{58} ”سفیان بن عبدالملک“ اور ان پر ابن المبارک رحمہ اللہ کے اعتماد کی نوعیت - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-08-08

{58} ”سفیان بن عبدالملک“ اور ان پر ابن المبارک رحمہ اللہ کے اعتماد کی نوعیت

{58} ”سفیان بن عبدالملک“ اور ان پر ابن المبارک رحمہ اللہ کے اعتماد کی نوعیت
✿ ✿ ✿ ✿
سفیان بن عبدالملک کی توثیق  میں بعض حضرات نے  ابن المبارک کا حوالہ دیا ہے ، بلکہ ابن سعد رحمہ اللہ کی ایک عبارت پیش کرکے  صراحتا یہ دعوی کردیا ہے کہ ابن مبارک انہیں ثقہ مانتے تھے ۔
یہ دعوی ابن المبارک رحمہ اللہ کی پیدائش سے لیکر اب تک کے زمانے میں کسی نے نہیں کیا ہے ، سفیان بن الملک کا ترجمہ کئی ائمہ نے پیش کیا ہے لیکن آپ کو کسی بھی کتاب میں نہیں ملے گا کہ کسی ترجمہ نگار نے اس کے ترجمہ میں یہ نقل کیا ہو کہ ابن المبارک نے انہیں ثقہ کہاہے ۔بلکہ رجال پر ڈھیر ساری کتب تصنیف کرنے والے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کے برعکس  یہ اشارہ دیا ہے کہ ان کی توثیق صرف ابن حبان رحمہ اللہ نے کی ہے ، یعنی امام ذہبی رحمہ اللہ نے سفیان بن عبدالملک سے متعلق ابن حبان کے علاوہ کسی بھی امام کی توثیق کے وجود کا انکار کیا ہے،جیساکہ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں ۔
اس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ بعض حضرات نے امام ابن سعد رحمہ اللہ کی ایک عبارت سے جو یہ کشید کرنے کی کوشش کی ہے کہ ابن المبارک نے سفیان بن عبدالملک کو ثقہ کہا ہے ، درست نہیں ہے ۔
 . 
✿ اب آئیے امام ابن سعد رحمہ اللہ کے قول کو دیکھتے ہیں ، ان کے الفاظ ہیں:
”سفيان بن عبد الملك من أهل مرو، وكان عبد الله بن المبارك يثق به ويرفع إليه كتبه“
” سفیان بن عبدالملک اہل مرو میں سے ہیں ، عبداللہ بن المبارک ان پر اعتماد کرتے تھے اور انہیں اپنی کتب دیتے تھے“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 7/ 377]
 . 
عرض ہے کہ :
اولا:
 ❀ ابن المبارک رحمہ اللہ سے یہ الفاظ بسند صحیح  ثابت ہی نہیں ہیں ، کیونکہ یہ الفاظ پیش کرنے والے ابن سعد رحمہ اللہ ہیں اور یہ ابن المبارک رحمہ اللہ کی وفات سے بارہ یا تیرہ  سال قبل پیدا ہوئے ۔بچپن انہوں نے اپنے علاقہ بصرہ میں ہی گذارا ، اور سب سے پہلے بصرہ ہی کے ائمہ سے علم حاصل کیا ، اس کے بعد غالبا انہوں نے کوفہ کا سفر کیا ہوگا جیساکہ وہاں کے لوگوں کا معمول تھا ، اس ابتدائی دور (بارہ یا تیرہ سال ) میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ وہ مرو بھی حصول علم کے لئے گئے ہوں اور عبداللہ بن المبارک سے بھی سماع کیا ہو۔
مزید یہ کہ طبقات میں  ابن سعد رحمہ اللہ نے ابن المبارک رحمہ اللہ سے جو بھی مسند روایات بیان کی ہیں سب کو اپنے اور ابن المبارک کے بیچ ایک واسطے سے نقل کیا ہے ۔اور کہیں بھی ان سے ڈائریکٹ کوئی روایت بیان نہیں کی ہے ، یہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ ابن سعد رحمہ اللہ نے ابن المبارک رحمہ اللہ سے کچھ بھی نہیں سنا ہے ۔
اور ائمہ ناقدین کا یہ اصول معروف ہے کہ وہ دو معاصر میں ایک کی دوسرے سے واسطہ کے ساتھ روایت دیکھتے ہیں تو عدم سماع کا فیصلہ کرتے ہیں، حتی کہ یہ اپنے اس  معاصر سے کبھی  عن کے ذریعہ بھی روایت کرے اور سماع کی صراحت نہ کرے تو بھی اسے مرسل ہی مانتے ہیں ۔
 ● أبو الضحى مسلم نے اپنے معاصر جریر سے ایک روایت عن کے  ذریعہ نقل کیا اور اسے لیکر ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے اپنے والد امام ابوحاتم (المتوفى277)سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا:
