ذوی الارحام
(3rd Tier relatives)
وارثین کی قسموں کے بیان میں ذوی الارحام کی تفصیل نہیں پیش کی گئی تھی، کیونکہ ان کو حصہ دینے کی نوبت بہت کم آتی ہے ۔لیکن اخیر میں ان کے بارے میں مختصرا صرف اتنی باتیں عرض کی جارہی ہیں جو ہمارے نزدیک راجح ہیں، اور ذوی الارحام میں تقسیم میراث کا طریقہ سیکھنے کے لئے کافی ہیں۔
لغوی معنی :-
ارحام یہ رحم کی جمع ہے اور رحم کا مطلب عورت کی بچہ دانی ہے ۔عام مفہوم میں ہر اس شخص کو رحمی رشتہ دار کہا جاتا ہے جو رحم کے واسطے سے رشتہ میں جڑتا ہو۔
اصطلاحی معنی:-
فرائض کی اصطلاح میں ذوی الارحام سے مراد میت کے صرف وہ رحمی رشتہ دار ہیں جو نہ اصحاب الفروض میں سے ہوں اور نہ عصبہ میں سے ہوں۔
ذوی الارحام کو میراث دینے کی دلیل:
﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ﴾
اور رشتے دار کتاب اللہ کی رو سے، بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حق دار ہیں [٣٣/احزاب:٦]
اس آیت میں یہ اصولی بیان ہے کہ میت کے رحمی رشتہ دار میت کی میراث کے مستحق ہیں، لہٰذا اگراصل اور منصوص وارثین میں سے کوئی نہ ہو تو میت کا مال اس کے دیگر رحمی رشتہ داروں ہی کو دیا جائے گا۔
ذوی الارحام کی فہرست :-
اصل وارثین کی طرح ذوی الارحام کو بھی ہم گروپوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، زوجین چونکہ ذوی الارحام میں نہیں آتے، اس لئے اس گروپ کو چھوڑکر باقی تین گروپ ذوی الارحام کے بھی بنیں گے ۔
✿ فروع:-أولاد البنات وبنات الابن(بیٹی اور پوتی کی اولاد )
اس گروہ میں بیٹا اور اس کی اولاد نیز بیٹی اور پوتی وارث ہوتے ہیں ، باقی بچے بیٹی اور پوتی کی اولاد تو یہ ذوی الارحام ہیں ۔
✿ اصول:-الجد الفاسد والجدة الفاسدة (جد فاسد اور جدة فاسدہ )
اس گروہ میں والدین ،جد صحیح اور جدة صحیحة وارث ہیں ، باقی بچے جد فاسد اور جدة فاسدہ تو یہ ذوی الارحام میں سے ہیں ۔
✿ حواشی:
اخوة:
أولاد الخوة لأم والأخوات مطلقا ، وبنات الخوة لغیر ام ، وبنات بنیھم(اخوہ لام اورہرطرح کی (سگی،باپ ،ماں شریک) بہنوں کی اولاد ،اوراخوہ لغیر ام کی بیٹیاں، نیز ان کے بیٹوں کی بیٹیاں)
عمومة:
٭(باپ کی جانب سے،یعنی باپ کے اخوہ)
العم لأم والعمات مطلقا(ماں شریک چچا اور ہرطرح کی(سگی،باپ یاماںشریک) پھوپھیاں )
بنات العم لغیرأم وبنات بنیھم (سگے اور باپ شریک چچا کی لڑکیاں اوران کے لڑکوں کی لڑکیاں )
٭(ماں کی جانب سے،یعنی ماں کے اخوہ )
الأخوال مطلقا والخالات مطلقا (ہرطرح کے ماموں اور ہرطرح کی خالائیں )
نوٹ:ـمذکورہ بالا تمام ذوی الارحام میں سے کسی کے واسطے سے کوئی اور شخص میت کارشتہ دارہوگا تو وہ بھی ذوی الارحام میں شامل ہوگا۔جیسے ابن الخال (ماموں کا لڑکا) ابن العمہ(پھوپھی کالڑکا) وغیرہ۔
ذوی لارحام میں تقسیم میراث
اصل وارثین کی عدم موجودگی میں ذوی الارحام میں میراث کیسے تقسیم ہوگی، اس بارے میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ہر رحمی رشتہ دار جس وارث کا رشتہ دار بنے گا، اسے اسی وارث کاحصہ دے دیا جائے گا اس طریقے کو تنزیل کا طریقہ کہتے ہیں یعنی رحمی رشتہ دار کو اصل وارث کی جگہ رکھ کر اس وارث کا حصہ اسے دے دینا ۔ہماری نظر میں یہی قول راجح ہے ۔
تنزیل کے قائلین میں آپس میں ایک اختلاف یہ ہے کہ جن اصل وارثین کو (لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ)(عورت کے مقابل میں مرد کو ڈبل)ملتا ہے ان کے رحمی رشتہ داروں میں بھی اسی اصول پرعمل کریں گے، یا اخوة لام پرسب کو قیاس کرتے ہوئے سارے رحمی رشتہ داروں میں برابری کے ساتھ تقسیم کریں گے ۔
پہلا قول:
اکثر یت کاکہنا یہ ہے کہ اصل وارثین میں، رحمی رشتہ دار اخوہ لام کے مابین، تساوی اور برابری کا معاملہ ہوتا ہے؛ اور چونکہ ذوی الارحام سب رحمی رشتہ دار ہی ہوتے ہیں اس لئے اخوة لام پر قیاس کرتے ہوئے سب کے مابین برابری کا معاملہ کیاجائے گا۔
دوسرا قول:
اخوة لام کے جو رحمی رشتہ دار ہوں گے ان کے مابین تو برابری کے اصول پر عمل کیا جائے گا، لیکن دیگر رحمی رشتہ داروں کے مابین ایسا نہیں کیا جائے گا ،کیونکہ تنزیل میں ہم رحمی رشتہ دار کو اصل وارث کی جگہ رکھ کر حصہ دیتے ہیں، لہٰذا اصل وارثین کے مابین جہاں تساوی ہیں وہاں تساوی پر عمل کریں گے جیسے اخوہ لام کامعاملہ ہے ،اورجہاں (لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ)کا اصول کار فرما ہے وہا ں اسی اصول پر عمل کریں گے۔
شیخ ابن عثیمین aنے امام احمد aسے ایک قول یہی نقل کیا ہے اور اسے قوی قرار دیا ہے ،[ تسہیل الفرائض:ص ٦٠،٦١]
یہی دوسرا قول ہی قوی ہے لیکن ہمارے نزدیک مناسب بات یہ ہے کہ اخوہ لام کے رحمی رشتہ داروں میں تساوی کی بات کرنے کے بجائے، ان رشتہ داروں کے مابین تساوی کی بات کہنی چاہئے جو حقیقی وارث کے اخوہ لام بنتے ہوں ،جیسے باپ کے ماں شریک بھائی یابہن ۔
کیونکہ جب ہم تنزیل کے اصول پر عمل کررہے ہیں یعنی رحمی رشتہ دار کو حقیقی وارث کا مقام دے رہے ہیں، تو حقیقی وارث کی جس حالت میں جو کیفیت ہوتی ہے ، اس حالت میں رحمی رشتہ دار کی بھی وہی کیفیت ہونی چاہئے ۔
طریقہ تقسیم:
رحمی رشتہ دارایک ہوں یا ایک سے زائد، یہ جن حقیقی وارثین کے رشتہ دار ہوں، ان حقیقی وارثین ہی کو سب سے پہلے میراث کے اصول کے مطابق حصہ دیں گے ، اس کے بعد ان حقیقی وارثین میں سے ہرایک کا حصہ، اس کے رحمی رشتہ دار کے حوالے کردیں گے۔یعنی دو مرحلوں میں عمل کیا جائے گا۔
پہلا مرحلہ:-پہلے یہ فرض کرلیں گے کہ حقیقی وارثین ہی زندہ ہیں ، پھر اسی اعتبار سے ان سب کو حصہ دیں گے۔
دوسرا مرحلہ:-اس کے بعد ان حقیقی وارثین کر مردہ مان کر، ان میں سے ہرایک کا حصہ اس کے رشتہ داروں میں تقسیم کردیں گے۔
مثال:
