عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر - Kifayatullah Sanabili Official website

2020-01-28

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر


پچھلا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا اثر
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے تین طلاق کو تین قرار دینا ثابت ہے مگر انہیں سے تین طلاق کو ایک قرار دینا بھی ثابت ہے ، جیساکہ اس سلسلے میں دس روایات پیش کی جاچکی ہیں ۔
یہاں ہم وہ روایت بھی دیکھ لیتے ہیں جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تین طلاق کو تین قراردیا ہے۔

✿ امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا إسماعيل، أخبرنا أيوب، عن عبد الله بن كثير، عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس فجاءه رجل، فقال: إنه طلق امرأته ثلاثا، قال: فسكت حتى ظننت أنه رادها إليه، ثم قال: ينطلق أحدكم، فيركب الحموقة ثم يقول يا ابن عباس، يا ابن عباس، وإن الله قال: {ومن يتق الله يجعل له مخرجا} ، وإنك لم تتق الله فلم أجد لك مخرجا، عصيت ربك، وبانت منك امرأتك“ 
 ”مجاہد کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو ان کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے ، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ خاموش رہے یہاں تک مجھے ایسا لگا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی بیوی کو اس کی طرف لوٹا دیں گے ۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگوں میں کوئی حماقت کرتا ہے پھر اے ابن عباس ! اے ابن عباس ! کہتا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے : جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کوئی راستہ پیدا کردیتا ہے ، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے اس لئے میں تمہارے لئے مشکل سے نکلنے کوئی راہ نہیں پاتا ، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی ہے“ [سنن أبي داود 2/ 260 رقم 2197 وإسناده صحيح ، ومن طريق أبي داؤد أخرجه الجصاص في أحكام القرآن 2/ 79 و البيهقي في 7/ 542 ۔وأخرجه أيضا الطبري في تفسيره ،ط هجر 23/ 24 من طريق يعقوب بن إبراهيم ، وأخرجه ابن الأعرابي في معجمه 1/ 270 من طريق محمد ،كلهم (حميد ومحمد و يعقوب) عن إسماعيل به]

ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فتوی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے تعزیری فرمان کے تحت تھا ، اسی بناپر وہ صرف مدخولہ ہی نہیں بلکہ غیر مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کو بھی تین قرار دیتے تھے جسے فریق مخالف بھی تسلیم نہیں کرتا چنانچہ:


✿امام مالك رحمه الله (المتوفى 179)نے کہا:
 ”عن ابن شهاب، عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، عن محمد بن إياس بن البكير، أنه قال: طلق رجل امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، ثم بدا له أن ينكحها، فجاء يستفتي، فذهبت معه أسأل له، فسأل عبد الله بن عباس وأبا هريرة عن ذلك فقالا: لا نرى أن تنكحها حتى تنكح زوجا غيرك، قال: فإنما طلاقي إياها واحدة، قال ابن عباس: إنك أرسلت من يدك ما كان لك من فضل“ 
 ”محمدبن ایاس بن بکیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دیا ، پھر وہ اسی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا تو فتوی پوچھنے کے لئے آیا ، میں بھی اس کے ساتھ اس کے لئے فتوی پوچھنے چلاگیا ، تو اس نے ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں سوال کیا : تو دونوں نے جواب دیا : ہم یہ نہیں سمجھتے کہ تم اس سے شادی کرسکتے ہو جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے ، تو اس نے کہا: میں نے ایک ہی جملے میں طلاق دی تھی ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارے ہاتھ میں جو بھی اضافی طلاقیں تھیں تم نے سب ایک ساتھ دے ڈالیں“ [موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 570 رقم 37 وإسناده صحيح وأخرجه أيضا عبدالرزاق في مصنفه رقم 11071 من طريق ابن جريج ، وأبوداؤد في سننه 2/ 260 من طريق معمر ، و الطحاوي في شرح معاني الآثار 3/ 57 من طريق ابن أبي ذئب ، أربعتهم (مالك وابن جريج و معمرو ابن أبي ذئب) من طريق الزهري عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان ، وأخرجه أيضا ابن أبي شيبه في مصنفه ط الفاروق 6/ 341 من طريق عبيدالله عن نافع ، كلاهما (محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان ونافع ) عن محمد بن إياس بن البكير به]

