باب(1) نکاح اور میاں بیوی کے معاملات - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-05

باب(1) نکاح اور میاں بیوی کے معاملات

باب(1) نکاح اور میاں بیوی کے معاملات

فصل اول: نکاح کی اہمیت
اللہ رب العالین نے انسانوں کی پیدائش کے چار ذرائع دکھلائے ہیں:
1۔بغیر مرد وعورت کے ، آدم علیہ السلام
2۔صرف مرد سے ، حوا علیہا السلام
3۔صرف عورت سے، عیسی علیہ السلام
4۔مردو عورت دونوں سے ، دیگر عام انسان
یعنی اللہ رب العالمین کسی بھی طرح انسانوں کی پیدائش پر قادر ہے وہ چاہئے تو ایک ”كن“ سے ساری انسانیت کی تخلیق کردے لیکن اللہ نے ایک مرد وعورت کے ازدواج کو افراد نسل انسائی کی پیدائش کا ذریعہ بنایا تاکہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ رشتوں میں منسلک ہوجائیں اور باہمی میل جول ،آپس میں پیار و محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس دنیا میں زندگی گذاریں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج ایک انسان کسی دشواری اور مصیبت میں گرفتارہوتا ہے تو کئی لوگ اس کی غم خواری و غم گساری ، اس کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں کیونکہ کوئی اس سے کوئی نہ کوئی رشتہ ہوتا ہے ۔
اس کے برعکس تصور کیجئے کہ اگر آدم علیہ السلام کی طرح اللہ رب العالمین نے ہرانسان کو بغیرکسی رشتے کے الگ الگ پیدا فرمایا دیا ہوتا تو ایک انسان مشکل و آفت میں تڑپ رہا ہوتا اوردوسرے انسانوں کے لئے اس کی طرف متوجہ ہونے کی کوئی خاص وجہ نہ ہوتی ۔ اللہ رب العامین نے رشتہ ازدواج کی اس حکمت کو کئی جگہ مختلف اسلوب میں بیان فرمایا ہے ایک جگہ رشتہ ازدواج سے بننے والے نسب اور سسرالی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
{ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا}
”وه ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والاکردیا۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے“[25/الفرقان: 54]
ایک دوسرے مقام پر واضح کیا کہ ایک مرد وعورت کے ملاپ سے انسانوں کو کنبے وقبیلے کی شکل دے دی تاکہ لوگ ایک دوسرے کو پہچان سکیں اور ایک دوسرے کے کام آسکیں:
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ }
”اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں“ [49/الحجرات: 13]
ایک اور مقام پر اللہ نے اس رشتہ کو پیار ومحبت کا ذریعہ اور اپنی نشانی قراردیا:
{وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ }
”اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی، یقیناً غور وفکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں“[30/الروم: 21]

فصل دوم: اسلامی نکاح کی خصوصیات
اسلام میں رشتہ ازدواج کی اہمیت بتلانے کے ساتھ ساتھ اس کا شرعی طریقہ اور اس کے شرعی مقاصد بھی بالتفصیل بیان کردئے گئے ہیں اس لئے جب مسلمان مردوعورت شادی ونکاح کریں تو انہیں شریعت کی ان تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہئے اوران پر دینی جذبہ سے عمل کرنا چاہئے تاکہ ان کی شادی اسلامی شادی قرار پائے اوراغیارکی شادیوں سے ممتاز ہو۔

(1) نکاح کرنا اللہ اوراس کے رسول کا حکم ہے
عام لوگ شادی ونکاح اس لئے کرتے ہیں کہ یہ سماج کا تقاضا ہوتا ہے اگر وقت پر شادی نہ ہوئی تو سماج والے سوال اٹھائیں گے، لیکن ایک مسلمان شادی ونکاح اس لئے کرتا ہے کہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کا حکم ہوتا ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ}
”تم میں سے جو مرد عورت بےنکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ اگر وه مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والاہے“[24/النور: 32]

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَارَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ عَلْقَمَةَ، وَالأَسْوَدِ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَابًا لاَ نَجِدُ شَيْئًا، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ“
”عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا“[صحيح البخاري (7/ 3):-كتاب النكاح: باب من لم يستطع الباءة فليصم، رقم 5066]

