طلاق حیض ماننے پر تین سے زائد طلاق لازم آتی ہے - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-17

طلاق حیض ماننے پر تین سے زائد طلاق لازم آتی ہے




باب (5) :   طلاق حیض پر  تفصیلی بحث 
حالت حیض میں دی گئی طلاق معتبر ہوتی ہے یا نہیں اسے شمار کیا جائے گا یا نہیں اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اس حالت میں طلاق دینا گرچہ ناجائز وحرام ہے لیکن یہ واقع ہوجائے گی ، جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی ، یہی بات راجح ہے تفصیل ملاحظہ ہو:

طلاق حیض: قائلین عدم وقوع کے دلائل
پہلی دلیل : طلاق حیض کے عدم وقوع پر قرآنی آیات

پہلی آیت: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ...}
طلاق حیض ماننے پر تین سے زائد طلاق لازم آتی ہے
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں معتبر طلاقوں کی تعداد صرف تین بتلائی ہے، جن میں دو طلاقیں رجعی ہیں اور تیسری بائنہ ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ}
”طلاق دو مرتبہ ہیں، پھر (ہرایک کے بعد) یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے“ [2/البقرة: 229]
اور آگے چل کر اللہ تعال تیسری طلاق یعنی طلاق بائنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے:
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}
 ”پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک وه عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے“ [البقرة: 230]
معلوم ہوا کہ بیوی کو الگ کرنے کے لئے معتبر طلاق صرف اورصرف تین ہی ہیں ۔
.
اب طلاق حیض سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دیکھئے:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
 ”حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ“ 
 ”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حالت حیض میں طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہو کہ اپنی بیوی واپس لیں اور اسے اپنے پاس رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنی نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے ہونا چاہئے۔ یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے“ [صحيح البخاري (7/ 41) : كتاب الطلاق، رقم 5251]

اس حدیث کے مطابق حالت حیض میں طلاق دینے پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہے کہ بیوی کو واپس لیا جا ئے ۔ اور اس حیض والی طلاق سے اسے الگ نہیں کیا جاسکتا بلکہ الگ کرنے کے لئے اسے دوبارہ سنت کے مطابق طلاق دینا ضروری ہے۔
یادرہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے جب یہ مسئلہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تفصیل نہیں پوچھی کہ کیا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس بیوی کو پہلی بار طلاق دیا ہے ؟ یا اس سے پہلے بھی دو بار طلاق دے کر رجوع کرچکے ہیں ، اور اب تیسری بار طلاق دیا ہے ؟ بلکہ بغیر کوئی تفصیل طلب کئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر کیا کہ وہ بیوی کو واپس لیں ، پھر دوسرے طہر میں چاہیں تو طلاق دے سکتے ہیں ۔

اب فرض کیجئے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو زندگی میں دو بار الگ الگ موقع سے شریعت کے مطابق طلاق دے کر رجوع کرچکا ہے اور اس کے پاس صرف تیسری طلاق ہی کا موقع بچا ہے ، لیکن یہ شخص تیسری بار اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دے ۔تو اب وہ کیا کرے گا؟؟؟
 ⟐ اگر کہا جائے کہ یہ طلاق بائن ہوگی اور اس کی بیوی الگ ہوجائے گی تو یہ مذکورہ حدیث کی صریح خلاف ورزی ہے ، کیونکہ اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی تفصیل کے طلاق حیض کے بعد بیوی کو واپس لینا لازم قراردیا ہے ،اور بیوی کو الگ کرنے کے لئے نئے سرے سے طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ 
 ⟐ اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ شخص بیوی کو واپس لے گا اور دوسرے طہر میں نئے سرے سے طلاق دے گا ، تو پھر طلاق حیض کو بھی شمار کرنے کی صورت میں یہ کل چار طلاقیں ہوگئیں ، جو قرآن مجید کی صریح خلاف ہے ۔
ہاں اگر یہ کہا جائے کہ طلاق حیض واقع نہیں ہوتی ہے اس کا کوئی شمار نہیں ہوگا تو ایسی صورت میں نہ تو قرآن کی مخالفت لازم آتی ہے اور نہ ہی حدیث کی ۔اس لئے یہ طے ہوجاتا ہے کہ طلاق حیض واقع نہیں ہوتی ہے اس کا کوئی شمار نہیں ہے ۔

تنبیہ:-
اگر کوئی کہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب یہ مسئلہ پوچھا جاتا تھا کہ اگر کسی نے حیض کی حالت میں تینوں طلاق ایک ساتھ دے دی تو ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ فتوی دیتے تھے کہ اس صورت میں بیوی الگ ہوجائے گی ۔جیساکہ ابن عمرکے شاگرد نافع کی روایات میں ہے ۔
توعرض ہے کہ اس فتوی کے لئے ابن عمررضی اللہ عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ قطعا نہیں دیتے تھے اس لئے یہ فتوی حدیث کا جواب ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
 اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے لبن الفحل سے متعلق حرمت رضاعت والی حدیث نقل کی ہے اوراس کے خلاف خود اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمل وموقف یہ تھا کہ لبن الفحل کا اعتبار نہیں ہے
اسی طرح صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ثابت ہے کہ لونڈی کو آزاد کرنا طلاق نہیں ہے ، لیکن اپنی اس روایت کے خلاف ان کا فتوی ہے لونڈی کو آزاد کرنا طلاق ہے ۔
اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عن نے رمل کی حدیث روایت کی ہے اور خود یہ فتوی دیا ہے کہ رمل سنت نہیں ہے ۔
ان تمام مثالوں میں امت نے صحابی کے فتوی کی وجہ سے ان کی روایت کردہ حدیث کو کسی نے نہیں چھوڑا ہے۔
ان مثالوں کی تفصیل حوالوں کے ساتھ آگے آرہی ہے۔ [دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ]
نیز ابن عمر رضی اللہ عنہ سے خود بھی یہ ثابت ہے کہ وہ طلاق حیض کو واقع نہیں مانتے تھے ، اور دوسری طرف ان کے والد عمر رضی اللہ عنہ نے سرکاری طور پر لوگوں کی تادیب و تعزیر کے لئے تین طلاق کو نافذ کردیاتھا ، اس لئے ظاہر ہے کہ ان کی طرف سے تین طلاق کے وقوع کا فتوی اپنے والد کے سرکاری فرمان کی روایت میں لوگوں کی تادیب و توبیخ ہی کے لئے تھا۔اس بابت بھی مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔[دیکھئے اسی کتاب کا صفحہ]

اگلا حصہ

No comments:

Post a Comment