أم(ماں) کا حصہ
حالات:
1: سدس(1/6) :-فرع وارث مطلق یا جمع من الاخوۃ ہوں۔
2:ثلث(1/3):- فرع وارث مطلقا نہ ہو اور جمع من الاخوۃ نہ ہوں
وضاحت:
ماں کو عام طور پر باپ کی طرح صاحب فرض کی حیثیت سے سدس ہی ملتا ہے، لیکن جب میت کی کوئی اولاد نہ ہو، تو ماں کے حصہ کی مقدار سدس سے بڑھا کر ثلث کردی گئی ہے؛ اور باقی سارے مال کا حقدار باپ کو قراردیا گیا ہے۔
نیزاگر میت کی کوئی اولاد نہ ہو لیکن میت کے بھائی بہن ایک سے زائد ہوں ، خواہ دوبھائی ہوں ، یا دوبہن ہوں ، یا ایک بھائی ایک بہن ہوں،نیز یہ بھائی یا بہن ،کسی بھی قسم سے ہوں یعنی سگے ہوں یا باپ شریک ہوں یا ماں شریک ہوں ،بہرصورت اگر بھائی بہن کی تعداد ایک سے زائد ہوگی تو اس صورت میں بھی ماں کا حصہ سدس ہی رکھا گیا ہے۔
✿ پہلی حالت:سدس (1/6) :
سدس ملنے کی شرط:
أم(ماں )کو سدس ملنے کی شرط یہ ہے کہ:
فرع وارث مطلق ہو یعنی فروع میں کوئی بھی مذکر یا مؤنث ہو۔ یا جمع من الاخوۃ ہوں یعنی کسی بھی جہت (سگے یا سوتیلے)بھائی بہنوں میں سے ایک سے زائد لوگ ہوں خواہ یہ سب بھائی ہوں یا سب بہن ہوں یا دونوں مل کرہوں۔
دلیل:
﴿وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ﴾
اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے، اگر اس (میت) کی اولاد ہو[النساء: 11]
﴿فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ﴾
اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے[النساء: 11]
اس آیت میں اخوہ کا لفظ عام ہے جو ہرجہت کے مذکرومؤنث سب کو شامل ہے۔
تنبیہ:
ماں اگراس وجہ سے سدس پارہی ہے کہ، میت کے بھائی بہنوں میں سے ایک سے زائد ہیں، تو ایسی صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ، بھائی بہنو ں میں سے کوئی ایک ہی وارث بن رہاہو، اور باقی محجوب ہورہے ہوں؛ یاسارے بھائی بہن محجوب ہورہے ہوں؛ لیکن اپنے تعدد کے سبب، ماں کے حصہ کو سدس بناتے ہوں،جیساکہ اوپر کی بعض مثالوں میں ہے۔اس لئے ماں کو حصہ دیتے وقت، اگر بھائی بہن محجوب ہورہے ہوں؛ توبھی انہیں وارثین کی فہرست میں رکھنا چاہئے، تاکہ ماں کا حصہ طے کرنے میں غلطی نہ ہو ۔
یہاں کسی کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میت کی اولاد بھی نہیں ہے، اور ایک سے زائد بھائی بھی حصہ نہیں پارہے ہیں ،اس لئے ماں کو ثلث دے دیا جائے ۔کیونکہ قرآن نے محض بھائی بہنوں میں ایک سے زائد کے وجود ہی پر ،ماں کا حصہ سدس بتلایا ہے؛ لہٰذا ایسی صورت میں ماں کو ثلث نہیں، بلکہ سدس ہی دیا جائے گا۔
✿ دوسری حالت: ثلث(1/3):
ثلث پانے کی شرط:
أم(ماں) کو ثلث اس وقت دیا جائے گا جب میت کی سرے سے کوئی اولاد نہ ہو اور نہ جمع من الاخوہ ہوں یعنی کسی بھی جہت (سگے یا سوتیلے) سے بھائی بہنوں میں ایک سے زائد لوگ نہ ہوں ۔نیز وارثین کا مسئلہ عمریہ نہ ہو یعنی وارثین میں صرف شریک حیات اوروالدین ہی نہ ہوں۔
دلیل:
{فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ}
اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوتے ہوں تو اس کی ماں کے لئے تیسرا حصہ ہے، ہاں اگر میت کے کئی بھائی ہوں تو پھر اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے۔ [النساء: 11]
نوٹ:-مسئلہ عمریہ میں ماں کی ایک تیسری حالت ہوتی ہے جو مختلف فیہ ہے اس کی وضاحت ص(٦٩) پرحاشیہ میں ہوچکی ہے۔
اگلاحصہ
No comments:
Post a Comment