لہٰذا بوقت نکاح ایک مسلمان کی نیت اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی فرمانبرداری ہونی چاہئے اگراسی جذبہ وخیال سے ایک مسلمان شادی کرے تو اس کا یہ عمل دینی واسلامی ہوگا اور آخرت میں اس پر ثواب ملے گا ورنہ اگر یہ عمل تو کرلیا گیا لیکن اس کے پیچھے نیت کتاب وسنت کی اتباع کے بجائے سماج کی تقلید ہو تو یہ نکاح اسلامی نکاح ہوگا ہی نہیں کیونکہ اسلام میں صحیح نیت کے بغیرکسی عمل کااعتبار ہی نہیں۔

(2) نکاح کرنا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کا صرف حکم ہی نہیں دیا ہے بلکہ خود بھی نکاح کیا ہے یعنی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سنت بھی ہے اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس سنت کی پیروی کا تاکید حکم بھی دیا ہے چنانچہ:
امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273)نے کہا:
”حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ قَالَ: حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي، وَتَزَوَّجُوا، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ“
”ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے، تم لوگ شادی کرو، اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر (قیامت کے دن) فخر کروں گا، اور جو صاحب استطاعت ہوں شادی کریں، اور جس کو شادی کی استطاعت نہ ہو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ اس کی شہوت کو کچلنے کا ذریعہ ہے“ [سنن ابن ماجه(1/ 592):- كتاب النكاح:باب ما جاء في فضل النكاح،رقم 1846 والحدیث صحیح بالشواہد]

لہٰذا ایک مسلمان شادی کرتاہے تو اس کی نیت سماج کے رسم ورواج کو نبھانے کی نہیں بلکہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کی ہوتی ہے۔

(3) نکاح تحفظ عزت کا ضامن ہے:
نکاح کے ذریعہ مسلمان کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہوتاہے کہ اس کے ذریعہ اس کی عزت کی حفاظت ہوگی اگرکوئی اس ارادہ سے نکاح کرتا ہے تو اللہ اس معاملے میں اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
”أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَوْنُهُمْ: الْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ، وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ، وَالْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ“
”ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین (طرح کے لوگ) ہیں جن کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم و ضروری کر لیا ہے: (ایک) وہ مکاتب جو مقررہ رقم ادا کر کے آزادی حاصل کر لینے کے لیے کوشاں ہو۔ (دوسرا) ایسا نکاح کرنے والا جو شادی کر کے عفت و پاکدامنی کی زندگی بسر کرنا چاہتا ہو (تیسرا) وہ مجاہد جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے نکلا ہو“[سنن النسائي (6/ 61):-كتاب النكاح:باب: معونة الله الناكح الذي يريد العفاف، رقم3218 وإسناده حسن]

(4) نکاح اوروظیفہ ازدواج باعث اجرو ثواب ہے:
اسلام نے شادی کے بعد ازدواجی تعلقات کے مہذب اصول و ضابطے بتائے جن کی روشنی میں مسلمان وظیفہ ازدواج کو انجام دیتا ہے تو اس پر بھی اجروثواب کا وعدہ ہے ۔
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ، مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللهِ، ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ، يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ، قَالَ: أَوَلَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللهُ لَكُمْ مَا تَصَّدَّقُونَ؟ إِنَّ بِكُلِّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةً، وَكُلِّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةً، وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ صَدَقَةٌ، وَفِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيَأتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ وَيَكُونُ لَهُ فِيهَا أَجْرٌ؟ قَالَ: «أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَكَانَ عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرٌ؟ فَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ كَانَ لَهُ أَجْرٌ»“
”ابوالاسود دیلی سے روایت ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چند اصحاب رضی اللہ عنہم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول! مال والے سب مال لوٹ لے گئے، اس لیے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جیسے ہم روزہ رکھتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں اپنے زائد مالوں سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے بھی تو اللہ تعالیٰ نے صدقہ کا سامان کر دیا ہے کہ ہر تسبیح صدقہ ہے اور ہر تکبیر صدقہ ہے اور ہر تحمید صدقہ ہے اور ہر بار لا الہ الااللہ کہنا صدقہ ہے اور اچھی بات سکھانا صدقہ ہے اور بری بات سے روکنا صدقہ ہے اور ہر شخص کے بدن کے ٹکڑے میں صدقہ ہے۔“ لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے کوئی شخص اپنے بدن سے اپنی شہوت نکالتا ہے (یعنی اپنی بی بی سے صحبت کرتا ہے) تو کیا اس میں ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں دیکھو تو اگر اسے حرام میں صرف کر لے تو وبال ہوا کہ نہیں؟ اسی طرح جب حلال میں صرف کرتا ہے تو ثواب ہوتا ہے“[صحيح مسلم (3/ 697):-كتاب الزكاة:باب بيان أن اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف،رقم1006]

(5) نیک شریک حیات دنیا کا سب سے بہترین متاع ہے:
ایک بیوی نیک اورصالح ہو تو اسلام نے اسے مرد کے لئے روئے زمین کا سب سے بہترین متاع قرار دیا ہے۔
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنِي شُرَحْبِيلُ بْنُ شَرِيكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيَّ، يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الدُّنْيَا مَتَاعٌ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ»“
”سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا کام نکالنے کی چیز ہے اور بہتر کام نکالنے کی چیز دنیا میں نیک عورت ہے“[صحيح مسلم (3/ 1090):-كتاب الرضاع: باب خير متاع الدنيا المرأة الصالحة،رقم1467]

(6) نکاح سے ایک دین دار گھرانے کی آبادی:
نکاح سے ایک مسلمان کا مقصود نیک نسل اور دیندار گھرانے کی آبادی ہے ۔
”حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تُنْكَحُ المَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ“
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی)“[صحيح البخاري( 7/ 7):-كتاب النكاح:باب الأكفاء في الدين،رقم5090]
اس حدیث میں بتایا گیا کہ دنیا والے رشتہ کے انتخاب میں عام طور سے مادی و نسبی حالات دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا اگلا گھرانہ مال ودولت یا حسب ونسب کے اعتبار سے انہیں جیسا ہو لیکن اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ نئے رشتہ کی شروعات میں دینداری کو ترجیح دی جائے تاکہ اگلی نسل بھی انہیں کی طرح دیندار ہو ۔

(7) نکاح اورآرزوئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکمیل:
شادی سے ایک مسلمان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک آرزو کی تکمیل میں بھی حصہ لیتا ہے
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
”حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ ابْنَ أُخْتِ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ يَعْنِي ابْنَ زَاذَانَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَصَبْتُ امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ وَجَمَالٍ، وَإِنَّهَا لَا تَلِدُ، أَفَأَتَزَوَّجُهَا، قَالَ: «لَا» ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ فَنَهَاهُ، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: «تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ“
”معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: مجھے ایک عورت ملی ہے جو اچھے خاندان والی ہے، خوبصورت ہے لیکن اس سے اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ ، پھر وہ آپ کے پاس دوسری بار آیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع فرمایا، پھر تیسری بار آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خوب محبت کرنے والی اور خوب جننے والی عورت سے شادی کرو، کیونکہ (بروز قیامت) میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا“[سنن أبي داود( 2/ 220):-كتاب النكاح:باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء،رقم2050]

(8) شادی کے بعد نیک اولاد صدقہ جاریہ:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَقُتَيْبَةُ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، وَابْنُ حُجْرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ هُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ“
”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مر جاتا ہے آدمی تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے۔ ایک صدقہ جاریہ کا۔ دوسرے علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ تیسرے نیک بخت بچے کا جو دعا کرے اس کے لیے“[صحيح مسلم(3/ 1255):-كتاب الوصية:باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، رقم 1631]

(9) نکاح خاندانی روابط وتعلقات کا ذریعہ:
شادی کے بعد صرف شوہر و بیوی کے مابین ہی رشتہ قائم نہیں ہوتا ہے بلکہ شوہرو بیوی دونوں کے خاندان ایک دوسرے کے رشتہ میں جڑ جاتے ہیں اللہ کا ارشاد ہے:
{ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا}
”وه ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والاکردیا۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے“[25/الفرقان: 54]
اس طرح شادی معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ ربط وتعلق محبت ومؤدت اور اخوت وبھائی چارگی کا ذریعہ بنتی ہے ۔