ان دونوں روایات میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے غیر مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کو بھی تین قرار دے دیا ہے، اور ایسے فتوی کو فریق مخالف بھی تسلیم نہیں کرتا ، دراصل اس طرح کے فتاوی ابن عباس رضی اللہ عنہ صرف عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے فرمان اور مصلحت کے تحت دیتے تھے، ورنہ ان کا اصل فتوی یہی تھا کہ بیک وقت دی گئی تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی ، جیساکہ گزشتہ صفحات میں اس مفہوم کی دس روایات پیش کی جاچکی ہیں ۔

افسوس ہے کہ بعض لوگ تین طلاق کو تین قرار دینے سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کے تعزیری فتوی کو تو پیش کرتے ہیں لیکن حلالہ سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہ کا جو شرعی فتوی ہے اسے بہت بے دردی سے رد کرکے حلالہ کو نہ صرف جائز بلکہ کار ثواب بتلاتے ہیں جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ہے کہ حلالہ   کرنا حرام فعل ہے بلکہ اللہ عزوجل کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے چنانچہ:

امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى227)نے كہا:
نا هشيم، قال: أنا الأعمش، عن عمران بن الحارث السلمي، قال: جاء رجل إلى ابن عباس، فقال: ”إن عمه طلق ثلاثا، فندم. فقال: عمك عصى الله فأندمه، وأطاع الشيطان فلم يجعل له مخرجا. قال: أرأيت إن أنا تزوجتها عن غير علم منه، أترجع إليه؟ فقال: من يخادع الله عز وجل يخدعه الله “
عمران بن الحارث السلمی رحمہ اللہ بیان کرے ہیں کہ ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ ان کے چچا نے تین طلاق دے دی اب وہ نادم ہیں ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : تمہارے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی تو اللہ نے انہیں شرمندہ کیا اور شیطان کی اطاعت کی اس لئے ان کی خاطرکوئی راستہ پیدا نہیں کیا ۔ تو اس شخص نے کہا: آپ کا كيا خیال ہے اگر میں ان کے علم کے بغیر اس عورت سے شادی کرلوں (پھر طلاق دے دوں ) تو اس کے بعد وہ میرے چچا کے پاس لوٹ (کردوبارہ شادی کر) سکتی ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”جو اللہ کو دھوکہ دے گا اللہ اسے دھوکہ میں ڈال دے گا “[سنن سعيد بن منصور، ت الأعظمي: (1/ 300) رقم (1065) وإسناده صحيح ، ومن طريق سعيد بن منصور أخرجه ابن بطة في ”إبطال الحيل“ (ص: 48) وقد صرح الأعمش عنده بالسماع ۔وأخرجه أيضا عبدالرزاق في” مصنفه،“ ( ت الأعظمي: 6/ 266) من طريق الثوري ومعمر ۔ ومن طريق عبدالرزاق أخرجه ابن حزم في ”المحلي“ (ت بيروت: 9/ 428) ۔وأخرجه الطحاوي في ”شرح معانى الآثار“(ت النجار: 3/ 57 ) من طريق الثوري۔وأخرجه البيهقي في ”سننه“ (ط الهند: 7/ 337) من طريق ابن نمير ۔ كلهم (الثوري ومعمر وابن نمير) عن الأعمش،عن مالك بن الحارث به]

اس روایت سے معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ لوگوں کی تادیب و تعزیر کے لئے تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی دیتے تھے لیکن اس کے بعد حلالہ کی گنجائش بالکل نہیں دیتے تھے بلکہ اسے بالکل حرام اور اللہ کو دھوکہ دینا سے تعبیر کرتے تھے ۔
افسوس ہے کہ فریق مخالف ان کے تعزیری فتوی کو آج بھی دلیل بناتے ہیں لیکن حلالہ سے متعلق ان کے شرعی اور اصلی فتوی کو بالائے طاق رکھ دیتےہیں ۔

نوٹ:-
تین طلاق کو تین کہنے سے متعلق ابن عباس رضی للہ عنہ کی بعض روایت اوپر پیش کی جاچکی ہے ، نیز بعض اور روایات صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ پر بحث کے ضمن میں پیش کی جاچکی ہیں ان سے ثابت روایات صرف یہی ہے باقی دیگر روایات ثابت نہیں ہیں مثلا:

