باب (4) : وقوع طلاق کے شرائط - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-08

باب (4) : وقوع طلاق کے شرائط


باب (4) : وقوع طلاق کے شرائط
طلاق کے وقوع کی کل نو شرائط ہیں جو ارکان طلاق میں سے کسی نے کسی رکن سے تعلق رکھتی ہیں ۔
پہلے رکن (مطلقہ) سے متعلق چار شرائط ہیں
دوسرے رکن (مطلق ) سے متعلق تین شرائط ہیں
تیسرے رکن (صیغہ طلاق) سے متعلق ایک شرط ہے
چوتھے رکن (قصد) سے متعلق ایک شرط ہے۔
تفصیلات ملاحظہ ہوں:

(الف)مطلقہ سے متعلق شرائط
1۔پہلی شرط : عورت طلاق دینے والے کی منکوحہ ہو۔
مطلقہ یعنی جس عورت کو طلاق دی جارہی ہے اس کا طلاق دینے والے کی نکاح میں ہونا ضروی ہے ، ورنہ نکاح سے قبل کسی عورت کو طلاق نہیں دی جاسکتی ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا﴾
اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے (ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو [33/الأحزاب: 49]
اس آیت میں اللہ تعالی نے نکاح کے بعد طلاق دینے کی بات کہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایک آدمی اپنی منکوحہ عورت ہی کو طلاق دے سکتا ۔

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حدثنا علي بن حمشاذ العدل ، حدثنا إسماعيل بن إسحاق القاضي ، حدثنا مسلم بن إبراهيم ، حدثنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده (ح) وحدثنا علي ، حدثنا علي بن عبد العزيز ، حدثنا عمرو بن عون ، حدثنا هشيم ، حدثنا عامر الأحول ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا طلاق قبل النكاح
عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں ہے [المستدرك للحاكم، ط الهند: 2/ 204 وإسناده صحيح]

قرآن وحدیث کے مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نے نکاح سے قبل کسی عورت کو طلاق دیا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔

2۔دوسری شرط : عورت طہر(پاکی) کی حالت میں ہو۔
مطلقہ یعنی جس عورت کو طلاق دی جارہی ہے وہ اگر ناپاکی یعنی حیض و نفاس کی حالت میں ہو تو اسے طلاق دینا جائز نہیں بلکہ بوقت طلاق اس کا پاکی (طہر یا حمل ) کی حالت میں ہونا ضروری ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ﴾
اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو[65/الطلاق: 1]
اس آیت میں اللہ تعالی نے عورتوں کو ان کی عدت میں طلاق دینے کا حکم دیا ہے اور احادیث میں یہاں عدت کی تفسیر میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ عورت طہر یعنی پاکی کی حالت میں ہو۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ»
 ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں  حالت حیض میں طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہو کہ اپنی بیوی واپس لیں اور اسے اپنے پاس  رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنی نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے ہونا چاہئے۔ یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے“[صحيح البخاري (7/ 41) : كتاب الطلاق، رقم 5251]

قرآن وحدیث کے مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ طلاق دیتے وقت عورت کا پاکی کی حالت میں ہونا ضروری ہے ۔
اگرکسی نے عورت کی ناپاکی کی حالت میں اسے طلاق دے دیا تو اس پر امت کا اجماع ہے کہ قرآن وحدیث کی خلاف ورزی کے سبب یہ بدعی طلاق ہے۔
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى 463) نے کہا:
كان الطلاق عند جميعهم في الحيض مكروها بدعة غير سنة
حیض(عورت کی ناپاکی) کی حالت میں طلاق دی گئی تو تمام اہل علم کے نزدیک یہ سنی طلاق نہیں بلکہ حرام و بدعی طلاق ہے [الاستذكار لابن عبدالبر: 6/ 142]

