تعویذ سے متعلق عبداللہ بن عمرو رض کی حدیث - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-08-04

تعویذ سے متعلق عبداللہ بن عمرو رض کی حدیث

تعویذ سے متعلق عبداللہ بن عمرو رضی اللہ  کی حدیث ، تحقیقی جائزہ
(کفایت اللہ سنابلی)
 ✿  ✿  ✿ 
کچھ دنوں قبل ہمارے علاقہ میں ایک بریلوی مقرر تشریف لائے اورسامعین کو خطاب کیا ، اس خطاب کی ریکارڈنگ ہمارے پاس لائی گئی ، ہم نے تقریرسنی ، موصوف کا اندازبیان روایتی بریلوی خطباء سے ذرا ہٹ کرتھا ، آن جناب نے اپنی تقریرمیں باربار اہل حدیث‌ حضرات کانام لیا ، مگر ہمارے علم کے مطابق موصوف نے کوئی تلخ کلامی نہیں کی ، بلکہ دوران خطاب غیر مقلد کہنے کے بجائے اہل حدیث بھائی اورسلفی بھائی کہہ کر ہمیں مخاطب کیا ، نیز آن جناب کی بعض باتوں سے اس چیزکی بھی تصدیق ہوگئی کہ ہندوستان میں اہل حدیثوں کا وجود انگریزوں کے دورمیں نہیں ہوا۔
کیونکہ آن جناب نے تعویذ سے متعلق ایک روایت پیش کی اس کے بعد ان اہل علم کی فہرست پیش کی جنہوں‌ نے اسے اپنی اپنی کتابوں میں‌ درج کیا ہے ، فہرست میں بعض اہل علم کے ناموں کو گنانے کے بعد موصوف نے کہا کہ اب میں ان اہل حدیث علماء کے نام پیش کررہاہوں جنہوں‌ نے اس حدث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اس کے بعد موصوف نے اہل حدیث‌ علماء کی فہرست پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے ابن تیمہ رحمہ اللہ کا نام پیش کیا اس کے بعد ابن تیمہ رحمہ اللہ کے شاگردوں مثلا ابن کثیر امام ذہبی اوردیگراہل علم کے نام پیش کئے۔
موصوف کی اس بات سے یہ حقیقت طشت ازبام ہوگئی کہ ہندوستان میں اہل حدیثوں کا وجود انگریزوں کے دورسے پہلے بلکہ بہت پہلے ہی سے تھا، کیونکہ موصوف نے خود اہل حدیث علماء کی فہرست میں ایسے لوگوں‌ کے نام گنائے ہیں جو انگریزوں کے وجود سے صدیوں سال پہلے اس دنیا سے چلے گے۔
بہرحال موصوف نے تعویذ والی روایت سے متعلق اپنی جو تحقیق پیش کی ہےہم ذیل کی سطور میں‌ اس کاجائزہ لیتے ہیں:

حدیث مع سند ومتن
امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا:
”حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، قَالَ: إِذَا فَزِعَ أَحَدُكُمْ فِي النَّوْمِ فَلْيَقُلْ: أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ . فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ، وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ كَتَبَهَا فِي صَكٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ“ 
 ”عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ ان کے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے «أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ» (یعنی میں اللہ کے غضب، عقاب، اسکے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) اگر وہ یہ دعا پڑھے گا تو وہ خواب اسے ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ عبداللہ بن عمرو یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لیے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے“ [سنن الترمذي 5/ 542 رقم 3528 ]

اس روایت کو ترمذی ابوداود اوربہت ساری کتابوں سے موصوف نے پیش کرکے کہا کہ اس پریہ اعترض ہوسکتاہے کہ اس کی سند میں ”محمدبن اسحاق“ ہےاوریہ ضعیف ہے لیکن میں اس کی توثیق ثابت کرسکتاہوں۔
جوابا عرض ہے کہ کسی بھی اہل حدیث کا یہ اعتراض نہیں ہے کہ ”محمدبن اسحاق“ ضعیف ہےبلکہ اعتراض یہ ہے کہ ساری کتابوں میں یہ روایت ایک ہی سند سے نقل کی گئی ہے اوراس میں ”محمدبن اسحاق“ راوی ہے جس نے ”عن“ سے روایت کیا ہے اوریہ ”مدلس“ ہے۔
  ✿  امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
 ”هُوَ كَثِيرُ التَّدْلِيسِ جِدًّا“ 
 ”یہ بہت زیادہ تدلیس کرنے والے ہیں“ [الضعفاء الكبير للعقيلي 4/ 28 وسندہ صحیح، و الحضربن داود ثقة علي الراجح]
 ✿  امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
 ”كان يدلس على الضعفاء فوقع المناكير في روايته“ 
 ”یہ ضعفاء پر تدلیس کرتے تھے جس کے سبب ان کی روایت میں منکرات ہیں“ [الثقات لابن حبان 7/ 383]
 ✿ خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
 ”ويدلس في حديثه“ 
 ”یہ اپنی حدیث میں تدلیس کرتے ہیں“ [تاريخ بغداد 2/ 21]
 ✿ امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
 ”محمد بن إسحاق وهو مدلس“ 
 ”محمدبن اسحاق مدلس ہیں“ [مجمع الزوائد:10/ 27]
 ✿ حافظ ابن حجررحمہ اللہ انہیں ”طبقات المدلسین“ کے ”چوتھے طبقہ“ میں ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ”صدوق مشهور بالتدليس عن الضعفاء والمجهولين وعن شر منهم“ 
 ”یہ صدوق ہیں اور ضعفاء ومجہولین اوران سے بھی بدترین لوگوں سے تدلیس کرنے میں مشہور ہیں“ [تعريف اهل التقديس بمراتب الموصوفين بالتدليس ص: 51]