✿ امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن ابن جريج قال: أخبرني عبد الحميد بن رافع، عن عطاء بعد وفاته، أن رجلا قال لابن عباس: رجل طلق امرأته مئة، فقال ابن عباس: «يأخذ من ذلك ثلاثا، ويدع سبعا وتسعين» عن ابن جريج قال: أخبرني ابن كثير، والأعرج، عن ابن عباس مثله“ 
 ”ابن جریج کہتے کہ ہیں عبدالحمید بن رافع نے عطاء سے ان کی وفات کے بعد نقل کیا کہ ایک شخص نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سےکہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں سے تین لی جائے گی اور ستانوے کو چھوڑدیا جائے گا ۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے ابن کثیر اور اعرج نے بھی ابن عباس کے حوالے سے ایسے ہی بیان کیا ہے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 396 ومن طريق عبدالررزاق أخرجه  ابن المنذر في الأوسط ط دار الفلاح: 9/ 157 ،وأخرجه أيضا البيهقي في سننه 7/ 337من طريق عبد الوهاب بن عطاء عن ابن جريج به]

یہ روایت منقطع ہے عبد الحميد بن رافع اور عطاء کے بیچ انقطاع ہے ، ابن جریج نے صراحت کردی ہے کہ عبد الحميد بن رافع نے عطاء کی وفات کے بعد ان سے یہ روایت بیان کی ہے ، اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عبد الحميد بن رافع نے اسے عطاء سے نہیں سنا ہے۔
واضح رہے کہ کتب رجال میں عبد الحميد بن رافع کے استاتذہ میں عطاء کا تذکرہ نہیں ہے ، اور نہ ہی عطاء کے شاگردوں میں عبدالحمید کا تذکرہ ہے۔
امام عبدالرازق نے اس روایت کی جو دوسری سند پیش کی ہے وہ بھی منقطع ہے کیونکہ ابن کثیر یعنی عبد الله بن كثير اور اعرج یعنی حمید الاعرج کا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔ عبداللہ بن کثیر کی صحابہ سے ملاقات نہیں ہے ، صحابہ سے ان کی روایت واسطے سے ہیں  ، بلکہ تین طلاق کے واقع ہونے سے متعلق بھی ایک روایت کو عبد الله بن كثير نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا ہے :
”حدثنا إسحاق بن إبراهيم، عن عبد الرزاق عن معمر عن أيوب، عن عبد الله بن كثير، عن مجاهد قال سئل ابن عباس عن رجل طلق امرأته عدد النجوم، فقال: يكفيك من ذلك رأس الجوزاء“ [الأوسط لابن المنذر، ط دار الفلاح: 9/ 156وانظر: الاستذكار لابن عبدالبر 6/ 6]
اسی طرح حمید الاعرج اور ابن عباس کے بیچ بھی وسطہ کا ذکر کیاہے چنانچہ ایک مقام پر کہا:
 ”عن ابن جريج قال: أخبرني حميد الأعرج، عن مجاهد قال: جئت ابن عباس...“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 5/ 75]

✿محمد بن حسن شیبانی(المتوفی189) نے کہا:
”أخبرنا أبوحنيفه ، عن عبدالله بن عبدالرحمن بن أبي حسين ، عن عمرو بن دينار عن عطاء عن ابن عباس رضي الله عنهما قال أتاه رجل فقال: إني طلقت امراتي ثلاثا ، قال : يذهب أحدكم فيتلطخ بالنتن ثم ياتينا ، اذهب فقد عصيت ربك ، وقد حرمت عليك امراتك ، لا تحل لك حتي تنكح زوجا غيرك“ 
”عطاء کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق سے دی ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: تم میں سے کوئی کیچڑ میں لت پت ہوجاتا ہے اس کے بعد ہمارے پاس آجاتا ہے ! جاؤ تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تم پر تمہاری بیوی حرام ہوچکی ہے ، یہ تب تک تمہارے لئے حلال نہیں ہوسکتی جب تک کہ تمہارے علاوہ کسی اور سے شادی نہ کرلے“ [كتاب الآثار لمحمد :2/ 441 ، 442]
یہ روایت ضعیف ہے ۔
 سند میں موجود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بالاتفاق ضعیف ہیں ، کسی بھی امام سے ان کی توثیق ثابت نہیں ہے ۔اور کئی محدثین نے ان پر جرح کی ہے ۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
 ”حديث أبي حنيفة ضعيف، ورأيه ضعيف“ ، ”ابوحنیفہ کی حدیث ضعیف ہے ، اور ان کی رائے بھی ضعیف ہے“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 6/ 163وإسناده صحيح]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے کہا:
 ”كان يضعف في الحديث“ ، ”یہ حدیث میں ضعیف تھے“ [ضعفاء العقيلي 4/ 284 وإسناده صحيح]