(10) نکاح شوہر کے لئے قوامیت اوراحساس ذمہ داری:
شادی کے بعد شوہر اپنی بیوی کے لئے قوام ہوتا ہے اس پر نہ صرف بیوی بلکہ سارے بچوں کے اخراجات اور ان کی حسن تربیت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہوتی ہے اللہ کا ارشاد ہے:
”{الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ}“
”مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں“[4/النساء: 34]
شادی کے بعد ایک شوہر جب کما حقہ اور بحسن وخوبی یہ ذمہ داری سنبھالتا ہے تو اس کے اندر نظم و ضبط ، غور وفکر ، صبروتحمل ، محنت ولگن اور سعی و جفاکشی کی ایسی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے گھر کی دیکھ بھال کے قابل ہوتا ہے بلکہ باہر کی دنیا میں بھی بڑی بڑی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لائق ہوجاتا ہے۔

فصل سوم:میاں بیوی کے حقوق
نکاح میں دوام کے لئے بنیادی ضرورت
نکاح ایک عقد یعنی عہد وپیمان(Agreement ) ہے جس میں میاں بیوی دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے اور ایک دوسر ے کے حقوق کی ادائیگی کا عہد کرتے ہیں ، آئندہ چل کر رشتہ نکاح میں بقاء ودوام طرفین کی طرف سے اس عہد وپیمان کی پاسداری ہی پر منحصر ہے ۔افسوس ہے کہ اکثر مردوعورت کو بوقت نکاح کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ نکاح کے بعد ایک دوسرے کے حقوق کیا ہوں گے؟ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کیسے گذارنی ہے؟ ایک دوسرے کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی ؟ ان سب سے غافل ہوکر ابتداء میں صرف زفاف تک ہی ساری سوچ محددد رہتی ہے ۔
اورپھر جب کچھ وقت گذرنے کے بعد حالات خود متقاضی ہوجاتے ہیں کہ زوجین میں سے ہر ایک اپنی ذمہ داری سنبھالے اور دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کرے ۔شوہر قوامیت کا ثبوت دیتے ہوئے خوب محنت ولگن سے رزق حلال حاصل کرے جس سے اپنی بیوی کے لئے نفقہ وسکنی کا مناسب بندوبست کرے اور گھر کے جملہ لوازمات اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کرے۔
اور بیوی اپنے شوہر کے کسب وانفاق کی قدر کرے ، اور یہ محسوس کرے کہ شوہر اس کی خاطر نہ صرف یہ کہ اضافی ڈیوٹی کرتا ہے بلکہ نہ جانے کس کس موڑ پر کیسی کیسی قربانیاں پیش کرتا ہے کہیں اپنے جذبات پر زمانے کے زخموں کو برداشت کرتا ہے کہیں اپنی انا پر یاروں کے وار سہتا ہے ۔یہ سب اس لئے کہ اسے اپنی بیوی بچوں کو صحیح وسالم دیکھنا ہے ورنہ خود کے کھانے اور رہنے کے لئے اسے چند گھڑی کی دوڑ دھوپ ہی کافی ہے اور جذبات و انا کی راہ میں آنے والی ہر چنگاری کو راکھ کرنے کی وہ بخوبی صلاحیت رکھتا ہے۔
بیوی اس احساس کے ساتھ شوہر کی قربانیوں کی قدر کرے اور اس کے ساتھ وفاداری پر کوئی آنچ نہ آنے دے ، گھریلو کام کاج کا خیال رکھے اولاد کی تربیت کرے اور شوہر کی خدمت اور اس کے ذہنی وجسمانی سکون کا وہ بندوبست کرے کہ شوہر دن بھر کی تھکان ومشقت بھول کر راحت وسکون اور فرحت وانبساط کے دریا میں غرق ہوجائے اور اگلے دن پھر اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے پوری طرح تازہ دم اور نشیط ہوکرگھرسے نکلے۔
میاں بیوی کے حقوق کا موضوع بہت تفصیل کا طالب ہے لیکن یہ کتاب اس تفصیل کی متحمل نہیں ہے کیونکہ اس میں طلاق کے احکام پر ہی تفصیلی بحث ہوگی ،اس موضوع پر مسقل کتابیں موجود ہیں ان کی طرف مراجعت کی جائے۔