زید فوت ہوا حقیقی وارثین میں سے کوئی نہیں ہے ، لیکن رحمی رشتہ داروں میں اس کا نانا(ابوالام) مصطفی ہے ، نواسہ(ابن البنت) حسن ہے ، نواسی(بنت البنت) فاطمہ ہے ، اور بھتیجی(بنت الاخ الشقیق) رابعہ ہے ۔
حل:
رحمی رشتہ داروں کو نظر انداز کرکے ان کے اوپر کے حقیقی وارثین کو حصہ دیں گے، یہاں حقیقی وارثین میں مصطفی کی جگہ میت کی ام (ماں) ہے، اور حسن اور فاطمہ کی جگہ میت کی بنت(بیٹی) ہے ، اور بھتیجی رابعہ کی جگہ اخ شقیق(سگا بھائی) ہے۔
سب سے پہلے ان حقیقی وارثین کو زندہ مان کر ان کو حصے دیں گے۔
اصل مسئلہ (٦)ہوگا ، ام(ماں) کو سدس یعنی (١)حصہ ملا ، بنت(بیٹی) کو نصف یعنی (٣) حصے ملے ، باقی یعنی (٢)حصے اخ ش(سگے بھائی) کوملے۔
اس کے بعد ان حقیقی وارثین کو مردہ مان کر ان کے حصہ کو میراث کے اصول کے تحت ان کے ورثاء میں تقسیم کریں گے۔
ام (ماں)کے حصہ کی تقسیم:
ام(ماں) کو (١)حصہ ملا ہے، اس کا ایک ہی وارث اس کا باپ مصطفی ہے لہٰذا یہ حصہ مصطفی کو ملے گا۔
بنت (بیٹی) کے حصہ کی تقسیم:
بنت (بیٹی) کو(٣)حصے ملے ہیں اور اس کے دو وارث بیٹا حسن اوربیٹی فاطمہ ہیں ، لہٰذا (٣) حصے ان دونوں کو دیں گے ، اصول (لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ)کے تحت حسن کو (٢)حصہ، اور فاطمہ کو (١)حصہ ملے گا۔
اخ شقیق (سگے بھائی) کے حصہ کی تقسیم:
اخ شقیق(سگے بھائی) کو (٢)حصے ملے ہیں اور اس کی ایک وارث ایک بیٹی رابعہ ہے ، لہٰذا یہ (٢)حصے رابعہ کو ملیں گے۔(حکما فرض ورد کے اعتبارسے)
دوسری مثال:
خالد فوت ہوا حقیقی وارثین میں سے کوئی نہیں ہے لیکن رحمی رشتہ داروں میں ایک ماں شریک چچا (باپ کا اخ لام )عباس ہے ،اور ایک ماں شریک پھوپھی(باپ کی اخت لام) مریم ہے۔اور ایک سگی بھتیجی (بنت الاخ الشقیق)رخسانہ ہے۔
حل:
رحمی رشتہ داروں کو نظر انداز کرکے ان کے اوپر حقیقی وارثین میں عباس اور مریم کی جگہ، میت کا اب (باپ)ہے۔اور رخسانہ کی جگہ، میت کا اخ شقیق ہے۔
سب سے پہلے ان حقیقی وارثین کو زندہ مان کر ان کو حصے دیں گے۔
باپ کی موجودگی میں اخ شقیق محجوب ہوجائے گا لہذا اس کی بیٹی یعنی خالد کی بھتیجی رخسانہ کو کچھ نہیں ملے گا۔
اس کے بعد صرف اب (باپ )بچا لہٰذا خالد کا پورا ترکہ اسی کو ملے گا۔
اس کے بعد حقیقی وارث خالدکے باپ کو مردہ مان کر،اس ترکہ کو میراث کے اصول کے تحت اس کے ورثاء میں تقسیم کریں گے۔
باپ کو پوری جائداد ملی ہے اور اس کے وارثین میں اس کا ایک ماں شریک بھائی عباس اور ایک ماں شریک بہن مریم ہے ۔یہ دونوں اخوہ لام ہیں، لہٰذا خالد کا ترکہ ان دونوں میں برابر تقسیم کردیا جائے گا۔(حکما فرض ورد کے اعتبارسے)
نوٹ:-اگر ذوی الارحام میں کوئی دو واسطوں سے میت سے جڑتا ہوتو اسے دونوں واسطوں کاحصہ ملے گا،مثلا ایک شخص فوت ہوا،اس کے رشتہ داروں میں اس کی نواسی کا ایک بیٹا ہے جواس کے نواسے کا بھی بیٹا ہے ۔ نیز اس کی ایک پھوپھی ہے۔
No comments:
Post a Comment