اثر عمرفاروق رضی اللہ عنہ - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-27

اثر عمرفاروق رضی اللہ عنہ


پچھلا
 تیسری دلیل 
تین طلاق کے وقوع پر آثار صحابہ سے استدلال کا جائزہ
تین طلاق کے وقوع  سے متعلق صحابہ کرام کے ثابت آثار
تین طلاق کے تین واقع ہونے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بہت سے آثار پیش کئے جاتے ہیں ، ان آثار پر فردا فردا بات کرنے سے پہلے مجموعی طور پر کچھ باتیں عرض ہے ۔
اول:
  ہماری معلومات کی حد تک ان آثار میں صرف اور صرف نو (9) صحابہ کے آثار ہی بسند صحیح ثابت ہیں باقی آثار ضعیف ومردود سندوں سے منقول ہیں جو ثابت ہی نہیں ۔
دوم:
عہد فاروقی کے دو سال سے پہلے والے دور میں تمام صحابہ کا اتفاق و اجماع تھا کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق ایک ہی ہوتی ہے ، اس لئے بعد میں جن صحابہ نے بھی تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا وہ ان کا اصلی اور شرعی فتوی نہیں تھا بلکہ فرمان فاروقی کے رعایت میں ایک تعزیری اور عارضی فتوی تھا۔
سوم:
ان میں سےبعض صحابہ عہد فاروقی کے بعد بھی کبھی کبھار تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیتے تھے ، یعنی کبھی وہ فرمان فاروقی کے تحت تین طلاق کے تین ہونے کا فیصلہ کرتے اور کبھی خاص حالات کے پیش نظر بعض کو یہ فتوی بھی دیتے کہ تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی۔
چہارم:
انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ غیر مدخولہ کو دی گئی تین طلاق کو بھی تین شمار کرتے تھے ، بلکہ بعض صحابہ سے صرف اور صرف غیرمدخولہ ہی سے متعلق ان کا فتوی منقول ہے اور اس طرح کے فتاوی کو فریق مخالف بھی تسلیم نہیں کرتا۔
فقہ حنفی کی معروف کتاب ھدایہ میں ہے :
”فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة“ 
”اگر غیر مدخولہ کو بیک تین طلاق الگ الگ جملے میں دے تو پہلی طلاق سے وہ جدا ہوجائے گی اور دوسری اورتیسری طلاق واقع نہیں ہوگی“ [الهداية في شرح بداية المبتدي 1/ 233]

اب اگلی سطور میں ہم ہر ایک اثر پر فردا فردا بات کریں گے ، سب سے پہلے وہ آثار دیکھیں گے جو سندا ثابت ہیں اس کے بعد ان آثار کو بھی تفصیل کے ساتھ پیش کریں گے جو صحیح سند سے ثابت نہیں ہیں ۔

اثر عمرفاروق رضی اللہ عنہ
عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے متعلق روایات پر بات کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی وضاحت کردی جائے ان کے دور میں کثرت سے طلاق دینے ، نیز ایک ہی وقت میں ایک سے زائد طلاق دینے کا سبب کیاتھا ۔

عہد فاروقی میں کثرت طلاق کا سبب:
کسی بھی دور میں طلاق کا سب سے بڑا سبب میاں بیوی کے مابین جھگڑا اور ناچاقی ہی رہاہے اس سبب شوہر غصہ کا شکار ہوتا ہے اور طلاق دے بیٹھتا ہے ، قرآن نے طلاق کا جو اسلامی نظام پیش کیا ہے اس سے بھی یہی ظاہر ہے چنانچہ حیض کی حالت اور جماع والے طہر میں طلاق سے منع کیا گیا ہے ، کیونکہ ان حالات میں شوہر کے غصہ کو دبانے والی کوئی چیز نہیں ہوتی ، حیض کے ایام میں شوہر جماع سے محروم ہونے کے باعث چڑچڑے پن کا شکار رہتا ہے ، جبکہ طہر میں جماع کے بعد عورت کی طرف قلبی کشش کمزور پڑجاتی ہے۔

علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”أن نفس الرجل تنفر من الحائض، إما للأذى، وإما لليأس من مقاربتها...وهكذا إذا كانت طاهرًا وقد قاربها في ذلك الطهر، فعهده بها قريبٌ، وقرب العهد يُضعِف الميل، أو يوجب النفرة“ 
 ”آدمی کا نفس حائضہ سے متنفر ہوتا ہے ، یا تو حیض کی وجہ سے یا اس کے ساتھ ہمبستری سے محرومی کے باعث ...اسی طرح جب عورت اس طہر میں ہو جس میں مرد نے اس کے ساتھ ہمبستری کیا ہے تو چونکہ ہمبستری جلد ہی ہوئی اس لئے اس کی طرف میلان کمزور ہوجا تا ہے“ [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 17/ 627]