میاں بیوی کے معاملات اور متعلقین کی ذمہ داریاں
میاں بیوی کے مابین بگاڑ اور ناچاقی کی صورت میں تیسرے فریق کو صرف ایک طرف کی بات سن کر کوئی رائے ومشورہ نہیں دینا چاہئے بلکہ دونوں طرف سے باتیں سننے کے بعد ہی لب کشائی کرنی چاہئے اور کوشش یہی ہونی چاہئے کہ دونوں کے بیچ صلح وصفائی کی سبیل پیدا ہو اور رشتہ ٹوٹنے سے بچ جائے۔
حتی کہ فریقین میں سے کوئی حق بجانب بھی ہو اور رشتہ توڑنے کا وہ مجاز بھی ہو ، جب بھی اگر معاملہ سنگین نہ ہو تو رشتہ جوڑنے ہی کا مشورہ دینا چاہئے ۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَهُ مُغِيثٌ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعبَّاسٍ: «يَا عَبَّاسُ، أَلاَ تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ، وَمِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا» فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ رَاجَعْتِهِ» قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: «إِنَّمَا أَنَا أَشْفَعُ» قَالَتْ: لاَ حَاجَةَ لِي فِيهِ“ 
”ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا۔ گویا میں اس وقت ان کو دیکھ رہا ہوں جب وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پیچھے روتے ہوئے پھر رہے تھے اور آنسوؤں سے ان کی ڈاڑھی تر ہو رہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: عباس! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر حیرت نہیں ہوئی؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کاش! تم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ بدل دیتیں۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے اس کا حکم فرما رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ مجھے مغیث کے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے“[صحيح البخاري( 7/ 48):-كتاب الطلاق:باب شفاعة النبي صلى الله عليه وسلم في زوج بريرة،رقم 5283]

اس واقعہ میں بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر سے الگ ہونے کا حق رکھتی تھی شرعی طور پر انہیں اس کا جواز حاصل تھا پھر بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش یہی کی یہ رشتہ ٹوٹنے سے بچ جائے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی کا معاملہ سامنے آئے اور کوئی سنگین بات نہ ہو تو دونوں کو ملانے ہی کی کوشش کرنی چاہئے۔بلکہ اس کی خاطر اسلام نے جھوٹ بولنے تک کی اجازت دی ہے ۔

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أُمَّهُ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، وَكَانَتْ مِنَ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ، اللَّاتِي بَايَعْنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: «لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ، وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا» قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَلَمْ أَسْمَعْ يُرَخَّصُ فِي شَيْءٍ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ كَذِبٌ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ: الْحَرْبُ، وَالْإِصْلَاحُ بَيْنَ النَّاسِ، وَحَدِيثُ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَحَدِيثُ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا“ 
”ام کلثوم رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جھوٹا وہ نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرائے اور بہتر بات کہے یا لگائے۔“ ابن شہاب نے کہا: میں نے نہیں سنا کسی جھوٹ میں رخصت دی گئی ہو مگر تین مقامات میں ایک تو لڑائی میں، دوسرے لوگوں میں صلح کرانے کو، تیسرے خاوند کو بی بی سے اور بی بی کو خاوند سے بات کرتے ہوئے“[صحيح مسلم (3/ 2011):-كتاب البر والصلة والآداب:باب تحريم الكذب وبيان ما يباح منه،رقم2605]
لیکن افسوس ہے کہ آج لوگوں کا ذہن اس قدر فساد پسند ہوگیا ہے کہ وہ دو فریق کے بیچ صلح کے لئے جھوٹ بولنا تو دور کی بات وہ ایسی سچ بات بھی بولنے پرتیارنہیں ہوتے جس سے دونوں کے بیچ صلح ہوجائے، بلکہ اس کے برعکس ایسی جھوٹی اور خلاف حقیقت باتیں منتشر کرتے ہیں جس سے دو لوگوں کے بیچ لڑآئی وجھگڑا اور فتنہ وفساد برپاہو۔
اسلام نے ایسی حرکت کی سخت مذمت کی ہے بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والوں سے اپنا رشتہ توڑنے کا اعلان کیا ہے ۔

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
”حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا، أَوْ عَبْدًا عَلَى سَيِّدِهِ»“ 
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے یا غلام کو مالک سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں“[سنن أبي داود (2/ 254):-كتاب الطلاق:باب فيمن خبب امرأة على زوجها،رقم2175]

اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کودوقبیح حرکتوں سے منع فرمایا ہے۔
ایک یہ کہ کسی گھرکے خادم کو اس گھروالوں کے خلاف اتنااکسایاجائے اوراسے اس قدربہلایاپھسلایاجائے کہ یہ خادم اس گھر والوں کی خدمت سے الگ ہوجائے۔
اوردوسری یہ کہ کسی شادی شدہ عورت کواس کے شوہر کے خلاف بھڑکایاجائے، آج ہمارے معاشرے میں یہ حرکت انجام دینے والوں کی کمی نہیں ہے۔عارضی مفاد کے حصول کے لئے لوگ دوسروں کی بیویوں پرڈورے ڈالتے ہیں، ان کے دلوں میں ان کے شوہروں کے خلاف نفرت بھرتے ہیں، انہیں خوشگورمستقبل اورنام نہادپیارومحبت کی ایسی لالچ دیتے ہیں کہ یہ بیویاں یاتواپنے شوہروں کوچھوڑکربھاگ جاتی ہیں یاببانگ دہل طلاق وخلع کامطالبہ کرتی ہیں،بلکہ بسااوقات تواپنے شوہروں کے قتل تک پرآمادہ ہوجاتی ہیں۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکرنے والے کے لئے بھی ’’فَلَيْسَ مِنَّا‘‘ کہاہے کہ وہ ہم میں سے نہیں یعنی یہ کام ایک مسلمان کا ہو ہی نہیں سکتا ،قرآنی کی ایک آیت سے معلوم ہوتا کہ یہ یہودیوں کا عام مشغلہ تھا کہ وہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کا کام کرتے تھے بلکہ اس فعل شنیع کے لئے وہ جادو اور منتر بھی استعمال کرتے تھے ۔اللہ کا ارشاد ہے:
{وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ}
”بلکہ یہ کفر شیطانوں کا تھا، وه لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے، اور بابل میں ہاروت ماروت دو فرشتوں پرجو اتارا گیا تھا، وه دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر، پھر لوگ ان سے وه سیکھتے جس سے خاوند وبیوی میں جدائی ڈال دیں اور دراصل وه بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے“[2/البقرة: 102]

بلکہ یہ فسادی کام شیطان کے چیلوں کا اور ابلیس کا پسندیدہ کام ہے جیساکہ مسلم کی اس حدیث میں ہے:
امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ - وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ - قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ إِبْلِيسَ يَضَعُ عَرْشَهُ عَلَى الْمَاءِ، ثُمَّ يَبْعَثُ سَرَايَاهُ، فَأَدْنَاهُمْ مِنْهُ مَنْزِلَةً أَعْظَمُهُمْ فِتْنَةً، يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ: فَعَلْتُ كَذَا وَكَذَا، فَيَقُولُ: مَا صَنَعْتَ شَيْئًا، قَالَ ثُمَّ يَجِيءُ أَحَدُهُمْ فَيَقُولُ: مَا تَرَكْتُهُ حَتَّى فَرَّقْتُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ، قَالَ: فَيُدْنِيهِ مِنْهُ وَيَقُولُ: نِعْمَ أَنْتَ قَالَ الْأَعْمَشُ: أُرَاهُ قَالَ: «فَيَلْتَزِمُهُ»“ 
”جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے، پھر اپنے لشکروں کو دنیا میں فسادبرپا کرنے کو بھیجتا ہے۔ پس سب سے بڑا فتنہ باز اس کا سب سے زیادہ قریبی ہوتا ہے۔ کوئی شیطان ان میں سے آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں کام کیا (یعنی فلاں سے چوری کرائی، فلاں کو شراب پلوائی وغیرہ) تو شیطان کہتا ہے کہ تو نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر کوئی آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو نہ چھوڑا، یہاں تک کہ اس میں اور اس کی بیوی میں جدائی کرا دی۔ تو اس کو اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں تو نے بڑا کام کیا ہے۔ اعمش نے کہا، میرا خیال ہے کہ اس کو اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے“[صحيح مسلم (3/ 2167):-كتاب صفة القيامة والجنة والنار:باب تحريش الشيطان وبعثه سراياه لفتنة الناس وأن مع كل إنسان قرينا،رقم2813]

اس حدیث میں غورکیجئے کہ کسی عورت کواس کے شوہرکے خلاف بھڑکانایہ ابلیس کے چیلوں کاکام ہے،اورابلیس کواس پربے انتہاخوشی ہوتی ہے جس سے ظاہر کے کہ یہ معاشرہ کا بہت بڑا فساد ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکرنے والوں کومسلمانوں کی جماعت سے خارج قراردیا ہے، لہٰذا اگرایک مسلمان کو اپنااسلام عزیزہے تو اسے اس طرح کی حرکتوں سے دور رہنا چاہئے ۔


No comments:

Post a Comment