رواه أبو معاوية  عن الأعمش، عن أبي الضحى مسلم، عن عبد الرحمن بن هلال العبسي، عن جرير، عن النبي  صلی اللہ علیہ وسلم ،قال أبي: كنت أظن أن  أبا الضحى قد لقي جرير ، فإذا رواية الأعمش تدل على أنه لم يسمع منه [علل الحديث لابن أبي حاتم 5/ 294]
 ● امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) ایک دوسرے راوی سے متعلق فرماتے ہیں:
 شهر بن حوشب لم يسمع من عمرو بن عبسة إنما يحدث، عن أبي ظبية، عن عمرو بن عبسة [المراسيل لابن أبي حاتم ت الخضري: ص: 89]
 ● امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795) فرماتے ہیں:
فإن كان الثقة يروي عمن عاصره أحياناً ولم يثبت لقيه له ثم يدخل أحياناً بينه وبينه واسطة فهذا يستدل به هؤلاء الأئمة على عدم السماع منه[شرح علل الترمذي لابن رجب، ت همام: 2/ 593]
ملاحظہ فرمائیں
کہ ایک راوی اپنے معاصر سے عن سے بھی روایت کرے لیکن دوسرے مقام پر اپنے اور اس کے بیچ واسطہ لے آئے تو ائمہ فن یہ فیصلہ صادر کرتے ہیں کہ اس کا سماع اس سے ثابت نہیں ۔
اور امام ابن سعد رحمہ اللہ کا حال یہ ہے کہ وہ ابن المبارک رحمہ اللہ سے جو بھی روایت بیان کرتے ہیں وہ ایک واسطہ سے ہی بیان کرتے ہیں ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن المبارک رحمہ اللہ سے ان کا سماع نہیں ہے ۔
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ مذکورہ بات ابن المبارک سے بسند صحیح ثابت نہیں ہے ۔
 . 
 ❀ ثانیا:
امام ابن سعد رحمہ اللہ نے اپنے مذکورہ قول میں ابن المبارک رحمہ اللہ سے ان کا کوئی قولی فرمان یا فیصلہ نقل نہیں کیا ہے ، بلکہ ان کا ایک عمل بیان کیا ہے کہ وہ سفیان بن عبدالملک پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں اپنی کتب دیتے تھے۔
یہاں امام ابن سعد رحمہ اللہ دراصل کتب دینے کی بات نقل کررہے ہیں اور یہ ابن المبارک کی نظر میں ان کے قابل اعتماد ہونے کا اشارہ ہے ، اس لئے ابن سعد رحمہ اللہ اپنی طرف سے قابل اعتماد کے الفاظ کہہ رہے ہیں ، لہٰذا اعتماد سے متعلق الفاظ ابن المبارک رحمہ اللہ کی زبان سے صادر نہیں ہوئے ہیں ، بلکہ کتاب دینے سے اس پر استدلال کیا گیا ہے ، اور ظاہر ہے کہ محض  کتاب دینے جس اعتماد کی بات کی جائے اس سے فن رجال کی اصطلاحی توثیق قطعا مراد نہیں ہے ۔اس لئے نہ تو ابن المبارک رحمہ اللہ نے ایسی کوئی توثیق کی ہے اور نہ ہی امام ابن سعد رحمہ اللہ نے ان کی طرف ایسی کوئی بات منسوب کی ہے۔
 . 
 ❀ ثالثا:
فن حدیث میں رجال کی توثیق سے جو ثقاہت مراد ہوتی ہے اس میں صداقت و دینداری کے ساتھ ساتھ راوی کا ضابط ہونا بھی شامل ہے ، کسی راوی میں صدق و ضبط کی یہ  دونوں خوبیاں ہوں تو ایسے راوی کو ایک اصطلاحی لفظ ثقہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
لیکن عام لوگوں کی زبان میں ، بلکہ خود محدثین کی زبان میں کبھی کبھی یہ لفظ غیر اصطلاحی معنی میں مستعمل ہوتا ہے ، یعنی لفظ توثیق سے مقصود کسی راوی کی محض صداقت و امانت داری ہی کو بتلانا مقصود ہوتا ہے اور اس کے ضبط کی درستگی کی شہادت اس میں شامل نہیں ہوتی ہے ۔
اور یہ فرق سیاق وسباق اور مواقع کے لحاظ سے طے ہوتا ہے ۔
چنانچہ کوئی محدث کسی سے تحدیث کرتے ہوئے کہے کہ حدثنی الثقہ یا حدثنی من اثق بہ تو اس سیاق میں یہ کہنا درست ہے کہ یہ محدث اپنے شیخ کی اصطلاحی توثیق کررہا ہے ۔
لیکن  اگر کوئی کسی  راوی کے بارے میں یہ کہے کہ فلاں محدث نے اسے قابل اعتماد سمجھا ہے اوراسے اپنی کتب کی روایت کی اجازت دی ہے ۔تو ظاہر ہے کہ یہاں قائل کا یہ مقصود ہرگز نہیں ہے کہ فلاں محدث نے اس کی توثیق کی ہے ۔
 . 