 ایسے میں اگر اسے غصہ آجانے تو اس پر قابو پانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر بیوی حیض سے پاک ہو کر نئے طہر میں داخل ہوگئی ہو اور ابھی شوہر نے جماع نہ کیا تو اس سے شوہر کو امید جماع وابستہ ہوتی ، پھر اس دوران اگر اسے غصہ بھی آئے تو یہ امید اس کے غصہ کو دبانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
نیز طلاق ہوجانے کے بعد عدت میں میاں بیوی کو ساتھ رہنے کا حکم دیا گیا ہے ، اس کے پیچھے بھی حکمت ومصلحت یہی ہے کہ غصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد دونوں کے واپس ملنے کی راہ ہموار ۔
اس سے صاف ظاہر کہ طلاق کا غالب سبب میاں بیوی کی آپسی لڑائی ہی ہے ، عہدفاروقی کے دور میں بھی کثرت طلاق کا یہی سبب تھا ، یعنی اس دور کے لوگوں میں وہ قوت برداشت نہ رہی جو پہلے لوگوں میں تھی ، اس لئے بات بات پر کثرت سے طلاق ہونے لگی ۔چنانچہ جن صحیح روایات میں اس دور کے طلاق کا ذکر ملتا ہے ، ان میں سے بعض میں یہ صراحت بھی ملتی ہے کہ طلاق آپسی جھگڑے کے سبب غصہ میں دی گئی تھی چنانچہ :
ایک روایت کے الفاظ ہیں:
”يا ابن عباس إني طلقت امرأتي ثلاثا وأنا غضبان...“ ، ”اے ابن عباس ! میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی اور میں غصہ میں تھا ...“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 5/ 25 وإسناده صحيح]
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں:
 ”أتاه رجل فقال: إنه كان بيني وبين امرأتي كلام، فطلقتها فطلقتها عدد النجوم...“ ، ”ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: میرے اور میری بیوی کے بیچ جھگڑا ہوگیا تو میں نے اسے ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے دی...“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 108وإسناده صحيح]

عہد فاروقی میں ایک سے زائد طلاق کا سبب:
ان روایات سے جہاں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس دور میں آپسی لڑائی کے بعد غصہ کے سبب طلاق ہوتی تھی ، وہی یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اسی غصہ ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک ساتھ طلاق پر طلاق دیتے چلے جاتے تھے ، چنانچہ اس سلسلے کی روایت میں ملتا ہے کہ کسی نے تین طلاق دی جیساکہ عام روایات ہیں۔
اور کسی نے سو طلاق دی جیساکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
 ”عن المغيرة بن شعبة ؛ أنه سئل عن رجل طلق امرأته مئة ...“ ، ”مغیربن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ...“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 5/ 13 وإسناده صحيح]
اور کسی نے ہزار طلاق دی ، جیساکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
 ”جاء ابن عباس رجل فقال: طلقت امرأتي ألفا...“ ، ”ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دے دی ...“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 397 وإسناده صحيح]
 اور کسی کا غصہ اس قدر زیادہ ہوتا کہ وہ سو ، ہزار نہیں بلکہ ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے ڈالتا ، جیساکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
 ”أتاه رجل فقال: إنه كان بيني وبين امرأتي كلام، فطلقتها فطلقتها عدد النجوم...“ ، ”ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: میرے اور میری بیوی کے بیچ جھگڑا ہوگیا تو میں نے اسے ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے دی...“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 108وإسناده صحيح]

یعنی یہ لوگ غصہ ہی کے سبب بکثرت طلاق دیتے تھے اور اسی غصے ہی کے باعث وہ ایک سے زائد طلاق دے ڈالتے تھے ۔صحیح روایات کی روشنی میں یہی صورت حال سامنے آتی ہے ۔