مذکورہ بالا تمام اقوال کاخلاصہ یہ کہ محمدبن اسحاق کثیر التدلیس ”مدلس“ راوی ہیں اوراصول حدیث میں یہ بات مسلم ہے کہ کثیرالتدلیس مدلس کا ”عنعنہ“ مردود ہوتاہے، یعنی وہ جس روایت کو وہ ”عن“ سے روایت کرے وہ روایت ضعیف ونامقبول ہوتی ہے۔
اورمذکورہ حدیث کے کسی بھی طریق میں محمدبن اسحاق کے سماع کی تصریح نہیں ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔

کیا حدیث مذکورکی کوئی دوسری سند بھی ہے؟؟؟
بریلوی مقرر نے لوگوں کو مغالطہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ اس حدیث کی ایک دوسری سند ایسی بھی ہے جس کے اندر محمدبن اسحاق راوی نہیں ہے ، چنانچہ نے موصوف نے امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب خلق افعال العباد سے مذکورہ حدیث درج ذیل سند سے پیش کی :
”قَالَ أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: كَانَ الْوَلِيدُ بْنُ الْوَلِيدِ رَجُلًا يَفْزَعُ فِي مَنَامِهِ، وَذَكَرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ: إِذَا اضْطَجَعْتَ لِلنَّوْمِ فَقُلْ: بِسْمِ اللَّهِ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشيَاطينَ، وَأَنْ يَحْضَرُونَ فقَالَهَا فَذَهَبَ ذَلِكَ عَنْهُ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «مَنْ بَلَغَ مِنْ بَنيِهِ عَلَّمَهُ إِيَّاهُنَّ، وَمَنْ كَانَ مِنْهُمْ صَغيرًا لَا يَعِيهَا كَتَبَهَا وَعَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ“ [خلق أفعال العباد للبخاري ص: 96 بتحقیق عبد الرحمن عميرة] 
اس کو پیش کرنے کے بعد بریلوی مقررنے کہا کہ دیکھیں اس سند میں ”محمد بن اسحاق“ نہیں ہے اس لئے اس سند پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔
جوابا عرض ہے کہ یہ بات کہنا یا تو اصول حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے ، یا صریح ہٹ دھرمی ہے ، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی محولہ کتاب خلق افعال العباد والی روایت کی سندمیں بھی ”محمدبن اسحاق“ ہی ہے۔
دراصل خلق افعال العباد کا جونسخہ عبد الرحمن عميرة صاحب کی تحقیق سے چھپا ہے اس میں غلطی سے مذکورہ حدیث کی سند میں ”محمدبن اسحاق“ کی جگہ ”محمدبن اسماعیل“ چھاپ دیا گیا ہے، مکتبہ شاملہ میں‌ بھی یہی نسخہ ہے اوراس میں‌ بھی یہی غلطی ہے، مقررموصوف نے جہالت یا ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے دوسرا راوی سمجھ لیا ۔
حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ کتاب ہمارے ناقص علم کے مطابق پوری دنیا میں سب سے پہلے ہندوستان سے چھی اوراس میں حدیث کی سند میں م ”حمدبن اسحاق“ ہی چھپا تھا۔ [دیکھئے خلق افعال العباد :ص 88مطبوعہ ہند] 
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی ہندوستانی مطبوعہ نسخہ سے اس حدیث کی سنداپنی کتاب صحیحہ میں نقل کی جیساکہ بریلوی مقررنے بھی اس کا حوالہ دیا تھا لیکن آن جناب نے یہ مغالطہ دیا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے جبکہ ایساہرگزنہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف کہا ہے.
البتہ اس حدیث کا ابتدائی ٹکڑا جس میں تعویذ والی مستدل بات نہیں ہے وہ چونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیقی میں دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے اس لئے صرف اس حصہ کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن کہا ہے اورساتھ میں پوری صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کردی ہے کہ اس حدیث میں تعویذوالی بات ہے اس کی تائید کسی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی بلکہ یہ بات صرف اسی ضعیف حدیث ہی میں ہے اس لئے یہ ضعیف ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ ”الصحيحة“ میں لکھتے ہیں:
”قلت: لكن ابن إسحاق مدلس وقد عنعنه في جميع الطرق عنه، وهذه الزيادة منكرة عندي، لتفرده بها. والله أعلم“ 
 ”میں (البانی) کہتاہوں: لیکن ابن اسحاق مدلس ہیں اورتمام طرق میں عن سے روایت کیا ہے ، اوریہ زیادت میرے نزدیک منکر ہے کیونکہ اسے صرف ابن اسحاق نے ہی بیان کیا ہے“ [سلسلة الأحاديث الصحيحة: 1 / 529] 
اس کے بعد علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب خلق افعال العباد مطبوعہ ھند سے اس روایت کی سند ان الفاظ میں پیش کی ہے:
 ”وقد علقه البخاري في أفعال العباد (ص 88 طبع الهند) : قال أحمد بن خالد حدثنا محمد بن إسحاق به مثل لفظ ابن عياش“ [ سلسلة الأحاديث الصحيحة 1/ 529] 

