہے تو امام ذہبی رحمہ اللہ کی تحقیق کو بھی دیوار پر دے مارتے ہیں ، جن کے بارے میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا ہے :
”وهو من أهل الاستقراء التام في نقد الرجال“ [نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر ت الرحيلي ص: 178]
اب قارئین غور کریں کہ یہاں ایک قول وہ ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے پیش کیا جس میں ان کا وہم کا شکار ہوجانا بعید نہیں ہے ۔
دوسری طرف امام ذہبی رحمہ اللہ کی تحقیق ہے جنہیں خود ابن حجر رحمہ اللہ نے نقد رجال میں صاحب استقراء تام کہا ہے ۔
ایسی صورت میں امام ذہبی رحمہ اللہ کی بات کو راجح قرار دینا اور حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی بات کر مرجوح مانتے ہوئے ان کے لئیے عذر تلاش کرنا ، کیا یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ساتھ کوئی زیادتی ہے یا ان کے ساتھ حسن ظن ہی کی ایک شکل ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment