باب سوم: اصول کے حصے - Kifayatullah Sanabili Official website

2019-10-01

باب سوم: اصول کے حصے

باب سوم: اصول کے حصے

أب(باپ) کا حصہ

حالات:
1: سدس(1/6) :- فرع وارث مذکر (بیٹا یا پوتا) موجود ہو۔
2: سدس(1/6)+باقی :- فرع وارث میں صرف مؤنث (بیٹی یا بیٹیاں، پوتی یا پوتیاں) ہوں۔
3: باقی :- بالا صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو۔
Screenshot_1.jpg
وضاحت:
باپ کی اصلا ایک ہی حالت ہے کہ اسے صاحب فرض کی حیثیت سے سدس ملے جیساکہ قرآن میں ہے اوراکثر باپ کی یہی حالت ہوتی ہے، لیکن باپ کی موجودگی میں جب وارثین کو ان کے حق کے مطابق حصے دینے کے بعد کچھ بچ جاتا ہے تو وہ باپ کو ہی عصبہ کی حیثیت سے ملتا ہے ، اور باقی بچنے کی صورت الگ الگ ہوتی اس لئے اسی اعتبار سے باپ حصے کی مزید دوحالتیں ہوتی ہیں، یعنی اس کی کل تین حالتیں ہوجاتی ہیں:

✿ پہلی حالت:سدس (1/6) :
سدس ملنے کی شرط:
أب(باپ) کو سدس ملنے کی شرط یہ ہے کہ فرع وارث مذکر یعنی ابن (بیٹا) موجود ہو قطع نظر اس کے کہ فرع وارث مؤنث بھی موجود ہے یا نہیں ۔
دلیل:
﴿وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ﴾
اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے اس کے چھوڑے ہوئے مال کا چھٹا حصہ ہے، اگر اس (میت) کی اولاد ہو[النساء: 11]
صرف سدس ملنے کی توجیہ:
فرع وارث مذکر( یعنی بیٹا یا پوتا) کی موجودگی میں باپ کو صرف سدس ہی کیوں ملتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فرع وارث مذکر عصبہ ہوتا ہے یعنی باقی بچا ہوا سارا مال اسی کو ملتا ہے ، اگرفرع مذکر تنہا ہوگا تو سارا باقی مال اسی کو ملے گا اور اگر فرع وارث مؤنث (یعنی بیٹی یا پوتی )کے ساتھ ہوگا تو باقی سارا مال انہیں دونوں کو ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ کے تحت ملے گا۔لہٰذا اس حالت میں أب(باپ ) کو مزید کچھ ملنے کی گنجائش نہیں ہے۔اس لئے اسے سدس کے علاوہ کچھ اور نہیں مل سکتا۔
Screenshot_1.jpg

✿ دوسری حالت: سدس+باقی:
أب(باپ) کو کبھی کبھی سدس کے ساتھ مزید وہ مال بھی مل جاتا ہے جو وارثین میں ان کے حصے کے مطابق بانٹے کے بعد باقی بچ جاتا ہے۔یعنی اسے صاحب فرض اور عصبہ دونوں حیثیت سے ایک ساتھ ملتا ہے۔
واضح رہے کہ اس حالت میں باقی مال أب(باپ) کو تبھی ملے گا جب دیگر وارثین کو ان کے حصے دینے کے بعد کچھ بچ جائے ، لیکن بسااوقات دیگر وارثین پر مال ختم ہوجاتا ہے اور کچھ باقی بچتا ہی نہیں ایسی صورت میں أب(باپ) کو صرف اپنے حصے سدس پر ہی بس کرنا پڑتا ہے۔
سدس +باقی ملنے کی شرط:
أب(باپ) کو سدس+باقی ملنے کی شرط یہ ہے کہ فرع وارث میں صرف مؤنث فرع وارث (یعنی بیٹی یا پوتی )ہو اورفرع وارث مذکر(یعنی بیٹا یا پوتا) موجود نہ ہو ۔
دلیل:
سدس ملنے کی دلیل گذرچکی ہے اوراس کے ساتھ باقی ملنے کی دلیل حدیث عصبہ ہے ۔

سدس+باقی ملنے کی توجیہ:
فرع وارث میں صرف مؤنث (یعنی بیٹی یا پوتی )ہی ہو تو أب(باپ) کو سدس کے ساتھ باقی بھی ملنے کی وجہ یہ ہے کہ مؤنث فرع وارث بیٹی کو زیادہ سے زیادہ نصف ہی مل سکتا ہے اس سے زائد نہیں ۔لہٰذا بیٹی کو نصف دینے کے بعد پورا نصف دیگر وارثین کے لئے ہوتا اورچونکہ فروع کے علاوہ دیگر وارثین کے حصے بہت کم مقدار کے ہوتے ہیں اس لئے اگردیگر وارثین زیادہ نہ ہوں تو دیگر وارثین میں مال بانٹے کے بعد بھی کچھ بچ جاتا ہے پھر یہ بچا ہوا مال باپ ہی کو لوٹایا جاتا ہے۔
Screenshot_2.jpg
باقی مال صرف أب(باپ) ہی کو کیوں ؟

اس کی وجہ ماقبل میں مذکور حدیث ہے کہ اصحاب الفروض کو دینے کے بعد باقی مال سب سے قریبی مذکر وارث کو دیا جائے ،چونکہ میت کے بیٹے کے نہ ہونے کے سبب ہی مال میں سے کچھ باقی بچتا ہے اس لئے بیٹے کی عدم موجودگی میں مذکروارثین میں باپ سے زیادہ میت کا کوئی قریبی وارث نہیں ہوتا لہٰذا باقی مال اسی کو ملتا ہے۔
کبھی کبھار باقی نہ بچنے کی وجہ:
کبھی کبھار أب(باپ) باقی مال کا مستحق ہوتا ہے لیکن اسے باقی اس لئے نہیں مل پاتا کیونکہ دیگر وارثین پر سارا مال ختم ہوچکا ہوتا ہے اور کچھ باقی بچتا ہی نہیں۔
ایسا تب ہوتا ہے جب فرع وارث مؤنث کے علاوہ دیگر وارثین زیادہ ہوں تو ان کی کثرت کی وجہ سے فرع مؤنث(بیٹی یاپوتی) کو نصف(آدھا) دینے کے بعد جو دوسرا نصف(آدھا) ہوتا ہے وہ کثیر تعداد میں تقسیم ہوکر ختم ہوجاتا ہے ،بلکہ بسا اوقات کم بھی پڑ جاتا ہے جسے عول کہتے ہیں جس کی تفصیل آگے آئے گی ۔مثالیں:
Screenshot_3.jpg

✿ تیسری حالت: صرف باقی :
أب (باپ) کو کبھی باقی شدہ سارا مال ملتا ہے ۔بشرطیہ کہ وارثین کو ان کے حصے دینے کے بعد کچھ بچ جائے۔
باقی ملنے کی شرط:
اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو ، یعنی سرے سے فرع وارث (بیٹا یا بیٹی ) موجود ہی نہ ہو تو ایسی حالت میں باقی بچا مال پوار أب(باپ) کے ملے گا۔
دلیل :
اس کی دلیل حدیث عصبہ ہے۔
باقی ملنے کی توجیہ:
اس حالت میں أب(باپ) طے شدہ حصہ نہیں پاتا اس لئے جب مال باقی بچ جاتا ہے تو حدیث عصبہ کے تحت باقی مال اسے ہی مل جاتا ہے۔
Screenshot_4.jpg