 محمد حسین ہیکل مصری صاحب کی توجیہ کا جائزہ:
 محمد حسین ہیکل مصری صاحب نے یہ راز جاننا چاہا کہ عہد فاروقی میں لوگ ایک ساتھ تین طلاق کیوں دینے لگے ، یعنی کثرت سے طلاق دینے کی کوئی بھی وجہ رہی ہو ، بہر صورت مقصود ایک طلاق سے حاصل ہورہا تھا ، پھر یہ لوگ ایک کے بجائے تین تین طلاق کیوں دینے لگ گئے ؟
موصوف نے اس راز سے پردہ ہٹانے کے لئے اس سلسلے کی روایات میں غور نہیں کیا بلکہ بلکہ محض اپنے گمان اور اندازے سے اس کی دو عجیب وغریب توجیہ پیش کی ہے، فرماتے ہیں:
 ”وأكبر الظن أن الذين كانوا يطلقون نساءهم في عهد عمر لم يكونوا رحماء بهن بعد طلاقهن ، ذلك أن سبايا العراق والشام كثرن وافتنن بهن أهل المدينة و أهل شبه الجزيرة ، فكانوا يسارعون إلي طلاق نسائهم مبالغة في إرضاء من شفقت قلوبهم بهن، وكانوا يذكرون الطلاق الثلاث في كلمة واحدة حتي تطمئن ذات الدل علي أنها أصبحت المنفردة بقلبه.
ولعل أسبابا أخري دفعت جماعة من المسلمين في هذا العهد الأول إلي العبث بالطلاق الثلاث استهتارا و ضرارا . من ذلك أن يتزوج الرجل أخري عربية أو عجمية من غير السبايا، فتشترط عليه أن يطلق زوجته الأولي ثلاثا فلاتحل له من بعد حتي تنكح زوجا غيره . فإذا راجعها مع ذلك أثارت مراجعته لها في البيت نزاعا لاتستقر معه علي حال ولا تطمئن به الحياة“ 
 ”غالب گمان یہی ہے کہ جو لوگ عہد فاروقی میں اپنی بیویوں کو طلاق دیتے تھے ، وہ طلاق کے بعد اپنی بیویوں پر ترس نہیں کھاتے تھے ، اس کی وجہ یہ تھی کہ عراق اور شام سے آنے والی لونڈیوں کی تعداد بڑھ گئی تھی ، اور اہل مدینہ اور جزیرہ عرب والے ان پر فریفتہ ہوگئے تھے ، تو یہ لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دینے میں جلد بازی کرتے تھے تاکہ جن لونڈیوں پر ان کے دل آگئے ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ خوش کرسکیں ، اوریہ ایک ہی جملے میں تین طلاق کہتے تھے تاکہ خوبصورت لونڈی مطمئن ہوجائے کہ اب اس کے دل پر صرف اسی کا راج رہے گا۔
اور شاید اس کے دیگر اسباب رہے ہوں جن کی بناپر قرن اول کے مسلمانوں کی ایک جماعت تین طلاق کے ساتھ کھلواڑ کرنے لگی ، اسے معمولی سمجھ لیا اور اس سے دوسروں کو تکلیف دینے لگے ، وہ یہ کہ ایک شخص لونڈی کے بجائے دوسری عربی یا عجمی عورت سے شادی کرتا ، تو وہ اس کے لئے یہ شرط لگادیتی کہ پہلی بیوی کو تین طلاق دے دو تاکہ یہ اس کے لئے تب تک حلال نہ ہو جب تک اس سے دوسرا شوہر شادی نہ کرلے ، پھر یہ اگر اس کے بعد بھی اس عورت کو واپس لائے گا تو اس کی واپسی گھر میں ایسا بوال کھڑا کرے گی کہ کسی صورت اسے قرار نہیں آئے گا اور زندگی کا سکون غارت ہوجائے گا“ [الفاروق عمر ج2 ص285]

عرض ہے کہ:
اولا:
موصوف نے جو کچھ بھی کہا ہے محض اپنے گمان اور شاید کی زبان میں کہا ہے ، اپنی کسی بھی بات پر انہوں نے کوئی دلیل نہیں دی ہے ، حتی کہ کوئی ضعیف سے ضعیف روایت بھی پیش نہیں کی ہے ، اس لئے ان کے ذاتی گمان اور انداز ے کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
ثانیا:
موصوف کی پیش کردہ توجیہ میں اس دور کے لوگوں پر حسن پرستی کا سنگین الزام لگتا ہے ، چونکہ اس الزام کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ، اس لئے بغیر صحیح دلیل کے خیر القرون کے لوگوں پر اتنا بڑا الزام لگانا قطعا درست نہیں ہے ۔
ثالثا:
موصوف نے پہلی توجیہ میں یہ کہاہے کہ یہ لوگ لونڈیوں سے شادی کرنے کی خاطر اپنی بیویوں کو طلاق دیتے تھے ، یہ بات بالکل غلط ہے ، کیونکہ آزاد بیوی کے ہوتے ہوئے لونڈی سے شادی کرنا جائز ہی نہیں ہے ، جیساکہ قرآن کی صریح آیت ہے ۔
{وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ } 
”اور تم میں سے جس کسی کو آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کرنے کی پوری وسعت وطاقت نہ ہو تو وه مسلمان لونڈیوں سے جن کے تم مالک ہو (اپنا نکاح کر لے) “[النساء: 25]
رابعا:
موصوف کی دوسری  توجیہ کا ماحصل یہ ہے کہ اس دور کے لوگوں نے دوسری شادی کے چکر میں پہلی بیوی کو اس لئے تین طلاق دینا شروع کیا تاکہ دوسری بیوی کو یقین ہوجائے یہ شوہر اب صرف میرا ہی ہوکررہے گا ، اوراس کی پرانی بیوی پوری طرح سے اس سے الگ ہوچکی ہے ۔
یہ بات اس لئے بھی غلط ہے کہ اس دور کے لوگ صرف ایک ہی شادی پر اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے یہاں ایک سے زائد شادی کا عام رواج تھا ، لہٰذا دوسری شادی کے لئے انہیں اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کی قطعا ضرورت نہ تھی ۔
خامسا:
موصوف نے فرمان فاروقی سے پہلے والی حالت کی توجیہ کی ہے ، جسے دیکھ کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے امضاء ثلاث کا قانون بنایا تھا ، ایسے میں موصوف کا یہ کہنا کہ یہ لوگ بیک وقت تین طلاق اس لئے دیتے تھے تاکہ دوسری بیوی کو یقین ہوجائے کہ پہلی بیوی ان سے پوری طرح جدا ہوچکی ہے ، اور اب وہ ان کے لئے تب تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے ، یہ بات بالکل لغو ہے ، کیونکہ فرمانی فارقی سے پہلے تو تین طلاق کو ایک ہی مانا جاتا تھا ، پھر وہ بیک وقت تین طلاق دے کو دوسری بیوی کو کس طرح یہ تاثر دے سکتے تھے کہ ان کی پہلی بیوی ان سے پوری طرح الگ ہوچکی ہے؟
سادسا:
موصوف اپنی توجیہ میں کہتے کہ اس دور کے لوگ اپنی پہلی بیوی پر کوئی ترس نہیں کھاتے تھے اور دوسری شادی کرتے ہوئے دوسری بیوی کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ان کی پہلی بیوی ان سے پوری طرح الگ ہوچکی ہے ، اسی لئے وہ بیک وقت تین طلاق دیتے تھے ، تو یہ مان لینے کی صورت میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طر ف امضاء ثلاث کا قانون تو ان لوگوں کے مزید معاون ومددگار ہی ثابت ہوا ، نہ کی کوئی سزا ! کیونکہ موصوف کے بقول ان لوگوں کی منشاء ہی یہی تھی کہ پہلی بیوی کو پوری طرح الگ کردیں ۔
سابعا:
موصوف کے سامنے اشکال یہ ہے کہ جب ایک طلاق سے بیوی جدا ہوجاتی ہے تو وہ تین طلاق کیوں دیتے تھے ؟ اس کا جواب انہوں نے اپنے اندازے وگمان سے یہ دیا ہے کہ وہ تین طلاق دے کر دوسری بیوی کو یقین دلانا چاہتے تھے کہ انہوں نے پہلی بیوی کو پوری طرح چھوڑ دیا ہے ۔ لیکن موصوف بھول گئے کہ یہ لوگ صرف تین ہی نہیں بلکہ تین سے بھی زائد ، سو ، ہزار حتی کہ ستاروں کی تعداد کے برابر بھی طلاق دیتے تھے ، موصوف کے کلام میں تین سے زائد طلاقوں کی کوئی توجیہ نہیں ہے ، اس لئے یہ توجیہ بے کار ہے ۔
ثامنا:
صحیح روایات کے اندر یہ بات آگئی ہے کہ وہ لوگ غصہ پر قابو نہیں پاتے تھے ، اسی لئے وہ کثرت سے طلاق دے رہے تے ، نیز اسی غصہ ہی کے سب وہ ایک ساتھ ایک سے زائد یعنی تین بلکہ سو ، ہزار ، حتی کہ ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دے ڈالتے تھے ، جیساکہ شروع میں یہ روایات پیش کردی گئی ہیں ، اس لئے ان صحیح روایت کے برخلاف موصوف کے گمان اور انداز ے والی توجیہ درست نہیں ہے ۔

اس وضاحت کے بعد آئیے اب ہم عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان سے متعلق روایات دیکھتے ہیں ، تین طلاق کے مسئلہ میں صحابہ کرام میں سب سے معروف نام عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہی کا ہے ، ان سے مروی روایات یہ ہیں:

 ✿ امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، واللفظ لابن رافع، قال إسحاق: أخبرنا، وقال ابن رافع: حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال: كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم“ 
 ”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنمہا نے کہا کہ طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی دو برس تک ایسا امر تھا کہ جب کوئی ایک بارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی تو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو مناسب ہے، پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی حکم دے دیا کہ جو ایک بارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو گئیں)“ [صحيح مسلم 3/ 1099 رقم 1472]

صحیح مسلم کی اس حدیث کے مطابق عہدابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں اس بات پر اجماع تھا کہ ایک وقت کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی اس اجماعی موقف سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اختلاف کرنا ثابت نہیں ہے بلکہ صحیح مسلم کی اسی حدیث میں وضاحت ہے کہ خود عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سال تک سب کا اسی بات پر اتفاق رہا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی تھا کہ ایک وقت کی تین طلاقیں شرعا ایک ہی شمار ہوں گی ۔
رہی یہ بات کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں دو سال کے بعد تین طلاق کو تین شمار کرنے کا فرمان جاری کردیا تو اسی روایت میں یہ صراحت موجود ہے کہ:
 ”فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم“ 
 ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی تو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو مناسب ہے، پھر انہوں نے جاری کر دیا“ 
یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ حکم ان کا شرعی فتوی نہیں تھا بلکہ انہوں نے بطور تعزیر و سزا یہ قانون جاری کیا تھا ۔اس لئے اس کی حیثیت شرعی فتوی کی نہیں بلکہ ايك تعزیری فرمان کی ہے ۔

تحلیل حرام کا جذباتی اعتراض اور اس کا جواب:
جب یہ کہاجاتا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ تعزیر اور سزائے کے لئے تین طلاق کو نافذ کیا تھا ، تو بعض لوگ یہ جذباتی اعتراض کرتے ہیں کہ جب ایک چیز شرعا جائز تھی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ اس جواز کو حرمت میں تبدیل کرنے والے کون ہوتے ہیں ، کیا انہیں تحلیل حرام کا منصب مل گیا تھا ؟

