باب(2) :میاں بیوی کے درمیان جدائی
فصل اول: میاں بیوی کے درمیان جدائی کا تصور دیگرمذاہب
میاں بیوی کے درمیان جدائی کے لئے دیگرمذاہب میں جو تصور ہے اس پر بہت سے اہل علم نے تفصیل سے لکھا ہے ذیل میں ہم محترم حافظ عمران لاہوری حفظہ اللہ کی کتاب ”طلاق کی کتاب“ سے اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:
زمانہ جاہلیت
زمانہ جاہلیت میں جدائی کے لئے طلاق کا طریقہ تھا لیکن اس طلاق کی کوئی حد نہیں تھی ایک شوہر جتنی چاہئے طلاقیں دیتا تھا اور رجوع کرتا جاتا تھا۔اس طرح نہ شوہر اپنی بیوی کو سکون سے رہنے دیتا اور نہ ہی اسے علیحدہ کرتا کہ وہ کسی اور سے شادی کرسکے۔
یہودی مذہب
یہوی مذہب میں شوہر کو تو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جب بھی چاہے اور جس بات پر بھی چاہئے اپنی بیوی کو جدا کرسکتا ہے لیکن بیوی کو اس معاملے میں فیصلہ کا کوئی حق نہیں ، شوہر لاکھوں عیوب والا اور حد درجہ ظالم ہی کیوں نہ ہو بیوی کو جدائی کا فیصلہ کرنے یا اس کا مطالبہ کرنے کا قطعا کوئی حق نہیں ہے۔
عیسائی مذھب
عیسائی مذہب میں ایک بار شادی ہونے کے بعد جدائی کا تصور ہی نہیں ہے مرتے دم تک ہر ایک کو دوسرے کا ساتھ ہی رہنا لازم ہے۔بیوی کی طرف سے حرام کاری کی صورت میں بعض مسیحی علماء کا فتوی ہے کہ میاں بیوی دونوں کو الگ کردیا جائے گا لیکن دونوں کا نکاح بدستور باقی رہے گا یہ دونوں نہ آپس میں مل سکتے ہیں اورنہ ہی دونوں کسی اور سے شادی کرسکتے ہیں ۔
ہندومذھب
ہندو مذہب میں نکاح دو مقاصد کے تحت ہوتا ہے ایک اپنے معبودوں اور پجاریوں کے تقرب کے لئے اوردوسرے معاشرتی اورجنسی ضرورت کے تحت ۔پہلی صورت میں ہندومذہب میں جدائی کا کوئی تصور ہی نہیں جبکہ دوسری صورت میں جدائی کے لئے طرفین کی رضامندی لازمی ہے کوئی ایک فریق محض اپنی مرضی سے جدائی کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔
تفصیل اور ہرمذہب سے متعلق حوالہ جات کے لئے دیکھئے : [طلاق کی کتاب: ص23 تا 30]
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں میاں بیوی کے درمیان جدائی کے تصورات کا جائزہ لینے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کوئی افراط کا شکار ہے کوئی تفریط کا اس بارے میں معتدل نظام سوائے اسلام کے کسی کے یہاں نہیں ہے۔
فصل دوم: میاں بیوی کے درمیان جدائی کا تصور اسلام میں:
اسلام نے میاں بیوی کے درمیان جدائی کے سلسلے میں افراط وتفریط سے ہٹ کرایک معتدل اور پرحکمت راستہ اختیار کیا ہے جو فطرت انسانی ، ضروریات زندگی اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اسلام نے جہاں نکاح کی اہمیت و فضیلت بتلائی ہے، میاں بیوی کے حقوق متعین کئے ہیں اور اس رشتہ کو دائمی شکل دینے کی ہی تاکید فرمائی ہے، وہیں اگر شرعی یا معاشرتی لحاظ سے کچھ اسباب ایسے پیش آجائیں کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ناگزیر ہو تو اسلام نے اس کا مکمل اورحکیمانہ نظام مرتب کیا ہے اورحالات کے لحاظ سے الگ الگ ذرائع سے زوجین کے مابین جدائی کے پانچ طریقے بتلائے ہیں جو حسب ذیل ہیں :
(1) طلاق
اگرجدائی کا ارادہ شوہر کی جانب سے ہو تو اسے طلاق کہتے ہیں۔
(2) خلع
اگرجدائی کا ارادہ بیوی کی جانب سے ہو تو اسے خلع کہتے ہیں۔
(3) تفریق
جدائی کا ارادہ نہ شوہر کی طرف سے نہ بیوی کی طرف سے لیکن کسی شرعی مانع کے سبب قاضی میاں بیوی کے درمیان جدائی کردے تو اسے تفریق کہتے ہیں مثلا رضاعی بھائی اوربہن کی انجانے میں شادی ہوجائے اور بعد میں رضاعت کا رشتہ معلوم ہونے پر قاضی دونوں کو الگ کردے۔
(4) فسخ
جدائی کا ارادہ اصلا کسی کی طرف سے نہ ہو لیکن کسی حادثہ کے سبب شوہر مفقود ہوجائے یا عمر بھر کے لئے قید ہوجائے تو قاضی بیوی اور اس کے ولی کی رضامندی سے نکاح فسخ کردے گا تاکہ عورت کسی اور سے شادی کرلے۔
(5) لعان
جب شوہر اپنی بیوی پر بدکاری کا الزام لگادے اورچار گواہ بھی پیش نہ کرسکے اور عورت اس سے انکاری ہو تو دونوں سے قسمیں کھلوائے گا جن میں میاں بیوی دونوں قسمیں کھاکرخود پر مشروط لعنت کریں گے یعنی اگر ان کی قسم جھوٹی ہو تو ان پر اللہ کی لعنت ہو ۔پھر اس کارروائی کے بعد قاضی دونوں کو علیحدہ کردے گا۔
واضح رہے کہ جدائی کے مؤخرالذکر چاروں ذرائع اصل میں فسخ نکاح ہی ہیں لیکن بعض مختلف کیفیات کے لحاظ سے ان کے الگ الگ نام ہیں۔
آئندہ سطور میں ہم صرف طلاق اوراس کے احکام پر تفصیل سے بات کریں گے یہی ہمارا مرکزی موضوع ہے تاہم آخر میں جدائی کے دیگر ذرائع پر بھی مختصر تفصیل پیش کردی جائے گا ان شاء اللہ۔
No comments:
Post a Comment