لیکن بریلوی مقررنے یہ سب کچھ دیکھنے اورپڑھنے کے باوجود بھی عوام کودھوکہ دیااوران کے سامنے صرف یہ کہا کہ اہل حدیث کے بہت بڑے عالم البانی نے بھی اسے صحیحہ میں نقل کیا ہے۔
نیز اسی صحیحہ میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے خلق ”افعال العباد“ کے ہندوستانی مطبوعہ نسخہ سے مذکورہ حدیث کی سندمیں ”محمدبن اسحاق“ کانام نقل کیا ہے لیکن بریلوی مقررنے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں ۔
ہندوستانی مطبوعہ نسخہ کے علاوہ بلاد عرب میں امام بخاری رحمہ اللہ کی یہی کتاب شیخ فہدبن سلیمان الفہید کی تحقیق سے بھی چھپی ہے اوراس میں اس حدیث کی سند میں ”محمدبن اسماعیل“ کے بجائے ”محمدبن اسحاق“ ہی ہے ۔
ملاحظہ ہو اس نسخہ کا فوٹو:
صرف یہی نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس کتاب کے جتنے بھی مخطوطے ہیں ہماری ناقص علم کے مطابق کسی ایک میں بھی مذکورہ سند میں ”محمدبن اسحاق“ کی جگہ ”محمدبن اسماعیل“ نہیں ہے، شیخ فہدبن سلیمان الفہید نے سات قلمی نسخوں کوسامنے رکھتے ہوئے اس کتاب کی تحقیق کی ہے لیکن کسی ایک بھی مخطوطہ میں انہیں ”محمدبن اسحاق“ کی جگہ ”محمدبن اسماعیل“ نظر نہیں‌ آیا ، کیونکہ انہوں نے مذکورہ حدیث کی سند میں ”محمدبن اسحاق“ ہی کانام درج کیا ہے اورحا شیہ میں ”محمدبن اسحاق“ کے نام پرکوئی حاشیہ نہیں لگایا ہے اوراس مقام پر کسی بھی نسخے کا کوئی اختلاف ذکر نہیں کیا ہے۔
شیخ فہدبن سلیمان الفہیدنے جن نسخوں کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ کتاب کی تحقیق کی ہے ان میں سے ایک نسخہ کا عکس اگے ملاحظہ ہوا:



ایک اورزبردست شہادت
امام بخاری رحمہ اللہ نے ”خلق افعال العباد“ میں جس راوی ’’أحمد بن خالد‘‘ سے مذکورہ روایت نقل کی ہے ٹھیک اسی راوی سے اسی حدیث کو امام ابونعیم الاصبہانی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب ”معرفة الصحابة“ (5/ 2727) میں روایت کیا ہے اور امام ابونعیم رحمہ اللہ کی اس کتاب میں‌ بھی ’’أحمد بن خالد‘‘ کے استاذ کا نام ’’محمد بن إسحاق‘‘ ہی ہے ۔
ملاحظہ ہو امام ابونعیم اصبہانی رحمہ اللہ کی کتاب معرفة الصحابة کے محولہ صفحہ کا فوٹو:

دوسری زبردست شہادت
امام بخاری رحمہ اللہ نے ”خلق افعال العباد“ میں جس راوی ”أحمد بن خالد“ سے مذکورہ روایت نقل کی ہے ٹھیک اسی راوی سے اسی حدیث کو امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب (عمل اليوم والليلة ص: 453 رقم766 )میں روایت کیا ہے اور امام نسائی رحمہ اللہ کی اس کتاب میں‌ بھی ”أحمد بن خالد“ کے استاذ کا نام ”محمد بن إسحاق“ ہی ہے ۔
ملاحظہ ہو امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
”أَخْبرنِي عمرَان بن بكار قَالَ حَدثنَا أَحْمد بن خَالِد قَالَ حَدثنَا ابْن اسحق عَن عَمْرو بن شُعَيْب عَن أَبِيه عَن جده قَالَ كَانَ خَالِد بن الْوَلِيد بن الْمُغيرَة رجلا يفزع فِي مَنَامه فَذكر ذَلِك لرَسُول الله ﷺ فَقَالَ لَهُ النَّبِي ﷺ إِذا اضطجعت فَقل باسم الله أعوذ بِكَلِمَات الله التَّامَّة من غَضَبه وعقابه و (من) شَرّ عباده وَمن همزات الشَّيَاطِين وَأَن يحْضرُون فَقَالَهَا فَذهب ذَلِك عَنهُ“ [عمل اليوم والليلة للنسائي ص: 453 رقم766 ]۔

تیسری زبردست شہادت
امام بخاری رحمہ اللہ نے ”خلق افعال العباد“ میں جس راوی ”أحمد بن خالد“ سے مذکورہ روایت نقل کی ہے ٹھیک اسی راوی سے اسی حدیث کو امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب [التمهيد: 24/ 110] میں روایت کیا ہے اور امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی اس کتاب التمهيد میں‌ بھی ”أحمد بن خالد“ کے استاذ کا نام ”محمد بن إسحاق“ ہی ہے ۔
ملاحظہ ہو:
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
”أَخْبَرَنَا قَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَنْجَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْوَهْبِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جده كَانَ الْوَلِيدُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ يُرَوَّعُ فِي مَنَامِهِ قَالَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺإِذَا اضْطَجَعْتَ لِلنَّوْمِ فَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَشَرِّ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَقَالَهَا فَذَهَبَ عَنْهُ ذَلِكَ فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو يُعَلِّمُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ بَنِيهِ وَمَنْ كَانَ منهم صغيرا لَا يُقِيمُهَا كَتَبَهَا وَعَلَّقَهَا عَلَيْهِ“ [التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 24/ 110]

کچھ مزید شواہد
مذکورہ حقائق کے ساتھ اس بات پر بھی غورکیجئے کہ :
◈ ”أحمد بن خالد“ کے اساتذہ میں ”محمدبن اسحاق“ کا ذکر تو ملتا ہے مگر ”محمدبن اسماعیل“ کاذکرکہیں نہیں ملتاہے۔
◈ ”عمرو بن شعيب“ کے شاگردوں میں ”محمدبن اسحاق“ کا ذکر تو ملتا ہے مگر ”محمدبن اسماعیل“ کاذکرکہیں نہیں ملتاہے۔
مذکورہ حدیث بہت ساری کتب احادیث میں ہے مگر سب میں‌ ”محمدبن اسحاق“ ہی کے طریق سے مروی ہے۔

''محمدبن اسماعیل'' کون؟؟؟؟
ان تفصیلات کے بعد بھی اگرکوئی بضد ہے کہ خلق افعال العباد میں ”محمد بن اسحاق“ نہیں بلکہ ”محمدبن اسماعیل“ ہے توہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اس طبقہ میں اس راوی کا تعین کریں اوراس کے حالات اوراس کی توثیق پیش کردیں، نیزاس کے اساتذہ اورتلامذہ کی فہرست بھی پیش کریں۔
اوراگریہ معلومات نہ پیش کرسکیں تو خود اس راوی کی عدم معرفت کے سبب یہ روایت بھی ضعیف قرارپائے گی۔

خلاصہ کلام:
الغرض یہ کہ مذکورہ روایت کی صرف اورصرف ایک ہی سند ہے جس میں ”ابن اسحاق“ مدلس راوی نے ”عن“ سے روایت کیا ہے اورکسی بھی طریق میں نہ تو اس کے سماع کی تصریح ہے اورنہ ہی اس کا کوئی ثقہ متابع موجود ہے ، اس لئے یہ روایت ضعیف ہے۔
(کفایت اللہ سنابلی)

4 comments:

  1. ماشا؍ اللہ بہت عمدہ علمی رد پیش کیا، اللہ اس مضمون کو نفع بخش بنائے آمین۔

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. 10/2/20 23:34

    البتہ جب بات اہل حدیث کے وجود کی تاریخ کی بات آگئی تھی تو مختصر طور پر ضمنا ان کے وجود کو بیان کردیتے تو بہت بہتر ہوتا اور لوگوں کے یہاں انگریزوں کی پیداور والی تصور کا مزیدازالہ ہوجاتا ۔شکریہ

    ReplyDelete