{56} امام احمد رحمہ اللہ کی عربی عبارت سمجھنے میں فریق مخالف کی غلطی - Kifayatullah Sanabili Official website

2018-08-06

{56} امام احمد رحمہ اللہ کی عربی عبارت سمجھنے میں فریق مخالف کی غلطی

{56} امام احمد رحمہ اللہ کی عربی عبارت سمجھنے میں فریق مخالف کی غلطی
✿ ✿ ✿ ✿
”سفیان بن عبدالملک“ کے بارے میں ہم نے کہا تھا کہ ابن حبان کے علاوہ انہیں کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے ۔
لیکن فریق مخالف نے یہ دعوی کیا ہے کہ امام احمدرحمہ اللہ نے بھی انہیں ”ليس به بأس“ کہہ کر ان کی توثیق کی ہے۔
دراصل امام احمد رحمہ اللہ نے ایک دوسرے راوی کی توثیق میں یہ بات کہی ہے ، لیکن فریق مخالف امام احمد رحمہ اللہ کی عربی عبارت ٹھیک سے سمجھ نہیں سکے ۔
اب آئیے ہم واضح کرتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ کے کلام کا صحیح مفہوم کیا ہے ۔
.
❀  امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”سمعت احمد قال أصحاب ابن المبارك القدماء سفيان يعني ابن عبد الملك وعلي بن الحسن وجعل يعد غيرهما قال وعتاب بن زياد بعدهم وليس به بأس“
میں نے امام احمد رحمہ اللہ کو سنا، آپ نے فرمایا: ابن المبارک کے قدیم اصحاب سفیان بن عبدالملک اور علی بن الحسن ہیں ، پھر امام احمد ان دونوں کے علاوہ کا تذکرہ کرنے لگے ، اور کہا: ”عتاب بن زياد“ ان سب کے بعد ہے اور یہ ”ليس به بأس“ ہے۔ [سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت منصور: ص: 359-360]
.
اس عبارت میں امام احمد رحمہ للہ نے آخر میں ”عتاب بن زياد“ کا ذکر کیا ہے اور اسی کے بارے میں ”ليس به بأس“  کہا ہے ۔
لیکن فریق مخالف عربی عبارت ٹھیک طرح سمجھ نہیں سکے اور یہ باور کرلیا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے یہ توثیق سفیان بن عبدالملک کی کی ہے ۔
قارئین کرام !
جب سے امام احمد رحمہ اللہ نے یہ بات کہی ہے تب سے آج تک تمام اہل فن اور اہل علم نے یہی سمجھا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے یہ توثیق ”عتاب بن زياد“ ہی کی ہے حوالے ملاحظہ ہوں:
  .
✿ خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463) کا حوالہ:
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ”عتاب بن زياد“ ہی کے ترجمہ میں یہ قول نقل کرتے ہوئے کہا:
”أخبرنا البرقاني أخبرنا أبو حامد احمد بن محمد بن حسنويه أخبرنا الحسين بن إدريس الأنصاري حدثنا أبو داود سليمان بن الأشعث قال سمعت احمد قال أصحاب بن المبارك القدماء سفيان بن عبد الملك وعلي بن الحسن وجعل يعد غيرهما قال وعتاب بن زياد بعدهم وليس به بأس“[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 12/ 314]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ کی اس توثیق کو ”عتاب بن زياد“ سے متعلق سمجھتے ہیں ۔
.
✿ امام مزي رحمه الله (المتوفى742) کا حوالہ :
امام مزی رحمہ اللہ نے بھی ”عتاب بن زياد“ ہی کے ترجمہ میں یہ قول نقل کرتے ہوئے کہا:
”قال أبو داود  : سمعت أحمد يقول : أصحاب ابن المبارك القدماء : سفيان بن عبد الملك ، وعلي بن الحسن وجعل يعد غيرهما ، قال : وعتاب بن زياد بعدهم ، وليس به بأس“ [تهذيب الكمال للمزي: 19/ 292]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام مزی رحمہ اللہ بھی  امام احمد رحمہ اللہ کی اس توثیق کو ”عتاب بن زياد“ سے متعلق سمجھتے ہیں ۔
مزید یہ کہ امام مزی رحمہ اللہ نے سفيان بن عبد الملك کا ترجمہ بھی پیش کیا ہے مگر ان کے ترجمہ میں یہ قول ذکر نہیں کیا ہے ، دیکھیں:[تهذيب الكمال للمزي: 11/ 174]
اس  سے صاف ظاہر ہے کہ امام مزی رحمہ اللہ نے  امام احمد رحمہ اللہ کی اس  توثیق کو سفيان بن عبد الملك سے متعلق قطعا نہیں سمجھا ہے ۔
.
