امت میں جن اسباب کی بناپر اختلافات ہوتے ہیں ہم انہیں دوقسموں میں بانٹ سکتے ہیں:
*اول: عارضی اسباب
*دوم: دائمی اسباب
اختلاف کے عارضی اسباب
اختلاف کے عارضی اسباب سے مراد وہ اسباب ہیں جوکبھی ختم بھی ہوسکتے ہیں مثلا نصوص سے عدم واقفیت یانصوص کاانکار یا نصوص کی من مانی تاویل وغیرہ ۔
حل:
نصوص پر ایمان ، ان سے واقف ہوتے ہی ان کی طرف رجوع ، من مانی تاویل کے بجائے فہم سلف کی پیروی ۔ارشادالہی ہے:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا )
اے ایمان والو ! فرمانبرداری کرو اللہ اوراس کے رسول کی اوراور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔[النساء:۵۹]۔
معلوم ہوا کہ عارضی اسباب کی بناپر جواختلافات ہوئے ہیں ان میں سے کسی اختلاف کا سب ختم ہوجائے تو فورا اس ختلاف کو بھی ختم کردینا چاہئے۔
اختلاف کے دائمی اسباب
اختلاف کے دائمی اسباب سے مراد وہ اسباب ہیں جو کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتے مثلا فکرونظر میں عدم یکسانیت، عقل وشعورمیں تفاوت ، استدلال واستنباط میں قوت وضعف ،فہم وتدبر میں دقت و تساہل، وغیرہ وغیرہ۔
حل :
دائمی اسباب کی بناپر جو اختلافات ہورہے ہیں ان کاخاتمہ کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں،اللہ ا وراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس نوعیت کے اختلاف کے خاتمہ کا کوئی حل قطعا نہیں پیش کیا ہے، بلکہ اس کے برعکس اس اختلاف کو برداشت کیا ہے حتی کہ اختلاف کرنے والے فریقین کے لئے اجرکا وعدہ بھی ہے،حدیث کے الفاظ:
«إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»
جب کوئی فیصلہ کرنے والا اپنی پوری کوشش صرف کرنے کے بعد فیصلہ کرے تو اگروہ درست فیصلہ کرے گاتواسے دونیکی ملے گی لیکن اگرپوری کوشش کی باوجود بھی وہ صحیح فیصلہ نہ کرسکے تودریں صورت بھی اسے ایک اجرملے گاٌ[بخاری رقم ۷۳۵۲من حدیث عمروبن العاص]۔
معلوم ہواکہ دائمی اسباب کی بناپرجواختلافات ہورہے ہیں وہ قابل برداشت ہیں اس طرح کے اختلاف میں حق کسی کے ساتھ بھی ہوسکتاہے لہٰذا اس بابت جس کادل جس موقف پر مطمئن ہووہ اسے اپنائے اورساتھ ہی اس کی نظرمیں جوموقف غلط ہو اس کی وضاحت بھی کرے لیکن فہم وتدبرکے غرور اورعلمی داداگیری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے زبردستی دوسروں پراپناموقف نہ تھوپے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کے شاگرد شیخ عدنان عرعور لکھتے ہیں:
هل يجوز أن يلزم أحد أحداً باجتهاد أو رأي؟
لا يجوز أن يلزم أحدٌ أحداً برأيه أو اجتهاده، أو اجتهاد غيره، مهما كان المجتهد أو المجتهدون على علم أو منزلة أو عدد، وسواءً كان هذا الخلاف في العقيدة، أو المنهج، أو العبادات، أو المعاملات، أو الاختلاف في الأعيان.
ولا يجوز إلزامٌ إلا بآية قطعية الدلالة، أو حديث واضح الدلالة، وصحيح الثبوت، أو إجماع متيقن، أو ما اشتهر من مذهب السلف واستقر عليه الأمر، وماعدا ذلك، فلكل اجتهاده، في إطار النصوص، والاجتهاد المعتبر، ومن ألزم بغير ما ذُكِرَ فقد جهل وتعصب.
