عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اثر - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-21

عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اثر


عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا اثر
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
”حدثنا موسى بن هارون، نا إسماعيل بن إبراهيم الترجماني، نا سعيد بن عبد الرحمن الجمحي، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، أن رجلا أتى عمر، فقال: إني طلقت امرأتي البتة وهي حائض، فقال عمر: عصيت ربك، وفارقت امرأتك، فقال الرجل: «فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر ابن عمر حين فارق امرأته أن يراجعها» ، فقال له عمر: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره أن يراجع بطلاق بقي له» ، وإنه لم يبق لك ما ترجع به امرأتك“ 
 ”ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا : میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق بتہ دے دی ہے تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی جدا ہوچکی ہے ، تو اس شخص نے کہا: لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ابن عمررضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی واپس لے لیں جب انہوں نے (اسی طرح ) اپنی بیوی کو الگ کیا تھا ، تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کیونکہ ان کے پاس مزید طلاق باقی تھی اورتمہارے پاس تو کوئی طلاق باقی نہیں ہے کہ تم اپنی بیوی کو واپس لے سکو“ [المعجم الأوسط 8/ 81 ررقم 8029 وأخرجه الدارقطني في سننه رقم 3905 ومن طريقه البيهقي في سننه رقم 14956من طريق البغوي، وأخرجه الدارقطني رقم 3905 من طريق ابن صاعد ۔كلهم (موسى بن هارون و البغوي وابن صاعد) عن إسماعيل بن إبراهيم الترجماني به]

عرض ہے کہ یہ روایت دو علتوں کی بناپر ضعیف ومردود ہے:

 ✿ پہلی علت: سعيد بن عبد الرحمن الجمحي کا تفرد:
اس روایت میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کلام ذکر کرنے میں ”سعيد بن عبد الرحمن الجمحي“ منفرد ہے ۔اس روایت کے دیگر کسی بھی طریق میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کلام ذکر نہیں ہے ۔
 امام ابو القاسم بغوي رحمه الله (المتوفى317) رحمہ اللہ جو خود اس حدیث کے راوی ہیں جیساکہ دارقطنی کی سند میں ان کا نام ( على ابن عبد الله بن محمد بن عبد العزيز) موجود ہے ، انہیں امام ابو القاسم بغوي رحمه الله سے ان کے شاگرد امام دارقطنی نے یہ روایت بیان کرنے کے بعد اس پر ان کا کلام نقل کیا ہے چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”قال لنا أبو القاسم: روى هذا الحديث غير واحد لم يذكر فيه كلام عمر ولا أعلمه روى هذا الكلام غير سعيد بن عبد الرحمن الجمحي“ 
 ”ہم سے امام ابو القاسم بغوي رحمه الله نے کہا کہ اس حدیث کو کئی راویوں نے نقل کیا ہے مگر کسی نے بھی اس میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا نام ذکر نہیں کیا ہے اور میں نہیں جانتا کہ اس کلام کو سعيد بن عبد الرحمن الجمحي کے علاوہ کسی نے ذکر کیا ہو“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 15]

چنانچہ ”نافع“ کے علاوہ اسی حدیث کو ”ابن عمر رضی اللہ عنہ“ سے دس رواۃ نے بیان کی ہے ان دس میں سے کسی نے بھی اس روایت میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کلام ذکر نہیں کیاہے, یہ دس رواۃ یہ ہیں:
 ➊ سالم بن عبد الله (صحيح البخاري 6/ 155رقم 4908)
 ➋ يونس بن جبير (صحيح البخاري 7/ 59 رقم 5333)
 ➌ أنس بن سيرين (صحيح مسلم 2/ 1097رقم1471)
 ➍ عبدالله بن دينار (صحيح مسلم 2/ 1095رقم 1471)
 ➎ طاوس بن كيسان (صحيح مسلم 2/ 1097رقم 1471)
 ➏ سعيد بن جبير (صحيح ابن حبان 10/ 81 رقم 4264 وإسناده صحيح علي شرط مسلم)
 ➐ محمد بن مسلم أبو الزبير (مصنف عبد الرزاق 6/ 309 رقم 10960 وإسناده صحيح)
 ➑ شقيق بن سلمة أبو وائل (مصنف ابن بي شيب. سلفية: 5/ 3 وإسناده صحيح)
 ➒ ميمن بن مهران (السنن الكبري للبيهقي، ط الهند: 7/ 326 وإسناده صحيح)
 ➓ مغيرة بن يونس (شرح معاني الآثار 3/ 53 رقم 4464 وإسناده حسن)