✿امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) کا حوالہ :
امام ذہبی رحمہ اللہ کے بارے میں  ہم پہلے  واضح کرچکے ہیں کہ انہوں نے سفیان بن عبدالملک کو”وثق“ کہا ہے یعنی یہ اشارہ دیا ہے کہ ان کی توثیق میں ابن حبان منفرد ہیں اور ان کی توثیق معتبر نہیں ہے ۔
اس سے معلوم ہوتا  ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی امام احمد رحمہ اللہ کے قول کا یہ مطلب نہیں سمجھا کہ انہوں نے سفیان بن عبدالملک کی توثیق کی ہے ۔
.
✿ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) کا حوالہ :
حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے بھی ”عتاب بن زياد“ ہی کے ترجمہ میں امام احمد رحمہ اللہ کا مذکورہ قول بہت اختصار کے ساتھ نقل کرتے ہوئے کہا:
”قال أبو داود عن أحمد ليس به بأس“  [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 7/ 92]
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی  امام احمد رحمہ اللہ کی اس توثیق کو ”عتاب بن زياد“ سے متعلق سمجھتے ہیں ۔
علاوہ بریں حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے سفيان بن عبد الملك کا ترجمہ بھی پیش کیا ہے مگر ان کے ترجمہ میں یہ قول ذکر نہیں کیا ہے ، دیکھیں:[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 4/ 116]
یہ واضح دلیل ہے کہ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ ، امام احمد رحمہ اللہ کی توثیق کو سفيان بن عبد الملك سے متعلق قطعا نہیں سمجھتے ۔
✿  ✿
یہ تو ائمہ ناقدین کے حوالے ہیں ۔
اگر ہم معاصرین متخصصین اور ماہرین کی بات کریں تو امام رحمہ اللہ کے تمام اقوال جرح و تعدیل کو ایک موسوعہ میں جمع کیا گیا ہے ۔جس کا نام ہے ۔
”موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله“
یہ موسوعہ متخصصین کی ایک ٹیم نے تیار کیا ہے ۔
● اس میں سفيان بن عبد الملك ترجمہ میں امام احمد رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کا صرف یہ حصہ نقل کیا گیا ہے :
”قال أبو داود: سمعت أحمد. قال: أصحاب ابن المبارك القدماء: سفيان، يعني ابن عبد الملك، وعلي بن الحسن، وجعل يعد غيرهما“[موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله 2/ 63]
یعنی اس قول کے اخیر میں ”عتاب بن زياد“ سے متعلق امام احمد رحمہ اللہ کی جو توثیق تھی اسے حذف کردیا گیا ہے کیونکہ اس کا سفيان بن عبد الملك سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔
.
● البتہ اسی موسوعہ میں جب ”عتاب بن زياد“ کا ترجمہ پیش کیا گیا تو امام احمد رحمہ اللہ کے اسی قول کو مکمل اس طرح نقل کیا گیا :
”قال أبو داود: سمعت أحمد. قال: أصحاب ابن المبارك القدماء: سفيان، يعني ابن عبد الملك، وعلي بن الحسن، وجعل يعد غيرهما. قال: وعتاب بن زياد بعدهم، وليس به بأس“[موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله 2/ 420]
یعنی یہاں ”عتاب بن زياد“ کے ترجمہ میں امام احمد رحمہ اللہ کی توثیق والا حصہ بھی نقل کردیا گیا کیونکہ یہ حصہ اسی  ”عتاب بن زياد“ ہی سے متعلق تھا ۔
معلوم ہوا کہ متخصصین اور ماہرین اہل علم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اس قول میں امام احمد رحمہ اللہ نے ”عتاب بن زياد“  ہی کی توثیق کی ہے نہ کہ سفيان بن عبد الملك کی ۔
معاصرین اور متخصصین کے اور بھی کئی حوالے ہیں ، لیکن میرے خیال سے ایضاح حقیقت کے لئے اتناہی کافی ہے۔
اس وضاحت کے بعد ہمارا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ سفیان بن عبدالملک کی توثیق میں منفرد ہیں ، اوراسی بات کی طرف امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے ۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)

No comments:

Post a Comment