ابن قدامة المقدسي (المتوفى 620) فرماتے ہیں:
وأما المحظور، فالطلاق في الحيض، أو في طهر جامعها فيه، أجمع العلماء في جميع الأمصار وكل الأعصار على تحريمه، ويسمى طلاق البدعة؛ لأن المطلق خالف السنة، وترك أمر الله تعالى ورسوله
جہاں تک حرام طلاق کی بات ہے تو حالت حیض میں طلاق دینا حرام ہے ، یا ایسے طہر میں جس میں شوہر نے بیوی سے جماع کیا ہو ، ہر دور میں ہرعلاقے کے علماء کا اجماع ہے کہ یہ طلاق حرام ہے اور اسے طلاق بدعی کہتے ہیں ، کیونکہ طلاق دینے والے نے اس میں سنت کی مخالفت کی ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی ہے [المغني لابن قدامة 7/ 364]

امام نووي رحمه الله (المتوفى676)نے کہا:
أجمعت الأمة على تحريم طلاق الحائض
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حائضہ عورت کو طلاق دینا حرام ہے[شرح النووي على مسلم 10/ 60]

البتہ اس بات پر اہل علم کا اختلاف ہے کہ یہ بدعی طلاق واقع ہوگی یا نہیں ، تو بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ گرچہ اس طرح طلاق دینا حرام وناجز اور بدعت ہے لیکن یہ واقع ہوجائے گی ۔
جبکہ بعض اہل علم کا کہنا یہ بدعی طلاق واقع نہیں ہوگی اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا ، یہی بات دلائل کی روشنی میں درست ہے اس بارے میں تفصیلی بحث ہم آئندہ الگ سے پیش کریں گے ۔

3۔تیسری شرط : حالت حیض میں طلاق یافتہ عوت طہر ثانی میں ہو
مطلقہ یعنی جس عورت کو طلاق دی جارہی ہے اگر پہلے اس کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی گئی ہو ، تو اس طلاق کا کوئی اعتبار نہ ہوگا ، اور ایسی عورت کو اگلے طہر میں بھی طلاق نہیں دی جاسکتی بلکہ اگر اسے طلاق دینی ہو تو ایک طہر کے بعد عورت جب دوسرے طہر میں آئے تو اس دوسرے طہر میں ہی اسے طلاق دی جاسکتی ہے ۔
اس کی دلیل ماقبل کی آیت(65/الطلاق: 1)و صحیح بخاری کی حدیث (5251)ہے ۔

4۔چوتھی شرط : حالت طہر میں جماع (ہمبستری ) نہ ہوئی ہو
جس طہر میں بیوی کو طلاق دی جارہی ہو شوہر نے اس طہر میں اس بیوی سے ہمبستری نہ کی ہو ، اگر اس طہر میں شوہر نے ہمستری کرلی ہو پھر اس پورے طہر میں طلاق نہیں دی جاسکتی ، بلکہ اگلے ایسے طہر میں ہی طلاق دی جاسکتی ہے جس میں شوہر نے اس بیوی سے ہمبستری نہ کی ہو ۔
اس کی دلیل بھی ماقبل کی آیت(65/الطلاق: 1)و صحیح بخاری کی حدیث (5251)ہے ۔


(ب)مطلق سے متعلق شرائط
1۔پہلی شرط : سابق طلاق دی ہو تو اس سے رجوع کرچکا ہو۔
اگرشوہر پہلے طلاق دے چکاہے اوراس کی عدت جاری ہو اور اس نے پہلی طلاق سے رجوع نہ کیا ہو تو وہ اب وہ دوران عدت دوسری طلاق نہیں دے سکتا ہے ۔جیساکہ درج ذیل دلائل سے معلوم ہوتا ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ}
طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرایک کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے [2/البقرة: 229]
اس آیت میں اللہ رب العالمین نے ابتدائی دو طلاق میں سے ہر ایک طلاق دینے کے بعد صرف دو ہی آپشن دیا ہے ایک رجوع کا دوسرا علیحدگی کا ۔یہاں طلاق کے بعد بغیر رجوع کے اگلی طلاق دینے کی گنجائش نہیں ہے ۔لہٰذا اگر کسی نے سابقہ طلاق سے رجوع کے بغیر دوسری طلاق دی تو یہ ناجائز اور بدعی طلاق ہوگی اور اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا ۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كيف طلقتها ؟» قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : «في مجلس واحد ؟ » قال : نعم قال : «فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت» قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے طلاق دی ؟“ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے پوچھا: ”کیا ایک ہی مجلس میں ؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو“ ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265 رقم 2387 وإسناده صحيح ]
اس حدیث کی استنادی حالت پر تفصیلی بحث آگے آرہی ہے ۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ صحابی نے ایک طلاق دینے کے بعد بغیر رجوع کے مزید دو طلاقیں دے ڈالی تھیں اس لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر رجوع کے دی گئی اگلی طلاقوں کو کالعدم قراردیا ۔
معلوم ہوا کہ سابقہ طلاق سے رجوع کے بغیر اگلی طلاق دینا ناجائز ہے اور کالعدم ہے ۔

