پچھلا
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اثر
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن معمر عن الزهري عن سالم عن بن عمر قال من طلق امرأته ثلاثا طلقت وعصى ربه“
”ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیا اس کی طلاق ہوجائے گی اوراس نے اپنے رب کی نافرمانی کی“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 395 وإسناده صحيح ]
ابن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فتوی بھی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے تعزیری فرمان کے تحت ہی تھا ، اوراسی بناپر آپ حالت حیض دی گئی تین طلاق کواپنے اصل موقف کے خلاف نہ صرف واقع بتاتے تھے بلکہ حالت حیض میں تین طلاق دینے والے پر اس کی بیوی کو حرام بتاتے تھے اور بیوی واپس لینے کی گنجائش نہیں دیتے تھے ۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، أن ابن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما، طلق امرأة له وهي حائض تطليقة واحدة، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يراجعها ثم يمسكها حتى تطهر، ثم تحيض عنده حيضة أخرى، ثم يمهلها حتى تطهر من حيضها، فإن أراد أن يطلقها فليطلقها حين تطهر من قبل أن يجامعها: «فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء» وكان عبد الله إذا سئل عن ذلك قال لأحدهم: إن كنت طلقتها ثلاثا، فقد حرمت عليك حتى تنكح زوجا غيرك“
”ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تو اس وقت وہ حائضہ تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ اپنی بیوی واپس لیں اور انہیں اس وقت تک اپنے ساتھ رکھیں جب تک وہ اس حیض سے پاک ہونے کے بعد پھر دوبارہ حائضہ نہ ہوں۔ اس وقت بھی ان سے کوئی تعرض نہ کریں اور جب وہ اس حیض سے بھی پاک ہو جائیں تو اگر اس وقت انہیں طلاق دینے کا ارادہ ہو تو طہر میں اس سے پہلے کہ ان سے ہمبستری کریں، طلاق دیں۔ پس یہی وہ وقت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر اس کے (مطلقہ ثلاثہ کے) بارے میں سوال کیا جاتا تو سوال کرنے والے سے وہ کہتے کہ اگر تم نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو پھر تمہاری بیوی تم پر حرام ہے۔ یہاں تک کہ وہ تمہارے سوا دوسرے شوہر سے نکاح کرے“ [صحيح البخاري 7/ 58رقم 5332]
ملاحظہ فرمائیں کہ حالت حیض میں بھی تین طلاق دینے والے کی تینوں طلاق کو ابن عمر رضی اللہ عنہ شمار کرلیتے تھے ، اوراسی پر اس کی بیوی کے الگ ہونے کا فتوی دیتے تھے ، اور اپنی حدیث کے مطابق بیوی واپس لینے کی گنجائش نہیں دیتے بلکہ اپنی حدیث کو ایک طلاق اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے دوسری طلاق کے لئے بتاتے، حالانکہ ان کی حدیث مطلق ہے لہٰذا اس کے مطابق حیض والی کسی بھی طلاق سے بیوی کو الگ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے واپس لینا ہوگا اور اگلے دوسرے طہر میں شوہر کو اختیار ہوگا کہ بیوی کو روکے یا طلاق دے ۔
لیکن ابن عمررضی اللہ عنہ اگر ایسا فتوی دیتے یعنی حالت حیض میں تین طلاق دینے والے کے لئے یہ کہتے کہ تم بیوی واپس لو اور اس کے بعد اگلے دوسرے طہر میں تمہیں اختیار ہے کہ بیوی کو باقی رکھو یا طلاق دو ،تو ایسی صورت میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سرکاری فرمان کی زد سے وہ لوگ بچ جاتے تھے جو حیض کی حالت میں بیک تین طلاق دیتے ، اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سد باب کے لئے حالت حیض والی تین طلاق کو بھی تین شمار کرلیا ۔
نیز آپ صرف مدخولہ ہی نہیں بلکہ غیر مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کو بھی تین قرار دیتے تھے جسے فریق مخالف بھی تسلیم نہیں کرتا چنانچہ:
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے کہا:
”حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن نافع، أن ابن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما، طلق امرأة له وهي حائض تطليقة واحدة، فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يراجعها ثم يمسكها حتى تطهر، ثم تحيض عنده حيضة أخرى، ثم يمهلها حتى تطهر من حيضها، فإن أراد أن يطلقها فليطلقها حين تطهر من قبل أن يجامعها: «فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء» وكان عبد الله إذا سئل عن ذلك قال لأحدهم: إن كنت طلقتها ثلاثا، فقد حرمت عليك حتى تنكح زوجا غيرك“
”ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تو اس وقت وہ حائضہ تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ اپنی بیوی واپس لیں اور انہیں اس وقت تک اپنے ساتھ رکھیں جب تک وہ اس حیض سے پاک ہونے کے بعد پھر دوبارہ حائضہ نہ ہوں۔ اس وقت بھی ان سے کوئی تعرض نہ کریں اور جب وہ اس حیض سے بھی پاک ہو جائیں تو اگر اس وقت انہیں طلاق دینے کا ارادہ ہو تو طہر میں اس سے پہلے کہ ان سے ہمبستری کریں، طلاق دیں۔ پس یہی وہ وقت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اگر اس کے (مطلقہ ثلاثہ کے) بارے میں سوال کیا جاتا تو سوال کرنے والے سے وہ کہتے کہ اگر تم نے تین طلاقیں دے دی ہیں تو پھر تمہاری بیوی تم پر حرام ہے۔ یہاں تک کہ وہ تمہارے سوا دوسرے شوہر سے نکاح کرے“ [صحيح البخاري 7/ 58رقم 5332]
ملاحظہ فرمائیں کہ حالت حیض میں بھی تین طلاق دینے والے کی تینوں طلاق کو ابن عمر رضی اللہ عنہ شمار کرلیتے تھے ، اوراسی پر اس کی بیوی کے الگ ہونے کا فتوی دیتے تھے ، اور اپنی حدیث کے مطابق بیوی واپس لینے کی گنجائش نہیں دیتے بلکہ اپنی حدیث کو ایک طلاق اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے دوسری طلاق کے لئے بتاتے، حالانکہ ان کی حدیث مطلق ہے لہٰذا اس کے مطابق حیض والی کسی بھی طلاق سے بیوی کو الگ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے واپس لینا ہوگا اور اگلے دوسرے طہر میں شوہر کو اختیار ہوگا کہ بیوی کو روکے یا طلاق دے ۔
لیکن ابن عمررضی اللہ عنہ اگر ایسا فتوی دیتے یعنی حالت حیض میں تین طلاق دینے والے کے لئے یہ کہتے کہ تم بیوی واپس لو اور اس کے بعد اگلے دوسرے طہر میں تمہیں اختیار ہے کہ بیوی کو باقی رکھو یا طلاق دو ،تو ایسی صورت میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سرکاری فرمان کی زد سے وہ لوگ بچ جاتے تھے جو حیض کی حالت میں بیک تین طلاق دیتے ، اس لئے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سد باب کے لئے حالت حیض والی تین طلاق کو بھی تین شمار کرلیا ۔
نیز آپ صرف مدخولہ ہی نہیں بلکہ غیر مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کو بھی تین قرار دیتے تھے جسے فریق مخالف بھی تسلیم نہیں کرتا چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا أبو أسامة, قال: حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر ... في الرجل يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، قالوا: لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره“
”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں کہا جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے ، اس کی بیوی اس کے لئے تب تک حلال نہ ہوگی جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 341 إسناده صحيح وأخرجه أيضا البيهقي في سننه 7/ 335 من طريق سفيان عن عبيد الله بن عمر به ، وأخرجه أيضا الطحاوي في شرح معاني الآثار، ت النجار: 3/ 57 من طريق محمد بن إياس بن البكير عن ابن عمر به ]
اس روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے غیر مدخولہ کو دی گئی تین طلاق کو بھی تین قرار دیا ہے ، اور یہ فریق مخالف بھی نہیں مانتا ، دراصل یہ دونوں فتاوی عمررضی اللہ عنہ کے فرمان کے تحت ہیں ۔
اسی پر بس نہیں بلکہ وہ طلاق البتہ تک کو بھی تین طلاق قرار دیتے تھے جو ان کے والد کےفرمان کے تحت آتا بھی نہیں تھا چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا عبدة ، عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر؛ في البتة ثلاث تطليقات“
”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلاق البتہ کو تین طلاق قراردیا“[مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 387 ،رقم 18427 وإسناده صحيح ]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ طرزعمل صاف بتلاتاہے کہ انہوں نے اپنے والد عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سرکاری فرمان کی رعایت میں اور ان کی بہتر تنفیذ اور لوگوں کی تادیب و تربیت اور سد باب کے لئے ایسے فتاوی دئے ہیں ، ورنہ ان کا اصل موقف یہ نہیں تھا کیونکہ عہدفاروقی کے ابتدائی دو سال سےپہلے سب کا اس پر اتفاق تھا کہ بیک تین طلاق ایک شمار ہوگی ، اس میں ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ۔
افسوس ہے کہ بعض لوگ تین طلاق کے مسئلہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے تعزیری فتوی کو تو پیش کرتے ہیں لیکن حلالہ سے متعلق ان کا جو شرعی فتوی ہے اسے ذرا بھی خاطر میں نہیں لاتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر حلالہ کو جائز بلکہ کار ثواب بتلاتے ہیں ، جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ حلالی جوڑے کو زناکار بتلاتے تھے ، چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے كہا:
