یزید کے ”بارہ خلفاء“ میں سے ایک ہونے پراہل علم کے اقوال
❀ ❀ ❀
✿ شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
”وفي لفظ: «لا يزال الإسلام عزيزا إلى اثني عشر خليفة كلهم من قريش» وهكذا كان، فكان الخلفاء: أبو بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، ثم تولى من اجتمع الناس عليه وصار له عز ومنعة: معاوية، وابنه يزيد، ثم عبد الملك وأولاده الأربعة، وبينهم عمر بن عبد العزيز. وبعد ذلك حصل في دولة الإسلام من النقص ما هو باق إلى الآن ; فإن بني أمية تولوا على جميع أرض الإسلام، وكانت الدولة في زمنهم عزيزة“
”اور بعض حدیث کے الفاظ ہیں : ”اسلام غالب رہے گا بارہ خلفاء تک جو سب کے سب قریش سے ہوں گے“ اور ایسے ہی ہوا چنانچہ یہ خلفاء اس طرح تھے ، ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ ، عثمان رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ ، ان کے بعد جن پر امت جمع رہی اور اس کے لئے عزت وطاقت رہی ، وہ معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے بیٹے یزید ، پھر عبدالملک اور پھر اس کے چاروں بیٹے اور ان کے درمیاں عمر بن عبدالعزیر بھی تھے ۔ اور اس کے بعد اسلامی حکومت میں نقص آگیا جو آج تک باقی ہے ، اور بنوامیہ تمام عالم اسلام پر حکومت کی اوراسلامی حکومت ان کے زمانے میں غالب رہی“ [منهاج السنة النبوية 8/ 238]
✿ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)فرماتے ہیں:
”أرجحها الثالث من أوجه القاضي لتأييده بقوله في بعض طرق الحديث الصحيحة كلهم يجتمع عليه الناس وإيضاح ذلك أن المراد بالاجتماع انقيادهم لبيعته والذي وقع أن الناس اجتمعوا على أبي بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي إلى أن وقع أمر الحكمين في صفين فسمي معاوية يومئذ بالخلافة ثم اجتمع الناس على معاوية عند صلح الحسن ثم اجتمعوا على ولده يزيد ولم ينتظم للحسين أمر بل قتل قبل ذلك ثم لما مات يزيد وقع الاختلاف إلى أن اجتمعوا على عبد الملك بن مروان بعد قتل بن الزبير ثم اجتمعوا على أولاده الأربعة الوليد ثم سليمان ثم يزيد ثم هشام وتخلل بين سليمان ويزيد عمر بن عبد العزيز“
”راجح تیسری بات ہے جسے قاضی عیاض نے پیش کیاہے کیونکہ اس کی تائید اس صحیح حدیث سے ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ ان سب پر امت اتفاق کرلے گی ، اس کی وضاحت یہ ہے کہ اتفاق سے مراد بیعت پر اتفاق کرنا ہے اور واقعہ یہی ہوا کہ لوگ ابوبکررضی اللہ عنہ ، پھر عمررضی اللہ عنہ،عثمان رضی اللہ عنہ اور پھر علی رضی اللہ عنہ پر متفق ہوئے ، یہاں تک صفین میں دونوں حکم کا معاملہ پیش آیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کہا گیا پھر صلح حسن رضی اللہ عنہ کے وقت لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ پر متفق ہوئے ، اس کے بعد اس کے بیٹے یزید پر متفق ہوئے ، اور حسین رضی اللہ عنہ کے لئے معاملہ درست نہیں ہوسکا بلکہ وہ اس سے پہلے ہی شہید کردئے گئے ، پھر جب یزید کی وفات ہوئی تو لوگوں کا اختلاف ہوا یہاں تک کہ لوگ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد عبدالملک بن مروان پر متفق ہوئے ، پھر اس کے چاروں لڑکوں یعنی وليد پھر سليمان پھر يزيد(ثانی) پھر هشام پر متفق ہوئے اور سلیمان اور یزید کے بیچ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا بھی یہی معاملہ رہا“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 13/ 214]
✿ ملا علي القاري (المتوفى1014) فرماتے ہیں:
”وكان الأمر كما قال النبي صلي الله عليه وعلي آله وسلم ، فالإثني عشر هم الخلفاء الراشدون الأربعة ، ومعاوية وابنه يزيد ، وعبدالملك بن مروان و أولاده الأربعة ، وبينهم عمربن عبدالعزيز ، ثم أخذ الأمر في الإنحلال“
”اور معاملہ ویسے ہی ہوا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ، چنانچہ بارہ خلیفہ یہ چارخلفائے راشدین تھے ، اس کے بعد معاویہ اور ان کے بیٹے یزید تھے ، اس کے بعد عبدالملک بن مروان اور اس کے چاروں بیٹے تھے اور ان کے درمیاں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تھے ، اس کے بعد یہ معاملہ کمزور پڑگیا“ [شرح الفقه الأكبر للملا علي القارئ : ص 206]
✿ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”علمائے اہل سنت میں قاضی عیاض رحمہ اللہ اس حدیث کا یہ مطلب بتاتے ہیں کہ تمام خلفاء میں سے بارہ شخص مراد ہیں جن سے اسلام کی خدمت بن آئی اوروہ متقی تھے ، حافظ ابن حجررحمہ اللہ ابوداؤد کے الفاظ کی بناپر خلفائے راشدین اوربنوامیہ میں سے ان بارہ خلفاء کو گناتے ہیں جن کی خلافت پر تمام امت کا اجتماع رہا یعنی حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم ، یزید ، عبدالملک ، ولید ، سلیمان ، عمر بن عبدالعزیز ، یزید ثانی ، ہشام“ [سیرت نبی ، تخریج شدہ اڈیشن: ج3ص448 تا 449]
No comments:
Post a Comment