{57} ”سفیان بن عبدالملک“ کی توثیق پر ابن شبویہ کے حوالہ کا جائزہ
✿ ✿ ✿ ✿
”سفیان بن عبدالملک“ کی توثیق پر فریق مخالف کی طرف سے پہلا نمبر ڈال کر سب سے پہلا جوحوالہ پیش کیا گیا تھا وہ امام احمد رحمہ اللہ کا قول تھا ۔اس قول میں ”ليس به بأس“ توثیق کا ایک صیغہ تھا ۔ چونکہ اس کے علاوہ اس پورے قول میں توثیق کے لئے ایک حرف بھی موجود نہ تھا اس لئے ہم نے اس حوالہ کو اسی پر محمول کیا کہ فریق مخالف نے اس صیغہ توثیق کو سفیان بن عبدالملک سے متعلق سمجھ لیا ہے ۔
لیکن ابھی مخالف فریق کی طرف سے یہ وضاحت سامنے آئی ہے کہ ان کا یہ مقصود نہیں تھا ، چونکہ ہم تفسیر القول بما لایرضی بہ القائل کو درست نہیں سمجھتے اس لئے ہم کسی کی ظاہری وضاحت کے خلاف اس کے قول کی تشریح نہیں کرسکتے ۔اور یہی انصاف کی بات ہے ، اسلام میں منافقوں کو بھی ظاہری اقرار کے سبب مسلمانوں کی صف میں شامل کرلیا گیا ، نیز عین حالت جنگ میں کوئی کافر کلمہ پڑھنا شروع کردے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اعتبار کا حکم دیا گیاہے اور دل چیر کر دیکھنے سے منع فرمایا ہے۔ دیکھیں: [ صحیح بخاری رقم 4269 ، صحیح مسلم رقم 96]
بنابریں ہم فریق مخالف کے بیان کو تسلیم کرتے ہیں ۔
لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اس پورے قول میں توثیق کا یہی ایک صیغہ تھا باقی اس قول میں دور دور تک توثیق کا ایک حرف بھی موجود نہیں ہے ، بلکہ سفیان بن عبدالملک کے بارے میں صرف یہ ہے کہ وہ ابن المبارک کے سب سے قدیم شاگرد ہیں ۔
لیکن قدیم شاگرد کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ ثقہ ہے ، ہر استاذ کا کوئی نہ کوئی قدیم شاگرد ہوگا ہی ، لیکن محض قدامت شاگردی توثیق کی دلیل نہیں بن سکتی۔
.
✿
أحمد بن محمد بن شبويه کے قول کا جائزہ:
وقال أحمد بن محمد بن شبويه: قال سفيان بن عبد الملك، وكان أحفظ أصحاب ابن المبارك: كان وكيع أحفظ من ابن المبارك. (تهذيب الكمال في أسماء الرجال 30/ 483)
.
عرض ہے کہ یہ قول ثابت ہی نہیں ۔
اوراس کی سند ہمارے سامنے موجود ہے اس لئے امام مزی رحمہ اللہ کے صیغہ جزم کا سہارا لینا سرے سے بے سود ہے ، گرچہ سند نہ ہونے پر بھی صیغہ جزم سے یک قلم صحت پر استدلال محل نظر ہے۔
امام مزی رحمہ اللہ نے تہذیب میں اپنے جن مراجع کا ذکر کیا ہے اس میں تاریخ ابن عساکر بھی ہے ، امام مزی کے الفاظ ہیں:
واعلم أن ما كان في هذا الكتاب من أقوال أئمة الجرح والتعديل ونحو ذلك ، فعامته منقول من كتاب"الجرح والتعديل" لابي محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم الرازي الحافظ ابن الحافظ ، ومن كتاب"الكامل" لابي أحمد عبد الله بن عدي الجرجاني الحافظ ، ومن كتاب"تاريخ بغداد" لابي بكر محمد بن علي بن ثابت الخطيب البغدادي الحافظ ، ومن كتاب"تاريخ دمشق" لابي القاسم علي بن الحسن بن هبة الله المعروف بابن عساكر الدمشقي الحافظ. وما كان فيه من ذلك منقولا من غير هذه الكتب الأربعة ، فهو أقل مما كان فيه من ذلك منقولا منها ، أو من بعضها. ولم نذكر إسناد كل قول من ذلك فيما بيننا وبين قائله خوف التطويل [تهذيب الكمال للمزي: 1/ 152- 153]
.