جوابا عرض ہے کہ:
اولا:
تعزیز اور سزاء کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ کسی آدمی کو سزاء دیتے ہوئے اسے کچھ جائز چیزوں اور نعمتوں سے محروم کردیا جائے۔
مثلا ایک شخص کا اپنے گھر میں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہنا جائز امر ہے ، لیکن وہ کوئی جرم کر دے جس کے سبب اسے اس کے گھر اور بال بچوں سے دور کرکے جیل میں بند کردیا جائے ، تو اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس کا اپنے گھر اور بال بچوں کے ساتھ رہنا جائز تھا پھر اسے اس پر حرام کیوں کردیا گیا ؟
اسی طرح کسی شخص کو بطور سزا جلا وطن کردیا جائے تو اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا اپنے وطن میں رہنا جائز تھا ، پھر اسے اس پر حرام کیوں کردیا گیا تھا ، کیونکہ سزاء کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ کسی کو ایسی چیزوں اور سہولتوں سے محروم کردیا جائے جو اس کے لئے جائز تھیں۔

ثانیا:
یہ طلاق کا واحد معاملہ نہیں ہے جس میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تعزیر و سزاء کے لئے جائز چیز پر بھی پابند ی لگائی بلکہ اور بھی کئی معاملات میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بطور سزا حلال و جائز چیز پر پابندی لگائی مثلا ایک عورت نے اپنے غلام کے ساتھ نکاح کرلیا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا کہ اب تم زندگی میں کسی بھی دوسرے مرد سے شادی نہیں کرسکتی ہو ، چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عبد الرزاق، عن ابن جريج قال: أخبرني أبو الزبير قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول: جاءت امرأة إلى عمر بن الخطاب ونحن بالجابية نكحت عبدها فانتهرها، وهم أن يرجمها وقال: لا يحل لك مسلم بعده“ 
 ”جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :ہم جابیہ کے مقا م پر تھے تو ایک عورت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئی جس نے اپنے غلام کے ساتھ نکاح کرلیا تھا ، تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسے ڈانٹا اور اسے رجم کرنے کا ارادہ کیا ، لیکن پھر یہ کہا کہ اس کے بعد کوئی بھی مسلمان تمہارے لئے حلال نہیں ، (یعنی اب تم کسی اور سے بھی شادی نہیں کرسکتی )“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 7/ 209 رقم 12817 وإسناده صحيح وصححه ابن حزم في المحلي 9/ 72]

غور کریں کہ اس واقعہ کے بعد بھی اس عورت کے لئے جائز تھا کہ وہ کسی بھی دوسرے آزاد مرد سے شادی کرتی ، لیکن عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بطور سزا اس کے لئے کسی بھی بھی مسلم مرد سے شادی کرنے کو حرام کردیا ۔
ظاہرہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایسا بطور سزاء و تعزیر کیا ہے ، اس لئے یہ قطعا نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے ایک حلال چیز کو حرام کردیا ۔

ثالثا:
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صرف حرام طلاق دینے پر نہیں بلکہ بغیر طلاق دینے پر بھی میاں بیوی کے درمیاں جدائی کرادی ہے ۔ دیکھئے:[تفسير الطبري، ت شاكر: 4/ 367، وقال ابن كثير : وهذا إسناد صحيح ، انظر: تفسير ابن كثير / دار طيبة 1/ 583، وانظر أيضا:مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 7/ 177]
عبدالرحمان الصابونی لکھتے ہیں:
”وقد فرق عمر بين كل من طلحة وحذيفة وزوجتيهما الكتابيتين وقال: لا أحرمه ولكن أخشي الاعراض عن الزواج بالمسلمات ، فزواج المسلم بالكتابية مباح علي ما ذهب إليه جمهور المسلمين ومع هذا فقد رأي عمر أن من المصلحة منع مثل هذه الزيجات بل وفسخها إن حصلت. فإذا كان من يملك حق التفريق دون طلاق بين الزوجين ، ألا يملك التفريق بعد طلاق محرم فيجعله ثلاث؟“ 
”عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما میں سے ہرایک کو ان کی اہل کتاب بیوی سے الگ کردیا اور کہا : میں اسے حرام نہیں کہتا لیکن اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں لوگوں مسلم عورتوں سے شادی کرنے سے اعراض نہ کرنے لگیں ، تو اہل کتاب عورت سے شادی کرنا جائز ہے جیساکہ جمہور کا موقف ہے ، اس کے باوجود بھی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مصلحت اس بات میں دیکھی کہ اس طرح کی شادیوں پر روک لگادیں ، بلکہ اگر کہیں ایسی شادی کرلی گئی ہے تو اسے فسخ کردیں ، تو جس شخصیت کو اس بات کا حق حاصل تھا کہ وہ بغیر طلاق کے میاں بیوی کو الگ کردے ، اسے اس بات کا حق کیوں نہیں ہوسکتا کہ وہ حرام طلاق دینے کے بعد ایسے میاں بیوی کو الگ کردیں“ [مدى حرية الزوجين في الطلاق:ج1ص253]