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
 ”لم يسنده عن موسى بن أبي عائشة غير أبي حنيفة , والحسن بن عمارة وهما ضعيفان“ 
 ”اسے موسی بن ابی عائشہ سے ابوحنیفہ اور حسن بن عمارہ کے علاوہ کسی نے بھی مسندا بیان نہیں کیا ہے اور یہ دونوں ضعیف ہیں“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 2/ 108]

امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463) نے کہا:
 ”لم يسنده غير أبي حنيفة وهو سيء الحفظ“ 
 ”اسے ابوحنیفہ کے علاوہ کسی نے مسند بیان نہیں کیا ہے اور یہ برے حافظہ والا ہے“ [التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد 11/ 48]
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے علامہ مقبل رحمہ اللہ کی کتاب : [نشر الصحيفة في ذكر الصحيح من أقوال أئمة الجرح والتعديل في أبي حنيفة]

 ✿ امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى227) نے كہا:
 ”حدثنا سعيد قال: نا سفيان، عن الزهري، قال سفيان: أظنه عن أبي سلمة، أن ابن عباس، وأبا هريرة، وعبد الله بن عمرو قالوا في الذي يطلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها: «إنها لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره»“ 
 ”ابوسلمہ کہتے ہیں کہ ابن عباس ، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم نے اس شخص کے بارے میں کہا جو اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دے دے کی وہ اس کے لئے تب تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [سنن سعيد بن منصور، ت الأعظمي: 1/ 303 وأخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار 3/ 58 من طريق يونس عن سفيان به]

یہ روایت منقطع ہے کہ کیونکہ ان صحابہ سے ابوسلمہ نے خود یہ بات نہیں سنی ہے بلکہ محمد بن إياس کے واسطے سے بیان کیا ہے جیساکہ دیگر روایات میں صراحت ہے چناچہ:
 ”حدثنا أحمد بن صالح، ومحمد بن يحيى وهذا حديث أحمد - قالا: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف، ومحمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، عن محمد بن إياس، أن ابن عباس، وأبا هريرة، وعبد الله بن عمرو بن العاص، سئلوا عن البكر يطلقها زوجها ثلاثا؟ فكلهم قالوا: «لا تحل له حتى تنكح زوجا غيره»“ 
 ”ابوسلمہ اور محمدبن عبدالرحمن یہ دونوں محمدبن ایاس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس ، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے نقل کیا کہ ان سے باکرہ (غیرمدخولہ) عورت کو تین طلاق دینے سے متعلق سوال ہوا تو سب نے جواب دیا: اس کی بیوی اس کے لئے تب تک حلال نہیں ہوسکتی جب تک دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے“ [سنن أبي داود 2/ 260 ومن طريق أبوداؤد أخرجه البيهقي في سننه 7/ 354]

 ✿ امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
 ”عن الثوري قال: أخبرني جابر، عن الشعبي، عن ابن عباس في رجل طلق امرأته ثلاثا قبل أن يدخل بها، فقال: عقدة كانت في يده أرسلها جميعا إذا كانت تترى فليست بشيء، إذا قال: أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق، فإنها تبين بالأولى، وليست الثنتان بشيء“ 
 ”عامر شعبی روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے دخول سے پہلے اپنی بیوی کو طلاق دے دیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے ہاتھ میں ایک بندھن تھا اس نے سب کھول دیا ، اگر اس نے الگ الگ جملے میں طلاق دیا ہے تو اس سے کچھ نہیں ہوگا ، مثلا اس نے ایسا کہا ہو کہ : تجھ کو طلاق ، تجھ کو طلاق ، تجھ کو طلاق ، تو ایک طلاق سے وہ جدا ہوجائے گی اور بقیہ دو طلاق کسی کام کی نہیں رہے گی“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 6/ 333]

یہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے سند میں ”جابر الجعفی“ موجود ہے اور یہ مشہور کذاب راوی ہے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے بھی اسے کذاب قرار دیاہے۔

No comments:

Post a Comment