اور یہ قول تاریخ ابن عساکر میں اس سند کے ساتھ ہے :
أخبرنا أبو الفضل بن ناصر بقراءتي عليه عن أبي الفضل المكي أنا عبيد الله بن سعيد بن حانم أخبرنا أبو الحسن القاضي أخبرني أبو موسى بن النسائي أخبرني أبي أخبرنا عمرو بن يحيى بن الحارث نا أحمد بن شبوية قال قال سفيان بن عبد الملك وكان أحفظ أصحاب ابن المبارك كان وكيع أحفظ من ابن المبارك [تاريخ دمشق لابن عساكر: 63/ 86]
اس سند میں ابو موسی بن النسائی کی توثیق کسی بھی امام سے ثابت نہیں ہے ، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے ۔حافظ زبیرعلی زئی غفر اللہ لہ بھی اسی راوی کے سبب اس سند کو ضعیف قراردیا کرتےتھے جیسا کہ موصوف کے مقالات میں مذکور ہے ۔
علاوہ بریں اس قول میں سفیان بن عبدالملک کو ابن المبارک کے اصحاب میں سب سے احفظ قرار دیا گیا ہے اور یہ بہت بڑا عجوبہ ہے ۔
کیونکہ دیگر ائمہ میں سے کوئی بھی امام انہیں ثقہ تک نہیں کہتا چہ جائے کہ انہیں اصحاب ابن مبارک میں سب سے بڑا حافظ بتلائے ۔
نیز سفیان بن عبدالملک نے صرف ابن المبارک سے ہی حدیث روایت کیا ہے ، جیساکہ امام مزی نے صراحت کی ہے اور ابن المبارک سے ان کی روایت کردہ کل مرفوع احادیث کی تعداد شاید دس پندرہ سے زیادہ نہیں ، باقی سب آثار ہیں ان کی تعداد بھی بمشکل ہی دس پندرہ سے زائد ہوگی ۔
حافظ مغلطای نے امام مزی پر استدراک کرتے ہوئے ابن المبارک کے علاوہ بھی ان کا ایک استاذ بتایا ہے لیکن ٍصرف ایک موقوف روایت کا ذکر کیا ہے ۔
نیز سفیان بن عبدالملک نے حدیث بھی زیادہ بیان نہیں کی ہے بلکہ شاید ان کے شاگردوں کی تعداد دس سے زائد نہ ہو ۔ اوران کے سارے شاگردوں کی روایات یکجا کریں تو بھی مرفوع احادیث مشکل سے ہی دس پندرہ کی تعداد کو پہنچیں گی ، باقی صرف آثار ہی ہوں گے اوران کی تعداد بھی بہت کم ملے گی ۔
اس کے برخلاف ابن المبارک کے دیگر شاگردوں کے یہاں ابن المبارک کی روایات کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔جبکہ ان کے مقابل میں سفیان بن عبدالملک کے پاس کچھ بھی نہیں ملتا۔
اب بتلائیے کہ ایسے راوی کو ابن المبارک کے تمام شاگردوں سے میں سب بڑا حافظ کیسے کہا جاسکتا ہے ؟؟
واضح رہے کہ اگر کسی ناقد اور ماہر امام کا یہ بیان صحیح سند سے ثابت ہوتا تو ہم اس پر اعتراض نہ کرتے ، لیکن چونکہ اس بیان کی سند صحیح نہیں ہے ۔ اس لئے نقل کے ضعف کو مزید واضح کرنے کے لئے اس قرینہ کو پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
یادرہے کہ اس سے قبل امام احمد رحمہ اللہ کے جس قول پر بحث ہوچکی ہے اس میں امام احمد رحمہ اللہ سفیان بن عبدالملک کو ابن المبارک کا سب سے قدیم شاگرد تو بتلارہے ہیں، لیکن سب سے احفظ شاگرد قطعا نہیں بتلارہے ہیں ۔
غالبا أحمد بن محمد بن شبويه نے بھی سفیان بن عبدالملک کو صرف عبداللہ بن مبارک کا شاگرد ہی بتا یا ہوگا لیکن بعد کے راوی سے اس کی نقل میں چوک ہوئی ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس قول کا تذکرہ سیر میں اس طرح کیا ہے :
قال سفيان بن عبد الملك صاحب ابن المبارك: كان وكيع أحفظ من ابن المبارك.[سير أعلام النبلاء للذهبي: 9/ 152]
بہرحال أحمد بن محمد بن شبويه کا یہ قول ثابت ہی نہیں ، اس لئے ناقابل حجت ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)
No comments:
Post a Comment