رابعا:
حنفی علماء نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ تعزیر وسزاء کے طور پر ہی تین طلاق کو نافذ کردیا تھا چنانچہ:
شمس الدین محمد الخراسانی القھستانی الحنفی رحمہ اللہ (962) فرماتے ہیں:
”واعلم أن في صدر الأول إذا أرسل الثلاث جملة لم يحكم إلا بوقوع واحدة إلى زمن عمر - رضي الله تعالى عنه -، ثم حكم بوقوع الثلاث سياسة لكثرته بين الناس“ 
”اور جان لیں کہ صدر اول میں جب ایک ہی جملے میں تین طلاق دی جاتی تھی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک ایک ہی شمار کی جاتی تھی ، پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیاسی فرمان کے تحت تین کے وقوع کا فیٖصلہ کردیا کیونکہ لوگ بکثرت ایسا کرنے لگے تھے“ [جامع الرموز ص 277 مطبوعہ کلکتہ]

عبد الرحمن بن محمد بن سليمان الحنفی (المتوفى 1078) نے بھی لکھا ہے:
 ”واعلم أن في صدر الأول إذا أرسل الثلاث جملة لم يحكم إلا بوقوع واحدة إلى زمن عمر - رضي الله تعالى عنه -، ثم حكم بوقوع الثلاث لكثرته بين الناس تهديدا“ 
 ”اور جان لیں کہ صدر اول میں جب ایک ہی جملے میں تین طلاق دی جاتی تھی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک ایک ہی شمار کی جاتی تھی ، پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بطور سزا تین کے وقوع کا فیٖصلہ کردیا کیونکہ لوگ بکثرت ایسا کرنے لگے تھے“ [مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر 1/ 382]

علامہ محمدبن علی المعروف بالعلاء الحصکفی الحنفی (المتوفی 1088) نے بھی یہی بات کہی ہے ۔[ الدر المنتقى المطبوع مع مجمع الأنهر 1/ 382]
یہی بات احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی الحنفی رحمہ اللہ (المتوفی1231) نے بھی لکھی ہے ، دیکھئے: [حاشية الطحطاوى على الدر المختار: ج 2 ص 105جدید نسخہ ج 4ص 363]

حافظ محمد قاسم دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
”لیکن جب دور عمر میں طلاقوں کی کثرت ہوئی تو ان کو تین شمار کرنے کی اجازت دے دی گئی ، فاروق اعظم نے یہ بات یوں ہی نہیں کہی ، بلکہ جب طلاقوں کا رواج کثرت سے ہوگیا تو آپ نے صحابہ کبار سے مشورہ لیا اور شوہروں کے کام گرم کرنے کی مصلحت سے تین طلاق شمار کرنے کی اجازت عام فرمادی“ [حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ص 156 بحوالہ تحفہ احناف :ص223]

 سید سلمان ندوی صاحب نے بھی اپنی مختلف ویڈیوز میں یہی بات کہی ہے ۔

بریلوی مکتب فکر کے عالم مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ ملاحظہ فرمایا کہ لوگ طلاق ثلاث کی حرمت کا جانتے ہوئے اب اس کے عادی ہوتے چلے جارہے ہیں ، تو آپ کی سیاست حکیمانہ نے ان کو اس امر حرام سے باز رکھنے کے لئے بطور سزا حرمت کا حکم صادر فرمایا ، اور خلیفہ وقت کو اجازت ہے کہ جس وقت وہ دیکھے کہ لوگ اللہ کی دی ہوئی سہولتوں اور رخصتوں کی قدر نہیں کررہے اور ان سے استفادہ کرنے سے رک گئے ہیں ، اور اپنے لئے عسرت وشدت پسند کررہے ہیں ، تو بطور سزا انہیں ان رخصتوں اور سہولتوں سے محروم کرنے کے بعد وہ اس سے باز آجائیں ۔
حضرت امیر المؤمین رضی اللہ عنہ نے یہ حکم نافذ کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں ارشاد گرامی ہے بلکہ فرمایا:
 فلو أمضيناه عليهم (کاش ہم اس کو ان پر جاری کردیں) ، ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آپ کی رائے تھی اور امت کو اس فعل حرام سے باز رکھنے کے لئے یہ تعزیری قدم اٹھایاگیا تھا“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص241 تا 242 ]
معلوم ہوا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بطور سزا تین طلاق کو نافذ کردینا یہ حلال کو حرام بنانا نہیں ہے کیونکہ سزا کا مطلب ہی یہی ہوتا کہ آدمی کو کچھ جائز چیزوں اور سہولتوں سے محروم کردیا جائے۔