”عن سفيان الثوري عن عبد الله بن شريك العامري، قال: سمعت ابن عمر يسأل عمن طلق امرأته ثم ندم، فأراد أن يتزوجها رجل يحللها له؟ فقال له ابن عمر: كلاهما زان، ولو مكثا عشرين سنة“
”عبد الله بن شريك العامري کہتے ہیں کہ میں نے سنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گيا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو(تینوں) طلاق دے دیا ، پهر شرمندہ ہوا اور ارادہ کیا کہ کوئی دوسراشخص اس عورت سے شادی کرکے اس کے لئے حلال کردے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”دونوں زنا کرنے والے ہوں گے گرچہ بیس سال تک ایک ساتھ باقی رہیں“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 266 رقم 10778 وإسناده حسن ، المحلى بالآثار 9/ 424 واللفظ له ، وانظر:عمدة القاري 20/ 236 ]
معلوم ہوا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے تعزیری فرمان کے تحت تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی دیتے تھے لیکن اس کے بعد حلالہ کا راستہ پیدا نہیں کرتے تھے بلکہ حلالہ کرنے اور کروانے والے جوڑے کو زنا کا ر مانتے تھے ۔
افسوس ہے کہ فریق مخالف ان کے تعزیری فتوی کو آج بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں، لیکن حلالہ سے متعلق ان کے شرعی اور اصلی فتوی کو گول کرجاتے ہیں ۔
اسی پر بس نہیں بلکہ وہ طلاق البتہ تک کو بھی تین طلاق قرار دیتے تھے جو ان کے والد کےفرمان کے تحت آتا بھی نہیں تھا چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
”حدثنا عبدة ، عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر؛ في البتة ثلاث تطليقات“
”عبیداللہ نے نافع سے وہ ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے طلاق البتہ کو تین طلاق قراردیا“[مصنف ابن أبي شيبة، ط الفاروق 6/ 387 ،رقم 18427 وإسناده صحيح ]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ طرزعمل صاف بتلاتاہے کہ انہوں نے اپنے والد عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سرکاری فرمان کی رعایت میں اور ان کی بہتر تنفیذ اور لوگوں کی تادیب و تربیت اور سد باب کے لئے ایسے فتاوی دئے ہیں ، ورنہ ان کا اصل موقف یہ نہیں تھا کیونکہ عہدفاروقی کے ابتدائی دو سال سےپہلے سب کا اس پر اتفاق تھا کہ بیک تین طلاق ایک شمار ہوگی ، اس میں ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ۔
افسوس ہے کہ بعض لوگ تین طلاق کے مسئلہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کے تعزیری فتوی کو تو پیش کرتے ہیں لیکن حلالہ سے متعلق ان کا جو شرعی فتوی ہے اسے ذرا بھی خاطر میں نہیں لاتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر حلالہ کو جائز بلکہ کار ثواب بتلاتے ہیں ، جبکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ حلالی جوڑے کو زناکار بتلاتے تھے ، چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211)نے كہا:
”عن سفيان الثوري عن عبد الله بن شريك العامري، قال: سمعت ابن عمر يسأل عمن طلق امرأته ثم ندم، فأراد أن يتزوجها رجل يحللها له؟ فقال له ابن عمر: كلاهما زان، ولو مكثا عشرين سنة“
”عبد الله بن شريك العامري کہتے ہیں کہ میں نے سنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گيا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو(تینوں) طلاق دے دیا ، پهر شرمندہ ہوا اور ارادہ کیا کہ کوئی دوسراشخص اس عورت سے شادی کرکے اس کے لئے حلال کردے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”دونوں زنا کرنے والے ہوں گے گرچہ بیس سال تک ایک ساتھ باقی رہیں“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 266 رقم 10778 وإسناده حسن ، المحلى بالآثار 9/ 424 واللفظ له ، وانظر:عمدة القاري 20/ 236 ]
معلوم ہوا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے تعزیری فرمان کے تحت تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی دیتے تھے لیکن اس کے بعد حلالہ کا راستہ پیدا نہیں کرتے تھے بلکہ حلالہ کرنے اور کروانے والے جوڑے کو زنا کا ر مانتے تھے ۔
افسوس ہے کہ فریق مخالف ان کے تعزیری فتوی کو آج بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں، لیکن حلالہ سے متعلق ان کے شرعی اور اصلی فتوی کو گول کرجاتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment