باب چہارم: حواشی کے حصے - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-10-05

باب چہارم: حواشی کے حصے

باب چہارم: حواشی کے حصے

اگرفروع یا اصول میں سے کوئی مذکر موجود ہوگا تو حواشی میں سے سب کے سب محجوب ہوجائیں گے ، یہ قاعدہ اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیں ۔
شروع میں بتایا جاچکا ہے کہ گروپ حواشی میں دو گروہ ہیں ایک اخوہ کا دوسرا عمومۃ کا ، عمومہ کے گروہ میں کسی کو بھی فرضا حصہ نہیں ملتا بلکہ سب کو صرف عصبہ ہی کی حیثیت سے حصہ ملتا ہے ۔ اور اخوۃ گروہ سے مذکر میں سے صرف أخ لأم کو فرضا حصہ ملتا ہے اور مؤنث میں ساری خواتین کو فرضا حصہ ملتا ہے۔

حواشی کے حصوں پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ ان آیات کا مفہوم سمجھ لیا جائے جن میں ہرقسم کے بھائی اور بہنوں کی میراث کا ذکر ہے ۔یہ کل دو آیات ہے اور دونوں میں ایک لفظ کلالہ ذکر ہے اس لئے ان آیات کو آیت کلالہ کہتے ہیں ۔
پہلی آیت:
﴿وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ﴾
اور جن کی میراث لی جاتی ہے وه مرد یا عورت کلالہ ہو یعنی اس کا باپ بیٹا نہ ہو۔ اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں[النساء: 12]
اس پہلی آیت میں جن بھائی اوربہنوں کا ذکر ہے ان سے بالاتفاق اخوہ لأم یعنی ماں شریک بھائی بہن مراد ہیں ۔
بلکہ سعدبن وقاص رضی اللہ عنہ یہ آیت پڑھتے تو﴿وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ﴾ کے بعد {لِأُمٍّ} پڑھتے تھے [سنن الدارمي 4/ 1945 واسنادہ صحیح]
بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں اخوہ لأم کا بیان ہے۔

دوسری آیت:
﴿قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾
آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے(مذکر ➊ ) اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے [النساء: 176]
اس دوسری آیت میں جن بھائی اور بہنوں کاذکر ہےان سے باتفاق امت اخوہ لغیر أم یعنی سگے یا باپ شریک بھائی بہن مراد ہیں ۔
غور کیجئے کہ مذکورہ دونوں آیات میں دو الگ الگ قسم کے بھائی بہنوں کا ذکر ہے اوران دونوں کے حصوں کی نوعیت بھی الگ الگ ہے ، یعنی ان دونوں آیات میں بیان کئے گئے وارثین بھی الگ الگ ہیں اور ان کے حصے بھی الگ الگ ہیں ۔
لیکن دونوں آیات میں ایک بات مشترک یہ ہے کہ مؤرث یعنی میت کو کلالہ کہا گیا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں آیات میں مؤرث (میت ) کی نوعیت ایک ہی ہے ۔
اب پہلی آیت دیکھیں تو مؤرث کو کلالہ تو کہا گیا ہے لیکن کلالہ کی کوئی نوعیت نہیں ذکر کی گئی ہے جبکہ دوسری آیت میں مؤرث کو کلالہ کہا گیا ہے اور اس کی یہ نوعیت ذکر ہے کہ ﴿لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ﴾ ، مورث کی اولاد نہیں ہوگی ۔اس سے ثابت ہوا کہ پہلی آیت میں مذکور مؤرث کی بھی کوئی اولاد نہیں ہوگی کیونکہ اسے بھی کلالہ کہاگیاہے۔
دونوں آیات کو ملا کر نتیجہ یہ نکلا کہ کسی بھی قسم کے بھائی یابہن کو تبھی حصہ ملے گا جب ان کا مؤرث کلالہ ہو اور مؤرث کلالہ تب ہوگا جب مؤرث کی کوئی اولاد نہ ہو ۔
مطلب یہ ہوا کہ اگرکسی مؤرث کی اولاد ہے تو وہ کلالہ نہیں ہے لہٰذا ایسے مؤرث کے بھائی بہنوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہہ لیں کہ مؤرث کی اولاد (فروع مذکریامؤنث)، مؤرث کے بھائیوں اور بہنوں کو محجوب کردیتے ہیں ۔اسی سے حجب کے درج ذیل دو عمومی قواعد بنے ہیں:
قاعدہ نمبر(1):
فروع کا مذکر تمام بھائی بہنوں کو محجوب کردے گا۔
قاعدہ نمبر(2):
فروع کی مؤنث تمام بھائی بہنوں کو محجوب کردے گی۔
پہلا قاعدہ اپنے عموم پرباقی ہے ، لیکن دوسرے قاعدہ میں خاص احادیث(حدیث عصبہ ،حدیث ابن مسعود ➋ ) کے سبب اخوہ لغیرأم یعنی سگے اور باپ شریک بھائی بہن کے محجوب نہ ہونے کا استثناء ہے ، البتہ اخوہ لأم یعنی ماں شریک بھائی بہن کے لئے کوئی استثناء نہیں اس لئے یہ فرع مؤنث سے محجوب ہوں گے اس بناپر دوسرا عمومی قاعدہ ، خصوصی احادیث کی بناپر اس طرح بنا کہ :
قاعدہ نمبر(2):
فروع کی مؤنث اخوہ لأم یعنی ماں شریک بھائی بہن کو محجوب کردے گی۔

اتنی باتیں سمجھنے کے بعد اب آیات کلالہ میں دوسری آیت پردوبارہ غور کریں اس میں یہ الفاظ ہیں:
﴿وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ﴾(اور کلالہ کی ایک بہن ہو تو اس بہن کے لئے کلالہ کے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے)[النساء: 176]
ان الفاظ میں کلالہ کے مال میں کلالہ کی بہن کو نصف کا حقدار دار قراردیا گیا ہے ، اب اگر کلالہ کے ساتھ باپ کاوجود بھی مان لیں تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ باپ جیسے مضبوط وارث کے ساتھ ایسی حالت بھی آسکتی ہے کہ اسے کچھ بھی نہ ملے۔
مثلا اگر میت کے وارثین میں زوج ہو ، اب اوراخت شقیقہ ہو تو:
Screenshot_1.jpg
زوج کونصف ملے گا اور اخت شقیقہ کو نصف ملے گا ان دونوں پرپورا مال ختم ہوگیا اور اب (باپ) کے لئے کچھ بچا ہی نہیں ، غور کریں کہ باپ جسے میت کے سب سے قریبی وارث بیٹے کی موجودگی میں بھی سدس ملتا ہے بلکہ میت کی صرف بیٹی ہو تو اب کو سدس کے ساتھ باقی بھی ملتا ہے تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جو میت کا اتنا قوی وارث ہو وہ میت کے سب سے قریبی وارث اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں بھی محروم رہ جائے ؟
اس سے اشارہ ملتا ہے کہ بہن کو نصف ملنے کی صورت میں باپ کا وجود ہی نہیں ہے ۔معلوم ہوا کلالہ وہ میت ہوگا جس کا باپ بھی موجود نہ ہو ۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ یہی استدال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لأن الأخت لا يفرض لها النصف مع الوالد، کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن کا حصہ نصف نہیں ہوسکتا[تفسير ابن كثير / دار طيبة 2/ 484]
اس کے علاوہ اور بھی کچھ عمومی دلائل ہیں جن سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ کلالہ کا باپ بھی موجود نہ ہوگا ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کلالہ کی یہی تفسیر ثابت ہے دیکھئے [سنن الدارمي 4/ 1945 واسنادہ صحیح]
عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ سے بھی یہی تفسیر ثابت ہے [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 6/ 224 واسنادہ صحیح]
اس کے برخلاف عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے یا تو سکوت کا قول ثابت ہے یا مجمل قول ثابت ہے یعنی صرحتا اس کے خلاف کوئی بات عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے۔
بلکہ اس مفہوم پر پوری امت نے اتفاق کرلیا ہے لہٰذا یہ مفہوم قطعی طور پر درست ہے ۔
اس روشنی میں حجب کا ایک تیسرا قاعدہ یہ نکلا کہ :
قاعدہ نمبر(3):
اصول کا مذکرمیت کے تمام بھائی بہن کو محجوب کردیں گے۔
اس تفصیل کے بعد حواشی کے حصوں کو دیکھئے۔
#####################################
➊ '' مذکر'' کی قیدخاص حدیث کے سبب ہے۔دیکھئے ،سنن الترمذی ،رقم٢٠٩٢والحدیث حسن۔
➋ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مطابق جب فرع مؤنث کے ساتھ'' اخت لغیر ام'' عصبہ مع الغیر بنتی ہے تو'' اخوہ لغیرام'' فرع مؤنث کی موجودگی میں بدرجہ اولی عصبہ بالنفس اور عصبہ بالغیر بن سکتے ہیں ۔


اگلاحصہ

No comments:

Post a Comment