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) فرماتے ہیں:
وأما " السنة " إذا طلقها طلقة واحدة لم يطلقها الثانية حتى يراجعها في العدة أو يتزوجها بعقد جديد بعد العدة فحينئذ له أن يطلقها الثانية
سنت یہ ہے کہ جب ایک طلاق دے ڈالے تو دوسری طلاق نہیں دے سکتا جب تک کہ دوران عدت رجوع نہ کرلے یا عدت کے بعد نئے سرے سے نکاح کرلے ، ایسی صورت میں وہ دوسری طلاق دے سکتا ہے[مجموع الفتاوى، ت ابن قاسم: 33/ 72]

شیخ ابن عثمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والقول الراجح في هذه المسائل كلها: أنه ليس هناك طلاق ثلاث أبداً، إلا إذا تخلله رجعة، أو عقد، وإلا فلا يقع الثلاث، وهذا اختيار شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله، وهو الصحيح
ان تمام مسائل میں راجح قول یہ ہے کہ ایسی صورت میں تین طلاق ہرگز نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہرطلاق کے بعد رجوع نہ ہوا ہو یا عقد جدید نہ ہوا ہو ، ورنہ تین طلاق نہیں شمار ہوگی ، یہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف ہے اور یہ صحیح ہے [الشرح الممتع على زاد المستقنع 13/ 94]

تنبیہ بلیغ:
احناف کے یہاں طلاق حسن کے نام سے طلاق کا ایک طریقہ ہے جس میں بغیر رجوع کے یکے بعد دیگرے ہرطہر میں طلاق دی جاتی ہے اور تین طلاق مکمل ہونے پر عورت ہمیشہ کے لئے شوہر سے جدا کردی جاتی ہے ۔
احناف اسے جائز طلاق شمار کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ناجائز اور حرام طلاق ہے ، کیونکہ اس میں کتاب وسنت کی تعلیمات کے خلاف بغیر رجوع کے اگلی طلاقیں دی جاتی ہیں ، احناف کی اس مصطلحہ طلاق حسن پر آگے تفصیلی بحث آرہی ہے ۔

2۔دوسری شرط: سابق طلاق سے رجوع اصلاحی ہو:
اگرطلاق دینے کے بعد اس نیت سے رجوع کررہا ہو کہ دوبارہ پھر طلاق دے گا ، چنانچہ ایسے رجوع کے بعد شوہر طلاق دے ڈالے ، تو ایسے رجوع اور ایسی طلاق کا کوئی اعتبار نہ ہوگا ، کیونکہ اس نیت سے رجوع جائز نہیں ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ}
طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرایک کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے [2/البقرة: 229]
اس آیت میں اللہ رب العالمین نے طلاق کے بعد جس رجوع کا ذکر کیا ہے اسے امساک بمعروف یعنی اصلاحی رجوع کہا ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
{ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا }
ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو [2/البقرة: 228]
مزید ارشاد ہے:
{ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا }
اور طلاق کے بعد عورتوں کو اس نیت سے نہ روکو کہ ان پر ظلم کرو[2/البقرة: 231]

شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (المتوفى728) اس آیت سے متعلق فرماتے ہیں:
”قوله سبحانه : {وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا} وقوله سبحانه : { وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا } فإن ذلك نص في أن الرجعة إنما ثبتت لمن قصد الصلاح دون الضرار“ 
”اللہ تعالی کا فرمان {اوران کے شوہر اس مدت میں انہیں واپس لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو} نیز اللہ تعالی کا فرمان { اور طلاق کے بعد عورتوں کو اس نیت سے نہ روکو کہ ان پر ظلم کرو } ،اس میں صریح دلیل ہے کہ رجوع اسی شخص کا ثابت مانا جائے گا جو اصلاح کی نیت سے رجوع کرکے نہ کہ نقصان پہنچانے کے لئے“ [مجموع الفتاوى، ت حسنين: 6/ 54 ، شفاء العليل في إختصار إبطال التحليل ص55]