کسی خلیفہ یا حاکم کی جاری کردہ تعزیر وسزا ء دائمی نہیں ہوتی :
کوئی بھی خلیفہ یاحاکم اپنے زمانے اور اپنے وقت کے لحاظ سے کوئی سزا یا تعزیر جاری کرتا ہے ، ایسی سزا وتعزیر قیامت تک کے لئے نہیں ہوسکتی ہے بلکہ زمانے ،حالات اور مصلحت کے بدلنے سے ان سزاؤں میں بھی بدلاؤ لایا جاتا ہے ۔
اور حیرت کی بات ہے کہ احناف طلاق کے مسئلہ میں ایک صحابی کی طرف سے جاری کردہ تعزیر کو دائمی ماننے پر مصر ہیں ، جبکہ دوسری طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے جاری کردہ تعزیر کو ختم کرنے میں ذرا بھی پس وپیش نہیں کرتے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے طے کی گئی سزا دائمی ہوتی ہے کیونکہ وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور اللہ رب العالمین ہر زمانے اور ہر دور کے حالات و مصلحت سے آگاہ ہے ۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادہ شدہ زانی کے لئے سو کوڑے کے ساتھ ساتھ ایک سال جلاوطنی کی سزا مقرر کی ہے ، لیکن احناف نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جاری کردہ اس سزا کو یہ کہہ کر ساقط کردیا کہ اب اس سزاء میں فائدے کے بجائے نقصان ہے ۔
اسی کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا کرم شاہ ازہری بریلوی صاحب فرماتے ہیں:
 ”غیر شادی شدہ زانی کی حد کا ذکر تو قرآن حکیم میں موجود ہے کہ اسے سو (100) درے لگائے جائیں ، لیکن حدیث میں ہے مائة جلدة وتغريب عام (بخاری رقم 2649) یعی سو درے لگائیں جائیں اور ایک سال جلاوطن کردیا جائے ، جب چند آدمیوں کو جلا وطن کیا گیا تو وہ کفار کی صحبت سے متاثر ہوکر مرتد ہوگئے ، اور علمائے احناف نے یہ کہہ کر جلاوطنی کی سزا کو ساقط کردیا کہ یہ تعزیر ہے اور اب اس سے بجائے اصلاح کے ارتداد کا دروازہ کھل گیا ہے ، اس لئے اب یہ تعزیر ساقط کرنی ضروی ہے ، حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اس (طلاق ثلاث والی) تعزیر کو آج باقی رکھنے سے جو مفاسد اسلامی معاشرے میں رونما ہورہے ہیں ، کون سی آنکھ ہے جو اشکبار نہیں اور کون سا دل ہے جو درد مند نہیں“ [ دعوت فکرونظر: مطبوع در مجموعہ مقالات ص242 ]

قارئین ملاحظہ فرمائیں یہ ایک حنفی بریلوی عالم ہی بات ہے کہ اگر احناف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیر کو ساقط کرسکتے ہیں تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تعزیر کو ساقط کیوں نہیں کرسکتے ؟

یہ بھی واضح رہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ ایسی طلاق دینے والوں کو کوڑے بھی مارتے تھے چنانچہ:
 ✿ امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے کہا:
”عن إسماعيل بن عبد الله، قال: أخبرني عبيد الله بن العيزار، أنه سمع أنس بن مالك يقول: كان عمر بن الخطاب إذا ظفر برجل طلق امرأته ثلاثا أوجع رأسه بالدرة“
 ”انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جب کسی ایسے شخص کو پاجاتے جو اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا تو اس کے سر پر کوڑے برساتے“ [المصنف لعبد الرزاق الصنعاني، دار التأصيل: 5/ 406 واسنادہ صحیح ، إسماعيل بن عبد الله ھو إسماعيل بن عبد الله بن الحارث البصرى]

 ✿ امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
 ”حدثنا وكيع، عن سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن زيد بن وهب؛ أن رجلا بطالا كان بالمدينة طلق امرأته ألفا، فرفع إلى عمر فقال: إنما كنت ألعب، فعلا عمر راسه بالدرة، وفرق بينهما“ 
 ”زید بن وھب کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک ہنسی مزاح کرنے والا شخص تھا ، اس نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دے دی ، اس کامعاملہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ تک لایا گیا تو اس نے کہا : میں تو صرف مزاح اور تفریح کررہا تھا ، تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اس کے سر پر کوڑے مارے اور میاں بیوی دونوں کو الگ کردیا“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 105 وإسناده صحيح وصححه المحقق]

 ✿ امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
 ”حدثنا علي بن مسهر، عن شقيق بن أبي عبد الله، عن أنس قال: كان عمر إذا أتي برجل قد طلق امرأته ثلاثا في مجلس أوجعه ضربا، وفرق بينهما“ 
 ”انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی ایسا شخص لایا جاتا جو اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دیتا تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ اس کی پٹائی کرتے اور میاں بیوی کو الگ کردیتے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 10/ 102وإسناده صحيح]

ان سارے آثار کے بارے میں ہمارا یہی کہنا ہے کہ یہ ایک تعزیری فرمان تھا اور اس طرح کا فرمان قیامت تک کے لئے نہیں ہوتا لہٰذا اسے شرعی فتوی کہہ کر ہرزمانہ میں اس سے استدلال کرنا قطعا درست نہیں ہے ۔
بلکہ خود فریق مخالف بھی اس فرمان فاروقی کی ساری باتوں پر عمل نہیں کرتے نہ ان کو حجت سمجھتے ہیں ، چنانچہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان ہر طرح کی طلاق بدعت اور ہر طرح کی تین طلاق کے لئے تھا جس میں مدخولہ بھی اور غیر مدخولہ سب شامل ہیں ۔
لیکن فریق مخالف غیرمدخولہ بیوی کو دی گئی تین طلاق کے بارے میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان سے اختلاف کرتے ہیں اور اسے تین نہیں مانتے ، جبکہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مدخولہ کے ساتھ ساتھ غیر مدخولہ کو بھی دی گئی ہر طرح کی تین طلاق کو تین قرار دیتے تھے جیساکہ اس سلسلے میں بھی ان سے کئی روایات مروی ہیں چنانچہ:

 ✿ امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
 ”أخبرنا أبو نصر بن قتادة أخبرنا أبو الفضل بن خميرويه حدثنا أحمد بن نجدة حدثنا سعيد بن منصور حدثنا سفيان عن شقيق سمع أنس بن مالك يقول قال عمر بن الخطاب رضى الله عنه فى الرجل يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها قال : هى ثلاث لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره وكان إذا أتى به أوجعه“ 
 ”انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جس نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے کہ یہ تین طلاق ہے اس کی بیوی حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سےشادی نہ کرلے اور ایسا شخص جب عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا جاتا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسے مارتے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 7/ 334 وإسناده صحيح]

 ✿ أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321) نے کہا:
 ”حدثنا يونس , قال: أخبرنا سفيان , قال: حدثني شقيق , عن أنس بن مالك , عن عمر قال في الرجل يطلق البكر ثلاثا: إنها لا تحل له , حتى تنكح زوجا غيره“ 
 ”انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے باکرہ (یعنی غیرمدخولہ) کو تین طلاق دینے والے شخص کے بارے میں کہا: اس کی بیوی حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 59 ، رقم 4490 وإسناده صحيح]

ان روايات سے معلوم ہوا کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ غیرمدخولہ کو دی گئی تین طلاق کو بھی تین قرار دیتے تھے ، لیکن فریق مخالف اسے نہیں مانتے ۔
بلکہ حلالہ جیسے لعنتی فعل سے متعلق بھی یہ لوگ عمر فاروق رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کے فتوی سے  رو گردانی کرتے ہوئے نہ صرف حلالہ جو جائز بتلاتے ہیں بلکہ اسے کار ثواب بھی بتلاتے ہیں جبکہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نہ صرف اسے حرام قرار دیتے تھے بلکہ یہ بھی کہتے تھے کہ جو کوئی یہ کام کرتے ہوئے پکڑا گیا اسے رجم کردوں گا چنانچہ:

 ✿ امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) نے کہا:
 ”حدثنا محمد بن سعيد بن نبات نا أحمد بن عون الله نا قاسم بن أصبغ نا محمد بن عبد السلام الخشني نا محمد بن بشار نا يحيى بن سعيد القطان نا شعبة عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن قبيصة بن جابر الأسدي قال: قال عمر بن الخطاب: لا أوتى بمحلل أو محلل له إلا رجمته“ 
 ”قبيصة بن جابر الأسدي کہتے ہیں کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس جو بھی حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا وہ لایا گیا تو میں اسے رجم کردوں گا“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 12/ 195وإسناده صحيح و الأعمش هنا يروي عنه شعبة فعنعنته مقبولة ، وأخرجه أيضا عبدالرزاق في مصنفه رقم 10777من طريق الثوري ومعمر ،وأخرجه أيضا سعيد بن منصور في سننه 2/ 75 وعنه حرب الكرماني في مسائله 1/ 320 من طريق جرير بن عبدالحميد ،وأخرجه أيضا سعيد بن منصور في سننه 2/ 75 وعنه حرب الكرماني في مسائله 1/ 320 وابن أبي شيبه في مصنفه 4/ 294 والبيهقي في سننه 7/ 208 من طريق أبي معاويه ،وأخرجه أيضا الثعلبي في تفسيره 6/ 231 من طريق ابن مسهر ، كلهم (شعبة والثوري ومعمر وجرير وأبومعاوية وابن مسهر ) عن الأعمش به]

اسی طرح عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بیسوں فتاوی ایسے ہیں جو سیاسی اور تعزیری نہیں بلکہ خالص شرعی فتاوی ہیں لیکن فریق مخالف بالخصوص حنفی حضرات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ، اس کے برعکس جب تین طلاق کی بات آتی ہے تو لوگوں کے سامنے عمرفاروق رضی اللہ عنہ یا تعزیری فرمان پیش کرکے اسے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا شرعی فتوی باور کراتے ہیں اور اس کی مخالفت کو عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی قرار دیتے ہیں جو بہت بڑی نا انصافی ہے۔


No comments:

Post a Comment