مسئلہ عمریہ کی تشریح:
باپ کو باقی ملنے کی ایک حالت اور ہے جو مختلف فیہ ہے۔
وہ یہ کہ کسی میت کے وارثین میں صرف شریک حیات (شوہر یا بیوی) کے ساتھ والدین(باپ اورماں) ہوں اور ان کے علاوہ مزید کوئی وارث نہ ہو(یامزید وارث ہو تو محجوب ہورہاہو،نیز اس کے سبب ماں کا حصہ ثلث سے کم نہ ہورہا ہو) ۔
مثلا:
٭ ایک مردفوت ہوااور اس کے وارثین میں اس کی بیوی اور اس کے والدین ہیں۔
قرآن کے اصول سے اس مسئلہ میں بیوی کو'' ربع'' ملے گا، ماں کو'' ثلث ''ملے گا اور ''باقی'' باپ کو ملے گا۔
٭یا ایک عورت فوت ہوئی اس کے وارثین میں اس کا شوہر اور اس کے والدین ہیں۔
قرآن کے اصول سے اس مسئلہ میں شوہرکو''نصف'' ملے گا، ماں کو ''ثلث ''ملے گا اور'' باقی'' باپ کو ملے گا۔
ان دونوں حالتوں میں ایک ہی طبقے میں مرد اور عورت کے اکٹھا ہونے کے باوجودمرد کو عورت کے دوگنا نہیں ملتا بلکہ مؤخرالذکر مثال میں تو عورت ہی کو مرد کے مقابل میں دوگنامل جاتاہے۔
اس لئے ان دونوں حالتوں میں بعض اہل علم کے نزدیک ماں کا ثلث حصہ ختم کرکے اسے باقی مال میں شامل کردیا جائے گا ، پھر باقی کل مال کے تین حصے کرکے دوحصے باپ کو ایک حصہ ماں کو دیاجائے گا۔یہ فیصلہ سب سے پہلے عمرفاروق tنے کیا تھا اس لئے اس مسئلہ کو ''مسئلہ عمریہ''کہاجاتاہے۔
جمہور نے اسی قول کو اختیار کیا ہے مگر ابن عباسt نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے قرآن سے ثابت شدہ مسئلہ ہی کو درست کہا ہے(مصنف ابن أبی شیبة:١١ /٢٤٢ وسنادہ صحیح) نیزحدیث عصبہ بھی ابن عباس tکے موقف کی تائید کرتی ہے اہل ظاہر نے ابن عباسtکے قول ہی کو اختیار کیا ہے بلکہ امام ابن حزم a نے ابن عباسt کی تائید کرتے ہوئے مخالفین پر زبردست ردکیاہے۔
بعض اہل علم نے مسئلہ عمریہ کوقرآن ہی سے اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن نے ماں کے ثلث پانے کی یہ شرط لگائی ہے کہ جب میت کی اولاد نہ ہو اوروالدین وارث ہوتے ہوں تبھی ماں کو ثلث مل سکتا ہے،ورنہ والدین کی قید بے معنی ہوجائے گی ۔
لیکن یہ استدلال اس لئے غلط ہے کہ باپ کے نہ ہوتے ہوئے صرف ماںاور بھائی کی صورت میں بھی ماں کو ثلث دینے پر سب کا اتفاق ہے ،رہی بات والدین کے قیدکی تو یہ قید نہیں بلکہ اولاد کی عدم موجودگی میں والدین کے حصوں کا بیان ہے ، جس طرح اس سے پہلے اولاد کی موجودگی میں والدین کا حصہ سدس بتایا گیا ہے ،ٹھیک اسی طرح یہاں اولاد کی عدم موجودگی میں والدین کا حصہ اس طرح بتایاگیا کہ ماں کوثلث ملے گا بشرطیہ کہ اخوہ نہ ہوں اور باپ بھی وارث ہوگا ،یعنی اسے باقی ملے گا،جیساکہ حدیث عصبہ بھی اسی پر دلالت کرتی ہے۔لہٰذا یہ الفاظ زائد نہیں ہیں بلکہ ان کے ذریعہ اولاد کے نہ ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کاحصہ بتایاگیاہے، یعنی دریں صورت ماں کا حصہ فرضی'' ثلث'' اور باپ کا حصہ عصبی ''باقی'' بتایاگیاہے۔

اگلا حصہ

No comments:

Post a Comment