 ● مثلا خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463) نے امام مالک کا یہ قول نقل کیا :
عن مالك بن أنس , قال: " كان ابن شهاب يؤتى بالصحيفة , وأشار بإصبعيه الإبهام والتي تليها , فيها أحاديث ابن شهاب , فيقال له وهي مطوية: هذه أحاديثك؟ فيقول: نعم , فيقال له: أنحدث بها عنك؟ ونقول: ثنا ابن شهاب؟ فيقول: نعم , قال مالك: وما فتحها ابن شهاب ولا قرأها ولا قرئت عليه , قال مالك: ويرى ذلك ابن شهاب جائزا[كفاية للخطيب البغدادي، ت السورقي: ص: 329]
اس کے بعد خطیب بغدای رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
 يحتمل أن يكون قد تقدم نظر ابن شهاب في الصحيفة , وعرف صحتها , وأنها من حديثه , وجاء بها بعد إليه من يثق به , فلذلك استجاز الإذن في روايتها من غير أن ينشرها وينظر فيها [كفاية للخطيب البغدادي، ت السورقي: ص: 329]
اب خطیب بغدای رحمہ اللہ کے اس قول (يثق به) کی بناپر کیا کوئی شخص یہ دعوی کرسکتا ہے کہ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے جن لوگوں کو روایت کی اجازت دی تھی ان سب کو اصطلاحی معنی میں ثقہ بھی کہا ہے ؟؟  
 . 
 ● نیزحافظ ابن حجر رحمہ اللہ مکاتبہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
والمكاتبة من أقسام التحمل وهي أن يكتب الشيخ حديثه بخطه أو يأذن لمن يثق به بكتبه ويرسله بعد تحريره إلى الطالب ويأذن له في روايته عنه[فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 1/ 154]
اب کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ ابن حجررحمہ اللہ نے (يثق به) کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، لہٰذا فلاں شیخ نے اصطلاحی معنی میں اسے ثقہ قرار دیا ہے جسے مذکورہ اجازت دی ہے ؟؟
ظاہر ہے ان مقامات پر سیاق وسباق سے اس بات کی ذرا بھی گنجائش نہیں ہے کہ اصطلاحی توثیق مراد لی جائے  ۔
یہی حال ابن سعد رحمہ اللہ کے اس قول کا بھی ہے جس میں (يثق به) کے الفاظ ہیں ، کہ یہاں اصطلاحی توثیق بیان کرنا مراد نہیں ہے ۔
 . 
دراصل یہ اور اس جیسے مواقع پر اصول حدیث میں معروف  اصطلاحی معنی میں توثیق کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا جاتا ہے ، بلکہ عام بول چال کے حساب سے محض صداقت یا امانت بتلانا مقصود ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اصول حدیث اور فن روایت کے موضوع سے ہٹ کر عام حکایات میں بھی لفظ (يثق به) کا کثرت سے استعمال مل ملتا ہے ، اور کوئی بھی صحیح الدماغ شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہاں اصول حدیث میں معروف اصطلاحی معنی میں توثیق کی جاری ہے۔ 
بطور مثال چند عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:
 ◈ ذكر ما يستحب للإمام إذا عزم على إمضاء أمر من الأمور فأشار عليه من يثق به من رعيته بضده أن يترك ما عزم عليه من إمضاء ذلك الأمر[صحيح ابن حبان، ت الأرنؤوط: 10/ 408]
 ◈ سئل عن الرجل يمرض فيكلم الرجل فيدخل له في وصيته ممن يثق به، فيقول له: عليّ عيال ولا يمكنني الشغل عنهم ۔۔۔۔[مسائل أحمد بن حنبل رواية ابن هانئ ص: 314]
 ◈ ثم إنه أرسل من يثق به من أمرائه إلى المنصور، فلما قدم تلقاه بنو هاشم بكل ما يحب، وقال له المنصور: اصرفه عن وجهه، ولك إمرة بلاده.[سير أعلام النبلاء للذهبي: 6/ 64]
 ◈ وَكَانَ سبب ذَلِكَ أنه كَانَ يدفع المفتاح إِلَى مَن يثق بِهِ فحاز منه مالاً كثيراً[رفع الإصر عن قضاة مصر لابن حجر: ص: 404]
 ◈ وكان كبير البيت الأيوبي. وكان السلطان الملك الناصر، وهو ابن أخيه، يحترمه ويجله، ويثق به[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 48/ 338]
  ◈  مع مصعب بن الزبير بن العوام بالعراق وكان مصعب يثق به فأصاب معه مالا[تاريخ دمشق لابن عساكر: 8/ 245]
 ◈ قالت نعم فدعا رجلا من أهله يثق به فصررها صررا ثم قال انطلق بهذه إلى أرملة[تاريخ دمشق لابن عساكر: 21/ 162]
 ◈ وكان الملك الناصر صلاح الدين يوسف صاحب الشام يعظّمه ويحترمه ويثق به [النجوم الزاهرة لابن تغري: 7/ 90]
 . 
قارئین غور کریں کہ ان تمام مقامات  پر (يثق به) کا لفظ ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہاں اصول حدیث میں معروف اصطلاحی معنی میں توثیق نقل کی جارہی ہے ؟؟
ہرگز نہیں ۔یہی معاملہ ابن سعد رحمہ اللہ کے قول کا بھی ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment