اخوۃ لأم کے حصے
حالات:
1:محجوب : -جب فروع میں سے کوئی بھی مذکر یا مؤنث (میت کی اولاد ) ہو۔یا اصول میں سے کوئی مذکر ہو۔
2:ثلث(1/3): -حاجب نہ ہو اور متعدد ہوں (یعنی ایک سے زائد ہوں خواہ سب مذکر ہوں یاسب مؤنث ہوں یا دونوں ہوں)
3: سدس(1/6) :-حاجب نہ ہو اور منفرد ہو (یعنی اخوۃ لأم میں سے کوئی ایک ہی مذکر یا مؤنث ہو)
وضاحت:
اخوہ لأم یعنی ماں شریک بھائی بہن فرضا حصہ پانے میں بالکل یکساں ہوتے ہیں ، یعنی ان کے مابین لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ کا اصول نہیں چلتا بلکہ مذکر ومؤنث سب کو برابر برابر حصہ ملتا ہے اس لئے اخ لأم اور أخت لأم یعنی ماں شریک بھائی بہن ، دونوں کی حالتیں یکساں ہیں لہٰذا دونوں کو ایک ساتھ اخوہ لأم سے تعبیر کرتے ہوئے دونوں کی حالتیں ایک ساتھ لکھی جاتی ہیں ۔ان کی کل تین حالتیں ہوتی ہیں جو درج ذیل ہیں:
✿ پہلی حالت: محجوب:
اگر فروع میں سے مذکر یا مؤنث یعنی میت کی کوئی بھی اولاد ہو یا اصول میں سے مذکر ہو تو اخوہ لأم کو کچھ نہیں ملے گا۔
دلیل:
آیت کلالہ کی تشریح کے ساتھ اس کے دلائل گذرچکی ہے۔
✿ دوسری حالت ثلث(1/3):
اخوہ لأم کا حاجب نہ ہو یعنی فروع میں سے مذکر یا مؤنث کوئی بھی اور اصول میں سے مذکر نہ ہو، اور اخوۃ لأم ایک سے زائد ہوں خواہ سب مذکر ہوں یا سب مؤنث ہوں یا دونوں مل کر ہوں ،تو انہیں ثلث ملے گا۔یعنی ایک ثلث میں سب برابر کے شریک ہوں گے، خواہ دونوں مذکرہوں یا مؤنث یا دونوں مل کرہوں یعنی ان کے مابین ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ کا اصول نہیں چلے گا۔
دلیل:
﴿ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ﴾
اور اگر (کلالہ کے بھائی بہن ) ایک سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں[النساء: 12]
✿ تیسری حالت:سدس(1/6) :
اگراخوہ لام کا کوئی حاجب نہ ہو یعنی فروع میں سے مذکر یا مؤنث کوئی بھی اور اصول میں سے مذکر نہ ہو، اور اخوۃ لأم میں سے کوئی ایک ہی مذکر یا مؤنث ہو تو اسے سدس ملے گا۔
دلیل:
﴿وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ﴾
اور اس(کلالہ) کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے[النساء: 12]
فائدۃ:
اخوہ لأم کے لئے بہت سے معاملات میں فرائض کے عام اصولوں سے استثناء ہے مثلا:
1۔حجب میں اصول واسطہ سے ہر وہ وارث جو کسی واسطے سے میت کا رشتہ دار ہو وہ اس واسطے کی موجوگی میں محجوب ہوجاتا ہے لیکن اخوہ لأم ، یہ أم (ماں) کے واسطے سے میت کے رشتہ دار ہوتے ہیں لیکن ماں کی موجودگی میں بھی یہ محجوب نہیں ہوتے ۔
2۔ میت کے وہ وارثین جو ایک ہی درجے میں آپس میں بھائی بہن ہوتے ہیں وہ عصبہ بنتے ہیں اور مذکر کو مؤنث کے مقابلے میں ڈبل ملتا ہے لیکن اخوہ لأم میں بھائی بہن عصبہ نہیں بنتے بلکہ دونوں فرضا برابر حصہ پاتے ہیں ۔
3۔حواشی میں مذکر حواشی اپنے دور کے مذکر یا مؤنث حواشی کو محجوب کردیتے ہیں لیکن حواشی سے اخوہ لأم کو کوئی محجوب نہیں کرسکتا اورنہ اخوہ لأم کسی کو محجوب کرتے ہیں ۔
4۔حواشی میں میت کی بہنیں میت کی فرع مؤنث کے ساتھ عصبہ مع الغیر بن کر باقی پاتی ہیں لیکن حواشی میں میت کی اخت لأم (ماں شریک بہن ) فرع مؤنث کے ساتھ عصبہ مع الغیر نہیں بنتی بلکہ فرع مؤنث اخت لأم کو محجوب کردیتی ہے۔
ان سارے استثناءات کی دلیل یہ ہے کہ قرآن میں اخوہ لأم کو خصوصی طور پر ذکر کرکے ان کی خاص حالتیں بتلادی گئی ہیں اس لئے خاص دلائل کے سبب ان کے معاملے کو عمومی اصولوں سے مستثنی کیا جاتا ہے۔
اگلاحصہ
No comments:
Post a Comment