جدہ صحیحہ(دادی ،یا نانی) کا حصہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-10-04

جدہ صحیحہ(دادی ،یا نانی) کا حصہ

جدہ صحیحہ(دادی ،یا نانی) کا حصہ

میت کے'' أب'' کی غیر موجودگی میں، اس کی جگہ میت کے'' أبوالأب'' کورکھا جاتا ہے؛لیکن میت کی'' أم'' کی غیرموجوگی میں، اس کی جگہ میت کی'' أم الأم'' یا'' أم الأب'' یعنی جدہ کو نہیں رکھا جاتا، اس کے کئی اسباب ہیں لیکن صرف اتناجان لینا کافی ہے کہ حدیث میں جدہ کا خصوصی حصہ ذکر ہے ،لہٰذا اس کا معاملہ الگ ہے۔
نوٹ:ـ
واضح رہے کہ بعض اہل علم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ میت کی ماں کی عدم موجودگی میں میت کی جدہ،ماں کی جگہ لے لے گی یعنی ماں کی عدم موجودگی میں اس کاحصہ بالکل ماں کی طرح ہوگا یہ موقف رکھنے والے اہل علم جدہ کو سدس دینے والی روایت کو صحیح نہیں مانتے لیکن درست بات یہی ہے کہ جدہ کوسدس دینے والی روایت کم ازکم حسن ہے لہٰذا جدہ کا معاملہ حدیث کے مطابق الگ ہی ہوگا۔

حالات:
1: محجوب بالأم:- جب ماں یا قریب کی جدہ موجود ہو تو ایسی جدہ محجوب ہوگی۔
2: سدس(1/6) :- حاجب نہ ہویعنی ماں یا قریب کی جدہ موجود نہ ہو۔
Screenshot_5.jpg
وضاحت:
جدۃ لأب (دادی)یا جدۃ لأم(نانی) کا حصہ قرآن میں موجود نہیں ہے لیکن حدیث سے خاص دلیل موجود ہے کہ ماں کی عدم موجودگی میں نانی یا دادی کو سدس دیا جائے گا ۔
بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:
أن النبي صلى الله عليه وسلم جعل للجدة السدس، إذا لم يكن دونها أم
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جدہ (نانی یادادی) کے لئے سدس (چھٹاحصہ) مقررکیا بشرطیکہ ماں موجود نہ ہو۔(سنن ابی داؤد رقم2895) یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ۔
اس سلسلے کی روایات میں ضعف ہے لیکن تعدد طرق سے یہ روایات درجہ قبول تک پہنچ جاتی ہیں ان روایات كي سندوں پر تفصیلی بحث کی یہ کتاب متحمل نہیں ہے ۔

✿ پہلی حالت: محجوب:
اگرماں موجود ہو یاقریبی جدۃ موجود ہو تو ہرقسم کی جدہ محجوب ہوجائے گی جیساکہ اوپر صریح حدیث پیش کی جاچکی ہے۔مثالیں:
Screenshot_6.jpg
✿ دوسری حالت:
اگرماں موجود نہ ہو نہ قریبی جدہ موجود ہوتو ہرقسم کی جدہ کو سدس ملے گا جیساکہ اوپرصریح حدیث پیش کی جاچکی ہے،مثالیں:
Screenshot_7.jpg

جدۃ لأب میں حجب کا اختلاف:
جدہ لأب یعنی دادی ماں کی موجودگی میں محجوب ہوگی اس پر سب کا اتفاق ہے لیکن باپ کی موجودگی میں محجوب ہوگی یا نہیں اس بارے میں اختلاف ہے ۔
حجب کی بحث میں اصول واسطہ کی وضاحت گذرچکی ہے اس اصول کے مطابق باپ کی موجودگی میں جدہ لأب محجوب ہونی چاہے ۔اس بناپر بعض اہل علم کی رائے یہ کہ باپ کی موجوگی میں جدہ لأب (دادی) محجوب ہوگی۔
لیکن دیگراہل علم حجب کے اصول واسطہ سے جدۃ لأب کا بھی استثناء کرتے ہیں جس طرح اخوہ لأم کا استثناء کیا جاتا ہے۔
اور اس استثناء کی دلیل مذکورہ خاص حدیث ہے جس میں صرف ماں کی موجودگی میں جدہ کو محجوب قرار دیا گیا ہے۔لہٰذا اس خاص دلیل کی بناپر باپ دادی کو محجوب نہیں کرسکتا امام احمد رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے اور یہی راجح ہے۔کیونکہ جب ہم نے خاص دلیل کی بناپر اخوہ لأم کو حجب کے اصول واسطہ سے مستثنی کیا ہے توخاص دلیل کی بناپر جدہ لأب کو بھی مستثنی کرنا چاہئے دونوں میں تفریق کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ امام احمد رحمہ اللہ کے موقف میں نص کو قیاس پر مقدم کیا گیا ہے جبکہ ان کے مخالفین کے موقف میں قیاس کو نص پر مقدم کیا گیا ہے اور یہ جائز نہیں کیونکہ نص کے ہوتے ہوئے قیاس کرنا درست نہیں ہے۔