اسی طرح ”نافع“ سے بھی اس روایت کو عبیداللہ کے علاوہ دس رواۃ نے نقل کیا ہے ان دس میں سے کسی نے بھی عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کلام بیان نہیں کیا یہ دس رواۃ درج ذیل ہیں:
 ① الليث بن سعد عن نافع (صحيح البخاري 7/ 58 رقم 5332)
 ② مالک بن انس عن نافع (صحيح مسلم 2/ 1093 رقم 1471)
 ③ یحیی بن سعید عن نافع (سنن النسائي 6/ 212 رقم 3556 واسنادہ صحیح)
 ④ موسی بن عقبہ عن نافع(سنن النسائي 6/ 212 رقم 3556 واسنادہ صحیح)
 ⑤ محمدبن اسحاق عن نافع (سنن النسائي 6/ 212 رقم 3556 واسنادہ صحیح)
 ⑥ أيوب السختيانى عن نافع (مصنف عبد الرزاق 6/ 308 واسنادہ صحیح)
 ⑦ إسماعيل بن إبراهيم بن عقبة عن نافع(سنن الدارقطني 5/ 51 رقم 3968 واسنادہ صحیح)
 ⑧ صالح بن كيسان عن نافع (سنن الدارقطني 4/ 9 واسنادہ صحیح)
 ⑨ معقل بن عُبيد الله عن نافع (المعجم الأوسط 2/ 174 واسنادہ صحیح)
 ⑩ ابن جریج عن نافع(مسند عمر بن الخطاب للنجاد ص: 58 واسنادہ صحیح الی ابن جریج)

اسی طرح ”عبیداللہ“ سے بھی اس روایت کو عبیداللہ کے علاوہ دس رواۃ نے نقل کیا ہے ان دس میں سے کسی نے بھی عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کلام بیان نہیں کیا یہ دس رواۃ درج ذیل ہیں:
(1) نمیر عن عبیداللہ(صحيح مسلم 2/ 1094رقم 1471) 
(2) معتمر عن عبیداللہ (سنن النسائي 6/ 140 رقم 3396 وإسناده صحيح)
(3) ابن المبارك عن عبیداللہ (سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: رقم 3919 وإسناده صحيح)
(4) ابن إدريس عن عبیداللہ (سنن النسائي 6/ 212 وإسناده صحيح)
(5) بشر بن المفضل عن عبیداللہ (صحيح ابن حبان، ت الأرنؤوط: رقم 4263 وإسناده صحيح)
(6) يحيى بن سعيد عن عبیداللہ (مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 54 وإسناده صحيح)
(7) معمر بن راشد عن عبیداللہ (مسند عمر بن الخطاب للنجاد ص: 49 وإسناده صحيح)
(8) حماد بن سلمہ عن عبیداللہ (مسند أبي داود الطيالسي 3/ 382 وإسناده صحيح) 
(9) محمد بن عبيد عن عبیداللہ (مسند أحمد ط الميمنية: 2/ 102وإسناده صحيح) 
(10) عقبة بن خالد عن عبیداللہ (المنتقى لابن الجارود ص: 183 وإسناده صحيح) 

 ملاحظہ فرمائیں کہ سند کے کسی بھی طبقہ کے رواۃ ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا وہ کلام بیان نہیں کررہے ہیں جسے تنہا ”سعيد بن عبد الرحمن الجمحي“ بیان کرتا ہے۔
اور یہ گرچہ صدوق وسچا راوی ہے لیکن اس کے حافظہ پر کلام ہے چنا نچہ:

 ⟐ امام يعقوب بن سفيان الفسوي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
 ”وهو لين الحديث“ ، ”یہ کمزور حدیث والا ہے“ [المعرفة والتاريخ 3/ 138]

 ⟐ امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365) نے کہا:
 ”وإنما يهم عندي في الشيء بعد الشيء، فيرفع موقوفا، ويوصل مرسلا“ 
 ”میرے نزدیک یہ ایک چیز کو دوسری طرح بیان کردیتاہے موقوف کو مرفوع اور مرسل کو متصل بنادیتا ہے“ [الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 5/ 530]

 ⟐ امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
 ”يروي عن عبيد الله بن عمر وغيره من الثقات أشياء موضوعة يتخايل إلى من يسمعها أنه كان المتعمد لها“ 
 ”اس نے عبیداللہ بن عمرو وغیرہ ثقہ راویوں سے ایسی من گھڑت احادیث روایت کی ہیں کہ انہیں سننے والے کو یہ گمان ہوتا ہے کہ اسی نے انہیں گھڑا ہے“ [المجروحين لابن حبان، ت حمدي: 1/ 405]

 ⟐ حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
 ”ولينه بعضهم من قبل حفظه“ 
 ”بعض نے اس کے حفظ کے لحاظ سے اس کی تضعیف کی ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 10/ 150]

حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس کے حافظے پر کلام ہی کے سبب تقریب میں اسے صدوق کہنے کے ساتھ ساتھ اسے وہم والا بھی کہاہے چنانچہ کہا:
 ”صدوق له أوهام وأفرط بن حبان في تضعيفه“ 
 ”یہ صدوق ہے لیکن وہم والا ہے اور ابن حبان نے اس کی تضعیف میں افراط سے کام لیا ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 154]

ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن حبان کی طرف جو یہ منسوب کیا ہے کہ انہوں اس کی تضعیف میں افراط سے کام لیا ہے ، تو عرض ہے کہ ابن حبان کا کلام اوپر گذر چکا ہے اس میں ابن حبان رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ اسے ہی حدیث گھڑنے والا نہیں کہا ہے کہ بلکہ یہ بیان کیا ہے کہ یہ ”عبیداللہ“ وغیرہ ثقہ رواۃ کے طریق سے ایسی ایسی جھوٹی باتیں بیان کرتا ہے کہ سننے والے کو یہ گمان ہوسکتا ہے کہ اسی نے انہیں گھڑا ہے۔
دراصل ابن حبان یہ کہنا چاہے ہیں کہ یہ جب ”عبیداللہ“ وغیرہ ثقہ رواۃ سے جھوٹی احادیث بیان کرتاہے کہ تو چونکہ اس کے اوپر سند میں سب کے سب اعلی درجے کے ثقہ راوی ہی ہوتے ہیں ، اس لئے کوئی جھوٹ کی ذمہ داری اسی پر ڈال سکتا ہے ۔لیکن یہ اس کے حافظہ کی کوتاہی کا نتیجہ ہوتا ہے ، کیونکہ وہ غلطی سے جھوٹی حدیث پر صحیح سند فٹ کردیتا ہے۔
اس کے بعد امام ابن حبان رحمہ اللہ نے عبیداللہ سے اس کی بعض روایات کو پیش کرکے واضح کیا ہے کہ کس طرح یہ ان سے روایت کرتے ہوئے سند کے بیان میں غلطی کرتا ہے ، جبکہ روایت کسی اور سندسے ہوتی ہے۔ تو ابن حبان کی جرح بھی اس کے حافظہ پر ہی جرح ہے ۔

ابن حبان کی جرح سے معلوم ہوا کہ یہ راوی خاص کر جب ”عبیداللہ“ سے بیان کرتے تو اس کی روایت سخت ضعیف بلکہ جھوٹی بھی ہوسکتی ہے ۔ اور زیربحث روایت اس نے عبیداللہ سے ہی بیان کی ہے ، اور سند کے تمام طبقات کے رواۃ کی مخالفت کی ہے اس لئے یہ روایت سخت ضعیف ومردود بلکہ باطل ہے۔

 ✿ دوسری علت: سعيد بن عبد الرحمن الجمحي کا اضطراب:
اس روایت میں دوسری خرابی یہ ہے کہ ”سعيد بن عبد الرحمن الجمحي“ اس کی سند بیان کرنے میں اضطراب کا بھی شکار ہوا ہے چنانچہ طبرانی وغیرہ کی روایت میں تو اس نے اس سند کو متصل بیان کیاہے لیکن امام يحيى بن أيوب المقابري سے اس نے اس روایت کو منقطع بیان کیا ہے چنانچہ:
 امام أبو بكر النجاد (المتوفى 348 ) نے اس کی متصل سند والی روایت کو بیان کرنے بعد فورا کہا:
 ”حدثنا الحسن بن علي، ثنا يحيى بن أيوب، ثنا سعيد بن عبد الرحمن، ثنا عبيد الله، عن نافع أن رجلا سأل عمر ذكر أنه طلق امرأته البتة وهي حائض، ثم ذكر مثله، ولم يذكر ابن عمر“ 
 ”نافع کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ اس نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی ہے ، اس کے بعد عمرفاروق والی گذشتہ روایت کو ہو بہو بیان کیا لیکن سند میں( نافع کے بعد) ابن عمر کو ذکر نہیں کیا“ [ مسند عمر بن الخطاب للنجاد ص 57]

ملاحظہ کیجئے کہ اس سند میں ”سعيد بن عبد الرحمن الجمحي“ نے اس روایت کو منقطع بیان کیا ہے ۔
اور اوپرامام ابن عدی کا قول گذر چکا ہے کہ یہ مرسل ومنقطع سند کو متصل بھی بیان کردیتا ہے ۔لہٰذا جب یہ سندکے بیان میں بھی مضطرب ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ دیگرتمام رواۃ کے خلاف تن تنہا الگ تھلگ متن بیان کرتا ہے تو ایسی صورت میں یہ روایت قطعا صحیح نہیں ہوسکتی بلکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کی خاص جرح کے سبب اس کی روایت باطل ومردود ہے۔

اگلا حصہ

No comments:

Post a Comment