امير صنعاني رحمه الله (المتوفي1182) فرماتے ہیں:
”واعلم أنه قال تعالى {وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا} أي أحق بردهن في العدة بشرط أن يريد الزوج بردها الإصلاح، وهو حسن العشرة والقيام بحقوق الزوجية.فإن أراد بالرجعة غير ذلك كمن يراجع زوجته ليطلقها كما يفعله العامة ... فهذه المراجعة لم يرد بها إصلاحا، ولا إقامة حدود الله فهي باطلة إذ الآية ظاهرة في أنه لا تباح له المراجعة، ولا يكون أحق برد امرأته إلا بشرط إرادة الإصلاح وأي إرادة إصلاح في مراجعتها ليطلقها. ومن قال إن قوله {إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا} ليس بشرط للرجعة، فإنه قول مخالف لظاهر الآية بلا دليل“ 
 ”اور جان کہ اللہ کا فرمان {اوران کے شوہر اس مدت میں انہیں واپس لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو} اس کا مطلب یہ ہے کہ عدت میں وہ واپس لینے کے پورے حقدار ہیں ، لیکن اس شرط پر کہ شوہر کا ارادہ اصلاح ، حسن سلوک اور حق زوجیت کو اچھی طرح ادا کرنے کا ہو ، اور اگر رجوع سے شوہر کا ارادہ اس کے سوا کچھ اور ہو مثلا اس لئے اپنی بیوی سے رجوع کرے تاکہ اسے طلاق دے جیساکہ عام لوگ کرتے ہیں... تو ایسے رجوع میں اصلاح کی نیت نہیں ہے ، اور نہ ہی اللہ کے حدود کو قائم کرنا مقصود ہے ، لہٰذا ایسا رجوع باطل ہے، کیونکہ آیت کا مفہوم ظاہر ہے کہ شوہر کے لئے رجوع جائز نہیں ہوگا اور وہ بیوی کو واپس لینے کا حقدار نہیں ہوگا مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس کا ارادہ اصلاح کا ہو ، اور یہ کون سی اصلاح والی بات ہے  کہ وہ طلاق دینے کے لئے رجوع کرے، اور جو یہ کہے کہ اللہ کا قول {اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو} رجوع کے لئے شرط نہیں ہے تو بغیر کسی دلیل کے آیت کے ظاہری مفہوم کی مخالفت کررہاہے“ [سبل السلام 2/ 268]

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، قَالَ: ثنا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى: " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَضِبَ عَلَى الْأَشْعَرِيِّينَ فَأَتَاهُ أَبُو مُوسَى، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ غَضِبْتُ عَلَى الْأَشْعَرِيِّينَ فَقَالَ: «يَقُولُ أَحَدُكُمْ قَدْ طَلَّقْتُ قَدْ رَاجَعْتُ لَيْسَ هَذَا طَلَاقُ الْمُسْلِمِينَ، طَلِّقُوا الْمَرْأَةَ فِي قُبْلِ عِدَّتِهَا»
ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اشعری صحابہ پر ناراض ہوگئے ، تو ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اشعری صحابہ پر ناراض ہوگئے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں میں بعض کا یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ : میں نے طلاق دی میں نے رجوع کیا ، یہ مسلمانوں کی طلاق نہیں ہے ، عورت کو صرف اس کی عدت میں طلاق دو[تفسير الطبري، ط هجر: 4/ 184و إسناده صحيح]

نیز یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ طلاق کی نیت سے اگر کوئی شخص نکاح کرکے تو ایسا نکاح درست نہیں ہوگا ، بنا بریں طلاق کی نیت سے اگر کوئی رجوع کرکے تو اس کا رجوع بھی درست نہ ہوگا۔