وربما يدفع بعضَهم الجهلُ والتعصبُ إلى إلزام إخوانهم آراءهَمُ، أو اجتهاداتِ من يقلدونهم، فمن التزم بأقوالهم فهو المهتدي عندهم، ومن لم يلتزم كان -عندهم- ضالاً مبتدعاً، يجب مفارقته، ومفارقة من لا يفارقه، والتبرؤ منه، وممن لا يتبرأ منه، فشقُّوا بذلك الصف، وأحدثوا الفتن، ولا يفعل هذا من كان عنده علم أو دين أو عقل، والله المستعان.
ترجمہ:
کیا یہ جائز ہے کہ کوئی شخص کسی کواپنے اجتہادو موقف کا پاپندبنادے؟
یہ قطعا جائز نہیں کہ کوئی شخص کسی کو فقط اپنے یاکسی دوسرے عالم ہی کے اجتہادوموقف کاپاپند بنادے،خواہ وہ مجتہد یااس کے موافقین دیگر مجتہدین،علم ومنزلت اورگنتی وتعداد کے لحاظ سے کتنے ہی فائق اوراونچے درجے کےکیوں نہ ہوں۔نیزچاہے یہ اختلاف عقیدہ واصول میں ہو یا عبادات ومعاملات میں ہویاپھرشخصیات واشخاص سے متعلق ہو ۔
اگرکسی کو پابندبنایاجاسکتاہے تو صرف ایسی آیت کا جس میں قطعی دلیل ہو ،یاایسی حدیث کا جو اپنے معنی ومفہوم میں بالکل صریح اورصحیح ہو،یاایسے اجماع کا جوثابت شدہ ہو،یاایسے مشہورموقف کا جسے سلف سے لیکرخلف تک سبھی لوگ اپناتے چلے آئے ہوں ،ان کے علاوہ جو دیگر مقامات ہیں وہاں پرہرشخص کے لئے نصوص اور معتبر اجتہاد کی روشنی میں فقط اپناہی اجتہاد حجت ہے۔
اورجنہوں نے ان مؤخرالذکرمقامات کے علاوہ دیگرمقامات پرکسی شخص کوکسی مخصوص شخصیت کاپابندبنادیا وہ بڑے جاہل اور حددرجہ متعصب لوگ ہیں،اوربسااوقات ان کی یہ جہالت او ر تعصب پرستی انہیں اس بات پرآمادہ کردیتی ہے کہ وہ اپنے تمام بھائیوں کو صرف اپنی ہی آراء کاپابندبناڈالیں ،یاایسی شخصیات کے اجتہادات کاپابندبناڈالیں جن کے یہ خود مقلد ہوتے ہیں ۔
اب جس شخص نے ان کی باتوں کو تسلیم کرلیا وہی ان کی نظرمیں ہدایت یاب ہے اورجس نے ان کی باتوں کو نہیں مانا وہ ان کے نزدیک گمراہ اوربدعتی ہے ،دریں صورت ان کے لئے ضروری ہوجاتاہے کہ اپنی بات نہ ماننے والوں سے قطع تعلق کرلیں اور ساتھ ہی ان لوگوں سے بھی رشتہ ناطہ توڑ لیں جو ان کے مخالفین سے میل جول رکھتے ہیں۔ نیزاپنے مخالفین سے برأت کااظہاربھی کردیں اورساتھ ہی ساتھ ان لوگوں سے بھی برأت کااظہارکردیں جو ان کے مخالفین سے برأت کااظہار نہیں کرتے۔
یہ لوگ اپنی اس عادت سے مسلمانوں کی صفوں میں انتشاربرپا کرتے ہیں اورطرح طرح کے فتنے جنم دیتے ہیں ،یقیناًیہ کام کوئی ایساشخص نہیں کرسکتاجس کے پاس ذرہ برابر بھی علم یامعمولی سی بھی دینداری یاکچھ بھی سوجھ بوجھ کی صلاحیت ہو.واللہ المستعان[منہج الإعتدال:ص ۴۳ للشیخ عدنان عرعور]۔
No comments:
Post a Comment