ایک سے زائد جدات کا حصہ:
اگر ایک ساتھ ایک سے زائد جدات جمع ہوں جائیں مثلا ایک دادی ہو ایک نانی ہو تو سب کو الگ الگ سدس نہیں ملے گا بلکہ جدات کی پوری جماعت کو سدس ملے گا جو ان کے مابین برابر برابرتقسیم کیا جائے گا جیسے ایک سے زائد زوجات کے سلسلے میں ساری زوجات ایک ہی حصہ میں برابر کی شریک ہوتی ہیں ۔
اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ بعض روایات میں ایسے ہی وارد ہے اور دوسری دلیل یہ کہ اس قسم میں مرد شامل نہیں ہوتا اس لئے یہ زوجات کی قبیل سے ہیں ۔

جدات کا تسلسل اور جدہ صحیحۃ:
جدۃ کی نسل جس قدربھی دور جائے گی سب وارث بنیں گی لیکن شرط یہ ہے کہ دور کی جدۃ ایسی ہو جس پر أم الأم یا أم الأب کا اطلاق ہوسکتا ہوایسی جدہ کو جدہ صحیحہ کہتے ہیں۔
جدۃ صحیحہ کی تعریف:
وہ جدہ کہ میت تک اس کے رشتہ میں جد فاسد نہ آئے۔
یا بالفاظ دیگر وہ جدۃ کہ میت تک اس کے رشتہ میں مذکر کے بعد مؤنث نہ آئے۔جیسے :
أم أم أم الأم
أم أم أم الأب
أم أب أب أب

جدہ فاسدۃ کی تعریف:
وہ جدہ کی میت تک اس کے رشتہ میں جد فاسد آجائے
یا بالفاظ دیگر میت تک اس کے رشتہ میں مذکر کے بعد مؤنث آجائے تو اسے جدہ فاسدہ کہتے ہیں۔
ماں کی نسل میں جدۃ فاسدہ کی مثال: أم أبی الأم
اس کے رشتہ میں جد فاسد (أبو الأم یعنی نانا) موجود ہے ۔دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ مذکر کے بعد مونث آگئی۔اس لئے پر أم الأم کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔
باپ کی نسل میں جدہ فاسدۃ کی مثال: أم أب أم الأب
اس کے رشتہ میں جد فاسد(أب أم الأب یعنی میت کے باپ کا نانا ) موجود ہے دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ مذکر کے بعد مؤنث آگئی اس لئے اس پر أم الأب کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔

جدۃ فاسدۃ وارث کیوں نہیں ہوتی ؟
دراصل حدیث میں جس جدۃ کا وارث ہونا ثابت ہے وہ میت کی ماں کی أم (ماں) ہے یا میت کے باپ کی أم( ماں) ہے ۔یعنی میت کے والد یا والدۃ کی أم(ماں) کا وارث ہونا ثابت ہے۔
اور جدۃ صحیحہ والد یا والدہ کی أم (ماں) کے مفہوم میں شامل ہے جبکہ جدۃ فاسدۃ پر میت کے والد یاوالدہ کی أم کا اطلاق نہیں ہوتا اس لئے وہ أم کے مفہوم میں شامل نہیں ہوسکتی ، لہٰذا وارث نہیں ہوتی۔

مشق:
٭ أب ، ابن ، بنت
٭ أب ، بنت ، أخ ش
٭ أب ، ابن ، أخ لأب
٭ أب ، أم ، ابن ، بنت
٭ أم ، ابن ، بنت
٭ أم ، بنت ، عم ش
٭زوج ، أب ، أم
٭ أم ، أبوالأب ، أم الأم
٭أم ، أبوالأب ، أم الأب
٭ أم لأم ، أم الأب، أخ ش


اگلاحصہ

No comments:

Post a Comment