3۔تیسری: سابق طلاق کی عدت، بغیر رجوع کے مکمل نہ ہوگئی ہو
اگر شوہر نے سابق طلاق دی ہو اور عدت کے دوران رجوع بھی نہ کیا تو ایسی صورت میں عدت کے مکمل ہوتے ہی اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی ، اب وہ اس کی بیوی نہیں رہ جائے گی بلکہ اس کے لئے اجنبی ہوجائے گی ، لہٰذا آدمی ایسی عورت کو طلاق نہیں دے سکتا اور دے گا تو طلاق نہیں مانی جائے گی کیونکہ وہ اب اس کی بیوی نہیں ہے یعنی اس کے نکاح میں باقی ہی نہیں ہے ، ہاں اگر اس عورت سے دوبارہ نکاح کرلے پھر طلاق کی نوبت آجائے تو اسے طلاق دے سکتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا﴾
اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے (ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں جسے تم شمار کرو [33/الأحزاب: 49]
اس آیت میں اللہ تعالی نے نکاح کے بعد طلاق دینے کی بات کہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایک آدمی اپنی منکوحہ عورت ہی کو طلاق دے سکتا ۔

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حدثنا علي بن حمشاذ العدل ، حدثنا إسماعيل بن إسحاق القاضي ، حدثنا مسلم بن إبراهيم ، حدثنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده (ح) وحدثنا علي ، حدثنا علي بن عبد العزيز ، حدثنا عمرو بن عون ، حدثنا هشيم ، حدثنا عامر الأحول ، عن عمرو بن شعيب ، عن أبيه ، عن جده رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا طلاق قبل النكاح
عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں ہے [المستدرك للحاكم، ط الهند: 2/ 204 وإسناده صحيح]
ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ آدمی اس عورت کو طلاق نہیں دے سکتا جو اس کے نکاح میں نہیں ہے ۔

(ج) صیغہ طلاق سے متعلق شرط
ایک مجلس میں ایک ہی بار طلاق دے
ایک بار طلاق دینے کے بعد تین حیض تک عورت کی عدت ہوتی ہے اس دوران شوہر چاہے تو رجوع کرسکتا ہے ۔ایک طلاق دینے کے بعد جب تک آدمی رجوع نہیں کرتا ہے تب تک وہ دوسری طلاق نہیں دے سکتا ہے ، جیساکہ دلائل گذرچکے ہیں اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ایک مجلس میں آدمی ایک ہی طلاق دے سکتا ہے ۔اگر ایک مجلس میں کسی نے ایک سے زائد طلاق دی تو ایک کے بعد دیگر طلاقیں بدعی ہوں گی ان کا کوئی اعتبار نہ ہوگا ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ}
طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرایک کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے [2/البقرة: 229]
اس آیت میں اللہ رب العالمین نے ابتدائی دو طلاق میں سے ہر ایک طلاق دینے کے بعد صرف دو ہی آپشن دیا ہے ایک رجوع کا دوسرا علیحدگی کا ۔یہاں طلاق کے بعد بغیر رجوع کے اگلی طلاق دینے کی گنجائش نہیں ہے ۔لہٰذا اگر کسی نے سابقہ طلاق سے رجوع کے بغیر دوسری طلاق دی تو یہ ناجائز اور بدعی طلاق ہوگی اور اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا ۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كيف طلقتها ؟» قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : «في مجلس واحد ؟ » قال : نعم قال : «فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت» قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے طلاق دی ؟“ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے پوچھا: ”کیا ایک ہی مجلس میں ؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو“ ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265 رقم 2387 وإسناده صحيح ]
اس حدیث کی استنادی حالت پر تفصیلی بحث آگے آرہی ہے ۔

طلاق کے وقت گواہوں کی موجودگی :
طلاق کے وقت گواہ ضروی ہے یا نہیں اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔
اکثر اہل علم اسے مستحب مانتے ہیں ، اور بعض اہل علم کا ماننا ہے کہ طلاق کے وقت گواہ بھی شرط ہے ، اگر بغیر گواہ کے طلاق دی گئی تو وہ طلاق واقع ہی نہیں ہوگی ، امام عطاء بن ابی رباح ، عبدالملک بن جریج ، علامہ احمد شاکر ،  ابن حزم رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [الجامع في أحكام الطلاق وفقهه وأدلته ، تالیف عمرو عبدالمنعم سلیم: ص 150 تا 161]
ہمارے نزدیگ اس سلسلے میں راجح بات یہ کہ گواہی کو واجب مانیں یا مستحب بہرصورت طلاق کے وقوع پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ، اس کی دلیل یہ حدیث ہے:

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ، أَنَّ جَعْفَرَ بْنَ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَهُمْ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ، ثُمَّ يَقَعُ بِهَا، وَلَمْ يُشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا، وَلَا عَلَى رَجْعَتِهَا، فَقَالَ: «طَلَّقْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ، وَرَاجَعْتَ لِغَيْرِ سُنَّةٍ، أَشْهِدْ عَلَى طَلَاقِهَا، وَعَلَى رَجْعَتِهَا، وَلَا تَعُدْ»
مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے کہ` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس کے ساتھ صحبت بھی کر لے اور اپنی طلاق اور رجعت کے لیے کسی کو گواہ نہ بنائے تو انہوں نے کہا کہ تم نے سنت کے خلاف طلاق دی اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت دونوں کے لیے گواہ بناؤ اور پھر اس طرح نہ کرنا۔[سنن أبي داود 2/ 257 ، رقم 2186 وصححہ الالبانی]

اور بیہقی کی روایت میں ہے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا :
”فليشهد الآن“ ،  ”یہ شخص اب گواہ بنالے“ [السنن الكبرى : 7/ 373 وإسناده صحيح وابن سيرين سمع بن عمران كما قال ابن معين وروايته عنه في صحيح مسلم]

اس حدیث میں صحابی رسول نے بغیر گواہی کے دی گئی طلاق کو غیر واقع نہیں کہا بلکہ یہ کہا اس پراب گواہ بنالو اور اسے سنت قراردیا جو حکما مرفوع ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ عین طلاق کے وقت گواہ بنانا ضروری نہیں ہے ، بلکہ بعد میں بھی گواہ بنایا جاسکتا ہے ، لہٰذا اس سے طلاق پر کوئی فرق نہیں پڑے گا واللہ اعلم۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) اس سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 ”وهذا يدل على نفوذهما دون الإشهاد حتى قال: فليشهد الآن“ 
 ”یہ اس بات کی دلیل ہے کہ طلاق اور رجوع بغیر گواہ کے بھی ہوجائے گا ، اسی لئے عمران رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : اب یہ شخص گواہ بنالے“ [معرفة السنن والآثار 11/ 99]
یہی بات شیخ عمرو عبدالمنعم سلیم نے کہی ہے دیکھیں:[الجامع في أحكام الطلاق وفقهه وأدلته : ص 154]

(د) قصد سے متعلق شرط
قصد (ارادہ) سے متعلق شرط یہ ہے کہ مطلق طلاق دینے کی معتبرحالت میں ہو۔ کیونکہ اس کے بغیر قصد و ارادہ کا وجود ہی نہ ہوگا ۔ اور بغیر قصد وارادہ کے طلاق معتبر نہ ہوگی ، دلائل ملاظہ ہوں:
اللہ کا ارشاد ہے :
{وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ}
اور اگر طلاق کا ہی قصد کرلیں تو اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والاہے [2/البقرة: 227]

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ»
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا` آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے[صحيح البخاري (1/ 6 ): رقم 1]

اور طلاق دینے والے کی وہ تمام حالتیں جس میں طلاق دینے والے پاس نیت نہ ہو ان حالتوں میں طلاق کا اعتبار نہ ہوگا مثلا :
طلاق دینے والا مجبور ہو ، یا مجنون و پاگل ہو ، یا ہوش میں نہ ہو ، یا نشہ میں ہو ، یا ایسے غصہ میں ہو جس میں اسے اپنے عقل و ارادہ پر کنٹرول نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔
طلاق میں نیت و ارادہ سے متعلق مزید تفصیل کے لئے دیکھیں : [الجامع في أحكام الطلاق وفقهه وأدلته : ص 43 تا 49]

No comments:

Post a Comment